انسانی حقوق اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے واقعات

اگرپنچائیتوں اور جرگوں کے سربراہوں اور ممبران کو بتایا جائے کہ انسانی حقوق کیا ہیں اور اسلام نے بھی انسانی حقوق۔۔۔

یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ عورت چاہے کسی بھی مقام ، جگہ یا ملک میں ہو، اسے ان جنسی بھیڑیوں سے نجات نہیں مل سکتی۔ فوٹو: آئی بی این/فائل

موجودہ دور میں خواتین کو معاشرے کا مضبوط شہری بنانے کیلئے حکومت اور عالمی و مقامی این جی اوز بیشتر کوششیں کرتی نظر آتی ہیں۔ تاہم پاکستان میں خواتین کو مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے پر کئی بل بن کرپاس بھی ہو چکے۔

جہاں این جی اوز، حکومتیں اور شہری خواتین کو معاشرے میں اپنا اہم کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں وہیں ایک نہایت افسوسناک واقعہ سننےمیں آیا جب مظفر گڑھ میں پنچائیت کے حکم پر ایک معصوم 45سالہ بے گناہ خاتون کو اپنے بھائی کے مبینہ گناہ کی سزا کے طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے بھائی کا گناہ بھی صرف یہ تھا کہ وہ کسی خاتون کو پسند کرتا تھا۔ اگر آپ قارئین اپنی یادداشت پر ذرا سا زور ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس ہی قسم کی ایک خبر چند روز قبل پڑوسی ملک بھارت کے علاقے مغربی بنگال کے گاؤں میں ہونے والے ہولناک واقعے کے متعلق بھی سامنے آئی تھی جس میں ایک 20 سالہ نوجوان لاچار خاتون کو 13درندوں نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ خاتون کسی دوسری کمیونٹی کے ایک شخص کو پسند کرتی تھی اور اس سے منسلک ہونا چاہتی تھی۔ بعدازاں معلوم ہوا کہ یہ واردات پنچائیت کے سربراہ کے حکم پر عمل میں آئی جس پر بعد میں عدالت اور پولیس نے مجرموں کے خلاف کارروائی کی ۔

اس سے پہلے بھی بھارت میں خواتین کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں جبکہ گذشتہ سال دسمبر کے مہینے میں تئیس سالہ فزیو تھراپسٹ کے ساتھ چلتی بس میں ہونے والی اجتماعی زیادتی کے بعد اس حوالے سے بنائے گئے قوانین میں سختی بھی لائی گئی تھی، ان واقعات کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا کہ خواتین کے رہنے کیلئے بھارت دنیا میں خطرناک ترین ملک بن گیا جہاں عورت کے کم یا زیادہ کپڑوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

تاہم پاکستان کے علاقہ مظفر گڑھ میں ہونے والا یہ واقعہ 2002 میں مختاراں مائی کے ساتھ ہونے والے گینگ ریپ کی یاد تازہ کرتا ہے۔اجتماعی زیادتی کے یہ واقعات ایک دوسرے کی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔ چلیں دیہات میں ہونے والے ایسے ظالمانہ فیصلے اور خواتین کی عصمت دری تو ان دیہاتیوں کی ظالمانہ اور جاہلانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے لیکن ہمارے بڑےشہروں میں خواتین کو متعدد طریقوں سے ہراساں کرنے والوں کو کیا کہا جائیگا؟ جو ایک سڑک پر چلتی عورت، اسکول یا کالج جاتی طالبہ، دفتر میں کام کرنے والی لڑکی یا بازار میں شاپنگ کرتی خاتون کو اپنی غلیظ نظروں، واہیات القابات اور وحشیانہ انداز سے ہراساں کرتے ہیں ۔ کیا ان مرد نماں بھیڑیوں کی نظر میں عورت صرف ایک شکار کے قابل خرگوش ہے جسے وہ اپنی نظروں سے ہی زیادتی کا نشانہ بنا دیتے ہیں ۔ وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کی ماں بہنیں اور بیٹیاں بھی ایسے ہی کسی جنسی بھیڑیے کی نظروں کا نشانہ بن سکتی ہیں ۔


یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ عورت چاہے کسی بھی مقام ، جگہ یا ملک میں ہو، اسے ان جنسی بھیڑیوں سے نجات نہیں مل سکتی۔ ہر قسم کی ہوس، بدلے، زیادتی اور کوتاہی کا خسارہ عورت کو ہی بھگتنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پر عورت کو ظلم و زیادتی کا نشانا بنایا جاتا ہے اور یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔

ہمارےاخلاقیات کے پیمانے مختلف ہیں چاہے وہ دیہات ہوں یا شہر۔ اپنے گھر کی خواتین کی عزت محفوظ کرنا فرض اور دوسروں کی بہن بیٹیوں کی عزت کو تار تار کرنا فرض سمجھتے ہیں ۔ اس کی ایک یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے کہ ہمارا معاشرہ اتنا زیادہ انتشار کا شکار ہو چکا ہے کہ اسے خود کو ایسی غیر اخلاقی حرکات کی طرف مائل کر کے تھوڑی راحت ملتی ہے ۔ اس ہی لیے ترقی پذیر ممالک ، خواہ وہ پاکستان ہو یا بھارت، خواتین کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی اور استحصال کے واقعات دن بدن بڑھتے چلے جا رہے ۔ اس سلسلے میں اگر ہم اخلاقی تعلیم کو رسمی تعلیم کے ساتھ ملا کر عام کریں ، قوانین کی پاسداری اور سختی سے عملدراآمد یقنی بنائیں ،اور مثبت سرگرمیاں بڑھائیں تو معاملہ بگڑنے کی بجائے بہتر ہو سکتا ہے۔

اگر پنچائیتوں اور جرگوں کے سربراہوں اور ممبران کو بتایا جائے کہ انسانی حقوق کیا ہیں اور اسلام نے بھی انسانی حقوق کی ہی بات کی ہے تو شاید یہ صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ پنچائیت اور جرگہ نظام برا نہیں ہے لیکن لوگوں کی جہالت ،غیر انسانی اور غیر اخلاقی فیصلوں کی وجہ سے یہ نظام لوگوں کیلئے نعمت کی بجائے زحمت بن گیا ہے جس پر حکومتوں کو توجہ دینی چاہیئے تاکہ جہالت کے اندھیروں کا خاتمہ کیا جاسکے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

Recommended Stories

Load Next Story