لبلبے کے سرطان کو پلٹانے والی ’خلیاتی ٹائم مشین‘
لبلبے کا سرطان تیزی سے پھیلتا ہے لیکن خلیاتی ٹائم مشین اسے دوبارہ پہلی حالت میں پہنچاسکتی ہے
لبلبے کا سرطان بہت خوف ناک رفتار سے پھیلتا ہے لیکن اب ایک خلیاتی 'ٹائم مشین' سے اسے لوٹایا یا ریورس کیا جاسکتا ہے۔
اس خلیاتی ٹائم مشین کو پوردوا یونیورسٹی مرکز برائے سرطانی تحقیق کے پروفیسر بمسو ہان اور اس کے ساتھیوں نے وضع کیا ہے۔ پروفیسربسمو نے کہا کہ ' اب ہم نے پہلی مرتبہ کینسر کے خلیات کی گھڑی پیچھے کرکے انہیں تندرست کرنے کا طریقہ معلوم کیا ہے جس سے نئے علاج اور نئی دوائیں بن سکیں گی۔'
سب سے پہلے انہوں نے لبلبے کا ایک زندہ ماڈل بنایا جسے 'ایکینس' کا نام دیا۔ یہ چھوٹی آنت میں ہاضماتی رس بھیجتا ہے۔ لبلبے کے سرطان میں پہلے سوزش (جلن) بڑھتی ہے جو خلیاتی تبدیلی سے رونما ہوتی ہے اور خود لبلبہ اپنے ہی تبدیل شدہ خامروں (اینزائم) سے متاثر ہونے لگتا ہے۔
ماہرین نے لبلبے کے سرطانی خلیات کی گھڑی پیچھے کرکے انہیں پہلے والے اینزائم بنانے پر مائل کیا اور یوں خلیات تندرست ہونے لگے۔ اگر خلیات (سیلز) سرطان سے پاک ہوجائیں تو ازخود پورا لبلبلہ کینسر سے نکل سکتا ہے جسے ہم ری سیٹ ہونا کہہ سکتے ہیں۔
اس محال کام کو ممکن بنانے کے لیے سائنسداں پہلے ہی کینسر کو ری سیٹ کرنے والے ایک جین پی ٹی ایف ون اے پر کام کرچکے ہیں جنمیں اسی ادارے کے پروفیسر اسٹیفن کونیزنی شامل ہے۔ لبلبے کے لیے یہ جین بہت اہم ہے بلکہ اس کی تعمیر کرتا ہے۔ اب اگر سرطان ذدہ لبلبے میں اسے سرگرم کیا جائے تو کینسر کو دورکیا جاسکتا ہے۔
ماہرین نے ایک خردبینی سلائڈ میں جوف کاڑھے اور اس کے اندر خلیات بھردیئے جو لائنوں میں تھری ڈی شکل میں ترتیب پائے۔ پھر 'وسکس فنگرنگ' نامی ایک بالکل نئی ٹیکنالوجی بھی بنائی گئی پھر سلائیڈ پر کینسر خلیات کی لکیر یا سیل لائن بنائی گئی۔
اب لبلبے کے سرطانی خلیات میں جب دوبارہ پی ٹی ایف ون اے جین سرگرم کیا گیا تو سلائڈ پر باقی ماندہ خلیات سرطانوی حالت سے باہر آگئے یعنی ری پروگرام ہونے لگے۔
اس کامیابی سے لبلبے کے سرطان کے علاج کے لیے جین تھراپی کی راہ کھل سکتی ہے۔
اس خلیاتی ٹائم مشین کو پوردوا یونیورسٹی مرکز برائے سرطانی تحقیق کے پروفیسر بمسو ہان اور اس کے ساتھیوں نے وضع کیا ہے۔ پروفیسربسمو نے کہا کہ ' اب ہم نے پہلی مرتبہ کینسر کے خلیات کی گھڑی پیچھے کرکے انہیں تندرست کرنے کا طریقہ معلوم کیا ہے جس سے نئے علاج اور نئی دوائیں بن سکیں گی۔'
سب سے پہلے انہوں نے لبلبے کا ایک زندہ ماڈل بنایا جسے 'ایکینس' کا نام دیا۔ یہ چھوٹی آنت میں ہاضماتی رس بھیجتا ہے۔ لبلبے کے سرطان میں پہلے سوزش (جلن) بڑھتی ہے جو خلیاتی تبدیلی سے رونما ہوتی ہے اور خود لبلبہ اپنے ہی تبدیل شدہ خامروں (اینزائم) سے متاثر ہونے لگتا ہے۔
ماہرین نے لبلبے کے سرطانی خلیات کی گھڑی پیچھے کرکے انہیں پہلے والے اینزائم بنانے پر مائل کیا اور یوں خلیات تندرست ہونے لگے۔ اگر خلیات (سیلز) سرطان سے پاک ہوجائیں تو ازخود پورا لبلبلہ کینسر سے نکل سکتا ہے جسے ہم ری سیٹ ہونا کہہ سکتے ہیں۔
اس محال کام کو ممکن بنانے کے لیے سائنسداں پہلے ہی کینسر کو ری سیٹ کرنے والے ایک جین پی ٹی ایف ون اے پر کام کرچکے ہیں جنمیں اسی ادارے کے پروفیسر اسٹیفن کونیزنی شامل ہے۔ لبلبے کے لیے یہ جین بہت اہم ہے بلکہ اس کی تعمیر کرتا ہے۔ اب اگر سرطان ذدہ لبلبے میں اسے سرگرم کیا جائے تو کینسر کو دورکیا جاسکتا ہے۔
ماہرین نے ایک خردبینی سلائڈ میں جوف کاڑھے اور اس کے اندر خلیات بھردیئے جو لائنوں میں تھری ڈی شکل میں ترتیب پائے۔ پھر 'وسکس فنگرنگ' نامی ایک بالکل نئی ٹیکنالوجی بھی بنائی گئی پھر سلائیڈ پر کینسر خلیات کی لکیر یا سیل لائن بنائی گئی۔
اب لبلبے کے سرطانی خلیات میں جب دوبارہ پی ٹی ایف ون اے جین سرگرم کیا گیا تو سلائڈ پر باقی ماندہ خلیات سرطانوی حالت سے باہر آگئے یعنی ری پروگرام ہونے لگے۔
اس کامیابی سے لبلبے کے سرطان کے علاج کے لیے جین تھراپی کی راہ کھل سکتی ہے۔