شرح سود میں اضافے کے ملکی معیشت پر اثرات
روز بروز بڑھتی مہنگائی نے ملک کے 85 فیصد متوسط طبقے کو تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا گیا ہے، ایک فیصد اضافے کے بعد شرح سود 8.75 فی صد سے بڑھ کر 9.75 فی صد ہو گئی ہے۔ اس فیصلے کا مقصد مہنگائی کے دباؤ سے نمٹنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ نمو پائیدار رہے۔
بیرونی شعبے میں ریکارڈ برآمدات کے باوجود اجناس کی بلند عالمی قیمتوں نے درآمدی بل میں خاصا اضافہ کرنے میں کردار ادا کیا، نتیجے کے طور پر پی بی ایس اعداد و شمار کے مطابق نومبر میں تجارتی خسارہ بڑھ کر 5 ارب ڈالر ہوگیا ہے، جب کہ دوسری جانب ایشیائی ترقیاتی بینک(اے ڈی بی)نے جنوبی ایشیا کی معاشی شرح نمو میں کمی کی پیشگوئی کرتے ہوئے پاکستان میں مہنگائی میں اضافے کا خدشہ ظاہر کردیا ہے۔ مہنگائی بڑھنے کی وجہ بجلی کی قیمتوں اور عالمی مارکیٹ میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ قرار دیاگیا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں اضافہ، اضافی طلب کو کم کرنے کے لیے کیا ہے، جب کہ تجرباتی شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ شرح سود میں ایک فیصد اضافے سے پاکستان میں کنزیومر بیسڈ انفلیشن (سی پی آئی) میں 1.3 فیصد اضافہ ہوتا ہے، جس کی وجہ بینکوں کی جانب سے زیادہ شرح سود پر صارفین کو قرض دینا ہے ۔ ماہرین معیشت کی رائے کے مطابق شرح سود بڑھنے سے صنعتی پیداوار میں کمی ہوگی، حکومتی اخراجات بڑھیں گے، شرح سود بڑھانے سے مہنگائی کم نہیں ہوگی، بلکہ نجی شعبے کو مزید مشکلات اور سست روی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حکومت بین الاقوامی مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ، خام تیل کی قیمت میں اضافے،کورونا کی عالمی وبا اور اس کے سبب سپلائی چین متاثر ہونے جیسے عوامل اور ان کے منفی اثرات کو مہنگائی کا سبب قرار دیتی ہے مگر دوسری جانب اس کا دعویٰ ہے کہ ملکی معیشت بہتر ہورہی ہے، حالانکہ ڈائریکٹ فارن انویسٹ مینٹس اس وقت نچلی ترین جب کہ ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، جس کا خمیازہ درآمدات کے مہنگا ہوجانے کے باعث آیندہ چند ہفتوں، مہینوں میں مزید مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔لگتا ہے عوام کو طلب اور رسد کے بجائے مارکیٹ کو کنٹرول کرنے والی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
ایسے میں وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا یہ اعلان کہ ملک میں مہنگائی حکومتی پالیسیوں کے سبب نہیں بلکہ عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی کے باعث ہوئی ہے، عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
بلاشبہ پاکستان میں مہنگائی کی چار بنیادی وجوہات ہیں جن میں رسد کے مسائل، حکومت کی جانب سے بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی اور عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہے۔ ماہرین معیشت کے مطابق شرح سود میں اضافے کی معاشی وجوہات نہیں بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں ،جن میں پاکستان کی جانب سے پیشگی اقدامات کے طور پر شرح سود میں اضافہ بھی شامل ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کی آمد کا حجم 10 سال کی بلند سطح پر پہنچنے کے باوجودروپیہ مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس کی کوئی تو وجہ ہوگی؟ بیرونی ادائیگیوں، بڑھتی درآمدات نے روپے کو کمزور کیا جب کہ معاشی مستقبل کے بارے میں غیریقینی صورت حال سے بھی ڈالر کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔ ریکارڈ درآمدات اور تاریخ ساز کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی روپے کی قدر پر اثر انداز ہورہے ہیں۔
اس وقت حکومت کو جو سب سے بڑا عوامی مسئلہ درپیش ہے، وہ مہنگائی اور گرانی کا کوہِ گراں ہے جو بارہا کوششوں کے باوجود نہ صرف یہ کہ اپنی جگہ پرقائم ہے بلکہ اس میں روز بروز اضافہ مشاہدے میں آرہا ہے۔ اشیائے ضروریہ بالخصوص اشیائے خور ونوش جیسے گندم، آٹا، گھی، چینی کی قیمتوں کو تو جیسے پر لگے ہوئے ہیں، ان میں اضافہ روز کا معمول بن چکا ہے۔
کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کسی نہ کسی چیز کی قیمت میں اضافے کی خبریں سامنے نہ آئیں۔ مہنگائی کس تیزی سے بڑھ رہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کی نگرانی میں کام کرنے والے اور سبسڈائز اشیا فراہم کرنے والے یوٹیلٹی اسٹورز پر بھی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں مسلسل سامنے آرہی ہیں۔ حکومت اگر اپنی نگرانی میں چلنے والے اسٹورز پر مہنگائی کو نہیں روک پارہی تو کھلی مارکیٹ میں حالات کیا ہوں گے۔
اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ دکاندار کے لیے دکان کھولنا مشکل، فیکٹری مالکان کے لیے فیکٹری چلانا مشکل، تاجر کے لیے تجارت کرنا مشکل اور کسان کے لیے کاشتکاری مشکل ترین ہوگئی ہے۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، آٹا، گھی، چینی سمیت اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے مہنگائی کے طوفان کا سامنا کرنے کے لیے عوام کو بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے بہ حیثیت قوم ہم اس کشتی کے مسافروں کی طرح ہیں جو موجوں کے رحم و کرم پر ہو۔
ملک میں سیاسی عدمِ استحکام کی وجہ سے زندگی کا ہر شعبہ جمود کا شکار ہے۔ حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہماری معیشت مضبوط ہے تو پھر غیر ملکی قرضوں کا بار بار حصول کیوں؟ مہنگائی کے اس طوفان کے باوجود حکومتی وزراء اور خود وزیراعظم مسلسل یہ دعوے کر رہے ہیں کہ دنیا اور خاص کر اس خطے کے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں مہنگائی نسبتاً کم ہے۔
ان کی یہ منطق اور دعوے سمجھ سے بالا تر ہیں۔ جب بھی قرضوں کے حصول کے لیے ہمارے عالمی مالیاتی اداروں سے مذاکرات ہوتے ہیں تو اسٹاک مارکیٹ کریش ہونے کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور حکومت موجودہ معاشی بحران کی ذمے داری سابقہ حکمرانوں پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی سعی لاحاصل کرتی ہے حالانکہ عوام ان کے معاملات کو بخوبی سمجھ چکے ہیں۔ عوام کو اس بات کا بھی بخوبی علم ہے کہ ہماری معیشت کو آگے بڑھانے اور بحرانوں سے نکالنے میں سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر کا بہت بڑا ہاتھ ہے لیکن اس کے باوجود ہم وطن کی محبت سے سرشار ان سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے عملاً کچھ بھی نہیں کرتے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہماری معیشت قرضوں کے سہارے سے ہی چل رہی ہے جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی' بیروزگاری اور توانائی کے بحران جنم لے رہے ہیں۔ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دب چکے ہیں اور ابھی ان پر پٹرول بم' بجلی بم' گیس بم' مہنگی ادویات بم مسلسل گرائے جا رہے ہیں۔ حکومت کا اپنا ادارہ شماریات بیورو ہر ماہ اپنی رپورٹ میں مہنگائی میں اضافے کی بڑھتی ہوئی شرح کی نشاندہی کرتا ہے' لیکن حکومتی وزراء اور ترجمانوں کی ایک ہی رٹ ہے کہ یہ سب سابق حکمرانوں کی لوٹ مار اور کرپشن کا نتیجہ ہے ۔ پی ٹی آئی نے تین سالہ دوراقتدار کے دوران پاکستان کی تاریخ میں ریکارڈ قرضے حاصل کیے ہیں۔
آئی ایم ایف حکم نامہ بھی جاری کر رہا ہے کہ ہم زراعت، خوراک، توانائی اور دیگر شعبوں سے سبسڈی کا خاتمہ کریں اور بجلی' پٹرول' گیس کی قیمتوں میں اضافہ کریں۔ یعنی عوام کو مہنگائی کے سمندر میں غوطے پر غوطے دیں۔ ادھر وزیراعظم اور ان کے ترجمان گزشتہ تین سالوں سے مسلسل یہ دعوے کر رہے ہیں کہ یہ مہنگائی عارضی ہے اور جلدہی ختم ہو جائے گی۔ نہ جانے یہ ''خوش قسمت'' دن کب آئیگا؟ یہ حقیقت ہے کہ حکومت نے عوام کو ''ٹرک کی بتی'' کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔
عوام کے مسائل کو حل کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ یہ تو بلند بانگ دعوے کرنے' نعرے لگانے اور وعدے کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ پٹرول' گیس اور بجلی کے بار بار نرخ بڑھانے کے باوجود حکومتی ترجمان کہتے ہیں کہ اس سے عوام پر کوئی ''بوجھ'' نہیں پڑیگا۔ یقینا ان کی یہ منطق مہنگائی میں ڈوبے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
موجودہ حکومت کے دور میں روزمرہ ضرورت کی اشیاء اور ادویات کی قیمتوں میں جو ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ڈالر کی اونچی اڑان ، روپے کی بے قدری، سونے کی قیمتوںمیں ہوشربا اضافہ ، اسٹاک مارکیٹ میں آئے دن مندی اور سرمایہ کاروں کے سرمائے کا ڈوبنا، برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں تیزی سے اضافہ ،گردشی قرضوں میں اضافہ، بجلی اور گیس کی پیداوار میں کمی، ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافہ، حکومت کے انتظامی اخراجات میں اضافہ، زرعی پیداوار میں کمی، صنعتی پہیے کا سست روی سے چلنا سمیت بہت سے کارنامے شامل ہیں۔
حکومتی اشاریے خواہ کچھ بھی کہیں نئے پاکستان میں پریشانی ہر چہرے سے عیاں ہے۔ تاجر حضرات معاشی بے یقینی کی صورتحال کی وجہ سے فکر مند ہیں۔ روز بروز بڑھتی مہنگائی نے ملک کے 85 فیصد متوسط طبقے کو تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔
غریب و مزدور طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ملک کے بیشتر افراد کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔ لوگ حالات سے مجبور ہوکر خود کشیاں کررہے ہیں، بے روزگاری کا شکار ہورہے ہیں مگر ان حالات میں بھی حکمران طبقہ عملی اقدامات کی بجائے محض اپنی ضد پر قائم ہے۔
حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے، بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی اور عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے تاکہ عوام کوریلیف مل سکے۔
بیرونی شعبے میں ریکارڈ برآمدات کے باوجود اجناس کی بلند عالمی قیمتوں نے درآمدی بل میں خاصا اضافہ کرنے میں کردار ادا کیا، نتیجے کے طور پر پی بی ایس اعداد و شمار کے مطابق نومبر میں تجارتی خسارہ بڑھ کر 5 ارب ڈالر ہوگیا ہے، جب کہ دوسری جانب ایشیائی ترقیاتی بینک(اے ڈی بی)نے جنوبی ایشیا کی معاشی شرح نمو میں کمی کی پیشگوئی کرتے ہوئے پاکستان میں مہنگائی میں اضافے کا خدشہ ظاہر کردیا ہے۔ مہنگائی بڑھنے کی وجہ بجلی کی قیمتوں اور عالمی مارکیٹ میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ قرار دیاگیا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں اضافہ، اضافی طلب کو کم کرنے کے لیے کیا ہے، جب کہ تجرباتی شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ شرح سود میں ایک فیصد اضافے سے پاکستان میں کنزیومر بیسڈ انفلیشن (سی پی آئی) میں 1.3 فیصد اضافہ ہوتا ہے، جس کی وجہ بینکوں کی جانب سے زیادہ شرح سود پر صارفین کو قرض دینا ہے ۔ ماہرین معیشت کی رائے کے مطابق شرح سود بڑھنے سے صنعتی پیداوار میں کمی ہوگی، حکومتی اخراجات بڑھیں گے، شرح سود بڑھانے سے مہنگائی کم نہیں ہوگی، بلکہ نجی شعبے کو مزید مشکلات اور سست روی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حکومت بین الاقوامی مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ، خام تیل کی قیمت میں اضافے،کورونا کی عالمی وبا اور اس کے سبب سپلائی چین متاثر ہونے جیسے عوامل اور ان کے منفی اثرات کو مہنگائی کا سبب قرار دیتی ہے مگر دوسری جانب اس کا دعویٰ ہے کہ ملکی معیشت بہتر ہورہی ہے، حالانکہ ڈائریکٹ فارن انویسٹ مینٹس اس وقت نچلی ترین جب کہ ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، جس کا خمیازہ درآمدات کے مہنگا ہوجانے کے باعث آیندہ چند ہفتوں، مہینوں میں مزید مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔لگتا ہے عوام کو طلب اور رسد کے بجائے مارکیٹ کو کنٹرول کرنے والی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
ایسے میں وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا یہ اعلان کہ ملک میں مہنگائی حکومتی پالیسیوں کے سبب نہیں بلکہ عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی کے باعث ہوئی ہے، عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
بلاشبہ پاکستان میں مہنگائی کی چار بنیادی وجوہات ہیں جن میں رسد کے مسائل، حکومت کی جانب سے بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی اور عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہے۔ ماہرین معیشت کے مطابق شرح سود میں اضافے کی معاشی وجوہات نہیں بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں ،جن میں پاکستان کی جانب سے پیشگی اقدامات کے طور پر شرح سود میں اضافہ بھی شامل ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کی آمد کا حجم 10 سال کی بلند سطح پر پہنچنے کے باوجودروپیہ مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس کی کوئی تو وجہ ہوگی؟ بیرونی ادائیگیوں، بڑھتی درآمدات نے روپے کو کمزور کیا جب کہ معاشی مستقبل کے بارے میں غیریقینی صورت حال سے بھی ڈالر کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔ ریکارڈ درآمدات اور تاریخ ساز کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی روپے کی قدر پر اثر انداز ہورہے ہیں۔
اس وقت حکومت کو جو سب سے بڑا عوامی مسئلہ درپیش ہے، وہ مہنگائی اور گرانی کا کوہِ گراں ہے جو بارہا کوششوں کے باوجود نہ صرف یہ کہ اپنی جگہ پرقائم ہے بلکہ اس میں روز بروز اضافہ مشاہدے میں آرہا ہے۔ اشیائے ضروریہ بالخصوص اشیائے خور ونوش جیسے گندم، آٹا، گھی، چینی کی قیمتوں کو تو جیسے پر لگے ہوئے ہیں، ان میں اضافہ روز کا معمول بن چکا ہے۔
کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کسی نہ کسی چیز کی قیمت میں اضافے کی خبریں سامنے نہ آئیں۔ مہنگائی کس تیزی سے بڑھ رہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کی نگرانی میں کام کرنے والے اور سبسڈائز اشیا فراہم کرنے والے یوٹیلٹی اسٹورز پر بھی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں مسلسل سامنے آرہی ہیں۔ حکومت اگر اپنی نگرانی میں چلنے والے اسٹورز پر مہنگائی کو نہیں روک پارہی تو کھلی مارکیٹ میں حالات کیا ہوں گے۔
اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ دکاندار کے لیے دکان کھولنا مشکل، فیکٹری مالکان کے لیے فیکٹری چلانا مشکل، تاجر کے لیے تجارت کرنا مشکل اور کسان کے لیے کاشتکاری مشکل ترین ہوگئی ہے۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، آٹا، گھی، چینی سمیت اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے مہنگائی کے طوفان کا سامنا کرنے کے لیے عوام کو بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے بہ حیثیت قوم ہم اس کشتی کے مسافروں کی طرح ہیں جو موجوں کے رحم و کرم پر ہو۔
ملک میں سیاسی عدمِ استحکام کی وجہ سے زندگی کا ہر شعبہ جمود کا شکار ہے۔ حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہماری معیشت مضبوط ہے تو پھر غیر ملکی قرضوں کا بار بار حصول کیوں؟ مہنگائی کے اس طوفان کے باوجود حکومتی وزراء اور خود وزیراعظم مسلسل یہ دعوے کر رہے ہیں کہ دنیا اور خاص کر اس خطے کے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں مہنگائی نسبتاً کم ہے۔
ان کی یہ منطق اور دعوے سمجھ سے بالا تر ہیں۔ جب بھی قرضوں کے حصول کے لیے ہمارے عالمی مالیاتی اداروں سے مذاکرات ہوتے ہیں تو اسٹاک مارکیٹ کریش ہونے کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور حکومت موجودہ معاشی بحران کی ذمے داری سابقہ حکمرانوں پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی سعی لاحاصل کرتی ہے حالانکہ عوام ان کے معاملات کو بخوبی سمجھ چکے ہیں۔ عوام کو اس بات کا بھی بخوبی علم ہے کہ ہماری معیشت کو آگے بڑھانے اور بحرانوں سے نکالنے میں سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر کا بہت بڑا ہاتھ ہے لیکن اس کے باوجود ہم وطن کی محبت سے سرشار ان سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے عملاً کچھ بھی نہیں کرتے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہماری معیشت قرضوں کے سہارے سے ہی چل رہی ہے جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی' بیروزگاری اور توانائی کے بحران جنم لے رہے ہیں۔ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دب چکے ہیں اور ابھی ان پر پٹرول بم' بجلی بم' گیس بم' مہنگی ادویات بم مسلسل گرائے جا رہے ہیں۔ حکومت کا اپنا ادارہ شماریات بیورو ہر ماہ اپنی رپورٹ میں مہنگائی میں اضافے کی بڑھتی ہوئی شرح کی نشاندہی کرتا ہے' لیکن حکومتی وزراء اور ترجمانوں کی ایک ہی رٹ ہے کہ یہ سب سابق حکمرانوں کی لوٹ مار اور کرپشن کا نتیجہ ہے ۔ پی ٹی آئی نے تین سالہ دوراقتدار کے دوران پاکستان کی تاریخ میں ریکارڈ قرضے حاصل کیے ہیں۔
آئی ایم ایف حکم نامہ بھی جاری کر رہا ہے کہ ہم زراعت، خوراک، توانائی اور دیگر شعبوں سے سبسڈی کا خاتمہ کریں اور بجلی' پٹرول' گیس کی قیمتوں میں اضافہ کریں۔ یعنی عوام کو مہنگائی کے سمندر میں غوطے پر غوطے دیں۔ ادھر وزیراعظم اور ان کے ترجمان گزشتہ تین سالوں سے مسلسل یہ دعوے کر رہے ہیں کہ یہ مہنگائی عارضی ہے اور جلدہی ختم ہو جائے گی۔ نہ جانے یہ ''خوش قسمت'' دن کب آئیگا؟ یہ حقیقت ہے کہ حکومت نے عوام کو ''ٹرک کی بتی'' کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔
عوام کے مسائل کو حل کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ یہ تو بلند بانگ دعوے کرنے' نعرے لگانے اور وعدے کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ پٹرول' گیس اور بجلی کے بار بار نرخ بڑھانے کے باوجود حکومتی ترجمان کہتے ہیں کہ اس سے عوام پر کوئی ''بوجھ'' نہیں پڑیگا۔ یقینا ان کی یہ منطق مہنگائی میں ڈوبے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
موجودہ حکومت کے دور میں روزمرہ ضرورت کی اشیاء اور ادویات کی قیمتوں میں جو ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ڈالر کی اونچی اڑان ، روپے کی بے قدری، سونے کی قیمتوںمیں ہوشربا اضافہ ، اسٹاک مارکیٹ میں آئے دن مندی اور سرمایہ کاروں کے سرمائے کا ڈوبنا، برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں تیزی سے اضافہ ،گردشی قرضوں میں اضافہ، بجلی اور گیس کی پیداوار میں کمی، ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافہ، حکومت کے انتظامی اخراجات میں اضافہ، زرعی پیداوار میں کمی، صنعتی پہیے کا سست روی سے چلنا سمیت بہت سے کارنامے شامل ہیں۔
حکومتی اشاریے خواہ کچھ بھی کہیں نئے پاکستان میں پریشانی ہر چہرے سے عیاں ہے۔ تاجر حضرات معاشی بے یقینی کی صورتحال کی وجہ سے فکر مند ہیں۔ روز بروز بڑھتی مہنگائی نے ملک کے 85 فیصد متوسط طبقے کو تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔
غریب و مزدور طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ملک کے بیشتر افراد کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔ لوگ حالات سے مجبور ہوکر خود کشیاں کررہے ہیں، بے روزگاری کا شکار ہورہے ہیں مگر ان حالات میں بھی حکمران طبقہ عملی اقدامات کی بجائے محض اپنی ضد پر قائم ہے۔
حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے، بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی اور عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے تاکہ عوام کوریلیف مل سکے۔