پیپلز پارٹی کا بدلتا ہوا رنگ
پیپلز پارٹی کی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں سندھ میں نئے تضادات پیدا ہوچکے ہیں۔
ISLAMABAD:
قومی اسمبلی ، لاہورکے حلقہ 133کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن تو روایتی انداز میں کامیاب ہوئی مگر پارٹی کی امیدوار محترمہ شائستہ پرویز ملک کو براہِ راست چیلنج پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل نے کیا۔ تحریک انصاف کے امیدوار تکنیکی وجہ سے اس انتخاب سے باہر ہوگئے تھے، یوں مسلم لیگ ن کی امیدوار نے 46818 ووٹ اور پیپلز پارٹی کے امیدوار نے 32313 ووٹ حاصل کیے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کا دوسرا نمبر حاصل کرنے کو بڑ اکارنامہ قرار دیا۔ 2018ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل کو تقریباً 6 ہزار ووٹ پڑے تھے، یوں پیپلز پارٹی کے ووٹوں میں کئی سو گنا اضافہ ہوا۔
کچھ رہنماؤں نے ان نتائج کو آیندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے لیے کامیابی کی نوید قرار دیا مگر اس حلقہ میں اسلم گل کے قریبی لوگوں نے بتایا کہ بعض مذہبی جماعتوں کے ووٹوں نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کے ووٹوں میں کئی سو گنا اضافہ کیا۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کی خاموش حمایت کی۔ سیاسی جماعتوں کی انتخابات کے موقعے پر مخالف سیاسی جماعت کی مخالفت کی حکمت عملی تو ہر انتخابات میں استعمال ہوتی ہے مگر پیپلز پارٹی کی مذہبی نعرے استعمال کرنا اور ان مذہبی جماعتوں کی مدد حاصل کرنا تاریخ کے کئی گوشوں کو آشکار کررہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو 65ء کی جنگ کے بعد ایوب خان کی حکومت سے علیحدہ ہوئے اور 1967ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ پیپلز پارٹی نے غریب عوام کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔ سوشلسٹ معیشت کو اپنی جماعت کی اقتصادی پالیسی کی بنیاد قرار دیا۔ تمام مذہبی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کے خلاف متحد ہوگئیں۔
جنرل یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات کو نظریہ پاکستان کا خیال آیا۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کے حامی صحافیوں کو اخبارات سے برطرف کرایا اور مذہبی جماعتوں کی سرپرستی کی ، مگر 1970 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی پنجاب اور سندھ کی اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے ابھری۔ لاہور، راولپنڈی ، ملتان اور فیصل آباد سے سوشلسٹ نظریات کے حامی پیپلز پارٹی کے رہنما کامیاب ہوئے۔
سرحد اور بلوچستان سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے اکثریتی نشستیں حاصل کیں۔ مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ نے دو نشستوں کے علاوہ تمام نشستیں جیت لیں ، اقتدار اب عوامی لیگ کا حق تھا۔ ملک کا نیا آئین عوامی لیگ کے 6نکات کی بنیاد پر تیار ہونا چاہیے تھا مگر پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو جنرل یحییٰ خان کے معاون بن گئے۔
مارچ 1971 میں مشرقی پاکستان میں آپریشن کیا گیا تو بھٹو صاحب نے ڈھاکہ سے واپسی پر کراچی ایئرپورٹ پر کہا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔ 8 دسمبر 1971کو جنرل یحییٰ خان نے نورالامین کو وزیر اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کو نائب صدر اور وزیر خارجہ مقرر کیا مگر بنگال کے عوام میں اشتعال پھیلا۔ 16 دسمبر 1971 کو ملک دولخت ہوگیا ۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو 20 دسمبر 1971 کو صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے منشور کے بعض حصوں پر عمل کرتے ہوئے زراعت، تعلیم، صحت اور صنعتی شعبوں میں تاریخی اصلاحات کیں۔
مزدوروں، طالب علموں، اساتذہ، مریضوں، کسانوں اور صحافیوں کو ان اصلاحات سے خاطرخواہ فوائد حاصل ہوئے۔ بعد ازاں مولانا کوثر نیازی، نواب صادق قریشی، مخدوم حامد گیلانی اور مسعود محمود جیسے سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ بھٹو صاحب کے گرد جمع ہوئے۔ بلوچستان میں نیپ کی حکومت توڑ دی گئی ، نیپ پر پابندی لگ گئی۔ اب مذہبی نعرے پیپلز پارٹی کی حکومت کا استعارہ بن گئے ۔ مذہبی جماعتوں نے جنرل ضیاء الحق کے ایماء پر ایجی ٹیشن شروع کیا۔ 5 جولائی 1977کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا اور ذوالفقار علی بھٹو کو ناحق پھانسی دے دی گئی۔ کارکنوں ، بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی طویل جدوجہد نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کو چیلنج کیا۔
1988 میں پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت کے طور پر ابھری۔ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں۔ مذہبی جماعتوں نے طالع آزما قوتوں کے ایماء پر اسلامی جمہوری اتحاد قائم کیا اور 18 ماہ بعد حکومت توڑ دی گئی۔ پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں۔ میجر جنرل ریٹائرڈ نصیر اﷲ بابر وزیرداخلہ بنے۔ انھوں نے پاکستان کے مختلف دینی مدارس کے طالب علموں کو متحد کر کے طالبان کے نام سے ایک خاموش قوت کو زندہ کیا۔
ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ بے نظیر بھٹو نے واقعی جنرل بابر کو طالبان کو منظم کرنے کی اجازت دی تھی یا طالع آزما قوتوں نے یہ کام جنرل بابر کے سپرد کیا تھا۔ پاکستان اور افغانستان میں جو تباہی مچائی گئی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ بے نظیر بھٹو سمیت ہزاروں شہریوں کی جانیں گئیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے سپریم کورٹ سے نااہل قرار دینے کے بعد ملک کا منظرنامہ تبدیل ہوا۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت سے کئی سردار علیحدہ ہوئے اور سردار ثنا اللہ زہری کی حکومت ختم ہوئی۔
بلوچستان عوامی پارٹی اچانک وجود میں آئی۔ زرداری صاحب نے بلوچستان کی نئی قیادت کا خیر مقدم کیا۔ سینیٹ میں انتخابات کا مرحلہ آیا۔ خیبرپختون خوا سے پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر یہ انتخاب ہار گئے۔ ایک سرمایہ دار خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے۔
مسلم لیگ ن سینیٹ کی چیئرمین شپ پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن رضا ربانی کو دینے پر تیار تھی لیکن آصف زرداری کو صادق سنجرانی بھا گئے۔ 2018کے انتخابات سے قبل پنجاب سے مسلم لیگ ن کے منتخب اراکین کی ہجرت شروع ہوگئی ، '' محکمہ زراعت''کا کردار نمایاں ہوا۔ سب سے زیادہ سرائیکی وسیب سے منتخب ارکان علیحدہ ہوئے اور ایک محاذ بنایا۔ بعض صحافیوں کا مفروضہ ہے کہ کہیں سے پیپلز پارٹی کو یہ امید دلائی گئی تھی کہ یہ اراکین پیپلز پارٹی میں شامل ہونگے ، مگر شاید ملک پر بجلیاں گرانے والی قوتوں کو عمران خان پسند آگئے تھے ، یوں پیپلز پارٹی کا میاں نواز شریف کے خلاف سخت رویہ کسی کام نہ آیا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت مسلسل پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کے بارے میں باتیں کرتی رہی ہے۔ یہ تحریک عدم اعتماد صرف مسلم لیگ ق کے فیصلہ سے ہی کارآمد ہوسکتی ہے مگر اسے ابھی تک کوئی ٹیلی گرام نہیں ملا۔ جہانگیر ترین کا گروپ تھا مگر وہ پھر واپس لوٹ گئے۔ سینیٹ کی اسلام آباد کی نشست کے لیے پیپلز پارٹی نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نامزد کیا۔ ان کی حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے حمایت کی۔ سینیٹ کے چیئرمین کے لیے یوسف رضا گیلانی اور صادق سنجرانی آمنے سامنے آئے۔ بجلیاں گرانے والی قوتوں نے صادق سنجرانی کے راستے سے رکاوٹیں دورکیں۔
اچانک یوسف رضا گیلانی نے حزب اختلاف کے سینیٹروں کی اکثریت حاصل کرلی ، وہ قائد حزب اختلاف ہوئے۔ ان کی حمایت کرنے والوں میں باپ کے سینیٹر بھی شامل تھے۔ اس فہرست میں شامل سینیٹروں کی تعداد اور حزب اختلاف کے تمام سینیٹروں کی تعداد کو جمع کیا جائے تو سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوسکتی ہے۔
مسلم لیگ ن ، جے یو آئی اور نیشنل عوامی پارٹی وغیرہ اس کے لیے تیار ہیں مگر پیپلز پارٹی کی قیادت جانتی ہے کہ مانگے گئے سینیٹر واپس جاچکے ہیں۔ آئینی اصلاحات کے بل پر بحث کے دوران یہ سینیٹر حکومت کے ساتھ تھے۔ پیپلز پارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی نبیل گبول نے کشمیر کے انتخابات کے بارے میں ایک ٹاک شو میں کہا تھا کہ 16 نشستوں کا وعدہ کیا گیا تھا مگر صرف 11 نشستیں دی گئیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ق اور مذہبی جماعتوں کو ساتھ ملا کر پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے اور اگلے انتخابات میں ایسی حکمت عملی پر غور ہورہا ہے۔ حلقہ 133 میں اس کی ریہرسل تھی ، یوں بلاول بھٹو زرداری وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں سندھ میں نئے تضادات پیدا ہوچکے ہیں،اگر پیپلز پارٹی کی حکمت عملی کامیاب ہوگئی تو ملک کی تاریخ میں ایک نئے وزیر اعظم کے نام کا اضافہ ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی برقرار رہے گی۔ ملک کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی لبرل ترقی پسند جماعت نے مذہبی بیانیہ اپنایا اور اسٹیبلشمنٹ کی کابینہ بنی تو نقصان اس جماعت کاہوگا۔
قومی اسمبلی ، لاہورکے حلقہ 133کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن تو روایتی انداز میں کامیاب ہوئی مگر پارٹی کی امیدوار محترمہ شائستہ پرویز ملک کو براہِ راست چیلنج پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل نے کیا۔ تحریک انصاف کے امیدوار تکنیکی وجہ سے اس انتخاب سے باہر ہوگئے تھے، یوں مسلم لیگ ن کی امیدوار نے 46818 ووٹ اور پیپلز پارٹی کے امیدوار نے 32313 ووٹ حاصل کیے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کا دوسرا نمبر حاصل کرنے کو بڑ اکارنامہ قرار دیا۔ 2018ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل کو تقریباً 6 ہزار ووٹ پڑے تھے، یوں پیپلز پارٹی کے ووٹوں میں کئی سو گنا اضافہ ہوا۔
کچھ رہنماؤں نے ان نتائج کو آیندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے لیے کامیابی کی نوید قرار دیا مگر اس حلقہ میں اسلم گل کے قریبی لوگوں نے بتایا کہ بعض مذہبی جماعتوں کے ووٹوں نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کے ووٹوں میں کئی سو گنا اضافہ کیا۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کی خاموش حمایت کی۔ سیاسی جماعتوں کی انتخابات کے موقعے پر مخالف سیاسی جماعت کی مخالفت کی حکمت عملی تو ہر انتخابات میں استعمال ہوتی ہے مگر پیپلز پارٹی کی مذہبی نعرے استعمال کرنا اور ان مذہبی جماعتوں کی مدد حاصل کرنا تاریخ کے کئی گوشوں کو آشکار کررہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو 65ء کی جنگ کے بعد ایوب خان کی حکومت سے علیحدہ ہوئے اور 1967ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ پیپلز پارٹی نے غریب عوام کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔ سوشلسٹ معیشت کو اپنی جماعت کی اقتصادی پالیسی کی بنیاد قرار دیا۔ تمام مذہبی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کے خلاف متحد ہوگئیں۔
جنرل یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات کو نظریہ پاکستان کا خیال آیا۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کے حامی صحافیوں کو اخبارات سے برطرف کرایا اور مذہبی جماعتوں کی سرپرستی کی ، مگر 1970 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی پنجاب اور سندھ کی اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے ابھری۔ لاہور، راولپنڈی ، ملتان اور فیصل آباد سے سوشلسٹ نظریات کے حامی پیپلز پارٹی کے رہنما کامیاب ہوئے۔
سرحد اور بلوچستان سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے اکثریتی نشستیں حاصل کیں۔ مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ نے دو نشستوں کے علاوہ تمام نشستیں جیت لیں ، اقتدار اب عوامی لیگ کا حق تھا۔ ملک کا نیا آئین عوامی لیگ کے 6نکات کی بنیاد پر تیار ہونا چاہیے تھا مگر پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو جنرل یحییٰ خان کے معاون بن گئے۔
مارچ 1971 میں مشرقی پاکستان میں آپریشن کیا گیا تو بھٹو صاحب نے ڈھاکہ سے واپسی پر کراچی ایئرپورٹ پر کہا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔ 8 دسمبر 1971کو جنرل یحییٰ خان نے نورالامین کو وزیر اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کو نائب صدر اور وزیر خارجہ مقرر کیا مگر بنگال کے عوام میں اشتعال پھیلا۔ 16 دسمبر 1971 کو ملک دولخت ہوگیا ۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو 20 دسمبر 1971 کو صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے منشور کے بعض حصوں پر عمل کرتے ہوئے زراعت، تعلیم، صحت اور صنعتی شعبوں میں تاریخی اصلاحات کیں۔
مزدوروں، طالب علموں، اساتذہ، مریضوں، کسانوں اور صحافیوں کو ان اصلاحات سے خاطرخواہ فوائد حاصل ہوئے۔ بعد ازاں مولانا کوثر نیازی، نواب صادق قریشی، مخدوم حامد گیلانی اور مسعود محمود جیسے سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ بھٹو صاحب کے گرد جمع ہوئے۔ بلوچستان میں نیپ کی حکومت توڑ دی گئی ، نیپ پر پابندی لگ گئی۔ اب مذہبی نعرے پیپلز پارٹی کی حکومت کا استعارہ بن گئے ۔ مذہبی جماعتوں نے جنرل ضیاء الحق کے ایماء پر ایجی ٹیشن شروع کیا۔ 5 جولائی 1977کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا اور ذوالفقار علی بھٹو کو ناحق پھانسی دے دی گئی۔ کارکنوں ، بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی طویل جدوجہد نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کو چیلنج کیا۔
1988 میں پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت کے طور پر ابھری۔ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں۔ مذہبی جماعتوں نے طالع آزما قوتوں کے ایماء پر اسلامی جمہوری اتحاد قائم کیا اور 18 ماہ بعد حکومت توڑ دی گئی۔ پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں۔ میجر جنرل ریٹائرڈ نصیر اﷲ بابر وزیرداخلہ بنے۔ انھوں نے پاکستان کے مختلف دینی مدارس کے طالب علموں کو متحد کر کے طالبان کے نام سے ایک خاموش قوت کو زندہ کیا۔
ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ بے نظیر بھٹو نے واقعی جنرل بابر کو طالبان کو منظم کرنے کی اجازت دی تھی یا طالع آزما قوتوں نے یہ کام جنرل بابر کے سپرد کیا تھا۔ پاکستان اور افغانستان میں جو تباہی مچائی گئی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ بے نظیر بھٹو سمیت ہزاروں شہریوں کی جانیں گئیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے سپریم کورٹ سے نااہل قرار دینے کے بعد ملک کا منظرنامہ تبدیل ہوا۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت سے کئی سردار علیحدہ ہوئے اور سردار ثنا اللہ زہری کی حکومت ختم ہوئی۔
بلوچستان عوامی پارٹی اچانک وجود میں آئی۔ زرداری صاحب نے بلوچستان کی نئی قیادت کا خیر مقدم کیا۔ سینیٹ میں انتخابات کا مرحلہ آیا۔ خیبرپختون خوا سے پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر یہ انتخاب ہار گئے۔ ایک سرمایہ دار خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے۔
مسلم لیگ ن سینیٹ کی چیئرمین شپ پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن رضا ربانی کو دینے پر تیار تھی لیکن آصف زرداری کو صادق سنجرانی بھا گئے۔ 2018کے انتخابات سے قبل پنجاب سے مسلم لیگ ن کے منتخب اراکین کی ہجرت شروع ہوگئی ، '' محکمہ زراعت''کا کردار نمایاں ہوا۔ سب سے زیادہ سرائیکی وسیب سے منتخب ارکان علیحدہ ہوئے اور ایک محاذ بنایا۔ بعض صحافیوں کا مفروضہ ہے کہ کہیں سے پیپلز پارٹی کو یہ امید دلائی گئی تھی کہ یہ اراکین پیپلز پارٹی میں شامل ہونگے ، مگر شاید ملک پر بجلیاں گرانے والی قوتوں کو عمران خان پسند آگئے تھے ، یوں پیپلز پارٹی کا میاں نواز شریف کے خلاف سخت رویہ کسی کام نہ آیا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت مسلسل پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کے بارے میں باتیں کرتی رہی ہے۔ یہ تحریک عدم اعتماد صرف مسلم لیگ ق کے فیصلہ سے ہی کارآمد ہوسکتی ہے مگر اسے ابھی تک کوئی ٹیلی گرام نہیں ملا۔ جہانگیر ترین کا گروپ تھا مگر وہ پھر واپس لوٹ گئے۔ سینیٹ کی اسلام آباد کی نشست کے لیے پیپلز پارٹی نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نامزد کیا۔ ان کی حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے حمایت کی۔ سینیٹ کے چیئرمین کے لیے یوسف رضا گیلانی اور صادق سنجرانی آمنے سامنے آئے۔ بجلیاں گرانے والی قوتوں نے صادق سنجرانی کے راستے سے رکاوٹیں دورکیں۔
اچانک یوسف رضا گیلانی نے حزب اختلاف کے سینیٹروں کی اکثریت حاصل کرلی ، وہ قائد حزب اختلاف ہوئے۔ ان کی حمایت کرنے والوں میں باپ کے سینیٹر بھی شامل تھے۔ اس فہرست میں شامل سینیٹروں کی تعداد اور حزب اختلاف کے تمام سینیٹروں کی تعداد کو جمع کیا جائے تو سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوسکتی ہے۔
مسلم لیگ ن ، جے یو آئی اور نیشنل عوامی پارٹی وغیرہ اس کے لیے تیار ہیں مگر پیپلز پارٹی کی قیادت جانتی ہے کہ مانگے گئے سینیٹر واپس جاچکے ہیں۔ آئینی اصلاحات کے بل پر بحث کے دوران یہ سینیٹر حکومت کے ساتھ تھے۔ پیپلز پارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی نبیل گبول نے کشمیر کے انتخابات کے بارے میں ایک ٹاک شو میں کہا تھا کہ 16 نشستوں کا وعدہ کیا گیا تھا مگر صرف 11 نشستیں دی گئیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ق اور مذہبی جماعتوں کو ساتھ ملا کر پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے اور اگلے انتخابات میں ایسی حکمت عملی پر غور ہورہا ہے۔ حلقہ 133 میں اس کی ریہرسل تھی ، یوں بلاول بھٹو زرداری وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں سندھ میں نئے تضادات پیدا ہوچکے ہیں،اگر پیپلز پارٹی کی حکمت عملی کامیاب ہوگئی تو ملک کی تاریخ میں ایک نئے وزیر اعظم کے نام کا اضافہ ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی برقرار رہے گی۔ ملک کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی لبرل ترقی پسند جماعت نے مذہبی بیانیہ اپنایا اور اسٹیبلشمنٹ کی کابینہ بنی تو نقصان اس جماعت کاہوگا۔