شہباز شریف ن لیگ کے وزیر اعظم کے متفقہ امیدوار
پارٹی کی سنیئرقیادت کی اکثریت بھی ان کے ساتھ ہے، جو پہلے ان کے خلاف بات کرتے تھے آج ان کی سیاسی بصیرت کادم بھرتے ہیں۔
LONDON:
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ واضح کر کے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے اگلے امیدوار میاں شہباز شریف ہیں، تمام قیاس آرائیوں اور ان مفروضات کو دفن کر دیا ہے جو شہباز شریف کا راستہ روکنے کے لیے بنائے جاتے تھے۔
ویسے تو خواجہ آصف نے بھی شاہد خاقان عباسی کے بیان کی نہ صرف توثیق کی ہے بلکہ کہا ہے کہ ان کی رائے بھی یہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے اگلے متفقہ امیدوار میاں شہباز شریف ہی ہیں۔ خواجہ آصف کی رائے سے تو پہلے ہی سب واقف تھے لیکن شاہد خاقان عباسی کی طرف سے اعلان آنے کے بعد یہ ابہام بھی ختم ہو گیا ہے کہ شہباز شریف کے وزیر اعظم کے امیدوار ہونے پر کہیں کوئی اختلاف ہے۔ اب بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزارت عظمیٰ کے متفقہ اور واحد امیدوار ہیں۔ ان کے مد مقابل کوئی نہیں ہے۔
یہ صورتحال واضح ہونے کے بعد ان تمام سیاسی قیاس آرائیوں کی بھی موت ہو گئی جن میں ن میں سے ش نکالنے کی بات کی جا رہی تھی۔جب شہباز شریف ن لیگ کے وزارت عظمیٰ کے متفقہ امیدوار ہیں تو ن میں سے ش نکلنے اور ش میں سے ن نکلنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔
ویسے تو شہباز شریف نے ماضی میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز کے اتحاد اور نواز شریف سے وفا کے لیے ایک نہیں تین مرتبہ وزارت عظمیٰ قربان کر چکے ہیں۔ اس لیے جہاں انھیں نظریاتی طور پر موجودہ ن لیگ کی مزاحمتی پالیسی سے اختلاف تھا وہاں سب جانتے تھے کہ اس اختلاف کی وجہ سے وہ ن لیگ کو نہیں چھوڑیں گے۔ ان کا نظریاتی اختلاف اپنی جگہ اور ن سے وفا اپنی جگہ۔ دونوں الگ الگ معاملات ہیں۔ اس لیے جو لوگ دونوں کو ملا کر کوئی منظر نامہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے، وہ پہلے بھی غلط تھے، اب بھی غلط ہیں۔
یہ بات بھی درست ہے کہ ایک وقت تھا کہ ن لیگ میں مفاہمت اور مل کرچلنے کی بات کرنے والے اکیلے شہباز شریف تھے۔ لیکن شہباز شریف اس سیاسی تنہائی سے فکر مند اور پریشان نہیں ہوئے۔ انھیں اپنی ہی جماعت میں بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ لیکن وہ اپنی بات کرتے رہے اور آج صورتحال بدل گئی ہے۔ پارٹی کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔
پارٹی کی سنیئر قیادت کی اکثریت بھی ان کے ساتھ ہے، جو پہلے ان کے خلاف بات کرتے تھے آج ان کی سیاسی بصیرت کا دم بھرتے ہیں۔ انھوں نے مسلم لیگ (ن) کا سارا ماحول ہی بدل دیا ہے۔ جس کی شکل ہم نے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں دیکھی۔مسلم لیگ (ن) نے محاذ آرائی کے بغیر ہی انتخاب جیتا۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ جیتنے کے لیے محاذ آرائی ناگزیر نہیں ہے۔
سوال یہ بھی اہم ہے کہ اس وقت شاہد خاقان عباسی کو یہ واضح کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے شہباز شریف ہی وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں حالانکہ ابھی انتخاب قریب بھی نہیں آرہے ۔ ملک میں کوئی انتخابی مہم بھی شروع نہیں ہوئی ہے۔ ایسے میں یہ وضاحت کیوں ضروری تھی ۔ سیاست کے رموز سمجھنے والے جانتے ہیں یہی بہترین وقت ہے۔
اگر اس موقع پر صورتحال واضح نہ کی جاتی تو ابہام کا مسلم لیگ (ن) کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا۔اس سے آگے باہمی اختلاف کا سب کو نقصان تھا۔ ایک تو ووٹر کو بھی ابہام سے نکالنا ضروری تھا۔ پارٹی کی دوسرے درجہ کی قیادت بھی بہت ابہام کا شکار تھی کہ آگے کیا ہوگا۔ کون پارٹی میں ہوگا؟ کون نہیں ہوگا؟ کس کا پتہ کٹ جائے گا اور کون بچ جائے گا۔ اس صورتحال کا پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مخالفین فائدہ اٹھا رہے تھے۔ ن اور ش کا شور مچایا جا رہا تھا۔ لیکن پارٹی کی دوسرے درجہ کی قیادت بھی ابہام کا شکار تھی ،جس کی یکسوئی بہت ضروری تھی۔
ویسے تو ملک میں قبل از وقت انتخابات کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار حکومت کے جانے کی پیش گوئی بھی کر رہے ہیں۔ لیکن اس سارے منظر نامہ سے قطع نظر اگر پنجاب میں بلدیاتی انتخابات بھی ہونے ہیں تب بھی ان انتخابات میں مسلم لیگ (ن ) کو ایک یکسوئی چاہیے تھی تا کہ ساری جماعت ملکر انتخاب میں حصہ لے سکے۔ ویسے بھی شہباز شریف کے اعلان کے بعد بلدیاتی امیدواران کے لیے بھی آسانی ہوگی اور انھیں اندازہ ہوگا کہ وہ ایک بہتر ماحول میں انتخاب میں حصہ لے سکیں گے۔ انھیں جان بوجھ کر ہرانے کی کوشش نہیں ہوگی۔ ویسے بھی حال ہی میں گوجرانوالہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخاب میں جو ہوا ہے اس سے تو پوری مسلم لیگ (ن) کے اندرایک عجیب ماحول بن گیا ہے، انھیں ماحول بدلتا نظر آرہا ہے۔
یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ کیا واقعی شہباز شریف وزیر اعظم بن جائیں گے۔ اس میں ابھی بہت وقت ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کب انتخاب ہو رہے ہیں اور کس ماحول میں ہو رہے ہیں۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کر سکتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ واضح کر کے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے اگلے امیدوار میاں شہباز شریف ہیں، تمام قیاس آرائیوں اور ان مفروضات کو دفن کر دیا ہے جو شہباز شریف کا راستہ روکنے کے لیے بنائے جاتے تھے۔
ویسے تو خواجہ آصف نے بھی شاہد خاقان عباسی کے بیان کی نہ صرف توثیق کی ہے بلکہ کہا ہے کہ ان کی رائے بھی یہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے اگلے متفقہ امیدوار میاں شہباز شریف ہی ہیں۔ خواجہ آصف کی رائے سے تو پہلے ہی سب واقف تھے لیکن شاہد خاقان عباسی کی طرف سے اعلان آنے کے بعد یہ ابہام بھی ختم ہو گیا ہے کہ شہباز شریف کے وزیر اعظم کے امیدوار ہونے پر کہیں کوئی اختلاف ہے۔ اب بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزارت عظمیٰ کے متفقہ اور واحد امیدوار ہیں۔ ان کے مد مقابل کوئی نہیں ہے۔
یہ صورتحال واضح ہونے کے بعد ان تمام سیاسی قیاس آرائیوں کی بھی موت ہو گئی جن میں ن میں سے ش نکالنے کی بات کی جا رہی تھی۔جب شہباز شریف ن لیگ کے وزارت عظمیٰ کے متفقہ امیدوار ہیں تو ن میں سے ش نکلنے اور ش میں سے ن نکلنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔
ویسے تو شہباز شریف نے ماضی میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز کے اتحاد اور نواز شریف سے وفا کے لیے ایک نہیں تین مرتبہ وزارت عظمیٰ قربان کر چکے ہیں۔ اس لیے جہاں انھیں نظریاتی طور پر موجودہ ن لیگ کی مزاحمتی پالیسی سے اختلاف تھا وہاں سب جانتے تھے کہ اس اختلاف کی وجہ سے وہ ن لیگ کو نہیں چھوڑیں گے۔ ان کا نظریاتی اختلاف اپنی جگہ اور ن سے وفا اپنی جگہ۔ دونوں الگ الگ معاملات ہیں۔ اس لیے جو لوگ دونوں کو ملا کر کوئی منظر نامہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے، وہ پہلے بھی غلط تھے، اب بھی غلط ہیں۔
یہ بات بھی درست ہے کہ ایک وقت تھا کہ ن لیگ میں مفاہمت اور مل کرچلنے کی بات کرنے والے اکیلے شہباز شریف تھے۔ لیکن شہباز شریف اس سیاسی تنہائی سے فکر مند اور پریشان نہیں ہوئے۔ انھیں اپنی ہی جماعت میں بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ لیکن وہ اپنی بات کرتے رہے اور آج صورتحال بدل گئی ہے۔ پارٹی کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔
پارٹی کی سنیئر قیادت کی اکثریت بھی ان کے ساتھ ہے، جو پہلے ان کے خلاف بات کرتے تھے آج ان کی سیاسی بصیرت کا دم بھرتے ہیں۔ انھوں نے مسلم لیگ (ن) کا سارا ماحول ہی بدل دیا ہے۔ جس کی شکل ہم نے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں دیکھی۔مسلم لیگ (ن) نے محاذ آرائی کے بغیر ہی انتخاب جیتا۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ جیتنے کے لیے محاذ آرائی ناگزیر نہیں ہے۔
سوال یہ بھی اہم ہے کہ اس وقت شاہد خاقان عباسی کو یہ واضح کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے شہباز شریف ہی وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں حالانکہ ابھی انتخاب قریب بھی نہیں آرہے ۔ ملک میں کوئی انتخابی مہم بھی شروع نہیں ہوئی ہے۔ ایسے میں یہ وضاحت کیوں ضروری تھی ۔ سیاست کے رموز سمجھنے والے جانتے ہیں یہی بہترین وقت ہے۔
اگر اس موقع پر صورتحال واضح نہ کی جاتی تو ابہام کا مسلم لیگ (ن) کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا۔اس سے آگے باہمی اختلاف کا سب کو نقصان تھا۔ ایک تو ووٹر کو بھی ابہام سے نکالنا ضروری تھا۔ پارٹی کی دوسرے درجہ کی قیادت بھی بہت ابہام کا شکار تھی کہ آگے کیا ہوگا۔ کون پارٹی میں ہوگا؟ کون نہیں ہوگا؟ کس کا پتہ کٹ جائے گا اور کون بچ جائے گا۔ اس صورتحال کا پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مخالفین فائدہ اٹھا رہے تھے۔ ن اور ش کا شور مچایا جا رہا تھا۔ لیکن پارٹی کی دوسرے درجہ کی قیادت بھی ابہام کا شکار تھی ،جس کی یکسوئی بہت ضروری تھی۔
ویسے تو ملک میں قبل از وقت انتخابات کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار حکومت کے جانے کی پیش گوئی بھی کر رہے ہیں۔ لیکن اس سارے منظر نامہ سے قطع نظر اگر پنجاب میں بلدیاتی انتخابات بھی ہونے ہیں تب بھی ان انتخابات میں مسلم لیگ (ن ) کو ایک یکسوئی چاہیے تھی تا کہ ساری جماعت ملکر انتخاب میں حصہ لے سکے۔ ویسے بھی شہباز شریف کے اعلان کے بعد بلدیاتی امیدواران کے لیے بھی آسانی ہوگی اور انھیں اندازہ ہوگا کہ وہ ایک بہتر ماحول میں انتخاب میں حصہ لے سکیں گے۔ انھیں جان بوجھ کر ہرانے کی کوشش نہیں ہوگی۔ ویسے بھی حال ہی میں گوجرانوالہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخاب میں جو ہوا ہے اس سے تو پوری مسلم لیگ (ن) کے اندرایک عجیب ماحول بن گیا ہے، انھیں ماحول بدلتا نظر آرہا ہے۔
یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ کیا واقعی شہباز شریف وزیر اعظم بن جائیں گے۔ اس میں ابھی بہت وقت ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کب انتخاب ہو رہے ہیں اور کس ماحول میں ہو رہے ہیں۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کر سکتے ہیں۔