ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
آج ہم جس دوراہے پر کھڑے ہیں وہاں مزید کسی 16دسمبر کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
LONDON:
سقوط ڈھاکہ کو برپا ہوئے آج نصف صدی کا طویل عرصہ مکمل ہوچکا ہے لیکن اس سانحے سے ملنے والے زخم آج بھی تر و تازہ ہیں۔ 16دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب بھارت کی مذموم سازشوں سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت دولخت ہو گئی۔
بلاشبہ یہ ہمارے لیے ایک سبق آموز سانحہ تھا جو ہمیں چیخ چیخ کر یہ تلقین کررہا ہے کہ اتنے بڑے بڑے سانحات سے بھی سبق نہ سیکھنے والی قوموں کا مقدر زوال کے سوا کچھ نہیں ہوا کرتا۔ اس عظیم سانحہ کے محرکات کیا تھے اور ہم نے اس سے کیا سبق سیکھا؟ آئیے اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو یہ دو حصوں پر مشتمل ایک ریاست تھی، یہ بات کوئی انہونی نہیں تھی دنیا میں کئی ممالک ایسے موجود ہیں جو دو حصوں پر مشتمل ہیں۔ ہمارے سامنے مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی موجود ہیں، شمالی کوریا اور جنوبی کوریا موجود ہیں، مشرقی پولینڈ اور مغربی پولینڈ موجود ہیں۔ ان کے علاوہ بھی مثالیں موجود ہیں، لیکن کرہ زمین پر کوئی ایسا ملک نہیں تھا جس کے دو حصوں کے درمیان میلوں کا جغرافیائی فاصلہ ہو۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک تھا جس کے دو حصے تھے اور دونوں کے درمیان ایک ہزار میل سے زائد فاصلہ موجود تھا۔
دونوں حصوں میں آباد لوگوں کا بود و باش ایک تھا نہ زبان ایک تھی، ان کی ثقافت میں یگانگت تھی، نہ تہذیب میں کوئی مماثلت۔ پھر وہ کون سی شے تھی جس نے دو حصوں میں رہنے والوں کو ایک لڑی میں پرو دیا اور انھوں نے ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد آزادی کے نتیجے میں ایک آزاد وطن حاصل کرلیا؟وہ نظریہ اسلام ہی تھا جس نے دونوں حصوں کے رہنے والوں کو وحدت کی لڑی میں پرو دیا تھا، وہ کلمہ طیبہ ہی تھا جس نے اس لڑی کو سلامت رکھنا تھا۔
14اگست 1947 میں پاکستان بن گیا، ہم جس منزل کی تلاش میں نکلے تھے اس کا ایک مرحلہ مکمل ہوگیا اوراب ہمیں دوسرے مرحلے کے لیے آگے بڑھنا تھا یعنی اللہ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرنا تھا اس ملک میں کلمہ طیبہ کا عملی نفاذ کرنا تھا لیکن بد قسمتی سے ایک طویل عرصہ تک ملک میں آئین ہی نہیں بن سکا، حالانکہ یہ ملک جس مقصد کے لیے بنا تھا اس کے لیے ہمیں جس آئین کی ضرورت تھی وہ تو 14سو سال پہلے بن چکا تھا بس اس کا عملی نفاذ کرنا تھا جو نہ ہوسکا، یہی سقوط کا نکتۂ آغاز تھا۔
اس دوران ایک مخصوص ٹولے نے نظریۂ پاکستان کو ہی متنازع بنانا شروع کردیا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو اصل مقصد سے ہٹا کر ان کے دلوں میں محرومیوں کا احساس پیدا کیا گیا۔ ہماری ایک بڑی غلطی یہ بھی تھی کہ پاکستان بننے کے بعد ہم نے مشرقی پاکستان کے نظام تعلیم کو تبدیل نہیں کیا، وہاں اساتذہ کی اکثریت ہندو تھی جنھوں نے ہماری سیاسی غلطیوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور بڑی چالاکی سے نسل نو کے دلوں میں بدگمانیاں پیدا کیں، ان کے ذہنوں میں بٹھایا گیا کہ وسائل مشرقی پاکستان کے ہیں اور عیش مغربی پاکستان کے لوگ کررہے ہیں، انھیں بتایا گیا کہ لاہور کی سڑکوں سے مشرقی پاکستان کے پٹ سن کی بو آتی ہے۔
مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ جو سیاسی زیادتیاں ہوئیں وہ ایک حقیقت ہیں جن سے قطعی طور پر نظریں نہیں چرائی جاسکتیں، بدقسمتی سے دونوں حصوں کے درمیان سب سے پہلا مسئلہ جو پیدا ہوا وہ بنگالی زبان کو ''اسپیشل اسٹیٹس'' دینے کا مطالبہ تھا۔ مغربی پاکستان صر ف اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے پر تیار تھا۔
1948ہی میں مشرقی پاکستان کے عوام نے کرنسی نوٹوں اور ڈاک کی ٹکٹوں سے بنگالی زبان کے خاتمے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔ اس تحریک کو عروج 21فروری 1952کو ملا جب پولیس نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبہ پر گولی چلا دی اور دو طالب علم جاں بحق اور بیسیوں زخمی ہو گئے۔ مشرقی حصے کی آبادی متحدہ پاکستان کی آبادی کا 55 فیصد تھی۔ آبادی کا بڑا حصہ ہونے کے باوجود وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ تھی۔
پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی دستاویزات کے مطابق 1955 کے پانچ سالہ منصوبہ میں55 فیصد آبادی رکھنے والے مشرقی پاکستان پر متحدہ پاکستان کے بجٹ کا 31 فیصد خرچ کیا گیا۔ 1958 میں مارشل لاء نے بنگال کی سیاسی قوتوں کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا، صف اول کی سیاسی قیادت کو ایبڈو کے تحت سیاسی دھارے سے ہی باہر کردیا گیا، سیاسی معاملات کو دوسرے درجے کی سیاسی قیادت کے ذریعے چلایا گیا۔ جب حسین شہید سہروردی جیسے لیڈر ایبڈو کا شکار ہوگئے تو شیخ مجیب جیسے لوگ آگے آگئے جو پاکستان کے خلاف بات کرتے تھے حالانکہ حسین شہید سہروردی کی زندگی میں اسے کبھی پاکستان کے خلاف زبان کھولنے کی جرات نہیں ہوئی تھی۔1970 میں ہونے والے عام انتخابات اور ان کے نتائج کو تمام پارٹیوں نے تسلیم کیا۔
شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی جسے اقتدار منتقل نہ ہوسکا۔ اس بے اعتمادی، نااتفاقی اور جمہوریت کش پالیسی کے سبب پاکستان کے دونوں بازوؤں کا چلنا محال تھا لہٰذا سول و ملٹری قیادت کی ناکامی، بین الاقوامی سازش، بھارتی جارحیت اور مشرقی پاکستان کے باسیوں کی محرومی نے پاکستان کو دولخت کر ڈالا۔
بدقسمتی سے ہم آج پچاس سال گزرنے کے بعد بھی اس عظیم سانحہ کا الزام ایک دوسرے پر ڈال کر اپنا دامن بچا رہے ہیں لیکن اس سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ آج بھی وہی سیاسی غلطیاں دوہرائی جارہی ہیں جو سقوط ڈھاکہ کا سبب بنیں، ملک ٹوٹ گیا لیکن ہم نے باقی ماندہ ملک کو ہر آنے والے دن میں اس نظریہ سے دور کیا ہے جس کے لیے اسے حاصل کیا گیا تھا، آج بھی لوگوں کی رائے کو دبانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے، عوامی مینڈیٹ کی توہین ہوتی ہے، ادارے اپنی آئینی حدود کو پامال کرتے ہیں، کسی کے وسائل کہیں استعمال ہوتے ہیں، آج بھی چھوٹے صوبوں کے لوگوں میں احساس محرومی موجود ہے۔ بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سرائیکی بیلٹ کے لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔
اس ملک میں کنٹرولڈ جمہوریت کے ذریعے عوام کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ شفاف اور منصفانہ انتخابات محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے جس کی تعبیر کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ 2018کے انتخابات کو ہی دیکھ لیں، ماسوائے حکمران جماعت کے سب نے اسے دھاندلی زدہ الیکشن قرار دیا، اپوزیشن کی تمام جماعتیں پہلے دن سے ان انتخابات کی بنیاد پر بننے والی حکومتوں کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں لیکن انھیں اپنے مطالبات کے حق میں کوئی دروازہ کھلتا دکھائی نہیں دے رہا۔
آج بھی وسائل کی منصفانہ تقسیم صوبوں کے درمیان تنازع کا باعث ہے۔ قوم پرست جماعتیں ان ایشوز پر سب سے زیادہ احتجاج کرتی ہیں اور ملک دشمن قوتیں ایسی صورتحال کا بالکل اسی طرح فائدہ اٹھانے کے لیے تیار بیٹھی ہیں جیسے بھارت نے 71ء سے پہلے اٹھایا اور پاکستان کو دولخت کیا۔ جن حالات کی وجہ سے ہم آدھا ملک گنوا چکے ہیں، آج بھی ہمیں ان سے ملتے جلتے حالات کا سامنا ہے۔ آج ہم جس دوراہے پر کھڑے ہیں وہاں مزید کسی 16دسمبر کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
قوم پرستوں کو چاہیے کہ ہم سب دین کی نسبت سے ایک آفاقی رشتے سے منسلک ہیں، یہی وہ رشتہ ہے جو ہماری وحدت و اتحاد کا ضامن ہے، پھر یہی وحدت و اتحاد ہمیں ہمارے مسائل کا حل بھی دے گی، اسی کی طرف لوٹ کر آئیں۔ اسی طرح ریاست کو چاہیے کہ کسی کی قومیت کے جذبے کو غداری قرار نہ دے۔
ریاست ماں ہوتی ہے اور اگر ماں ہی کسی کو سوتیلا بنانے کی کوشش کرے گی تویہ طرز عمل اولاد کو بغاوت کا راستہ دکھائے گی۔ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر روشن مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ ورنہ... ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
سقوط ڈھاکہ کو برپا ہوئے آج نصف صدی کا طویل عرصہ مکمل ہوچکا ہے لیکن اس سانحے سے ملنے والے زخم آج بھی تر و تازہ ہیں۔ 16دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب بھارت کی مذموم سازشوں سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت دولخت ہو گئی۔
بلاشبہ یہ ہمارے لیے ایک سبق آموز سانحہ تھا جو ہمیں چیخ چیخ کر یہ تلقین کررہا ہے کہ اتنے بڑے بڑے سانحات سے بھی سبق نہ سیکھنے والی قوموں کا مقدر زوال کے سوا کچھ نہیں ہوا کرتا۔ اس عظیم سانحہ کے محرکات کیا تھے اور ہم نے اس سے کیا سبق سیکھا؟ آئیے اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو یہ دو حصوں پر مشتمل ایک ریاست تھی، یہ بات کوئی انہونی نہیں تھی دنیا میں کئی ممالک ایسے موجود ہیں جو دو حصوں پر مشتمل ہیں۔ ہمارے سامنے مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی موجود ہیں، شمالی کوریا اور جنوبی کوریا موجود ہیں، مشرقی پولینڈ اور مغربی پولینڈ موجود ہیں۔ ان کے علاوہ بھی مثالیں موجود ہیں، لیکن کرہ زمین پر کوئی ایسا ملک نہیں تھا جس کے دو حصوں کے درمیان میلوں کا جغرافیائی فاصلہ ہو۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک تھا جس کے دو حصے تھے اور دونوں کے درمیان ایک ہزار میل سے زائد فاصلہ موجود تھا۔
دونوں حصوں میں آباد لوگوں کا بود و باش ایک تھا نہ زبان ایک تھی، ان کی ثقافت میں یگانگت تھی، نہ تہذیب میں کوئی مماثلت۔ پھر وہ کون سی شے تھی جس نے دو حصوں میں رہنے والوں کو ایک لڑی میں پرو دیا اور انھوں نے ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد آزادی کے نتیجے میں ایک آزاد وطن حاصل کرلیا؟وہ نظریہ اسلام ہی تھا جس نے دونوں حصوں کے رہنے والوں کو وحدت کی لڑی میں پرو دیا تھا، وہ کلمہ طیبہ ہی تھا جس نے اس لڑی کو سلامت رکھنا تھا۔
14اگست 1947 میں پاکستان بن گیا، ہم جس منزل کی تلاش میں نکلے تھے اس کا ایک مرحلہ مکمل ہوگیا اوراب ہمیں دوسرے مرحلے کے لیے آگے بڑھنا تھا یعنی اللہ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرنا تھا اس ملک میں کلمہ طیبہ کا عملی نفاذ کرنا تھا لیکن بد قسمتی سے ایک طویل عرصہ تک ملک میں آئین ہی نہیں بن سکا، حالانکہ یہ ملک جس مقصد کے لیے بنا تھا اس کے لیے ہمیں جس آئین کی ضرورت تھی وہ تو 14سو سال پہلے بن چکا تھا بس اس کا عملی نفاذ کرنا تھا جو نہ ہوسکا، یہی سقوط کا نکتۂ آغاز تھا۔
اس دوران ایک مخصوص ٹولے نے نظریۂ پاکستان کو ہی متنازع بنانا شروع کردیا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو اصل مقصد سے ہٹا کر ان کے دلوں میں محرومیوں کا احساس پیدا کیا گیا۔ ہماری ایک بڑی غلطی یہ بھی تھی کہ پاکستان بننے کے بعد ہم نے مشرقی پاکستان کے نظام تعلیم کو تبدیل نہیں کیا، وہاں اساتذہ کی اکثریت ہندو تھی جنھوں نے ہماری سیاسی غلطیوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور بڑی چالاکی سے نسل نو کے دلوں میں بدگمانیاں پیدا کیں، ان کے ذہنوں میں بٹھایا گیا کہ وسائل مشرقی پاکستان کے ہیں اور عیش مغربی پاکستان کے لوگ کررہے ہیں، انھیں بتایا گیا کہ لاہور کی سڑکوں سے مشرقی پاکستان کے پٹ سن کی بو آتی ہے۔
مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ جو سیاسی زیادتیاں ہوئیں وہ ایک حقیقت ہیں جن سے قطعی طور پر نظریں نہیں چرائی جاسکتیں، بدقسمتی سے دونوں حصوں کے درمیان سب سے پہلا مسئلہ جو پیدا ہوا وہ بنگالی زبان کو ''اسپیشل اسٹیٹس'' دینے کا مطالبہ تھا۔ مغربی پاکستان صر ف اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے پر تیار تھا۔
1948ہی میں مشرقی پاکستان کے عوام نے کرنسی نوٹوں اور ڈاک کی ٹکٹوں سے بنگالی زبان کے خاتمے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔ اس تحریک کو عروج 21فروری 1952کو ملا جب پولیس نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبہ پر گولی چلا دی اور دو طالب علم جاں بحق اور بیسیوں زخمی ہو گئے۔ مشرقی حصے کی آبادی متحدہ پاکستان کی آبادی کا 55 فیصد تھی۔ آبادی کا بڑا حصہ ہونے کے باوجود وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ تھی۔
پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی دستاویزات کے مطابق 1955 کے پانچ سالہ منصوبہ میں55 فیصد آبادی رکھنے والے مشرقی پاکستان پر متحدہ پاکستان کے بجٹ کا 31 فیصد خرچ کیا گیا۔ 1958 میں مارشل لاء نے بنگال کی سیاسی قوتوں کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا، صف اول کی سیاسی قیادت کو ایبڈو کے تحت سیاسی دھارے سے ہی باہر کردیا گیا، سیاسی معاملات کو دوسرے درجے کی سیاسی قیادت کے ذریعے چلایا گیا۔ جب حسین شہید سہروردی جیسے لیڈر ایبڈو کا شکار ہوگئے تو شیخ مجیب جیسے لوگ آگے آگئے جو پاکستان کے خلاف بات کرتے تھے حالانکہ حسین شہید سہروردی کی زندگی میں اسے کبھی پاکستان کے خلاف زبان کھولنے کی جرات نہیں ہوئی تھی۔1970 میں ہونے والے عام انتخابات اور ان کے نتائج کو تمام پارٹیوں نے تسلیم کیا۔
شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی جسے اقتدار منتقل نہ ہوسکا۔ اس بے اعتمادی، نااتفاقی اور جمہوریت کش پالیسی کے سبب پاکستان کے دونوں بازوؤں کا چلنا محال تھا لہٰذا سول و ملٹری قیادت کی ناکامی، بین الاقوامی سازش، بھارتی جارحیت اور مشرقی پاکستان کے باسیوں کی محرومی نے پاکستان کو دولخت کر ڈالا۔
بدقسمتی سے ہم آج پچاس سال گزرنے کے بعد بھی اس عظیم سانحہ کا الزام ایک دوسرے پر ڈال کر اپنا دامن بچا رہے ہیں لیکن اس سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ آج بھی وہی سیاسی غلطیاں دوہرائی جارہی ہیں جو سقوط ڈھاکہ کا سبب بنیں، ملک ٹوٹ گیا لیکن ہم نے باقی ماندہ ملک کو ہر آنے والے دن میں اس نظریہ سے دور کیا ہے جس کے لیے اسے حاصل کیا گیا تھا، آج بھی لوگوں کی رائے کو دبانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے، عوامی مینڈیٹ کی توہین ہوتی ہے، ادارے اپنی آئینی حدود کو پامال کرتے ہیں، کسی کے وسائل کہیں استعمال ہوتے ہیں، آج بھی چھوٹے صوبوں کے لوگوں میں احساس محرومی موجود ہے۔ بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سرائیکی بیلٹ کے لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔
اس ملک میں کنٹرولڈ جمہوریت کے ذریعے عوام کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ شفاف اور منصفانہ انتخابات محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے جس کی تعبیر کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ 2018کے انتخابات کو ہی دیکھ لیں، ماسوائے حکمران جماعت کے سب نے اسے دھاندلی زدہ الیکشن قرار دیا، اپوزیشن کی تمام جماعتیں پہلے دن سے ان انتخابات کی بنیاد پر بننے والی حکومتوں کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں لیکن انھیں اپنے مطالبات کے حق میں کوئی دروازہ کھلتا دکھائی نہیں دے رہا۔
آج بھی وسائل کی منصفانہ تقسیم صوبوں کے درمیان تنازع کا باعث ہے۔ قوم پرست جماعتیں ان ایشوز پر سب سے زیادہ احتجاج کرتی ہیں اور ملک دشمن قوتیں ایسی صورتحال کا بالکل اسی طرح فائدہ اٹھانے کے لیے تیار بیٹھی ہیں جیسے بھارت نے 71ء سے پہلے اٹھایا اور پاکستان کو دولخت کیا۔ جن حالات کی وجہ سے ہم آدھا ملک گنوا چکے ہیں، آج بھی ہمیں ان سے ملتے جلتے حالات کا سامنا ہے۔ آج ہم جس دوراہے پر کھڑے ہیں وہاں مزید کسی 16دسمبر کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
قوم پرستوں کو چاہیے کہ ہم سب دین کی نسبت سے ایک آفاقی رشتے سے منسلک ہیں، یہی وہ رشتہ ہے جو ہماری وحدت و اتحاد کا ضامن ہے، پھر یہی وحدت و اتحاد ہمیں ہمارے مسائل کا حل بھی دے گی، اسی کی طرف لوٹ کر آئیں۔ اسی طرح ریاست کو چاہیے کہ کسی کی قومیت کے جذبے کو غداری قرار نہ دے۔
ریاست ماں ہوتی ہے اور اگر ماں ہی کسی کو سوتیلا بنانے کی کوشش کرے گی تویہ طرز عمل اولاد کو بغاوت کا راستہ دکھائے گی۔ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر روشن مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ ورنہ... ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔