شائقین اسٹیڈیم کیوں نہیں آ رہے
کم از کم آدھا اسٹیڈیم تو بھرنا چاہیے مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔
RAWALPINDI:
''کیا بات ہے ثاقب تم نے اس بار ٹکٹیں نہیں مانگیں،کیا ویسٹ انڈیز سے میچ دیکھنے کیلیے اسٹیڈیم جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے''
یہ جو آپ ایکسپریس کا اسپورٹس پیج دیکھتے ہیں اسے ثاقب ہی بناتے ہیں، کرکٹ کے بڑے شوقین ہیں، کراچی میں کوئی میچ ہو اور وہ نہ جائیں ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے، اسی لیے میں نے یہ سوال پوچھا، ثاقب کا جواب بڑا دلچسپ تھا کہ ''کسے دیکھنے کیلیے جائیں، ویسٹ انڈیز کی ٹیم میں ویسے ہی اسٹارز کم تھے،بعض جانے پہچانے ناموں میں سے بھی تین کورونا کی وجہ سے باہر ہو گئے۔ مزا تب ہی آتا ہے جب ٹکر کا مقابلہ ہو،کمزور ٹیم سے میچ کیوں دیکھنے جائیں''۔
یہ بات بالکل درست لگتی ہے،آپ نے نیشنل اسٹیڈیم میں پاکستان کی ویسٹ انڈیز سے سیریز کے ابتدائی 2 میچز ٹی وی پر دیکھے ہوں گے، پہلے میں تو خالی اسٹیڈیم کھلاڑیوں کو منہ چڑاتا رہا، دوسرے میں پہلے سے زیادہ لوگ آئے لیکن پھر بھی تعداد قلیل ہی تھی،ہم برسوں انٹرنیشنل کرکٹ کی میزبانی سے محروم رہے، اس دوران یہی کہتے رہے کہ کرکٹ سے محبت کرنے والی قوم کو مقابلے دیکھنے سے نہیں روکنا چاہیے۔
اب جب ملک میں کرکٹ ہو رہی ہے تو خالی اسٹیڈیم دیکھ کر بیرون ملک بھی لوگ کہتے ہوں گے کہ ''کیا پاکستانیوں کا کرکٹ کا شوق ختم ہو گیا'' حالیہ سیریز کیلیے پی سی بی نے ٹکٹوں کے نرخ مناسب رکھے،سب سے مہنگا ٹکٹ بھی دو ہزار روپے کا ہے، مگر ہمیشہ کی طرح مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ نے کچھ نہیں کیا، بہت سے لوگوں کو تو روڈ بلاک ہونے سے پتا چلا کہ یہاں کوئی سیریز ہو رہی ہے،آپ سچ سچ بتائیں کہ اس ویسٹ انڈین اسکواڈ کے کتنے کھلاڑیوں کو جانتے ہیں، ملک میں کرکٹ تو واپس آ گئی لیکن بدقسمتی سے بڑے کھلاڑی کم ہی آتے ہیں۔
ملک کا نام تو ساتھ لگا ہوتا ہے لیکن دوسرے درجے کے کرکٹرز کو بھیجا جاتا ہے، یہ پاکستانی شائقین کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہے، یقیناً پی سی بی دوسرے بورڈز پرسلیکشن کے حوالے سے زور نہیں ڈال سکتا لیکن کم از کم اتنا ممکن ہے کہ جو اسٹارز کو نہ بھیجے ان کے ملک میں بھی اپنے بعض بڑے کھلاڑیوں کو نہیں بھیجا جائے، تب ان کے ہوش ٹھکانے آئینگے، سیکیورٹی کی وجہ سے ویسے ہی اسٹیڈیم میں داخلہ اب آسان کام نہیں رہا، سخت اقدامات ضروری بھی ہیں لیکن اس سے لوگوں کو کافی پیدل چل کر میدان آنا پڑتا ہے، وہاں بھی تلاشی وغیرہ میں کافی وقت لگتا ہے، یہ سب کچھ ختم تو نہیں کیا جا سکتا لیکن سہولت دینا ممکن ہے، شہر کے مختلف علاقوں سے بسیں چلائیں جو شائقین کو لے کر آئیں، انھیں وہاں مناسب قیمت پر اچھے کھانے فراہم کریں۔
واش رومز وغیرہ صاف ستھرے رکھیں،میچ سے قبل یا بعد میں کوئی چھوٹا سا میوزیکل پروگرام رکھ لیں، ٹکٹ نمبر سے کوئی انعامی اسکیم شروع کریں، اگر آپ کرنا چاہیں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے لیکن پی سی بی والے سیریز کو بس رسمی کارروائی سمجھتے ہیں، ہر ٹور سے قبل ایک ایم او یو سائن ہوتا ہے، اس میں لکھا ہوتا ہے کہ اہم کھلاڑیوں کی شرکت یقینی بنائی جائے گی، پھر عمل کیوں نہیں ہوتا؟ ویسے بھی مہنگائی کے مارے عوام کی قوت خرید اب اتنی نہیں ہے کہ وہ غیر معروف کرکٹرز کیلیے پیسے خرچ کر کے اسٹیڈیم آئیں،اگر 200 روپے کا بھی ایک ٹکٹ ہے تو 5 افراد کی فیملی کے ایک ہزار روپے لگ جائیں گے، پھر آنے جانے کا کرایہ اور کھانے پینے پر الگ رقم صرف ہو گی۔
اس لیے لوگ کم اور کوالٹی کرکٹ ہی دیکھنے جائیں گے، راولپنڈی کا اسٹیڈیم چھوٹا ہے وہ تو چند ہزار افراد سے ہی بھرا بھرا لگنے لگتا ہے،لاہور میں میچ ہو تو اطراف کے شہروں سے بھی لوگ آ جاتے ہیں، کراچی کا معاملہ الگ ہے، مجھے حیرت ہے کہ بورڈ کو جب علم ہو گیا تھا کہ زیادہ ٹکٹ فروخت نہیں ہوئے تو اقدامات کیوں نہیں کیے؟ اسکول کے بچوں یا کالج اسٹوڈنٹس کو بلایا جا سکتا تھا لیکن ایسا کرتا کون؟ اب ہر کام رمیز راجہ کیسے کریں گے؟ ایسے معاملات تو دیگر آفیشلز کو دیکھنے چاہئیں، آپ کچھ زیادہ نہیں کر سکتے تو پی ایس ایل فرنچائزز کو ہی یہ کام سونپ دیں، کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سے کہیں کہ نیشنل اسٹیڈیم میں شائقین کو لانے کیلیے ساتھ دیں، لاہور قلندرز تو ایسے کاموں میں ماہر ہے۔
آپ اسے ٹاسک دیں کہ میچز کے دوران قذافی اسٹیڈیم میں لوگ آنے چاہئیں، دیکھیے گا کہ کتنا کراؤڈ اکھٹا ہو جاتا ہے، آپ کو سوچنا اور پھر عمل کرنا پڑتا ہے، بدقسمتی سے پی سی بی میں ایسا نہیں ہوتا، اسی لیے رمیز بھی پریشان ہیں کہ کہاں سے معاملات کو ٹھیک کریں، بجائے غلطی ماننے کے میڈیا ڈپارٹمنٹ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں جس اسٹینڈز میں کچھ شائقین موجود تھے وہاں کی تصاویر ''شکریہ کراچی'' کا کیپشن لگا کر سوشل میڈیا پر چلا کر لوگوں کو گمراہ کرتے رہا کہ جیسے 35 ہزار افراد آ گئے ہوں،آپ حقیقت کا سامنا کرکے لوگوں کو اسٹیڈیم آنے کی تحریک دلائیں ایسے کام تو نہ کریں، کورونا کے دنوں میں ویسے ہی اب بڑے ایونٹس ہونا آسان نہیں رہا، این سی او سی نے مکمل گنجائش کے مطابق شائقین کو آنے کی اجازت دے دی ہے۔
کم از کم آدھا اسٹیڈیم تو بھرنا چاہیے مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا،اسٹیڈیم میں داخلے کے وقت ویکسین سرٹیفکیٹ چیک کرنے میں بھی وقت لگا، میں نے کچھ دوستوں کیلیے آن لائن ٹکٹ خریدے، بڑا ہی اچھا اور آسان طریقہ تھا اور بمشکل تین سے چار منٹ ہی لگے ہوں گے، وہاں ویکسین سرٹیفکیٹ نمبر لکھا تو نام خود بخود آ گیا جو ٹکٹ پر بھی پرنٹ ہوا، اب اسٹیڈیم میں ٹکٹ اور شناختی کارڈ دیکھ کر جانے دینا چاہیے تھا۔
بغیر ویکسین سرٹیفکیٹ کے کوئی 12 سال سے زائد عمر کا شخص تو ٹکٹ خرید ہی نہیں سکتا، شناختی کارڈ چیک ہونے سے کسی اور کے جانے کا بھی امکان نہیں تھا، جب وسیم اکرم، شاہد آفریدی اور شعیب اختر جیسے لوگ خالی اسٹیڈیم پر مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں تو بورڈ کو بھی کچھ ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، فلاں ٹیم کو بلا لیا سیریز کرا لی، اس کا کریڈٹ اس وقت ملے گا جب لوگ میچز میں دلچسپی لیں گے،پی ایس ایل قریب ہے، اگر اقدامات نہ کیے تو آگے مزید مشکل وقت منتظر ہوگا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
''کیا بات ہے ثاقب تم نے اس بار ٹکٹیں نہیں مانگیں،کیا ویسٹ انڈیز سے میچ دیکھنے کیلیے اسٹیڈیم جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے''
یہ جو آپ ایکسپریس کا اسپورٹس پیج دیکھتے ہیں اسے ثاقب ہی بناتے ہیں، کرکٹ کے بڑے شوقین ہیں، کراچی میں کوئی میچ ہو اور وہ نہ جائیں ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے، اسی لیے میں نے یہ سوال پوچھا، ثاقب کا جواب بڑا دلچسپ تھا کہ ''کسے دیکھنے کیلیے جائیں، ویسٹ انڈیز کی ٹیم میں ویسے ہی اسٹارز کم تھے،بعض جانے پہچانے ناموں میں سے بھی تین کورونا کی وجہ سے باہر ہو گئے۔ مزا تب ہی آتا ہے جب ٹکر کا مقابلہ ہو،کمزور ٹیم سے میچ کیوں دیکھنے جائیں''۔
یہ بات بالکل درست لگتی ہے،آپ نے نیشنل اسٹیڈیم میں پاکستان کی ویسٹ انڈیز سے سیریز کے ابتدائی 2 میچز ٹی وی پر دیکھے ہوں گے، پہلے میں تو خالی اسٹیڈیم کھلاڑیوں کو منہ چڑاتا رہا، دوسرے میں پہلے سے زیادہ لوگ آئے لیکن پھر بھی تعداد قلیل ہی تھی،ہم برسوں انٹرنیشنل کرکٹ کی میزبانی سے محروم رہے، اس دوران یہی کہتے رہے کہ کرکٹ سے محبت کرنے والی قوم کو مقابلے دیکھنے سے نہیں روکنا چاہیے۔
اب جب ملک میں کرکٹ ہو رہی ہے تو خالی اسٹیڈیم دیکھ کر بیرون ملک بھی لوگ کہتے ہوں گے کہ ''کیا پاکستانیوں کا کرکٹ کا شوق ختم ہو گیا'' حالیہ سیریز کیلیے پی سی بی نے ٹکٹوں کے نرخ مناسب رکھے،سب سے مہنگا ٹکٹ بھی دو ہزار روپے کا ہے، مگر ہمیشہ کی طرح مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ نے کچھ نہیں کیا، بہت سے لوگوں کو تو روڈ بلاک ہونے سے پتا چلا کہ یہاں کوئی سیریز ہو رہی ہے،آپ سچ سچ بتائیں کہ اس ویسٹ انڈین اسکواڈ کے کتنے کھلاڑیوں کو جانتے ہیں، ملک میں کرکٹ تو واپس آ گئی لیکن بدقسمتی سے بڑے کھلاڑی کم ہی آتے ہیں۔
ملک کا نام تو ساتھ لگا ہوتا ہے لیکن دوسرے درجے کے کرکٹرز کو بھیجا جاتا ہے، یہ پاکستانی شائقین کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہے، یقیناً پی سی بی دوسرے بورڈز پرسلیکشن کے حوالے سے زور نہیں ڈال سکتا لیکن کم از کم اتنا ممکن ہے کہ جو اسٹارز کو نہ بھیجے ان کے ملک میں بھی اپنے بعض بڑے کھلاڑیوں کو نہیں بھیجا جائے، تب ان کے ہوش ٹھکانے آئینگے، سیکیورٹی کی وجہ سے ویسے ہی اسٹیڈیم میں داخلہ اب آسان کام نہیں رہا، سخت اقدامات ضروری بھی ہیں لیکن اس سے لوگوں کو کافی پیدل چل کر میدان آنا پڑتا ہے، وہاں بھی تلاشی وغیرہ میں کافی وقت لگتا ہے، یہ سب کچھ ختم تو نہیں کیا جا سکتا لیکن سہولت دینا ممکن ہے، شہر کے مختلف علاقوں سے بسیں چلائیں جو شائقین کو لے کر آئیں، انھیں وہاں مناسب قیمت پر اچھے کھانے فراہم کریں۔
واش رومز وغیرہ صاف ستھرے رکھیں،میچ سے قبل یا بعد میں کوئی چھوٹا سا میوزیکل پروگرام رکھ لیں، ٹکٹ نمبر سے کوئی انعامی اسکیم شروع کریں، اگر آپ کرنا چاہیں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے لیکن پی سی بی والے سیریز کو بس رسمی کارروائی سمجھتے ہیں، ہر ٹور سے قبل ایک ایم او یو سائن ہوتا ہے، اس میں لکھا ہوتا ہے کہ اہم کھلاڑیوں کی شرکت یقینی بنائی جائے گی، پھر عمل کیوں نہیں ہوتا؟ ویسے بھی مہنگائی کے مارے عوام کی قوت خرید اب اتنی نہیں ہے کہ وہ غیر معروف کرکٹرز کیلیے پیسے خرچ کر کے اسٹیڈیم آئیں،اگر 200 روپے کا بھی ایک ٹکٹ ہے تو 5 افراد کی فیملی کے ایک ہزار روپے لگ جائیں گے، پھر آنے جانے کا کرایہ اور کھانے پینے پر الگ رقم صرف ہو گی۔
اس لیے لوگ کم اور کوالٹی کرکٹ ہی دیکھنے جائیں گے، راولپنڈی کا اسٹیڈیم چھوٹا ہے وہ تو چند ہزار افراد سے ہی بھرا بھرا لگنے لگتا ہے،لاہور میں میچ ہو تو اطراف کے شہروں سے بھی لوگ آ جاتے ہیں، کراچی کا معاملہ الگ ہے، مجھے حیرت ہے کہ بورڈ کو جب علم ہو گیا تھا کہ زیادہ ٹکٹ فروخت نہیں ہوئے تو اقدامات کیوں نہیں کیے؟ اسکول کے بچوں یا کالج اسٹوڈنٹس کو بلایا جا سکتا تھا لیکن ایسا کرتا کون؟ اب ہر کام رمیز راجہ کیسے کریں گے؟ ایسے معاملات تو دیگر آفیشلز کو دیکھنے چاہئیں، آپ کچھ زیادہ نہیں کر سکتے تو پی ایس ایل فرنچائزز کو ہی یہ کام سونپ دیں، کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سے کہیں کہ نیشنل اسٹیڈیم میں شائقین کو لانے کیلیے ساتھ دیں، لاہور قلندرز تو ایسے کاموں میں ماہر ہے۔
آپ اسے ٹاسک دیں کہ میچز کے دوران قذافی اسٹیڈیم میں لوگ آنے چاہئیں، دیکھیے گا کہ کتنا کراؤڈ اکھٹا ہو جاتا ہے، آپ کو سوچنا اور پھر عمل کرنا پڑتا ہے، بدقسمتی سے پی سی بی میں ایسا نہیں ہوتا، اسی لیے رمیز بھی پریشان ہیں کہ کہاں سے معاملات کو ٹھیک کریں، بجائے غلطی ماننے کے میڈیا ڈپارٹمنٹ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں جس اسٹینڈز میں کچھ شائقین موجود تھے وہاں کی تصاویر ''شکریہ کراچی'' کا کیپشن لگا کر سوشل میڈیا پر چلا کر لوگوں کو گمراہ کرتے رہا کہ جیسے 35 ہزار افراد آ گئے ہوں،آپ حقیقت کا سامنا کرکے لوگوں کو اسٹیڈیم آنے کی تحریک دلائیں ایسے کام تو نہ کریں، کورونا کے دنوں میں ویسے ہی اب بڑے ایونٹس ہونا آسان نہیں رہا، این سی او سی نے مکمل گنجائش کے مطابق شائقین کو آنے کی اجازت دے دی ہے۔
کم از کم آدھا اسٹیڈیم تو بھرنا چاہیے مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا،اسٹیڈیم میں داخلے کے وقت ویکسین سرٹیفکیٹ چیک کرنے میں بھی وقت لگا، میں نے کچھ دوستوں کیلیے آن لائن ٹکٹ خریدے، بڑا ہی اچھا اور آسان طریقہ تھا اور بمشکل تین سے چار منٹ ہی لگے ہوں گے، وہاں ویکسین سرٹیفکیٹ نمبر لکھا تو نام خود بخود آ گیا جو ٹکٹ پر بھی پرنٹ ہوا، اب اسٹیڈیم میں ٹکٹ اور شناختی کارڈ دیکھ کر جانے دینا چاہیے تھا۔
بغیر ویکسین سرٹیفکیٹ کے کوئی 12 سال سے زائد عمر کا شخص تو ٹکٹ خرید ہی نہیں سکتا، شناختی کارڈ چیک ہونے سے کسی اور کے جانے کا بھی امکان نہیں تھا، جب وسیم اکرم، شاہد آفریدی اور شعیب اختر جیسے لوگ خالی اسٹیڈیم پر مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں تو بورڈ کو بھی کچھ ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، فلاں ٹیم کو بلا لیا سیریز کرا لی، اس کا کریڈٹ اس وقت ملے گا جب لوگ میچز میں دلچسپی لیں گے،پی ایس ایل قریب ہے، اگر اقدامات نہ کیے تو آگے مزید مشکل وقت منتظر ہوگا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)