غیور اختر
فلم، ٹی وی، اور اسٹیج کے معروف فنکار نے آخری وقت تک فن سے عملی وابستگی برقرار رکھی
غیور اختر فلم، ٹی وی، تھیٹر اور ریڈیو کا ایک بڑا نام ہے، جنہوں نے اداکاری، ڈائریکشن، ایکٹنگ اور صداکاری میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔
انہیں ڈرائیور سے لے کر جیلر سمیت کوئی بھی کردار دیا گیا ، انہوں نے ان کرداروں کو اپنی جاندار کردارنگاری سے امر کردیا۔ کرداروں کے ساتھ ان کے کہے ہوئے لفظ زبان زدوعام ہوئے جن میں ''اوہو ہو۔۔۔'' اور ''اللہ خیر تے بیڑے پار'' جیسے تکیہ کلام شامل ہیں۔اپنے اندازکا یہ فنکار نام کی طرح غیور اور وضع دار شخصیت کا مالک تھا، اسی لئے شاید مرتے دم تک اس نے حکومتی امداد لینے کی بجائے محنت کا دامن نہ چھوڑا اور بیماری کے باوجود آخری سانس تک ریڈیو پاکستان سے ہفتہ وار ''لہور لہور اے'' پروگرام کرتے رہے۔ دو سال قبل وہ روزنامہ ایکسپریس کے شوبز پیچ کے لئے ریڈیو کے حوالے سے ہفتہ وار کالم بھی لکھتے رہے۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ غیوراختر 1946ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔
ان کے بڑے بھائی ظل سبحان نے بھی اداکاری کے میدان میں اپنا نام کمایا۔ غیور اختر اے جی آفس میں ملازم تھے۔ انہیں تھیٹر میں ان کے بھائی ظل سبحان نے متعارف کرایا اور وہ پہلی بار 1970ء کو ہدایتکار اقبال آفندی کے ڈرامہ میں جلوہ گر ہوئے تاہم پی ٹی وی کی ڈرامہ سیریل ''سونا چاندی'' نے شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ مذکورہ ڈرامہ میں ان کا تکیہ کلام '' اوہو ہو۔۔''زبان زد عام ہوا۔ انہوں نے سٹیج ، ریڈیو ، ٹی وی اور فلم میں لازوال اداکاری کی۔ 2010ء میں ان پر فالج کا حملہ ہوا اور بعد ازاں شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کے باعث ان کے گردے اور دل بھی متاثر ہوئے تھے۔ ان کے مشہور ڈراموں میں ''سونا چاندی'' ، '' خواجہ اینڈ سن'' ، '' راہیں'' ، ''پت جھڑ'' ، '' وارث'' ، '' باؤ ٹرین'' ، ''فری ہٹ'' ، '' عینک والا جن'' ، '' جھوک سیال'' ، '' ہوا پہ رقص'' ، '' افسر بے کار خاص'' اور ''ستارہ'' شامل ہیں۔
بچوں کے مقبول ڈرامہ ''عینک والا جن'' میں انہوں نے سامری جادوگر کا کردار ادا کیا تھا۔انہوں نے ٹی وی ، ریڈیو کے ساتھ چند ایک فلموں میں بھی کام کیا جن میں ''محبت'' ، ''اصلی تے نقلی'' ، ''ڈائریکٹ حوالدار''فلمیں شامل ہیں ۔ فلم ''ڈائریکٹ حوالدار'' ان کا جیلر کا کردار فلم بینوں کو آج بھی یاد ہے۔ جبکہ ان کے سٹیج ڈرامے بھی بے حد مقبول ہوئے۔ جن میں ''ہکا بکا تے ریسٹورنٹ'' ، '' اج اکھاں وارث شاہ نوں'' ، '' چٹاککڑ بنڑے تے'' ا ور ''کتکتاڑیاں'' قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے آخری بار نجی ٹی وی کے پروگرام میں چودھری کا کردار نبھایا ۔ مرحوم ان دنوں ریڈیو پاکستان لاہور سے جمعہ اور ہفتہ کو نشر ہونیوالا پروگرام '' لہور لہور اے'' منیر نادر کے ساتھ مل کر رہے تھے۔ چھ فروری جمعرات کو ان کی طبیعت خراب ہونے پر سروسز ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے اور سات فروری کو انتقال کرگئے۔
مرحوم نے پسماندگان میں بیوہ ، دوبیٹے اسامہ غیور راجہ ، حمزہ غیور راجہ چھوڑے ہیں۔ ان کے دیرینہ ساتھی فنکار منیر نادر نے کہا کہ صاف گو اور منہ پر بات کرنیوالا انسان تھا،میرا اس سے 46 سال کا تعلق تھا ،مجھے یقین نہیں تھا کہ وہ اس طرح سے چھوڑ کر چلا جائیگا۔ اس کی جلالی طبیعت کی وجہ سے دوست واحباب کتراتے تھے مگر وہ میرا دوست تھا اور اسے ہینڈل میں ہی کرسکتا تھا ، اسی لئے پچھلے چھ ماہ سے ریڈیو پروگرام ''لہور لہوراے'' کر رہا تھا مگر شاید اب یہ پروگرام نہ کرسکوں۔ اداکارہ اور ایم پی اے کنول نے کہا کہ دبنگ شخصیت تھے ،شروع کے ایام میں غیور اختر سے بات نہیں کرتی تھی لیکن کچھ وقت بعد ان سے عقیدت ہوگئی۔ ان کے بچپن کے دوست راحت محمود نے بتایا کہ یہ اقبال ہائی سکول گڑھی شاہو میں پڑھتے تھے اور بہت اچھے باکسر تھے۔
میں نے شادی دیر سے کرنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مصروفیت ہی اتنی تھی کہ اس طرف دھیان ہی نہیں رہا۔ سنیئر صحافی اور اداکار ناصر نقوی نے کہا کہ دوستوں کا دوست اور خوددار انسان تھا۔ وہ ہر کام باقاعدہ نقطہ نظر کے تحت کرتا، جو بہت کم لوگوں کا خاصہ ہوتا ہے۔ اداکار نورالحسن نے کہا کہ وہ شاید پاکستان کے واحد فنکار ہیں کہ جن کے تکیہ کلام سب سے زیادہ مشہور ہوئے جن میں سے ''اوہو ہو۔۔۔'' کے علاوہ ڈرامہ پت جھڑمیں ''اللہ خیر تے بیڑے پار'' قابل ذکر ہے۔ اداکار سہیل احمد نے کہا کہ غیور اختر نے اپنی فطری اداکاری کی بدولت منفرد مقام حاصل کیا ۔ ان کی فنی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اداکار عرفان کھوسٹ نے کہا کہ مرحوم ان کے بچپن کے ساتھی اور بہت اچھے دوست تھے۔
انہوں پچاس برس تک ایک ہی شعبہ میں گزار دیے۔ غیور اختر انتہائی خود دار وضع دار انسان تھے ۔ فلم ، ٹی وی ، ریڈیو اور تھیٹر پر انہوں نے جتنا بھی کام کیا قابل تحسین ہے۔ سمن آباد کے رہائشی ان کے پرستار بزرگ محمد لطیف غوری نے کہا کہ میں سالہا سال سے ان کا بہت بڑا پرستار ہوں، کبھی کبھار ان سے ملنے آیا کرتا، پچھلے اتوار کو ملنے آیا اور تصویر اتروانے کا کہا تو انہوں نے کہا کہ اگلے اتوار آکر جتنی مرضی تصویر بنا لینا، مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ ہم سے دور جارہا ہے۔
عینک والا جن کے رمو بابا نے کہا کہ وہ اپنے شخصیت میں ایک انجمن تھے، جونیئرز کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرتے۔ اداکار حامد رانا نے کہا کہ وہ پیار کرنیوالی شخصیت تھی اگر کسی سے ناراضگی ہوتی تو اس کا برملا اظہار کردیتے ، یہی خوبی انہیں دوسروں سے منفرد کرتی تھی ۔ وزیرا طلاعات پرویز رشید، وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے غیور اختر کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیور اختر اپنے فن میں یکتا فنکار تھے۔ مرحوم کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائینگی۔ غیور اختر کے بیٹے اسامہ غیور کا کہنا تھا کہ مرحوم بہترین فنکار ہونے کے ساتھ انتہائی شفیق باپ بھی تھے، وہ ہمارے ساتھ ہمیشہ دوستوں کی پیش آتے تھے ان کے انتقال سے ہماری تو دنیا ہی اجڑ گئی ہے۔
انہیں ڈرائیور سے لے کر جیلر سمیت کوئی بھی کردار دیا گیا ، انہوں نے ان کرداروں کو اپنی جاندار کردارنگاری سے امر کردیا۔ کرداروں کے ساتھ ان کے کہے ہوئے لفظ زبان زدوعام ہوئے جن میں ''اوہو ہو۔۔۔'' اور ''اللہ خیر تے بیڑے پار'' جیسے تکیہ کلام شامل ہیں۔اپنے اندازکا یہ فنکار نام کی طرح غیور اور وضع دار شخصیت کا مالک تھا، اسی لئے شاید مرتے دم تک اس نے حکومتی امداد لینے کی بجائے محنت کا دامن نہ چھوڑا اور بیماری کے باوجود آخری سانس تک ریڈیو پاکستان سے ہفتہ وار ''لہور لہور اے'' پروگرام کرتے رہے۔ دو سال قبل وہ روزنامہ ایکسپریس کے شوبز پیچ کے لئے ریڈیو کے حوالے سے ہفتہ وار کالم بھی لکھتے رہے۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ غیوراختر 1946ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔
ان کے بڑے بھائی ظل سبحان نے بھی اداکاری کے میدان میں اپنا نام کمایا۔ غیور اختر اے جی آفس میں ملازم تھے۔ انہیں تھیٹر میں ان کے بھائی ظل سبحان نے متعارف کرایا اور وہ پہلی بار 1970ء کو ہدایتکار اقبال آفندی کے ڈرامہ میں جلوہ گر ہوئے تاہم پی ٹی وی کی ڈرامہ سیریل ''سونا چاندی'' نے شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ مذکورہ ڈرامہ میں ان کا تکیہ کلام '' اوہو ہو۔۔''زبان زد عام ہوا۔ انہوں نے سٹیج ، ریڈیو ، ٹی وی اور فلم میں لازوال اداکاری کی۔ 2010ء میں ان پر فالج کا حملہ ہوا اور بعد ازاں شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کے باعث ان کے گردے اور دل بھی متاثر ہوئے تھے۔ ان کے مشہور ڈراموں میں ''سونا چاندی'' ، '' خواجہ اینڈ سن'' ، '' راہیں'' ، ''پت جھڑ'' ، '' وارث'' ، '' باؤ ٹرین'' ، ''فری ہٹ'' ، '' عینک والا جن'' ، '' جھوک سیال'' ، '' ہوا پہ رقص'' ، '' افسر بے کار خاص'' اور ''ستارہ'' شامل ہیں۔
بچوں کے مقبول ڈرامہ ''عینک والا جن'' میں انہوں نے سامری جادوگر کا کردار ادا کیا تھا۔انہوں نے ٹی وی ، ریڈیو کے ساتھ چند ایک فلموں میں بھی کام کیا جن میں ''محبت'' ، ''اصلی تے نقلی'' ، ''ڈائریکٹ حوالدار''فلمیں شامل ہیں ۔ فلم ''ڈائریکٹ حوالدار'' ان کا جیلر کا کردار فلم بینوں کو آج بھی یاد ہے۔ جبکہ ان کے سٹیج ڈرامے بھی بے حد مقبول ہوئے۔ جن میں ''ہکا بکا تے ریسٹورنٹ'' ، '' اج اکھاں وارث شاہ نوں'' ، '' چٹاککڑ بنڑے تے'' ا ور ''کتکتاڑیاں'' قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے آخری بار نجی ٹی وی کے پروگرام میں چودھری کا کردار نبھایا ۔ مرحوم ان دنوں ریڈیو پاکستان لاہور سے جمعہ اور ہفتہ کو نشر ہونیوالا پروگرام '' لہور لہور اے'' منیر نادر کے ساتھ مل کر رہے تھے۔ چھ فروری جمعرات کو ان کی طبیعت خراب ہونے پر سروسز ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے اور سات فروری کو انتقال کرگئے۔
مرحوم نے پسماندگان میں بیوہ ، دوبیٹے اسامہ غیور راجہ ، حمزہ غیور راجہ چھوڑے ہیں۔ ان کے دیرینہ ساتھی فنکار منیر نادر نے کہا کہ صاف گو اور منہ پر بات کرنیوالا انسان تھا،میرا اس سے 46 سال کا تعلق تھا ،مجھے یقین نہیں تھا کہ وہ اس طرح سے چھوڑ کر چلا جائیگا۔ اس کی جلالی طبیعت کی وجہ سے دوست واحباب کتراتے تھے مگر وہ میرا دوست تھا اور اسے ہینڈل میں ہی کرسکتا تھا ، اسی لئے پچھلے چھ ماہ سے ریڈیو پروگرام ''لہور لہوراے'' کر رہا تھا مگر شاید اب یہ پروگرام نہ کرسکوں۔ اداکارہ اور ایم پی اے کنول نے کہا کہ دبنگ شخصیت تھے ،شروع کے ایام میں غیور اختر سے بات نہیں کرتی تھی لیکن کچھ وقت بعد ان سے عقیدت ہوگئی۔ ان کے بچپن کے دوست راحت محمود نے بتایا کہ یہ اقبال ہائی سکول گڑھی شاہو میں پڑھتے تھے اور بہت اچھے باکسر تھے۔
میں نے شادی دیر سے کرنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مصروفیت ہی اتنی تھی کہ اس طرف دھیان ہی نہیں رہا۔ سنیئر صحافی اور اداکار ناصر نقوی نے کہا کہ دوستوں کا دوست اور خوددار انسان تھا۔ وہ ہر کام باقاعدہ نقطہ نظر کے تحت کرتا، جو بہت کم لوگوں کا خاصہ ہوتا ہے۔ اداکار نورالحسن نے کہا کہ وہ شاید پاکستان کے واحد فنکار ہیں کہ جن کے تکیہ کلام سب سے زیادہ مشہور ہوئے جن میں سے ''اوہو ہو۔۔۔'' کے علاوہ ڈرامہ پت جھڑمیں ''اللہ خیر تے بیڑے پار'' قابل ذکر ہے۔ اداکار سہیل احمد نے کہا کہ غیور اختر نے اپنی فطری اداکاری کی بدولت منفرد مقام حاصل کیا ۔ ان کی فنی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اداکار عرفان کھوسٹ نے کہا کہ مرحوم ان کے بچپن کے ساتھی اور بہت اچھے دوست تھے۔
انہوں پچاس برس تک ایک ہی شعبہ میں گزار دیے۔ غیور اختر انتہائی خود دار وضع دار انسان تھے ۔ فلم ، ٹی وی ، ریڈیو اور تھیٹر پر انہوں نے جتنا بھی کام کیا قابل تحسین ہے۔ سمن آباد کے رہائشی ان کے پرستار بزرگ محمد لطیف غوری نے کہا کہ میں سالہا سال سے ان کا بہت بڑا پرستار ہوں، کبھی کبھار ان سے ملنے آیا کرتا، پچھلے اتوار کو ملنے آیا اور تصویر اتروانے کا کہا تو انہوں نے کہا کہ اگلے اتوار آکر جتنی مرضی تصویر بنا لینا، مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ ہم سے دور جارہا ہے۔
عینک والا جن کے رمو بابا نے کہا کہ وہ اپنے شخصیت میں ایک انجمن تھے، جونیئرز کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرتے۔ اداکار حامد رانا نے کہا کہ وہ پیار کرنیوالی شخصیت تھی اگر کسی سے ناراضگی ہوتی تو اس کا برملا اظہار کردیتے ، یہی خوبی انہیں دوسروں سے منفرد کرتی تھی ۔ وزیرا طلاعات پرویز رشید، وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے غیور اختر کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیور اختر اپنے فن میں یکتا فنکار تھے۔ مرحوم کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائینگی۔ غیور اختر کے بیٹے اسامہ غیور کا کہنا تھا کہ مرحوم بہترین فنکار ہونے کے ساتھ انتہائی شفیق باپ بھی تھے، وہ ہمارے ساتھ ہمیشہ دوستوں کی پیش آتے تھے ان کے انتقال سے ہماری تو دنیا ہی اجڑ گئی ہے۔