سلگتی یادیں
1971 میں مشرقی پاکستان کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت علیحدہ کیا گیا
کراچی:
زندگی کی شاہراہ پر آگے بڑھنے کےلبے ماضی کے بند دریچوں کو کھولتے رہنا چاہیے۔ انہی دریچوں کے اندر جھانکنے سے ہم اپنے حال اور مستقبل کی راہیں متعین کرسکتے ہیں۔ ماضی کی کچھ تلخ حقیقتیں جو وقتی طور پر تو فراموش ہوجاتی ہیں لیکن جونہی وہ دن اور مہینے لوٹ کر آتے ہیں تو دوبارہ سے یاد آنے لگتی ہیں۔ یہی تلخ یادیں اور حقیقتیں جو اندر ہی اندر کہیں دبی ہوتی ہیں دوبارہ سے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں سلگنے لگتی ہیں، جن کی تپش سے آپ کا پورا وجود اذیت سے دوچار ہوجاتا ہے۔ اور اگر ان یادوں کا تعلق ہماری قومی اور ملی وحدت کو پارہ پارہ کرنے سے ہو تو پھر جب تک جسم سے روح کا رشتہ قائم رہتا ہے ہماری روح ان اذیت ناک لمحوں کے بارے میں سوچ سوچ کر زخمی ہوتی رہتی ہے۔
1971 میں مشرقی پاکستان کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت علیحدہ کیا گیا۔ یہ سانحہ نہ صرف قومی وحدت کےلیے نقصان دہ ثابت ہوا بلکہ اس نے ہماری قومی غیرت کا بھی جنازہ نکال دیا۔ مشرقی پاکستان کے رہنے والوں کے ساتھ ساتھ مغربی پاکستان کے لوگ بھی ان لمحوں کے کرب و اذیت کو بھلا نہیں پائے بلکہ آج بھی کچھ مہاجرین بنگلہ دیش میں اس آس پر جی رہے ہیں کہ شاید پاکستان میں ہمیں رہنے کےلیے تھوڑی سی جگہ مل جائے۔
بے شک کچھ مخلص رہنماؤں کی قربانیوں اور کاوشوں کی وجہ سے پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ لیکن شیطان صفت عناصر کی سازشوں کی وجہ سے ملک و قوم کو اتنے بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ وہی لوگ جنہوں نے پاکستان سے بھرپور فائدہ اٹھایا وہی اس کو توڑنے کا باعث بنے۔ نوزائیدہ مملکت کو سمیٹنے کے بجائے اس کو دولخت کردیا گیا اور قصوروار ایک دوسرے کو گردانا گیا۔ اور پھر افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اتنے بڑے سانحے سے سبق حاصل نہ کیا گیا۔ بار بار وہی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں۔ دوسری طرف ہم نے نوجوان نسل کو اس کی وجوہات سے بالکل بے خبر رکھا۔ شاید نئی نسل اس کے بارے میں جاننا بھی نہیں چاہتی، انہیں اور بہت سے کام دھندوں میں الجھا دیا گیا ہے۔ اس میں بھی تو ہمارے سیاسی رہنماؤں کے وارے نیارے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے دل و دماغ میں شیطانی منصوبے رقصاں رہتے ہیں اور وہ عوام کو روٹی روزی کے چکروں میں سرگرداں رکھ کر اپنی تجوریوں کو بھرتے رہتے ہیں۔
وہ لوگ جو عوامی رہنما ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں آزادی کی قیمت کیونکر جان سکتے ہیں۔ اس ملک میں تو صرف حکومت کرنے کےلیے رہتے ہیں ورنہ ان کے کل اثاثے تو مغربی ممالک میں ہوتے ہیں اور عوام؟ وہ تو بے چارے بنے رہتے ہیں۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی آنکھیں بند کیے رہتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سقوطِ ڈھاکا کے بعد کم از کم عام لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیے تھیں لیکن ملک کے مختلف حصوں میں قوم و لسان کی بنیاد پر محرومی اور امتیاز کا سلسلہ برقرار رکھا گیا جس سے انارکی اور انتشار نے جنم لیا۔
اب بھی وقت ہے ہم اپنی نوجوان نسل کو سانحہ مشرقی پاکستان اور ملکی وحدت سے متعلق اہم امور کے بارے میں آگاہی دلائیں تاکہ خودغرض قیادت سے اس ملک کو پاک کیا جاسکے اور اس خطہ زمین پر اللہ کے دین کی حکمرانی قائم ہو اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان کے عوام صرف باتوں سے اس ملک کے ساتھ محبت کا دم نہ بھریں بلکہ عملی طور پر اس ملک کو مستحکم اور خوشحال بنانے کےلیے کام کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
زندگی کی شاہراہ پر آگے بڑھنے کےلبے ماضی کے بند دریچوں کو کھولتے رہنا چاہیے۔ انہی دریچوں کے اندر جھانکنے سے ہم اپنے حال اور مستقبل کی راہیں متعین کرسکتے ہیں۔ ماضی کی کچھ تلخ حقیقتیں جو وقتی طور پر تو فراموش ہوجاتی ہیں لیکن جونہی وہ دن اور مہینے لوٹ کر آتے ہیں تو دوبارہ سے یاد آنے لگتی ہیں۔ یہی تلخ یادیں اور حقیقتیں جو اندر ہی اندر کہیں دبی ہوتی ہیں دوبارہ سے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں سلگنے لگتی ہیں، جن کی تپش سے آپ کا پورا وجود اذیت سے دوچار ہوجاتا ہے۔ اور اگر ان یادوں کا تعلق ہماری قومی اور ملی وحدت کو پارہ پارہ کرنے سے ہو تو پھر جب تک جسم سے روح کا رشتہ قائم رہتا ہے ہماری روح ان اذیت ناک لمحوں کے بارے میں سوچ سوچ کر زخمی ہوتی رہتی ہے۔
1971 میں مشرقی پاکستان کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت علیحدہ کیا گیا۔ یہ سانحہ نہ صرف قومی وحدت کےلیے نقصان دہ ثابت ہوا بلکہ اس نے ہماری قومی غیرت کا بھی جنازہ نکال دیا۔ مشرقی پاکستان کے رہنے والوں کے ساتھ ساتھ مغربی پاکستان کے لوگ بھی ان لمحوں کے کرب و اذیت کو بھلا نہیں پائے بلکہ آج بھی کچھ مہاجرین بنگلہ دیش میں اس آس پر جی رہے ہیں کہ شاید پاکستان میں ہمیں رہنے کےلیے تھوڑی سی جگہ مل جائے۔
بے شک کچھ مخلص رہنماؤں کی قربانیوں اور کاوشوں کی وجہ سے پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ لیکن شیطان صفت عناصر کی سازشوں کی وجہ سے ملک و قوم کو اتنے بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ وہی لوگ جنہوں نے پاکستان سے بھرپور فائدہ اٹھایا وہی اس کو توڑنے کا باعث بنے۔ نوزائیدہ مملکت کو سمیٹنے کے بجائے اس کو دولخت کردیا گیا اور قصوروار ایک دوسرے کو گردانا گیا۔ اور پھر افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اتنے بڑے سانحے سے سبق حاصل نہ کیا گیا۔ بار بار وہی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں۔ دوسری طرف ہم نے نوجوان نسل کو اس کی وجوہات سے بالکل بے خبر رکھا۔ شاید نئی نسل اس کے بارے میں جاننا بھی نہیں چاہتی، انہیں اور بہت سے کام دھندوں میں الجھا دیا گیا ہے۔ اس میں بھی تو ہمارے سیاسی رہنماؤں کے وارے نیارے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے دل و دماغ میں شیطانی منصوبے رقصاں رہتے ہیں اور وہ عوام کو روٹی روزی کے چکروں میں سرگرداں رکھ کر اپنی تجوریوں کو بھرتے رہتے ہیں۔
وہ لوگ جو عوامی رہنما ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں آزادی کی قیمت کیونکر جان سکتے ہیں۔ اس ملک میں تو صرف حکومت کرنے کےلیے رہتے ہیں ورنہ ان کے کل اثاثے تو مغربی ممالک میں ہوتے ہیں اور عوام؟ وہ تو بے چارے بنے رہتے ہیں۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی آنکھیں بند کیے رہتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سقوطِ ڈھاکا کے بعد کم از کم عام لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیے تھیں لیکن ملک کے مختلف حصوں میں قوم و لسان کی بنیاد پر محرومی اور امتیاز کا سلسلہ برقرار رکھا گیا جس سے انارکی اور انتشار نے جنم لیا۔
اب بھی وقت ہے ہم اپنی نوجوان نسل کو سانحہ مشرقی پاکستان اور ملکی وحدت سے متعلق اہم امور کے بارے میں آگاہی دلائیں تاکہ خودغرض قیادت سے اس ملک کو پاک کیا جاسکے اور اس خطہ زمین پر اللہ کے دین کی حکمرانی قائم ہو اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان کے عوام صرف باتوں سے اس ملک کے ساتھ محبت کا دم نہ بھریں بلکہ عملی طور پر اس ملک کو مستحکم اور خوشحال بنانے کےلیے کام کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔