میاں صاحب آپ کا ایک پرانا وعدہ اور امریکا کا ایک پاکستانی نوجوان
ابھی نصف صدی بھی نہیں گزری کہ کروڑوں انسانوں کی امیدوں اور آرزوؤں کے دیس پر اداسی چھا گئی اور وہ...
ابھی نصف صدی بھی نہیں گزری کہ کروڑوں انسانوں کی امیدوں اور آرزوؤں کے دیس پر اداسی چھا گئی اور وہ لوگ جو کبھی لاکھوں کی تعداد میں اپنی زندگیاں ہتھیلی پر رکھ کر اس نئے وطن میں آئے تھے ان کے اس بھرے پرے ملک پر برے حکمرانوں کی نحوست چھا گئی اور آج وہ لاکھوں کی تعداد میں اپنے امنگوں بھرے اس ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہیں اور اس وطن سے باہر جانے کے راستے تلاش کر رہے ہیں جس کی تلاش میں انھوں نے غیروں کی غلامی میں صدی ڈیڑھ صدی تک صبر کیا۔ یہ سب ہم پاکستانیوں کی آپ بیتی ہے اور اس کی کسک ہمارے دل ہر وقت محسوس کرتے رہتے ہیں مگر اس اندوہناک کیفیت کے باوجود ایسے کتنے ہی پاکستانی ہیں جو پردیس میں سب کچھ ملنے کے باوجود اپنی مٹی کی خوشبو سے معطر رہتے ہیں۔ اس کو چومنے کے لیے بے تاب ہیں۔ مجھے یہ باتیں اپنے ایک عزیز ترین نوجوان کے تازہ پیغام سے یاد آئی ہیں جو نیو یارک امریکا کے ایک اعلیٰ کالج میں زیر تعلیم ہے۔
اس نے اپنی قابلیت سے یہاں مقابلے کے بعد داخلہ لیا ہے وہ لاہور کے اعلیٰ ترین اسکول ایچی سن کا طالب علم تھا اور وہ جس شعبے میں آگے پڑھنا چاہتا تھا اس کی اعلیٰ ترین تعلیم امریکا میں تھی چنانچہ وہ اپنے وطن اور پیاروں سے دور حصول تعلیم کے شوق میں وہاں چلا گیا جہاں کا فضائی سفر بھی دنوں راتوں پر پھیل جاتا ہے۔ وہاں وہ بہت مطمئن ہے کہ اس کا مقصد پورا ہو رہا ہے مگر ایک ماں کے جذبات کو اس کی دوری میں سکون کیسے ملے۔ سال ڈیڑھ سال تک اس کی گریجوایشن ہو گی جس میں اس نے شرکت کا مجھ سے وعدہ لیا ہے کہ میں اس وقت اس کے سامنے وہاں موجود رہوں۔ پاکستان واپسی کے لیے وہ اس قدر بے تاب ہے کہ واپسی کا ٹکٹ اس کی جیب میں رہتا ہے جب کہ ابھی ابھی وہ سردیوں کی چھٹیاں گزار کر حالات وطن سے بہت مایوس ہو کر گیا ہے لیکن یہ کہتا ہوا کہ وہ اور اس کے وہ ساتھی بھی جو پاکستان میں ہیں یا ملک سے باہر ہیں واپس لوٹ کر اپنے اس وطن کو گل و گلزار بنا دیں گے۔
ان باتوں والا انس حمید اعوان میرا نواسہ ہے اور اس کے والدین معاشی اعتبار سے پاکستان کے درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو گرانی کی وجہ سے دن بدن غریب ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا باپ اور ماں دونوں ملازمت پیشہ ہی باپ ڈاکٹر ماں ایک کالج کی معلمہ لاہور کے ایک پوش علاقے میں اپنا گھر ہے سب کچھ ہے مگر ملک کے حالات ایسے ہیں کہ جو پاکستانی باہر جاتا ہے وہ لوٹ کر نہیں آتا۔ بیٹا انس جب امریکا جا رہا تھا تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ لوٹ کر آئے گا۔ وہ رو پڑا کہ میں آپ لوگوں اور اپنے وطن کو چھوڑ کر کہاں جاؤں گا اور کہاں آرام سے رہوں گا۔ اس کی ماں نے جو اس کے جاتے ہی اداس ہو گئی تھی ایک آزاد نظم لکھی۔ وہ ایک خاموش شاعرہ بھی ہے
میری انگلی تھامے تمہارے چلنے کا پتہ ہی نہ چلا
تمہاری قلقاریوں کے قہقہوں میں بدلنے کا پتہ ہی نہ چلا
بچپن کے معصوم تقاضے جواں آرزؤں میں کھو گئے
تم بڑے ہوتے گئے اور تمہارے خواب بھی بڑے ہوتے گئے
کیا کریں کہ دل کے ٹکڑوں سے جدائی کچھ آسان نہیں ہے
مگر وطن عزیز میں سنہرے خوابوں کی تکمیل کا سامان نہیں ہے
ہم جیسے دیسوں میں مائیں یونہی فراق کے شعر
لکھا کرتی ہیں
کتنے ہی گھروں میں منتظر نگاہیں جانے والوں کی راہ
تکا کرتی ہیں
تمہارا بکھیرا ہوا سامان سمیٹ دیا ہے تمہارے
اگلی بار آنے تک
تمہارا پسندیدہ لحاف لپیٹ دیا
تمہارے اگلی بار آنے تک
سب کام ٹھیک چل رہے ہیں بس دل ذرا سا بے قرار سا ہے
کل ہی تو تم گئے ہو' کل ہی سے تمہارا انتظار ہے
پردیس کی تیزرو زندگی میں گم نانا کے کمزور ہوتے قدم
یاد رکھو گے
وہ جنھیں دور کرنے کا عزم لے کر گئے ہو وہ سب غم
یاد رکھو گے
اجلے موسموں میں اپنے وطن کی سلونی شامیں نہ بھول پاؤ گے
تم اپنی مٹی میں ایسے گندھے ہو' میں جانتی ہوں اسی مٹی کو لوٹ آؤ گے
اچھے وقتوں کی امیدیں' روشن دنوں کے خواب کچھ نہیں
یہ تمہارا دل لبھانے کو
اس وطن میں کچھ نہیں رکھا تمہارا دل لبھانے کو
اس وطن میں کچھ نہیں رکھا محبت کے سوا مگر محبت
میری جان کیا کم وجہ ہے لوٹ آنے کو
یہ ایک اداس ماں کا پیار نامہ ہے اور شکر ہے کہ دونوں ماں بیٹا وطن پر قربان ہونے کے جذبے سے سرشار ہیں۔ میں یہاں وزیراعظم میاں نواز شریف کو ان کی ایک تقریر اور ایک وعدہ یاد دلاتا ہوں جو انھوں نے غالباً پہلے دور وزارت میں ابوظہبی میں پاکستانیوں سے خطاب میں کیا تھا کہ آپ کا وطن ایسا ہو گا کہ آپ ملازمت اور روز گار کے لیے ملک سے باہر نہیں جائیں گے لوگ آپ کے ہاں آئیں گے۔
میاں صاحب کے ارادے اور تمنائیں اب بھی وہی ہیں لیکن اس بار ان کا طریق کار کچھ بدلا ہوا سا دکھائی دیتا ہے لیکن ایک عرض ہے کہ صرف 66 برسوں میں پاکستان کے بارے میں نہ بھارت بدلا ہے اور نہ پاکستانی بھارت کے بارے میں بدلے ہیں۔ زرداری صاحب نے کہا کہ ہر پاکستانی کے دل میں آدھا بھارتی ہے اور میاں صاحب تمام پردے اٹھا رہے ہیں لیکن وہ دیوار جو بھارت بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اس میں سے راستے کون نکالے گا۔ کیا کشمیر اپنے دریاؤں سمیت دیوار کے اس پار ہی رہ جائے گا۔ حکمران جانتے ہیں کہ وہ آتے جاتے رہتے ہیں لیکن ملک رہتے ہیں صرف 66 برس تک ہی نہیں۔ میں نے یہ کالم میاں صاحب کو ان کا ایک پرانا وعدہ یاد دلانے کے لیے لکھا ہے۔ ان کی اس وعدے والی تقریر کے دوران میں بھی حاضر تھا۔
اس نے اپنی قابلیت سے یہاں مقابلے کے بعد داخلہ لیا ہے وہ لاہور کے اعلیٰ ترین اسکول ایچی سن کا طالب علم تھا اور وہ جس شعبے میں آگے پڑھنا چاہتا تھا اس کی اعلیٰ ترین تعلیم امریکا میں تھی چنانچہ وہ اپنے وطن اور پیاروں سے دور حصول تعلیم کے شوق میں وہاں چلا گیا جہاں کا فضائی سفر بھی دنوں راتوں پر پھیل جاتا ہے۔ وہاں وہ بہت مطمئن ہے کہ اس کا مقصد پورا ہو رہا ہے مگر ایک ماں کے جذبات کو اس کی دوری میں سکون کیسے ملے۔ سال ڈیڑھ سال تک اس کی گریجوایشن ہو گی جس میں اس نے شرکت کا مجھ سے وعدہ لیا ہے کہ میں اس وقت اس کے سامنے وہاں موجود رہوں۔ پاکستان واپسی کے لیے وہ اس قدر بے تاب ہے کہ واپسی کا ٹکٹ اس کی جیب میں رہتا ہے جب کہ ابھی ابھی وہ سردیوں کی چھٹیاں گزار کر حالات وطن سے بہت مایوس ہو کر گیا ہے لیکن یہ کہتا ہوا کہ وہ اور اس کے وہ ساتھی بھی جو پاکستان میں ہیں یا ملک سے باہر ہیں واپس لوٹ کر اپنے اس وطن کو گل و گلزار بنا دیں گے۔
ان باتوں والا انس حمید اعوان میرا نواسہ ہے اور اس کے والدین معاشی اعتبار سے پاکستان کے درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو گرانی کی وجہ سے دن بدن غریب ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا باپ اور ماں دونوں ملازمت پیشہ ہی باپ ڈاکٹر ماں ایک کالج کی معلمہ لاہور کے ایک پوش علاقے میں اپنا گھر ہے سب کچھ ہے مگر ملک کے حالات ایسے ہیں کہ جو پاکستانی باہر جاتا ہے وہ لوٹ کر نہیں آتا۔ بیٹا انس جب امریکا جا رہا تھا تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ لوٹ کر آئے گا۔ وہ رو پڑا کہ میں آپ لوگوں اور اپنے وطن کو چھوڑ کر کہاں جاؤں گا اور کہاں آرام سے رہوں گا۔ اس کی ماں نے جو اس کے جاتے ہی اداس ہو گئی تھی ایک آزاد نظم لکھی۔ وہ ایک خاموش شاعرہ بھی ہے
میری انگلی تھامے تمہارے چلنے کا پتہ ہی نہ چلا
تمہاری قلقاریوں کے قہقہوں میں بدلنے کا پتہ ہی نہ چلا
بچپن کے معصوم تقاضے جواں آرزؤں میں کھو گئے
تم بڑے ہوتے گئے اور تمہارے خواب بھی بڑے ہوتے گئے
کیا کریں کہ دل کے ٹکڑوں سے جدائی کچھ آسان نہیں ہے
مگر وطن عزیز میں سنہرے خوابوں کی تکمیل کا سامان نہیں ہے
ہم جیسے دیسوں میں مائیں یونہی فراق کے شعر
لکھا کرتی ہیں
کتنے ہی گھروں میں منتظر نگاہیں جانے والوں کی راہ
تکا کرتی ہیں
تمہارا بکھیرا ہوا سامان سمیٹ دیا ہے تمہارے
اگلی بار آنے تک
تمہارا پسندیدہ لحاف لپیٹ دیا
تمہارے اگلی بار آنے تک
سب کام ٹھیک چل رہے ہیں بس دل ذرا سا بے قرار سا ہے
کل ہی تو تم گئے ہو' کل ہی سے تمہارا انتظار ہے
پردیس کی تیزرو زندگی میں گم نانا کے کمزور ہوتے قدم
یاد رکھو گے
وہ جنھیں دور کرنے کا عزم لے کر گئے ہو وہ سب غم
یاد رکھو گے
اجلے موسموں میں اپنے وطن کی سلونی شامیں نہ بھول پاؤ گے
تم اپنی مٹی میں ایسے گندھے ہو' میں جانتی ہوں اسی مٹی کو لوٹ آؤ گے
اچھے وقتوں کی امیدیں' روشن دنوں کے خواب کچھ نہیں
یہ تمہارا دل لبھانے کو
اس وطن میں کچھ نہیں رکھا تمہارا دل لبھانے کو
اس وطن میں کچھ نہیں رکھا محبت کے سوا مگر محبت
میری جان کیا کم وجہ ہے لوٹ آنے کو
یہ ایک اداس ماں کا پیار نامہ ہے اور شکر ہے کہ دونوں ماں بیٹا وطن پر قربان ہونے کے جذبے سے سرشار ہیں۔ میں یہاں وزیراعظم میاں نواز شریف کو ان کی ایک تقریر اور ایک وعدہ یاد دلاتا ہوں جو انھوں نے غالباً پہلے دور وزارت میں ابوظہبی میں پاکستانیوں سے خطاب میں کیا تھا کہ آپ کا وطن ایسا ہو گا کہ آپ ملازمت اور روز گار کے لیے ملک سے باہر نہیں جائیں گے لوگ آپ کے ہاں آئیں گے۔
میاں صاحب کے ارادے اور تمنائیں اب بھی وہی ہیں لیکن اس بار ان کا طریق کار کچھ بدلا ہوا سا دکھائی دیتا ہے لیکن ایک عرض ہے کہ صرف 66 برسوں میں پاکستان کے بارے میں نہ بھارت بدلا ہے اور نہ پاکستانی بھارت کے بارے میں بدلے ہیں۔ زرداری صاحب نے کہا کہ ہر پاکستانی کے دل میں آدھا بھارتی ہے اور میاں صاحب تمام پردے اٹھا رہے ہیں لیکن وہ دیوار جو بھارت بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اس میں سے راستے کون نکالے گا۔ کیا کشمیر اپنے دریاؤں سمیت دیوار کے اس پار ہی رہ جائے گا۔ حکمران جانتے ہیں کہ وہ آتے جاتے رہتے ہیں لیکن ملک رہتے ہیں صرف 66 برس تک ہی نہیں۔ میں نے یہ کالم میاں صاحب کو ان کا ایک پرانا وعدہ یاد دلانے کے لیے لکھا ہے۔ ان کی اس وعدے والی تقریر کے دوران میں بھی حاضر تھا۔