گوشت مہنگا کیوں
اینکر کے ہاتھ میں مائیک تھا اور وہ کسی کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔’’بات سُنیں جناب… بات سُنیں جناب‘‘لیکن جناب ...
اینکر کے ہاتھ میں مائیک تھا اور وہ کسی کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔''بات سُنیں جناب... بات سُنیں جناب''لیکن جناب صاحب بات سننے کے بجائے دوڑ کرکہیں روپوش ہو جاتے ہیں۔اینکر اِس ناکامی سے دِل بر داشتہ ہوئے بِنا ایک اور فرد کو تاڑ لیتا ہے۔اب وہ اُس کے پیچھے ہے۔بیچارا کیمرا مَین، کیمرا کاندھے سے ٹکائے، آنکھ ''ویوفائنڈر'' میں جمائے، اُس کے پیچھے پیچھے دوڑ رہا ہے،اُسے یہ بھی ڈر ہے کہ کہیں کسی چیز سے اُلجھ کر کیمرے سمیت منہ کے بل ہی نہ گرِ پڑے۔یہ ایک جدید طرز کی گوشت کی دُکان ہے جیسی آج کل ہمارے بڑے شہروں کے مہنگے علاقوں میں پائی جا رہی ہیں۔بڑے بڑے نام ور لوگ قصاب کے کاروبار سے وابستہ ہو کر اس کی شان بڑھا رہے ہیں۔ ایسی ہی کسی جگہ پر یہ تمام کود پھاند ہو رہی تھی۔اینکر اُس فرد کو کسی نہ کسی طرح کیمرے کے سامنے لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
موضوع تھا کہ یہاں گوشت مہنگا بیچا جا رہا ہے۔اینکر کی ہم نوائی میں کسی حکومتی محکمے کے کوئی اہل کار بھی ساتھ ساتھ رِگدتے پھر رہے تھے۔گاہے بہ گاہے اینکر انھیں بھی کیمرے تک رسائی فراہم کرتا،چند ادھر ادھر کے سوالات کرتا، اور وہ بڑے رِسان سے اپنی دانست میں مدبرانہ قسم کا جواب عنایت فرماتے۔اینکر پرسن کی محنت اور چیخم دھاڑ سے دکان کے ملازمین ہراساں نظر آتے تھے۔ ان ملازمین کے علاوہ وہاں موجود ہر فرد اِس بات کا قائل نظر آرہا تھا کہ گوشت مہنگا نہیں بیچا جانا چاہیے۔کوشش کے باوجود اینکر کی، دکان کے مالکان تک رَسائی نہیں ہو پا رہی تھی۔نہ ہی فون پر بات ہو سکی تھی۔ اونچی دکانوں پر اشیاء مہنگی ہوتی ہی ہیں۔ ''برانڈ'' کی قیمت ہوا کرتی ہے۔یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں جو کسِی پردہ کُشائی کے زُمرے میں آتا ہو یا جس سے عوام لاعلم ہوں۔ ہر فرد جانتا ہے کہ ایک کپ چائے کی قیمت فٹ پاتھ پر کیا ہوتی ہے، ریسٹو رنٹ میں کیا،اور پانچ ستاروں والے ہوٹل میں وہی ایک کپ چائے کتنے کی ملے گی۔یہ تمام حقائق ہمارے جیالے اینکر پرسن کے علم میں بھی ہیں لیکن اِسے کیا کیجیے کہ اُسے روزانہ کیمرے کے ساتھ روانہ کر دیا جاتا ہے کہ جاؤ بیٹا 50منٹ کی ٹیپ بھر لاؤ۔اُسے اپنی ''دہاڑی'' اور نوکری پکی کرنے،اور چینل کو ایک گھنٹہ گزارنے کے لیے کچھ تو چاہیے۔
اب دکان کے ملازمین میں سے کوئی وضاحتی بیان دے رہا تھا۔حالاں کہ اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔وہ مہنگا گوشت بیچ رہے ہیں، تو لوگ بھی تو دھڑادھڑ خرید رہے ہیں۔میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی؟معرکۃالآرا ناولوں کے تخلیق کار ابنِ صفی نے ایک مرتبہ گوشت مہنگا ہونے پر اپنی سی کوشش کی تھی۔آپ کا کہنا تھا کہ کسی مراسلے، کسی مظاہرے ،کسی احتجاج کی کوئی ضرورت نہیں۔ سب لوگ محض چند ہفتوں کے لیے گوشت کھانا چھوڑ دیں۔قیمتیں معمول پر آجائیں گی۔اپنے ناول کے پیش رَس میں آپ نے قارئین کو اس عمل پر اُکسانے کی کوشش بھی کی۔نتیجہ کیا نکلا؟وہ خود تو ایک عرصے تک مونگ کی دال پر گزارا کیے،لیکن نہ عوام نے گوشت کھانا چھوڑا ،نہ گوشت سستا ہی ہوا۔
دکان کا کوئی اہل کار وضاحت پیش کر رہا تھا۔ وہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہاں گوشت مہنگا کیوں ہے۔ چونکہ وہ حفظانِ صحت کے اصولوں کے عین مطابق کام کرتے ہیں، صفائی اور پیکنگ کا اعلیٰ انتظام ہے۔ایک ڈاکٹر ذبح ہونے سے پہلے جانور کا معائنہ کرتا ہے وغیرہ لیکن اُس نے یہ نہیں بتایا نہ ہی اس سے دریافت کیا گیا کہ وہ ڈاکٹر بھی اُن کا اپنا ملازم ہوتا ہے،اور یہ کہ ذبح ہونیوالے جانوروں کی خریداری بھی عام منڈیوں ہی سے ہوتی ہے۔اُن ہی منڈیوں سے جہاں سے عام گلی محلوں کے قصاب جانور خرید کر لاتے ہیں۔ یقینا ان کے ہاں صفائی کا معیار بلند ہوتا ہے لیکن ایک بات اس سے بھی اہم ہے اور وہ ایسی بات ہے کہ جس کی جانب کسی کا دھیان نہیں۔نہ اونچی دکان والوں کا نہ عام قصابوں کا۔دیکھئے ،ناقص صفائی یا کسی بھی وجہ سے اگر گوشت بیکٹریا سے آلودہ ہو بھی جائے،تو دھونے سے اور پکانے کے دوران ،گوشت اتنا وقت چولہے پر رہتا ہے کہ اُس کے بیش تر بیکٹریاز ختم ہو جاتے ہیں لیکن اگر کچھ زہریلے مادے گوشت میں سرایت کیے ہیں ،تو وہ تو دور نہیں ہو سکتے۔یہ سمجھنے کی بات ہے۔جانوروں کو ''کارٹی زون''، اینٹی بائیوٹکس ،تھرڈ جنریشن اینٹی بائیو ٹکس،وغیرہ دی جاتی ہیں۔دیگر خطرناک اور مہلک کیمیکلز کے انجکشنز لگائے جاتے ہیں۔یہ تمام زہر جانوروںکے دودھ،گوشت اور ہڈیوں میں موجود ہوتا ہے۔آپ اس زہر کو نکال نہیں سکتے۔پاکستان میں جانوروں کی خریداری عام منڈٖیوں سے ہوتی ہے۔یہاں جانور اکثر کھیت کھلیانوں سے آتے ہیں۔ہمارے کھیتوں میں نہ صرف یہ کہ نقد آور فصلوں کے لیے بلکہ سبزیوں اور پھلوں کے لیے بھی ایسی زہریلی اور کِرم کُش ادویات چھڑکی جاتی ہیں جو دنیا بھر میں ممنوع اور متروک ہو چکی ہیں۔ جانور اسی طرح کی جگہوں پر چرائی کرتے ہیں۔ وہ تمام تر خطرناک کیڑے مار دوائیں جانوروں کے گوشت کا حصہ بن جاتی ہیں۔یہ ہی گوشت دکانوں پر فروخت کے لیے آتا ہے اور ہم آپ کھاتے ہیں۔
جیف گِل مین پی ایچ ڈی،آپ امریکا کی یونی ورسٹی اوف مینی سوٹا میں باغبانی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔آپ کا کہنا ہے کہ ''غذاؤں کی کاشت کے جدید طریقوں میں بڑی مقدار میں''سینتھیٹک کیمیکلز'' کا استعمال کیا جاتا ہے۔ان میں سے بیش تر کیمیکل انسانوں کے لیے بے حد خطرناک ہیں۔نہ صرف ان کی کثیف مقدار مہلک ہے بلکہ ان کی قلیل مقدار کا مسلسل استعمال میں رہنا بھی خطرناک ہے۔''یہ خطرات صرف کِرم کُش ادویات یا اسپرے اور کارٹی زون ہی تک محدود نہیں ایک شدید تر خطرہ اینٹی بائیوٹک ادویات کا ہے۔ آج پاکستان میں اور دنیا بھر یہ ادویات اتنی موثر نہیں رہیں جتنی 10برس قبل ہوا کرتی تھیں۔جب ہم بے محابا ضدِ حیوی ادویات استعمال کرتے ہیں تو ہم ''سپر بگس'' بنا ڈالتے ہیں۔ ایسے بیکٹریا جن میں مزاحمت اور مدافعت پیدا ہو چکی ہوتی ہے۔جب انھیں اینٹی بائیو ٹکس دی جاتی ہیں تو ان پر بے اثر رہتی ہیں۔ایف ڈی اے رپورٹ کرتا ہے کہ مرغیوں کے گوشت میں ''فلوروکیو نولون''نامی ضد حیوی دوا دی جاتی ہے۔یہ خاص ''فلورو کیو نولون مزاحمتی بیکٹری'' کا باعث بنتی ہے۔یہ بیکٹریا صرف امریکا میں 10ہزار سے زائد افراد کی علالت کا سبب بنتا ہے۔
بعض افراد کا کہنا ہے کہ گزشتہ صدی کے مقابلے میں آج ہم لوگوں کے کھانے کے لیے فراوانی سے گوشت دستیاب ہے۔صنعتی پھیلاؤ اورمویشیوں کی صنعت کاری نے اسے ممکن بنایا ہے۔ممکن ہے یہ بالکل درست ہو۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج دستیاب گوشت کھائے جانے کے لائق بھی ہے؟