اقبال اکیسویں صدی کے تناظر میں

اسلام آباد اور بلوچستان کے مابین جو فکری تفاوت پائی جاتی ہے، ان میں ایک عنصر رضا و نفی کا بھی ہے۔


عابد میر February 10, 2014
[email protected]

اسلام آباد اور بلوچستان کے مابین جو فکری تفاوت پائی جاتی ہے، ان میں ایک عنصر رضا و نفی کا بھی ہے۔ اسلام آباد نے جو مسلمات تشکیل دیں، بلوچستان میں عمومی سطح پر ان کی نفی پائی جاتی ہے حتیٰ کہ یہ نظریاتی تفاوت بغض کی اس حد تک چلی گئی کہ جو اچھی چیز بھی اسلام آباد کے ہاتھ لگی، اس میں بھی اچھائی کا پہلو جاتا رہا۔ انھی مسلمات میں ایک اقبال بھی ہے۔ اقبال کی بطور شاعر نفی ناممکن ہے البتہ فکر ِ اقبال سے اختلاف کے پہلو نکل سکتے ہیں بالخصوص جب اس کے مفاہیم کی تشریح پرایک مخصوص فکرکی اجارہ داری ہو۔ حال ہی میں اس کا مظاہرہ ہمیں اسلام آباد میں دیکھنا پڑا۔یہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے ملحقہ اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فارریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کے زیراہتمام منعقدہ تین روزہ ورکشاپ تھی، جس میں بلوچستان سے کوئی ایک درجن کالج اساتذہ کے ساتھ آزادکشمیر میرپور سے اردو ادب کے چند طلبہ اور اساتذہ کو مدعو کیا گیا تھا۔

اس تین روزہ ورکشاپ کا عنوان تھا؛'' اقبال کے خیالات کی تفہیم ،اکیسویں صدی کے تناظر میں۔'' تین دنوں میں ایک درجن کے قریب اسکالرز کے مختلف موضوعات پہ لیکچرز رکھے گئے تھے، جن میں سوال و جواب کا سیشن بھی تھا اور مکالمے کا بھی تاکہ فکر اقبال کے مختلف گوشوں پہ کھل کر بات ہو سکے۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ ابتدائی سیشن میں ہی میری معروضات سے کچھ ایسے اختلافی پہلو نکل آئے کہ جس کے نتیجے میں معززمقررین اپنے طے شدہ موضوع سے ہٹ گئے۔ یہ ابتدائی سیشن 'مائی وژن آف اقبال' کے عنوان سے تھا،جس میں شرکا نے مختصراً اقبال سے متعلق اپنا علم یا خیال بیان کرنا تھا۔بلوچستان کے کالج اساتذہ میں سب سے جونیئر میں ہی تھا، اس لیے میں نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ بلوچستان میں اقبال شناسی کے دو حوالے ہیں؛ایک تو وہ جو نصاب میں ابتدا سے ہمیں پڑھایا جاتا ہے۔ دوسرا وہ جس کا تذکرہ ہمیں اپنے اکابرین کی تحریروں میں ملتا ہے۔ ہمارے یہ اکابراُنیس سو بیس کی دہائی میں بلوچستان میں کاغذ اور قلم سے وابستہ ہونے والے اولین بلوچ تھے۔

اُس زمانے میں چونکہ لاہور علمی و ثقافتی مرکز تھا،اس لیے علم حاصل کرنے یا اخبار چھاپنے کے لیے انھیں یہیں آنا پڑتا تھا۔ اور اُس زمانے میں چونکہ اقبال کا طوطی بولتا تھا، اس لیے یہ سب احباب اقبال کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتے۔ وہ سب ان سے متاثر تھے۔ انھی کی طرز میں شعر لکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہیں انھوں نے اقبال سے بلوچ کے لیے کچھ نہ لکھنے کا شکوہ کیا،انھی کی شکایت پہ اقبال نے بلوچ کے لیے اپنی معروف نظم 'بڈھے بلوچ کی نصیحت' لکھی۔میری عرض یہ ہے کہ اس ایک نظم کے علاوہ موجودہ بلوچستان میں اقبال کو غیر متعلق(Irrelevant ) بنا دیا گیا ہے ۔ ہم اپنے طلبہ کو سمجھا ہی نہیں پاتے کہ آج کے بلوچستان میں ان کے لیے اقبال کا پڑھنا کیونکر ضروری ہے؟ کیونکہ آج پاکستان میں بد امنی کا جو بیانیہ موجود ہے، ہمیں کہیں نہ کہیں اس میں فکر اقبال کا پرتو دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں یوں لگتا ہے کہ یا تو فکر اقبال کو ڈی کنسٹرکٹ کر کے ازسر نو اس کی تشریح کی جائے اور اسے موجودہ پاکستانی سماج سے ہم آہنگ کیا جائے، یا پھر پورے سماج کی ڈی کنسٹرکشن کر کے اسے فکراقبال سے ہم آہنگ کیا جائے۔

میری یہ معروضات ہمارے اولین مقرر پروفیسر ڈاکٹر احسان اکبر پہ اس قدر گراں گزریں کہ انھوں نے دس منٹ کا تخلیہ کیا اور واپس آکر اعلان کیا کہ وہ اپنے متعین شدہ لیکچر بعنوان'ضربِ کلیم اور اقبال' پہ بات کرنے کی بجائے بلوچ نوجوان کے افکارِ پریشاں پہ بات کریں گے اور اقبال کی عہد حاضر میں ریلیونسی ثابت کریں گے۔ چالیس منٹ کے ان کے لیکچر سے میں نے کوئی مزید پندرہ بیس سوال نکال لیے۔ جن میں سے چند ایک کے نامطمئن کردہ جواب دے کر ہی انھوں نے موضوع ختم کر دیا۔ ان کی بزرگی نے مجھے مزید خامہ فرسائی سے روک دیا۔ انھوں نے یہ کہہ کر تو مجھے واقعی حیرت میں ڈال دیا تھا کہ اقبال کی کسی کے کہنے پر 'بڈھے بلوچ کی نصیحت' لکھنے والی بات دھوکا ہے۔ میں حوالہ ہی دیتا رہ گیا کہ جناب یہ بات بلوچستان کے نامور محقق اور ادیب محمد حسین عنقا نے اپنی کتاب میں لکھی ہے ۔

اور یہ ساری روداد ان کی ایک طویل فارسی نظم میں محفوظ ہے۔ انھوں نے تو یہ تک ماننے سے انکار کر دیا کہ بلوچستان میں 47ء میں مسلم لیگ کے مطالبے کو شکست ہوئی تھی، اور بلوچستان کے دارالعوام اور دارالخاص میں بلوچستان کو پاکستان میں ضم کرنے کی تجویز اکثریتِ رائے سے مسترد ہو گئی تھی۔ میں نے حوالے کے لیے گل خان نصیر کی معروف کتاب'تاریخ بلوچستان' کا نام لیا،تو ہنس کے بولے،'انھیں تو ہم بس شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں ۔' میڈیا میں پھیلائی گئی معروف غلط فہمی کو دہراتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'سندھی شاہ جو رسالو کو پڑھ کر سمجھتے ہیں قرآن پڑھ لیا۔' اس پہ میرا سادہ سا سوال تھا،'آپ نے شاہ جو رسالو پڑھا ہے؟' اس کے سادہ سے جواب کی بجائے یہ بزرگ چپ سے ہوگئے۔

ان کا خیال تھا کہ اقبال سے متعلق میری پریشاں فکری کا سبب علی عباس جلال پوری کی کتاب ہے۔اس لیے فرمایا کہ انھوں نے اس کتاب کا جواب لکھا ہے، اسے ضرور پڑھا جائے۔ لیکن انھوں نے نہ تواس کی کتابی صورت سے متعلق تفصیلات جاننے کا موقع دیا نہ یہ پوچھنے کا کہ جلال پوری صاحب کی بات تو پرانی ہو گئی،حال ہی میں میانوالی کے ایک گوشہ نشین عالم نصیر شاہ نے 'فکر اقبال کے ساتھ کچھ شامیں' اور یہیں کہیں اسلام آباد میں پڑھانے والے ڈاکٹر صلاح الدین درویش نے 'فکراقبال کا المیہ' نامی تنقیدی کتب بھی لکھی ہیں، ان سے متعلق کیا خیال ہے؟

پہلے دن کے اس مایوس کن آغاز کی نسبت آیندہ روز کا آغاز نسبتاً بہتر ہوا۔ دوسرے دن کے پہلے مقرر ڈاکٹر ایوب صابر میرے مطالعے میں رہ چکے تھے۔ اقبال شناسی میں ان کا نام جانا پہچانا ہے۔ انھوں نے اقبال کی شہرہ آفاق نظم 'مسجد قرطبہ' کے تصورات اور خیالات پہ بات کرنا تھی۔ لیکن 'بلوچ بغاوت' کا تذکرہ شاید ان تک بھی پہنچ چکا تھا۔ اس لیے انھوں نے خلافِ معمول 'بڈھے بلوچ کی نصیحت،بیٹے کو' پہ بات کی۔اور خلافِ توقع ان کا لیکچر مایوس کن رہا۔ انھوں نے بھی بجائے نظم کے مرکزی خیال پہ بات کرنے کے، اشعار کی ایک ایک کر کے کچھ یوں تشریح کی جیسے کالج اساتذہ اپنی کلاس میں کرتے ہیں۔ نیز ان کی گفتگو میں بھی کئی اختلافی نقاط تھے، لیکن انھوں نے سوال کا موقع ہی نہ دیا۔ مجھے ان کے منہ سے یہ مطالبہ عجیب لگا کہ ہم چاہتے ہیں کہ نصاب وفاق کے پاس ہو اور اس کے ذریعے قوم سازی کی جائے۔یہ ایک طرح سے اکثریتی جمہوری اسمبلی کے اس قانون کو رد کرنے کے مترادف ہے، جس نے اٹھاوریں ترمیم میں تعلیم کا شعبہ صوبوں کے حوالے کر دیاہے ۔ نیز 'قوم سازی' کی ترکیب ہی اپنی وضع میں مضحکہ خیز ہے۔ افسوس کہ بحث نہ ہوپانے کے باعث ہم اس بابت ان کے علم سے مستفید نہ ہو پائے۔

ان کے بعدآئی آر ڈی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طالب حسین سیال نے خودی کے قرآنی و تاریخی تناظر پہ بات کی۔ اور نہایت پتے کی بات کی۔ ان سے کلی اتفاق نہ ہونے کے باوجود ان کا لیکچر نہایت پرتاثیر رہا۔ وقت کی کمی کے باوجود وہ اپنی بات نہایت کامیابی سے سامعین تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ ان کے بعد پوسٹ گریجویٹ کالج میرپور کے پرنسپل ڈاکٹر عارف خان آئے، جن کا یہ دعویٰ تھا کہ سوشل سائنسز کی کوئی ایسی صنف نہیں جس میں انھوں نے خامہ فرسائی نہ کی ہو،نیز یہ دعویٰ بھی کہ 'میں نے بغاوت کے سوا کچھ نہیں لکھا۔'لیکن وہ جب' فلسفہ اقبال کا جوہر' پہ بات کرنے آئے،تو اپنی ہی کتاب 'پاکستان سے اقبالستان تک' کے چند صفحے پڑھ ڈالے ،جو نہایت روایتی ثابت ہوئے۔ اس قدر روایتی کہ جن میں سوال کی گنجائش تک نہ تھی۔

دوسرے دن کا آخری لیکچر سرگودھا سے آئے ہارون الرشید تبسم کا تھا۔ انھوں نے لکھے ہوئے لیکچر کی بجائے زبانی گفت گو کو ترجیح دی۔ ان کی یہ گفتگو بے ربط بھی رہی اور موضوع سے غیر متعلق بھی۔ انھوں کا موضوع تھا،''اقبال بحیثیت ادبی نقاد''، اور انھوں نے یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ ہم سب کو چاہیے کہ ہم سب اقبال کا دفاع کریں ،اس پہ تنقید نہ کریں۔ تبسم صاحب اقبال کے ان چاہنے والوں میں سے تھے جو انھیں پیرومرشد ہی نہیں مانتے بلکہ کسی ولی،بزرگ سے کم بھی نہیں جانتے۔ اقبال سے انھیں عقیدت ہے، اور عقیدت اندھی ہی نہیں بہری بھی ہوتی ہے۔ اس لیے ان کے سامنے کچھ بولنا بے کار تھا، سو چپ رہے، اور سنتے رہے۔

فکر اقبال اور بلوچستان ،اسلام آباد میں کیسے خلط ملط ہوتے رہے، نیز آج کا بلوچستان اقبال کو اس کے فکری و شاعرانہ تناظر میں کیسے دیکھتا ہے،اس پہ آیندہ کسی نشست میں بات ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں