افغان مسائل پر OIC وزرائے خارجہ کانفرنس
طالبان کا یہ دوسرا دَورِ حکومت ہے اور یہ دَور بھی دگرگوں ثابت ہوتا چلا جا رہا ہے
KABUL:
دوروز بعد اسلام آباد میں افغانستان کے معاشی و سماجی و سفارتی مسائل حل کرنے کے لیے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس ہو رہی ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان اس کی میزبانی کررہے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق:ایجنڈا یہ ہے کہ افغانستان کو درپیش مہیب اور سنگین مسائل سے نجات دلانے کے لیے فوری بندوبست کیا جانا چاہیے۔
طالبان کا یہ دوسرا دَورِ حکومت ہے اور یہ دَور بھی دگرگوں ثابت ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب ''او آئی سی'' کے وزرائے خارجہ کے مشورے اور صلاح کے ساتھ افغانستان کے عوام کی معاشی بہبود کا کوئی فوری راستہ نکالنے کی سبیل کرنا چاہتے ہیں ۔اس موقعے پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ '' افغان عوام کی ہر ممکن امداد کی جائے گی۔''
افغان طالبان کو افغانستان پر حکومت قائم کیے پانچواں مہینہ گزررہا ہے لیکن ابھی تک افغانستان کے مسائل و مصائب کم نہیں ہو پا رہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کی حکومت کو ابھی تک دُنیا نے تسلیم ہی نہیں کیا ہے۔
اس کے منفی سفارتی اور اقتصادی اثرات پاکستان پر بھی مرتّب ہو رہے ہیں۔ افغانستان سے امریکی و اتحادی فوجوں کے نکلنے کے بعد اُمید بندھی تھی کہ افغانستان میں امن و سکون اور خوشحالی قدم جما سکے گی لیکن یہ اُمید یں بھی پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ طالبان کا دُنیا سے پہلا مطالبہ ہی یہ تھا کہ امریکی فوجیں نکلیں گی تو سارے معاملات کا حل بھی نکل آئے گا۔ امریکی فوجوں نے افغانستان چھوڑ دیا لیکن اس کے مصائب کم نہیں ہو سکے ہیں ۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب اور بجا ہوگا کہ افغانستان کے حالات زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔ ہر افغانی ملک سے بھاگ جانا چاہتا ہے ۔
افغان طالبان نے کوئی ایسا ماڈل بھی نہیں رکھا ہے جسے دیکھ کر افغانیوں میں اُمید اور جوش پیدا ہو سکے۔ خصوصاً افغان خواتین اور افغان طالبات کے لیے حالات حوصلہ افزا ثابت نہیں ہُوئے ہیں۔ افغانستان میں ورکنگ لیڈیز کے لیے دائرہ کار محدود تر کر دیے گئے ہیں۔افغانستان کے بیشتر صوبوں میں ابھی تک لڑکیوں کے اسکولز بند ہیں ۔
دُنیا افغان طالبان کے ان اقدامات کو کڑی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ خواتین کے حوالے سے افغان طالبان نے عالمی برادری سے کیے گئے وعدے بھی پورے نہیں کیے ہیں۔ یوں افغانستان کے لیے یورپی یونین اور امریکی اعانت و امداد کے دروازے بھی بند ہیں۔ امریکا نے ابھی تک افغانستان کے منجمد کیے گئے 9 ارب ڈالرز کے اثاثے بھی واگزار نہیں کیے ہیں۔
کہا گیا ہے کہ افغان طالبان نے رُوس کو بھی افغانستان میں شکست دی اور امریکیوں کو بھی ؛ چنانچہ اب توقع کی جا رہی تھی کہ وہی طالبان تنِ تنہا افغانستان کو درپیش غربت و عسرت کی جنگ کو بھی شکست دیں گے۔ ایسا مگر نہیں ہو سکا ہے۔ بلکہ افغانستان کی تنگدستی اور معاشی مسائل کو دُور کرنے کے امکانات بھی کہیں نظر نہیں آ رہے۔
افغان طالبان کے سخت رویے افغان عوام کے لیے مصائب کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان کے اپنے معاشی مسائل کمر شکن ہیں لیکن اس کے باوصف ہم افغانستان کی ہر ممکنہ مدد کررہے ہیں۔ 16دسمبر 2021ء کو وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ ''افغان عوام کے لیے پانچ ارب روپے کی امداد مختص کر دی ہے ۔'' اس کے باوجود طالبان مطمئن نہیں ہیں۔ افغان حکومت کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد،کے ایک حالیہ انٹرویو نے پاکستان اور عوام کو خاصا ناراض کیا ہے۔
ٹی ٹی پی کی مبینہ زیادتیوں کے حوالے سے بھی افغان طالبان، پاکستان کی واضح دستگیری کرنے پر تیار نہیں ہیں۔افغان طالبان کے ان رویوں نے پاکستانی عوام کو سخت مایوس کیا ہے۔ اس عدم تعاون کے باوجود یہ پاکستان ہی ہے جو اَب سعودی عرب، کے تعاون سے او آئی سی کے بینر تلے، افغانستان کے مسائل و مصائب حل کرنے کی کوئی سبیل نکالنا چاہتا ہے۔
افغانستان کے معاشی اور سفارتی مسائل اُسی وقت حل ہوں گے جب امریکا افغانستان اور پاکستان کی مدد کے لیے آگے بڑھے گا۔امریکا عدم تعاون سے افغانستان کے مصائب بڑھ رہے ہیں۔ اس کا اندازہ حالیہ ایام میں ''الجزیرہ'' میں شایع ہونے والی وہ قسط وار کہانی خاصی دلخراش ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان کی کئی استانیوں نے اسکولز کی ملازمتوں سے محروم ہو کر بوٹ پالش کرنا شروع کر دیے ہیں۔
ایسی استانیوں میں ہادیہ نامی خاتون کی کہانی اور تصویر تو واقعی دل دہلا دیتی ہے۔ ان کہانیوں کی اشاعت کے باوجود افغان طالبان خواتین کو ملازمت کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ یوں بھی دُنیا کے سامنے افغانستان کا چہرہ گہنا رہا ہے۔
رواں لمحوں میں افغانستان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ افغانیوں کو اُمید اور حوصلہ دیا جائے۔ شومئی قسمت سے افغان طالبان کے بعض اقدامات اور فیصلوں سے افغان شہریوں کے حوصلے ٹوٹ رہے ہیں۔ افغانستان سے فرار ہو کر یورپ میں پناہ لینے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ابھی چند دن پہلے یورپی یونین نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ 40ہزار کی تعداد میں نئے افغان مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دے گا۔
جرمنی واحد ملک ہے جو زیادہ تعداد میں افغان مہاجرین کو اپنے ہاں جذب کرنے کی پیش کش کررہا ہے۔ اس کے بعد نیدر لینڈ، اسپین اور فرانس کی باری آتی ہے۔ یہ بھی غنیمت ہے۔ لیکن افغانیوں کو اب ہجرت کرنے، خود کو مظلوم ثابت کرنے اور مالی اعانت کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پاکستان میں چالیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کو بھی واپس اپنے وطن جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس سے قبل کہ میزبان ملک کے شہری ان کے وجود سے عاجز آ جائیں۔حاکم افغان طالبان کو بھی اپنی ہٹ دھرمی سے دستکش ہونا پڑے گا۔طالبان کے کئی غیر لچکدار رویوں کے سبب بھی دُنیا تعاون کے لیے تیار نہیں ہو رہی۔ جب تک افغان طالبان پاکستان کے احسانات کو تسلیم کرتے ہُوئے آگے نہیں بڑھتے، اسلام آباد کی او آئی سی کانفرنس بھی کچھ زیادہ ثمر آور ثابت نہیں ہوگی ۔
دوروز بعد اسلام آباد میں افغانستان کے معاشی و سماجی و سفارتی مسائل حل کرنے کے لیے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس ہو رہی ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان اس کی میزبانی کررہے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق:ایجنڈا یہ ہے کہ افغانستان کو درپیش مہیب اور سنگین مسائل سے نجات دلانے کے لیے فوری بندوبست کیا جانا چاہیے۔
طالبان کا یہ دوسرا دَورِ حکومت ہے اور یہ دَور بھی دگرگوں ثابت ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب ''او آئی سی'' کے وزرائے خارجہ کے مشورے اور صلاح کے ساتھ افغانستان کے عوام کی معاشی بہبود کا کوئی فوری راستہ نکالنے کی سبیل کرنا چاہتے ہیں ۔اس موقعے پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ '' افغان عوام کی ہر ممکن امداد کی جائے گی۔''
افغان طالبان کو افغانستان پر حکومت قائم کیے پانچواں مہینہ گزررہا ہے لیکن ابھی تک افغانستان کے مسائل و مصائب کم نہیں ہو پا رہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کی حکومت کو ابھی تک دُنیا نے تسلیم ہی نہیں کیا ہے۔
اس کے منفی سفارتی اور اقتصادی اثرات پاکستان پر بھی مرتّب ہو رہے ہیں۔ افغانستان سے امریکی و اتحادی فوجوں کے نکلنے کے بعد اُمید بندھی تھی کہ افغانستان میں امن و سکون اور خوشحالی قدم جما سکے گی لیکن یہ اُمید یں بھی پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ طالبان کا دُنیا سے پہلا مطالبہ ہی یہ تھا کہ امریکی فوجیں نکلیں گی تو سارے معاملات کا حل بھی نکل آئے گا۔ امریکی فوجوں نے افغانستان چھوڑ دیا لیکن اس کے مصائب کم نہیں ہو سکے ہیں ۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب اور بجا ہوگا کہ افغانستان کے حالات زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔ ہر افغانی ملک سے بھاگ جانا چاہتا ہے ۔
افغان طالبان نے کوئی ایسا ماڈل بھی نہیں رکھا ہے جسے دیکھ کر افغانیوں میں اُمید اور جوش پیدا ہو سکے۔ خصوصاً افغان خواتین اور افغان طالبات کے لیے حالات حوصلہ افزا ثابت نہیں ہُوئے ہیں۔ افغانستان میں ورکنگ لیڈیز کے لیے دائرہ کار محدود تر کر دیے گئے ہیں۔افغانستان کے بیشتر صوبوں میں ابھی تک لڑکیوں کے اسکولز بند ہیں ۔
دُنیا افغان طالبان کے ان اقدامات کو کڑی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ خواتین کے حوالے سے افغان طالبان نے عالمی برادری سے کیے گئے وعدے بھی پورے نہیں کیے ہیں۔ یوں افغانستان کے لیے یورپی یونین اور امریکی اعانت و امداد کے دروازے بھی بند ہیں۔ امریکا نے ابھی تک افغانستان کے منجمد کیے گئے 9 ارب ڈالرز کے اثاثے بھی واگزار نہیں کیے ہیں۔
کہا گیا ہے کہ افغان طالبان نے رُوس کو بھی افغانستان میں شکست دی اور امریکیوں کو بھی ؛ چنانچہ اب توقع کی جا رہی تھی کہ وہی طالبان تنِ تنہا افغانستان کو درپیش غربت و عسرت کی جنگ کو بھی شکست دیں گے۔ ایسا مگر نہیں ہو سکا ہے۔ بلکہ افغانستان کی تنگدستی اور معاشی مسائل کو دُور کرنے کے امکانات بھی کہیں نظر نہیں آ رہے۔
افغان طالبان کے سخت رویے افغان عوام کے لیے مصائب کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان کے اپنے معاشی مسائل کمر شکن ہیں لیکن اس کے باوصف ہم افغانستان کی ہر ممکنہ مدد کررہے ہیں۔ 16دسمبر 2021ء کو وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ ''افغان عوام کے لیے پانچ ارب روپے کی امداد مختص کر دی ہے ۔'' اس کے باوجود طالبان مطمئن نہیں ہیں۔ افغان حکومت کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد،کے ایک حالیہ انٹرویو نے پاکستان اور عوام کو خاصا ناراض کیا ہے۔
ٹی ٹی پی کی مبینہ زیادتیوں کے حوالے سے بھی افغان طالبان، پاکستان کی واضح دستگیری کرنے پر تیار نہیں ہیں۔افغان طالبان کے ان رویوں نے پاکستانی عوام کو سخت مایوس کیا ہے۔ اس عدم تعاون کے باوجود یہ پاکستان ہی ہے جو اَب سعودی عرب، کے تعاون سے او آئی سی کے بینر تلے، افغانستان کے مسائل و مصائب حل کرنے کی کوئی سبیل نکالنا چاہتا ہے۔
افغانستان کے معاشی اور سفارتی مسائل اُسی وقت حل ہوں گے جب امریکا افغانستان اور پاکستان کی مدد کے لیے آگے بڑھے گا۔امریکا عدم تعاون سے افغانستان کے مصائب بڑھ رہے ہیں۔ اس کا اندازہ حالیہ ایام میں ''الجزیرہ'' میں شایع ہونے والی وہ قسط وار کہانی خاصی دلخراش ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان کی کئی استانیوں نے اسکولز کی ملازمتوں سے محروم ہو کر بوٹ پالش کرنا شروع کر دیے ہیں۔
ایسی استانیوں میں ہادیہ نامی خاتون کی کہانی اور تصویر تو واقعی دل دہلا دیتی ہے۔ ان کہانیوں کی اشاعت کے باوجود افغان طالبان خواتین کو ملازمت کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ یوں بھی دُنیا کے سامنے افغانستان کا چہرہ گہنا رہا ہے۔
رواں لمحوں میں افغانستان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ افغانیوں کو اُمید اور حوصلہ دیا جائے۔ شومئی قسمت سے افغان طالبان کے بعض اقدامات اور فیصلوں سے افغان شہریوں کے حوصلے ٹوٹ رہے ہیں۔ افغانستان سے فرار ہو کر یورپ میں پناہ لینے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ابھی چند دن پہلے یورپی یونین نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ 40ہزار کی تعداد میں نئے افغان مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دے گا۔
جرمنی واحد ملک ہے جو زیادہ تعداد میں افغان مہاجرین کو اپنے ہاں جذب کرنے کی پیش کش کررہا ہے۔ اس کے بعد نیدر لینڈ، اسپین اور فرانس کی باری آتی ہے۔ یہ بھی غنیمت ہے۔ لیکن افغانیوں کو اب ہجرت کرنے، خود کو مظلوم ثابت کرنے اور مالی اعانت کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پاکستان میں چالیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کو بھی واپس اپنے وطن جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس سے قبل کہ میزبان ملک کے شہری ان کے وجود سے عاجز آ جائیں۔حاکم افغان طالبان کو بھی اپنی ہٹ دھرمی سے دستکش ہونا پڑے گا۔طالبان کے کئی غیر لچکدار رویوں کے سبب بھی دُنیا تعاون کے لیے تیار نہیں ہو رہی۔ جب تک افغان طالبان پاکستان کے احسانات کو تسلیم کرتے ہُوئے آگے نہیں بڑھتے، اسلام آباد کی او آئی سی کانفرنس بھی کچھ زیادہ ثمر آور ثابت نہیں ہوگی ۔