احساس زیاں جاتا رہا
نہ نجی طور پر اور نہ سرکاری سطح پر اس کا کوئی نوٹس لیا جاتا ہے
کل 16 دسمبر یوم پر ملال تھا، وہ دن جب وطن عزیزکے دو لخت ہونے کا عظیم سانحہ پیش آیا تھا اور بھارت کی مدد سے ہمارا مشرقی بازو کٹ کر علیحدہ ہوگیا تھا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا ، چنانچہ بنگلہ دیش اور بھارت میں یہ دن مسرت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ افسوس ہمارے ہاں اس سانحہ کو فراموش کردیا گیا ہے۔ ہماری اس قومی بے حسی پر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہمارا حال یہ ہوگیا ہے کہ بقول علامہ اقبال:
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
نہ نجی طور پر اور نہ سرکاری سطح پر اس کا کوئی نوٹس لیا جاتا ہے۔ ہم ہر سال اس دن زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں سے جب یہ سوال کرتے ہیں کہ بتاؤ تو سہی اس دن کیا ہوا تھا تو بس یہی جواب ملتا ہے کہ کچھ نہیں۔ ہماری نئی نسل کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ مشرقی پاکستان کے نام سے ہمارا کوئی بازو بھی تھا۔ کسی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ جو قومیں اپنی تاریخ بھول جاتی ہیں، ان کا جغرافیہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ سانحہ سقوط مشرقی پاکستان اچانک پیش نہیں آیا بلکہ اس کے پس پشت ایک طویل کہانی ہے جس کے حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان قائم ہونے کے ایک سال بعد قائد اعظم ہم سے جدا ہوگئے۔ اس کے بعد پوری قوم کی ذمے داری لیاقت علی خان کے کاندھوں پر پڑی، وہ قوم کے وفادار لیڈر اور قائداعظم کے صحیح جانشین تھے، مگر تھوڑے عرصے کے بعد انھیں سازش کے تحت راولپنڈی کے ایک جلسہ میں تقریر شروع کرنے سے پہلے ڈائس پر گولی مارکر شہید کردیا گیا، اس کے بعد جو کیبنٹ بنی، وہ سازشوں کا مرکز تھی، علامہ شبیر احمد عثمانی جو قائد اعظم اور قائد ملت کے شانہ بشانہ چل رہے تھے، ان کی بہاولپور دوران سفر اچانک موت واقع ہوگئی۔
اسی طرح سردار عبدالرب نشتر جو شہید ملت کے صحیح جانشین تھے، ان کے وزیر اعظم بننے میں بڑی رکاوٹیں پیدا کی گئیں اور ان کا راستہ روک دیا گیا، سازشیں روز بہ روز زور پکڑتی گئیں، جس کا اندازہ سردار عبدالعرب نشتر صاحب کے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے:
بس اتنی سی بات پر رہبری چھینی گئی ہم سے
کہ ہم سے قافلے منزل پہ لڑوائے نہیں جاتے
اسی شعر کی گونج یا بازگشت محسن بھوپالی کے اس مقبول شعر میں بھی سنائی دیتی ہے ، جو محسن نے نشتر صاحب ہی کی موجودگی میں پڑا تھا:
نیرنگیٔ سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
پھر خواجہ ناظم الدین جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور جو اس وقت گورنر جنرل پاکستان تھے، انھیں ہٹانے کا ڈرامہ شروع ہوا، سازش کے تحت ان سے درخواست کی گئی کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے، جسے وہ ایک پرانے سیاستدان ہونے کی حیثیت سے پر کر سکتے ہیں، لہٰذا وہ وزیر اعظم بن جائیں اور ان کی جگہ غلام محمد جو اس وقت ایک کیبنٹ منسٹر تھے اور جن کا تعلق پنجاب سے تھا اور جو جسمانی طور سے معذور بھی تھے۔
انھیں گورنر جنرل بنانے کی تجویز پیش کی گئی، خواجہ ناظم الدین جو بے انتہا شریف اور ایک اعلیٰ ظرف انسان تھے انھوں نے اس مشورے کو قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے مان لیا اور وہ قانونی طور پر پرائم منسٹر پاکستان بنے اور غلام محمد کو گورنر جنرل پاکستان بنا دیا گیا اور یوں ملک کی تباہی کا راستہ ہموار ہو گیا۔
ناظم الدین صاحب نے بڑی جانشفانی سے پرائم منسٹر کا کام انجام دینا شروع کیا، مگر غلام محمد نے (جو ایک آمرانہ ذہن رکھتے تھے) ان کے کام میں مداخلت شروع کردی، خواجہ صاحب کے بار بار اعتراض کرنے پر غلام محمد نے خواجہ صاحب اور ان کی کیبنٹ برخواست کردی اور یوں پوری قوم ابتدائی دور میں ایک قومی بحران کا شکار ہوگئی، پرانے مسلم لیگی لیڈروں میں جن میں سردار عبدالرب نشتر اور مولوی تمیزالدین پیش پیش تھے وقت ضایع کیے بغیر سپریم کورٹ میں غلام محمد کے اس اقدام کو چیلنج کر دیا۔
اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس منیر نے اپنے فیصلے میں غلام محمد کے اس اقدام کو Law of necessityکے تحت جائز قرار دیا اور یوں نہ صرف ملک میں انارکی کا ایک دروازہ کھل گیا، بلکہ اس کے ساتھ عدلیہ کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی شروع ہو گیا جس کی کئی مثالیں بعد کے آنے والی تاریخ میں موجود ہیں۔ اسی دوران سردار عبدالرب نشتر قلب کے عارضے میں مبتلا ہوگئے اور کچھ عرصے تک جناح اسپتال میں زیر علاج رہے، صحت یاب ہونے پر انھیں گورنر آف پنجاب بنا دیا گیا۔
یہ قوم کی بدنصیبی تھی کہ وہ ہمارے درمیان زیادہ عرصہ نہ رہے اور کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہو گیا اور یوں پاکستانی قوم ایک اور مخلص سیاسی قائد سے محروم ہو گئی۔ ملک غلام محمد سیکیولر ذہن کے حامل تھے، جب لیاقت علی خان کی دور میں دستور سازی میں اسلامی دستور کا مطالبہ ہونے لگا تو اس وقت ملک غلام محمد نے سیکولر نظام کی حمایت کی، مولانا شبیر احمد عثمانی نے ملک غلام محمد اور دستوری کمیٹی کو متنبہ کیا کہ اگر سیکولرازم کے حامیوں نے اسلامی دستور کی مخالفت کی تو مسئلہ عوام کے سامنے رکھ دیا جائے گا، ملک غلام محمد چونکہ عوامی شخص نہیں تھے۔
اس لیے وہ عوام کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے جس کے پیش نظر اس وقت مولانا شبیر محمد عثمانی نے کچھ اصولی اسلامی باتیں منوالیں لیکن چونکہ وہ خود اور ان کے دیگر احباب ملک میں اسلام کے نفاذ کے مخالف رہے، پھر وہ کوئی عوامی سیاستدان بھی نہیں تھے، اسی لیے ملک میں مسلسل یکے بعد دیگرے بحران پیدا ہوتے رہے، الغرض 1951 سے 1955 تک پاکستان کے سیاسی بحرانوں کی ذمے داری گورنر جنرل غلام محمد پر عائد ہوتی ہے جس کا اندازہ درج ذیل واقعات سے ہوتا ہے:
خواجہ ناظم الدین کو وزارت پر نااہلی، غذائی بحران کے مسئلہ پر قابو پانے کی ناکامی اور تحریک ختم نبوت کے دوران امن و امان بحال نہ کرنے کے الزامات لگا کر وزارت عظمیٰ سے برطرف کردیا۔ محمد علی بوگرہ کو امریکا سے بلا کر وزیر اعظم مقرر کردیا جو دستور ساز اسمبلی کے نہ ممبر تھے اور نہ دستور ساز اسمبلی نے انھیں منتخب کیا تھا، اسی طرح بوگرہ کی کابینہ بھی غلام محمد نے خود ہی تشکیل دی۔
بوگرہ کی حکومت میں مشرقی پاکستان میں انتخابات ہوئے، جس میں عوامی لیگ، کرشک سرامک پارٹی اور مشرقی پاکستان کی دیگر پارٹیوں نے مل کر مسلم لیگ کے مقابلے میں '' جگتو فرنٹ'' قائم کیا، اس طرح انتخابات میں مسلم لیگ نے 309 میں سے صرف نو نشستیں حاصل کیں، ملک غلام محمد نے اس اعلان کے ساتھ کہ '' مشرقی پاکستان کے انتخابات میں مسلم لیگ کی شکست کے بعد دستور ساز اسمبلی اب چونکہ نمایندہ نہ رہی ، دستور ساز اسمبلی کو ہی توڑ دیا۔''
نئے آنے والے سیاسی رہنماؤں نے بنگالیوں کو غیر بنگالیوں سے لڑا کر فسادات شروع کرا دیے، گورنر جنرل اور وزیر اعظم ان معاملات پر خاموش رہے، جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے جراثیم پیدا ہونے شروع ہوگئے، مزید برآں یہ کہ مشرقی پاکستان میں گورنر راج قائم کرکے مولوی اے کے فضل الحق کی کابینہ کو برطرف کردیا اور سکندر مرزا کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کردیا، گورنر راج قائم کرکے، مشرقی پاکستان کے رہنماؤں کو جو ابھی نئے نئے انتخابات میں جیت کر آئے تھے، مغربی پاکستان کا مخالف بنا دیا اور دستور ساز اسمبلی کو برخاست کرکے پرانے رہنماؤں کو بھی بدظن کر دیا۔
اس طرح مشرقی پاکستان میں گورنر جنرل ملک غلام محمد نے علیحدگی کا وہ بیج بویا جس کے بعد میں بھارت آبیاری کرتا رہا اور جس کا پودا بعد میں بنگلہ دیش بن کر جوان ہوا۔ پیروڈا قانون کے تحت بہت سے بدعنوان سیاست دانوں کو دس سال تک کے لیے سیاست سے الگ کردیا گیا تھا، ملک غلام محمد نے پیروڈا کا قانون 1954کو منسوخ کردیا جس سے بدعنوان سیاستدانوں کو پھر دوبارہ کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا، جو یقیناً ملک کے مفاد کے خلاف تھا۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
نہ نجی طور پر اور نہ سرکاری سطح پر اس کا کوئی نوٹس لیا جاتا ہے۔ ہم ہر سال اس دن زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں سے جب یہ سوال کرتے ہیں کہ بتاؤ تو سہی اس دن کیا ہوا تھا تو بس یہی جواب ملتا ہے کہ کچھ نہیں۔ ہماری نئی نسل کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ مشرقی پاکستان کے نام سے ہمارا کوئی بازو بھی تھا۔ کسی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ جو قومیں اپنی تاریخ بھول جاتی ہیں، ان کا جغرافیہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ سانحہ سقوط مشرقی پاکستان اچانک پیش نہیں آیا بلکہ اس کے پس پشت ایک طویل کہانی ہے جس کے حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان قائم ہونے کے ایک سال بعد قائد اعظم ہم سے جدا ہوگئے۔ اس کے بعد پوری قوم کی ذمے داری لیاقت علی خان کے کاندھوں پر پڑی، وہ قوم کے وفادار لیڈر اور قائداعظم کے صحیح جانشین تھے، مگر تھوڑے عرصے کے بعد انھیں سازش کے تحت راولپنڈی کے ایک جلسہ میں تقریر شروع کرنے سے پہلے ڈائس پر گولی مارکر شہید کردیا گیا، اس کے بعد جو کیبنٹ بنی، وہ سازشوں کا مرکز تھی، علامہ شبیر احمد عثمانی جو قائد اعظم اور قائد ملت کے شانہ بشانہ چل رہے تھے، ان کی بہاولپور دوران سفر اچانک موت واقع ہوگئی۔
اسی طرح سردار عبدالرب نشتر جو شہید ملت کے صحیح جانشین تھے، ان کے وزیر اعظم بننے میں بڑی رکاوٹیں پیدا کی گئیں اور ان کا راستہ روک دیا گیا، سازشیں روز بہ روز زور پکڑتی گئیں، جس کا اندازہ سردار عبدالعرب نشتر صاحب کے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے:
بس اتنی سی بات پر رہبری چھینی گئی ہم سے
کہ ہم سے قافلے منزل پہ لڑوائے نہیں جاتے
اسی شعر کی گونج یا بازگشت محسن بھوپالی کے اس مقبول شعر میں بھی سنائی دیتی ہے ، جو محسن نے نشتر صاحب ہی کی موجودگی میں پڑا تھا:
نیرنگیٔ سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
پھر خواجہ ناظم الدین جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور جو اس وقت گورنر جنرل پاکستان تھے، انھیں ہٹانے کا ڈرامہ شروع ہوا، سازش کے تحت ان سے درخواست کی گئی کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے، جسے وہ ایک پرانے سیاستدان ہونے کی حیثیت سے پر کر سکتے ہیں، لہٰذا وہ وزیر اعظم بن جائیں اور ان کی جگہ غلام محمد جو اس وقت ایک کیبنٹ منسٹر تھے اور جن کا تعلق پنجاب سے تھا اور جو جسمانی طور سے معذور بھی تھے۔
انھیں گورنر جنرل بنانے کی تجویز پیش کی گئی، خواجہ ناظم الدین جو بے انتہا شریف اور ایک اعلیٰ ظرف انسان تھے انھوں نے اس مشورے کو قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے مان لیا اور وہ قانونی طور پر پرائم منسٹر پاکستان بنے اور غلام محمد کو گورنر جنرل پاکستان بنا دیا گیا اور یوں ملک کی تباہی کا راستہ ہموار ہو گیا۔
ناظم الدین صاحب نے بڑی جانشفانی سے پرائم منسٹر کا کام انجام دینا شروع کیا، مگر غلام محمد نے (جو ایک آمرانہ ذہن رکھتے تھے) ان کے کام میں مداخلت شروع کردی، خواجہ صاحب کے بار بار اعتراض کرنے پر غلام محمد نے خواجہ صاحب اور ان کی کیبنٹ برخواست کردی اور یوں پوری قوم ابتدائی دور میں ایک قومی بحران کا شکار ہوگئی، پرانے مسلم لیگی لیڈروں میں جن میں سردار عبدالرب نشتر اور مولوی تمیزالدین پیش پیش تھے وقت ضایع کیے بغیر سپریم کورٹ میں غلام محمد کے اس اقدام کو چیلنج کر دیا۔
اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس منیر نے اپنے فیصلے میں غلام محمد کے اس اقدام کو Law of necessityکے تحت جائز قرار دیا اور یوں نہ صرف ملک میں انارکی کا ایک دروازہ کھل گیا، بلکہ اس کے ساتھ عدلیہ کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی شروع ہو گیا جس کی کئی مثالیں بعد کے آنے والی تاریخ میں موجود ہیں۔ اسی دوران سردار عبدالرب نشتر قلب کے عارضے میں مبتلا ہوگئے اور کچھ عرصے تک جناح اسپتال میں زیر علاج رہے، صحت یاب ہونے پر انھیں گورنر آف پنجاب بنا دیا گیا۔
یہ قوم کی بدنصیبی تھی کہ وہ ہمارے درمیان زیادہ عرصہ نہ رہے اور کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہو گیا اور یوں پاکستانی قوم ایک اور مخلص سیاسی قائد سے محروم ہو گئی۔ ملک غلام محمد سیکیولر ذہن کے حامل تھے، جب لیاقت علی خان کی دور میں دستور سازی میں اسلامی دستور کا مطالبہ ہونے لگا تو اس وقت ملک غلام محمد نے سیکولر نظام کی حمایت کی، مولانا شبیر احمد عثمانی نے ملک غلام محمد اور دستوری کمیٹی کو متنبہ کیا کہ اگر سیکولرازم کے حامیوں نے اسلامی دستور کی مخالفت کی تو مسئلہ عوام کے سامنے رکھ دیا جائے گا، ملک غلام محمد چونکہ عوامی شخص نہیں تھے۔
اس لیے وہ عوام کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے جس کے پیش نظر اس وقت مولانا شبیر محمد عثمانی نے کچھ اصولی اسلامی باتیں منوالیں لیکن چونکہ وہ خود اور ان کے دیگر احباب ملک میں اسلام کے نفاذ کے مخالف رہے، پھر وہ کوئی عوامی سیاستدان بھی نہیں تھے، اسی لیے ملک میں مسلسل یکے بعد دیگرے بحران پیدا ہوتے رہے، الغرض 1951 سے 1955 تک پاکستان کے سیاسی بحرانوں کی ذمے داری گورنر جنرل غلام محمد پر عائد ہوتی ہے جس کا اندازہ درج ذیل واقعات سے ہوتا ہے:
خواجہ ناظم الدین کو وزارت پر نااہلی، غذائی بحران کے مسئلہ پر قابو پانے کی ناکامی اور تحریک ختم نبوت کے دوران امن و امان بحال نہ کرنے کے الزامات لگا کر وزارت عظمیٰ سے برطرف کردیا۔ محمد علی بوگرہ کو امریکا سے بلا کر وزیر اعظم مقرر کردیا جو دستور ساز اسمبلی کے نہ ممبر تھے اور نہ دستور ساز اسمبلی نے انھیں منتخب کیا تھا، اسی طرح بوگرہ کی کابینہ بھی غلام محمد نے خود ہی تشکیل دی۔
بوگرہ کی حکومت میں مشرقی پاکستان میں انتخابات ہوئے، جس میں عوامی لیگ، کرشک سرامک پارٹی اور مشرقی پاکستان کی دیگر پارٹیوں نے مل کر مسلم لیگ کے مقابلے میں '' جگتو فرنٹ'' قائم کیا، اس طرح انتخابات میں مسلم لیگ نے 309 میں سے صرف نو نشستیں حاصل کیں، ملک غلام محمد نے اس اعلان کے ساتھ کہ '' مشرقی پاکستان کے انتخابات میں مسلم لیگ کی شکست کے بعد دستور ساز اسمبلی اب چونکہ نمایندہ نہ رہی ، دستور ساز اسمبلی کو ہی توڑ دیا۔''
نئے آنے والے سیاسی رہنماؤں نے بنگالیوں کو غیر بنگالیوں سے لڑا کر فسادات شروع کرا دیے، گورنر جنرل اور وزیر اعظم ان معاملات پر خاموش رہے، جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے جراثیم پیدا ہونے شروع ہوگئے، مزید برآں یہ کہ مشرقی پاکستان میں گورنر راج قائم کرکے مولوی اے کے فضل الحق کی کابینہ کو برطرف کردیا اور سکندر مرزا کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کردیا، گورنر راج قائم کرکے، مشرقی پاکستان کے رہنماؤں کو جو ابھی نئے نئے انتخابات میں جیت کر آئے تھے، مغربی پاکستان کا مخالف بنا دیا اور دستور ساز اسمبلی کو برخاست کرکے پرانے رہنماؤں کو بھی بدظن کر دیا۔
اس طرح مشرقی پاکستان میں گورنر جنرل ملک غلام محمد نے علیحدگی کا وہ بیج بویا جس کے بعد میں بھارت آبیاری کرتا رہا اور جس کا پودا بعد میں بنگلہ دیش بن کر جوان ہوا۔ پیروڈا قانون کے تحت بہت سے بدعنوان سیاست دانوں کو دس سال تک کے لیے سیاست سے الگ کردیا گیا تھا، ملک غلام محمد نے پیروڈا کا قانون 1954کو منسوخ کردیا جس سے بدعنوان سیاستدانوں کو پھر دوبارہ کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا، جو یقیناً ملک کے مفاد کے خلاف تھا۔