عددی دنیا

عصر حاضر میں جو بھی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ، اس نے ہمارے معاشرے کی ہیت کو بھی یکسر بد ل کر رکھ دیا ہے


قمر عباس نقوی December 17, 2021
فوٹوفائل

LONDON: عصر حاضر میں جو بھی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ، اس نے ہمارے معاشرے کی ہیت کو بھی یکسر بد ل کر رکھ دیا ہے۔ انسان اپنے بچپن سے لے کر اب تک کی زندگی کا مشاہدہ کرے تو بے شمار ایسی چیزوں کے تجربات اور ان کے نچوڑ نظر آئیں گے کہ انسان خود حیران و پریشان ہو جاتا ہے۔

مثال کے طور پر ایک نوجوان نے اپنے دادا جان سے دریافت کیا '' دادا جان ! آپ کے دور میں بجلی، جہاز، انٹر نیٹ، کمپیوٹر ، فلم ، ٹی وی، ایئرکنڈیشنڈ، گاڑی، فون جیسی جدید سائنسی ایجادات کا تصور تک نہیں تھا تو ان کے بغیر آپ لوگو ں کا طرز زندگی کیسا تھا ؟ دادا نے بزرگی اور مشفقانہ انداز میں جواب دیا کہ جیسے تم لوگ ابھی زندگی گزار رہے ہو ، نہ قرآن، نہ دین، نہ اسلام ، نہ نماز، نہ روزہ، نہ شفقت ، نہ احترام ، نہ ادب، نہ اخلاق ، نہ شرم، نہ حیا، بس فرق صرف اتنا ہے کہ ہم دنیا سے بے خبر تھے اور آپ دین سے غافل ہیں۔''

خدا داد نعمتوں کے حوالہ سے بات کی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس پاک ذات نے پاکستان جیسی خوبصورت سر زمین بہترین قدرتی وسائل کے ساتھ عطا کی ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم ناشکرے ہیں۔ ہم ایک عرصے سے مہنگائی کا شور سنتے آ رہے ہیں اور اسی شور و غوغا میں ہم اپنی جواں سالی سے ایک عمر رفتہ میں داخل ہوچکے ہیں۔

ہم نے دیکھا ان تمام حالات کے باوجود ہمارے طرز فکر اور طرز زندگی میں رتی بھر فرق نہیں آیا۔ مقتدر حلقوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ درست فرمایا مگر حکمران یہ نہیں بتاتے کہ ترقی یافتہ ریاستوں میں حکومتیں عوام کو وقتا فوقتا ریلیف پیکیج بھی دیتی رہتی ہیں۔ پٹرولیم کی مصنوعات کسی بھی ملک کی معاشی توازن کو قائم رکھنے میں اہم ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔

اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ، مہنگائی میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے مگر عالمی منڈی میں پیٹرولیم کی مصنوعات میں قابل قدرگراوٹ بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس گراوٹ کے ساتھ اشیائے ضروریہ میں پیٹرولیم کے گراوٹ کے تناسب سے قیمتوں میں کمی ہونی چاہیے۔ ایسا نہیں ہے بالخصوص پاکستان میں تو کم ازکم ایسا نہیں ہے ، جو چیز ایک مرتبہ بڑھ گئی سو بڑھ گئی۔ پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی مہنگائی میں کمی ہر گز نہیں ہے۔ وہ جو ں کی تو ں رہتی ہے۔ مہنگائی کی دوسری وجہ ڈالر کی قدر میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہے۔

قارئین ! شاید آپ کو یاد ہوکہ زمانہ قدیم میں کاغذ کی کرنسی کے بجائے مختلف دھاتوں کے سکوں کا نظام رائج ہوا کرتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانہ میں کاغذ کی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ کاغذ کی ایجاد کے بعد کرنسی نوٹوں کا اجرا ہونے لگا مگر اس کے باوجود ان دھاتی سکوں کی اہمیت میں کمی نہ آسکی۔ اب سب سے کم قدر والے رقم کو دھاتی سکوں میں رائج کرنے کا زمانہ ہے۔

یعنی یوں سمجھ لیجیے کہ سکوں کا دور '' پھوٹی کوڑی '' سے شروع ہوکر کوڑی ، دمڑی ، پائی ، دھیلا ، پیسہ ، ٹکا ، آنہ کی منازل طے کرتا ہوا اس جدید دور میں روپیہ جنوبی ایشیا کے وسیع و عریض رقبہ پر محیط برصغیر کی شناخت بنا۔ قارئین آپ کو بتاتا چلوں ''پھوٹی کوڑی '' مغلیہ دور اقتدار کی ایک معروف کرنسی تھی جس کی قدر کم ترین تھی۔ ریختہ (اردو کا قدیم نام جو مرزا اسد ا للہ غالب کے زمانہ میں رائج تھا) کے روزمرہ زبان میں '' پھوٹی کوڑی'' کو محاورۃ محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

حد تو یہ ہو گئی ہے کہ بیچارہ روپیہ دو ٹکے کا ہو گیا اور اس کی قدر کسی زمانہ میں ٹکہ سے زیادہ تھی اب ٹکہ کی قدر روپیہ کے مقابلہ میں زیادہ ہوگئی ہے یعنی ہم بنگلہ دیش کے مقابلہ میں معاشی طور پر دو ٹکہ کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ اسی لیے روپیہ آج بیچارہ ناقدری کا شکار ہونے کی وجہ سے بے حال ہوچکا ہے۔

ماضی ہمیں بتاتا ہے کہ قوموں کی ترقی فقط مضبوط معاشی استحکام کی بدولت ہی ممکن ہے اسلحہ اور جنگ و جدل سے نہیں۔ کم از کم ہمیں ایسی ہی قوموں کو مشعل راہ بناتے ہوئے ان سے کچھ سیکھ لینا چاہیے۔ معاشیات کا فارمولا ہے کہ جب آپ کی کرنسی کی قدر پست ہوجانے کی صورت میں لامحالہ گردشی اضافی نوٹ چھاپنا پڑیں گے یوں ملک میں کساد بازاری اور افراط زر کے خدشات یقینی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی ملکی معیشت کوکنٹرول کے لیے تفریط زر پر توجہ دینی ہوگی۔

عددی لحاظ سے نوٹوں کا شمار سو روپے سے ہزار ، لاکھ اور اب تو انتہا ہوگئی ہے کہ کروڑ کا عددی ہندسہ عام ہوگیا جو زبان زد عام پر بھی نہیں چڑھ پا رہا۔ ہماری اس سلسلہ میں ملک کے مرکزی مالیاتی ادارے سے درخواست ہے کہ ایک لاکھ کی مالیت کا کرنسی نوٹ بھی جاری کردے۔ چھوٹے موٹے خرچوں کی ادائیگیوں کے لیے حکومت کچھ د ھات کے سکے تیارکیا کرتی ہے جیسے ہمارے ہاں سب سے کم قدر کی مالیت کا سکہ ''پائی '' ہو ا کرتی تھی۔ اسی طرح پائی کے بعد آنہ آیا۔

کاغذی کرنسی کا قدری نوٹ ایک ، پانچ ، دس ، بیس ، پچاس ، سو ، پانچ سو ، ایک ہزار اور سب سے زیادہ مالیت کا نوٹ پانچ ہزارکا آیا جو اب تک رائج ہے۔ ان کاغذی نوٹوں کا اجرا ملک کا مرکزی بینک کرتا ہے اور سکہ کا اجرا حکومت پاکستان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور جہاں یہ تیار ہوتا ہے اسے عرف عام میں '' ٹکسال '' کہتے ہیں۔ حکومت گاہے بگاہے کچھ اعزازی یادگاری سکے اور کرنسی نو ٹ بھی جاری کرتی ہے۔

سکوں کے اجرا سے یاد آیا کہ پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں باراتی دلہا کے اوپر سے چمکدار سکوں کی بارش کرتے تھے جس سے ایک عجیب سی چھن چھناہٹ کی آواز کانوں کو مسرورکرتی تھی اور آس پاس کے غریب بچے ان سکوں کو ایسے لوٹتے تھے جیسے کٹی ہوئی پتنگ لوٹی جاتی ہے۔ ویسے بھی ان دھاتی سکوں کو جیبوں میں رکھنے کا رواج اب تقریبا ختم ہوچکا ہے۔کم ازکم چلنے پھرنے سے جیبوں میں پڑے ہوئے سکوں کی موجودگی کا احساس تو ہوتا تھا۔اب سکوں کی جگہ چمکتے دمکتے نئے کرنسی نوٹوں نے لے لی ہے۔

روپیہ کی قدر میں اضافہ کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ سکوں کے رواج میں بھی کمی آنے لگی اورکاغذ کی کرنسی کا رواج میں بتدر یج اضافہ ہوتا چلا گیا۔ دکاندار حضرات برکتی کٹوری میں سکوں کا اسٹاک محفوظ کرلیتے ہیں تاکہ وقفہ وقفہ سے تمام دن آنے والے گداگروں سے جان چھڑائی جاسکے اور ثواب دارین بھی حاصل کیا جا سکے۔رقص و موسیقی کی محفلوں میں نت نئی رقاصاؤں پر لوگوں کا نئے کرنسی نوٹوں کو نچھاورکرنا عین خلاف دین ہے۔

نوٹوں کی اس انداز میں بارش سے افراط زرکا گمان ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس مہنگائی کے دور میں ان کے پاس اتنی رقم کہاں سے آتی ہے جو بے دردی سے لٹائی جاتی ہے جو نہ صرف بے حیائی کے فروغ کا موجب ہے بلکہ شرم و حیا کے زیورکا متقاضی بھی۔ گھر ، گرہستی اور ازدواجیت کے اہم رشتہ کو چار چاند لگانے کے لیے شادی (عروسی تقریب) دو جنسوں کے بندھن کا ایک شرعی معاہدہ ہے جو فقط نکاح کے مقدس فریضے سے ہی ممکن ہے۔اس کی شروعات اللہ تعالیٰ کے پاک نام سے ہونی چاہیے نا کہ ناچ گانے سے۔ آنے والی زندگی میں خوشیاں اور برکتوں کے نزول کے ساتھ ساتھ دونوں پیار محبت کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔