6 قبرستان تدفین کیلیے بند قبریں بھی مہنگی گورکن منہ مانگی رقم لینے لگے
گورکن سمیت عملے کو رجسٹرڈ کیا،قبروں پر پانی ڈالنے کیلیے 18سال کی شرط لگادی
HYDERABAD:
شہر قائد میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر نگرانی 39قبرستان ہیں جن میں 6قبرستانوں کو تدفین کے لیے بند کردیا گیا ہے جبکہ فلاحی اداروں کے تعاون سے دو نئے قبرستان تعمیر کرکے تدفین کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
قبرستانوں میں غیراخلاقی حرکات کو کنٹرول اور جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ڈائریکٹر انفارمیشن اور کنوینر قبرستان کمیٹی علی حسن ساجد نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
انھوں نے کہا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے قبرستانوں میں غیر رجسٹرڈ شدہ گورکن، پانی ڈالنے کے لیے کم عمر بچے بچیاں اور دیگر اسٹاف بہت عرصے سے کام کررہے تھے جس کی وجہ سے کئی مسائل جنم لے چکے تھے۔
مانیٹرنگ نہ ہونے کی وجہ سے قبرستانوں میں منشیات کی خرید وفروخت ودیگر غیراخلاقی سرگرمیاں جاری تھیں اور جرائم پیشہ افراد کے لیے یہ قبرستان محفوظ پناہ گاہیں بن چکی تھیں، ایک مضبوط مافیا اس پورے نیٹ ورک کے پیچھے کام کررہا تھا، ان تمام مسائل اور جرائم کی بیخ کنی کے لیے سابق ایڈمنسٹریٹر لیئق احمد نے موچر اقدام کیے تھے، قبرستانوں کے گورکن سمیت تمام عملے کو رجسٹرڈ کرنے کی ہدایت جاری کیں۔
بچیوں کی آمد ورفت کو ممنوع قرار دیا، قبروں پر پانی ڈالنے کے لیے 18سال اور زائد عمر کے لڑکے کی شرط لازمی قرار دی، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اعلیٰ حکام نے رواں سال 9جولائی کو سینٹرل کمیٹی قبرستان قائم کی جس کے اراکین میں سرکاری افسران، سماجی و فلاحی ادارے الخدمت، سیلانی ویلفئیر ٹرسٹ، جی ڈی سی، عالمگیر ویلفئیر ٹرسٹ، دعوت اسلامی اور النور ٹرسٹ کے نمائندے شامل ہیں۔
یہ کمیٹی اب قبرستانوں کے تما م معاملات کی نگرانی کررہی ہے اور ہر امور پر کڑی نگاہ رکھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے غیراخلاقی سرگرمیوں پرقابوپایا جاچکا ہے، قبرستانوں میں عملے کیبھرتی کے لیے اشہارات شائع کرکے ان کی تقرری کی گئی ہے، وقتا فوقتا کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے جس میں تمام امور کا جائزہ لے کر اہم فیصلے کیے جاتے ہیں۔
ڈائریکٹر انفارمیشن اور کنوینر قبرستان کمیٹی علی حسن ساجد نے بتایا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی نے گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے چھ قبرستان تدفین کے لیے بند کردیے ہیں جن میں طارق روڈ قبرستان، ماڈل کالونی قبرستان، یاسین آباد اور دیگر شامل ہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی قبرستانوں کی سڑکوں کی مرمت، اسٹریٹ لائٹس کی درستگی، شجرکاری اور اور دیگر کاموں کے لیے کام کا آغاز کریگی، پہلے مرحلے میں چھ قبرستانوں میں یہ امور انجام دیے جائیں گے، بعدازاں بتدریج تمام قبرستانوں کی حالت بہتر کی جائے گی، انھوں نے کہا کہ فلاحی ادارے جے ڈی سی اور سیلانی ویلفئیر ٹرسٹ کے تعاون سے گذشتہ سال لنک روڈ نیشنل ہائی وے اور سرجانی ٹاؤن سیکٹر 16/Aپر دو نئے قبرستان قائم کرکے وہاں تدفین کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔
کراچی میں پرانے قبرستانوںمیں قبر کا حصول مشکل ترین مرحلہ بن گیا ہے، ان پرانے قبرستانوں میں گورکنوں کی مرضی سے مہنگے داموں لوگ قبریں انتقال کر جانے والے عزیزوں کی تدفین کے لیے حاصل کرنے پر مجبور ہیں، ہر قبرستان میں قبر کے ریٹ الگ الگ اور جگہ کے حساب سے ہیں۔ مہنگائی کے سبب خام مال مہنگا ہونے کی وجہ سے قبروں کو اطراف سے پکا کرانے کی قیمتیں بھی مہنگی ہوگئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میں یہاں رہائش کرائے پر حاصل کرنا یا خریدنا مشکل اور مہنگا ہے ،اسی طرح کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے لیے قریبی قربرستان میں قبر ڈھونڈنا ایک دشوار گزار عمل ہے کیونکہ اس وقت شہر کے تمام بڑے قبرستان بھر چکے ہیں اور ان میں مزید تدفین کی گنجائش ختم ہو گئی ہے تاہم ان قبرستانوں میں موجود ایک شخص ایسا ہوتا ہے ، جو آپ کی اس مشکل کو باآسانی حل کر سکتا ہے، اس شخص کا نام '' گورکن '' ہے۔
اس گورکن کو آپ اس کی مرضی کے مطابق پیسے دیں ، وہ آپ کو آپ کی مرضی کے مطابق قبر کے لیے جگہ تلاش کرکے دے دے گا تاہم قبر کی یہ جگہ ہر قبرستان میں الگ الگ قیمتوں پر دستیاب ہے، ایکسپریس نے کراچی میں قبرستانوں میں قبر کے حصول اور تدفین کے اخراجات کے حوالے سے معلومات حاصل کیں، کراچی میں اس وقت میوہ شاہ ، سخی حسن، سی ون ایریا ، پاپوش ، عیسی نگری ، یاسین آباد ، محمد شاہ ، اورنگی ٹاؤن ، حب ریور روڈ ،ملیر ، شاہ فیصل کالونی ، طارق روڈ ، ڈیفنس ، کورنگی ، لانڈھی سمیت مختلف علاقوںمیں قبرستان موجود ہیں۔
یہ قبرستان بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ماتحت ہیں، شہر کے بڑے قبرستانوں میں تدفین کا عمل کئی برسوں سے بند ہو چکا، ان قبرستانوں میں برادریوں کے حوالے سے بھی جگہیں مختص ہیں اور انفرادی طور پر بھی یہاں تدفین کا عمل ہوتا ہے، میوہ شاہ قبرستان کے گورکن یوسف نے بتایا کہ کراچی کے ہر قبرستان میں الگ الگ قبروں کے ریٹ مقرر ہیں، زیادہ تر ان افراد کو قبر کے لیے جگہیں فراہم کی جاتی ہیں۔
جہاں اس خاندان کا کوئی شخص پہلے سے دفن ہو، جب اس کی قبر پرانی ہو جاتی ہے تو اس خاندان کے خونی رشتے میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے توپھر اہلخانہ مشاورت سے اس قبر کی نشاندہی پر انتقال کر جانیوالے شخص کو دفن کرتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ہم اپنی مرضی سے کسی بھی شخص کو قبر نہیں دیتے یا پھر اگر کسی کو ضرورت ہوتی ہے تو پھر ایسی قبر میں نئی تدفین کی جاتی ہے ، جو کافی پرانی ہو اور اس کی دیکھ بھال کے لئے کوئی شخص نہیں آتا ہو۔
انھوں نے کہا کہ ہر قبرستان میں قبر کے ریٹ الگ الگ ہیں،میوہ شاہ قبرستان میں قبر 15 ہزار روپے سے لے کر 30 ہزار روپے یا اس سے زائد تک دستیاب ہے جو قبر قبرستان کے دروازے یا کسی اچھے مقام پر ہوتی ہے ، اس کے ریٹ زیادہ ہوتے ہیں۔
سی ون ایریا قبرستان میں کام کرنے والے ایک گورکن ( نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ) فرضی نام اشتیاق نے بتایاکہ کراچی کے قدیم قبرستان میں اب گنجائش نہیں، زیادہ تر قبرستانوں میں پرانی قبروںمیں تدفین کا عمل جاری ہے، متوسط علاقوں میں موجود قبرستانوں میں قبروں کے ریٹ 12 ہزار سے لے کر 20 ہزار روپے کے درمیان ہیں جبکہ طارق روڈ اور دیگر مہنگے علاقوںمیں واقع قبرستانوں میں قبر کے ریٹ 30 ہزار یا اس سے زائد ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ قبرستان میں تدفین کے عمل کے بعد سرکاری پرچی ضرور جاری کی جاتی ہے، مقامی قبرستان کے گورکن عمر نے بتایا کہ جب کسی شخص کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کے اہلخانہ میں سے کوئی شخص کم از کم 6 گھنٹے پہلے آکر اپنے انتقال کر جانے والے شخص کے لئے قبر تلاش کرتاہے۔ پھر جگہ کی مناسبت سے اس قبر کے ریٹ طے کیے جاتے ہیں۔
جان پہچان پر قبر کے ریٹ میں کمی بیشی کر دی جاتی ہے، ایک قبر کی کھدائی میں کم از کم دو افراد حصہ لیتے ہیں اور دو سے تین گھنٹے میں قبر کھود دی جاتی ہے، بعض لوگ قبر کا اندرونی حصہ کچا رکھتے ہیں جبکہ بعض افراد قبر کے اندرونی احاطے میں بلاکس رکھ کر چاروں اطراف دیوار بنوا دیتے ہیں تاکہ بارشوں کے دوران اندرونی طور پر قبر خراب نہ ہو، انھوں نے کہا کہ انتقال کر جانے والے شخص کی تدفین کے عمل میں کم از کم ایک گھنٹہ لگتا ہے۔
قبر کا سائز جسم کی لمبائی اور چوڑائی کی مناسبت سے رکھا جاتا ہے، حالیہ دنوں میں انتقال کر جانے والے ایک شخص کے بیٹے سید فیصل علی نے بتایا کہ ان کے والد کا انتقال گذشتہ دنوں ہوا اور ان کی تدفین کھجی گراؤنڈ سے ملحقہ قبرستان میں کی گئی، نیم یا گھنے درخت کے نیچے یا کسی اچھے مقام پر قبر کے تعین کے لیے جب ہم نے معلومات حاصل کیں تو ہمیں دور قبر کے 13 سے 14 ہزار اور سایہ دار درخت کے قریب قبر کی جگہ کے لیے 20 ہزار روپے طلب کیے گئے تاہم پھر میں نے سایہ دار درخت کے نیچے اپنے والد کی تدفین کی اور قبر کے لیے 17 ہزار روپے ادا کیے۔
یہ عمل بھی جان پہچان پر ہوا، انھوں نے کہا کہ شہر میں اب نئے قبرستان بنانے کی ضرورت ہے، طارق روڈ قبرستان میں حالیہ دنوں دفن کی جانے والی خاتون کے صاحبزادے سہیل نے بتایا کہ ہم لائنز ایریا کے رہائشی ہیں، میری والدہ کے انتقال کے بعد ان کی تدفین طارق روڈ قبرستان میں کی گئی ، جہاں گورکن نے اپنی مرضی سے قبر دی اور اس کے لیے تقریبا 25 ہزار روپے لیے گئے۔
انھوں نے کہا کہ ہماری اپنی مرضی کی جگہ کے لیے قبر بہت مہنگی تھی ، جو ہماری گنجائش میں نہیں تھی، مقامی قبرستان کے قریب مدرسے کے مہتمم حاجی الیاس خان نے بتایا کہ کراچی میں تدفین کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے کیونکہ تمام پرانے قبرستانوںمیں گنجائش نہیں ، حکومت جو قبرستان بنا رہی ہے ، وہ بہت دور مقامات پر ہے، ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ قریب ترین قبرستان میں اپنے انتقال کر جانے والے شخص کی تدفین کرے۔
اسی لیے لوگ قریبی قبرستان میں اپنی مرضی کی قبر تلاش کرتے ہیں اور اس کی منہ مانگی قیمت ادا کرتے ہیں، قبرستانوں میں تدفین کے علاوہ قبروں کو اطراف سے پکا کرانے کا عمل بھی بہت مہنگا ہوتا جا رہا ہے، اس حوالے سے میوہ شاہ قبرستان میں قبروں کا پکا کرنے کا کام کرنے والے گورکن طارق بلوچ نے بتایا کہ قبروں کو اطراف سے پکا کرنے کی مختلف درجہ بندیاں ہیں، کچھ لوگ اپنے انتقال کر جانے والے عزیزوں کی سادہ قبریں پکی کراتے ہیں، یہ قبریں تین مراحل میں بنتی ہیں۔ جو ایک ، دو اور تین منزلوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
سادی کچی قبر کی پہلی منزل 6 ہزار روپے سے لے کر 8 ہزار روپے ، دوسری منزل سادہ 9 سے 12 ہزار روپے اور تیسری منزل 15 سے 20 ہزار روپے کے درمیان ہوتی ہے، ہر قبرستان میں سادہ قبروں کو پکا کرانے کے ریٹ الگ الگ ہوتے ہیں جبکہ ٹائل اور ماربل والی قبروں کے ریٹ بھی قبرستانوں کے مقامات کی مناسبت سے طے کیے جاتے ہیں، کم از کم ٹائل والی قبر 17 ہزار روپے سے لے کر 30 ہزار روپے تک ہے جبکہ اچھے ماربل والی تین منزلہ قبر کو پکا کرنے کی قیمت 70 ہزار سے ایک لاکھ روپے کے درمیان ہے، قبر ے اطراف سے پکا کرانے کا کام انتقال کرنے والے خاندان کے افراد کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے، سادہ قبر کو پکا کرنے میں 6 گھنٹے اور ماربل والی قبر 3 دن میں تیار ہوتی ہے۔
ان قبروں کی شناخت کے لئے تختی بھی لگائی جاتی ہے ، جو انھیں پیسوں میں شامل ہوتی ہے، اب زیادہ تر لوگ شناخت کے لیے تختی پر نام اور تاریخ وفات کا اندراج کراتے ہیں، ہم قرآنی آیات لکھنے سے منع کرتے ہیں تاکہ بے حرمتی نہ ہو،قبرستانوں میں گنجائش کی وجہ سے بعض قبرستانوں میں ڈبل قبریں بھی بنی ہوئی ہیں، قبرستانوں میں قبروں کو پکا کرنے کے لئے خام مال سپلائی کرنے والے ایک شخص ریاض مستری نے بتایا کہ قبرستانوں میں قبریں گورکن خود تیار کرتے ہیں، اس وقت سیمنٹ ، بجری اور اینٹیں مہنگی ہو گئی ہیں ، جس کی وجہ سے قبروں کو پکا کرنے کے ریٹ دگنے ہو گئے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ سیمنٹ کی بوری اس وقت 800 سے 850 ، مشینی بلاک 30 سے 35 روپے اور ریتی کی آدھی گاڑی 700 اور ٹائل اور ماربل خوبصورتی اور معیار کے حساب سے مارکیٹ میں دستیاب ہیں، وزیر اعلی سندھ کے معاون خصوصی برائے بلدیات ضلع غربی آصف محمد خان نے بتایا کہ حکومت سندھ کراچی میں نئے قبرستان کے لئے اراضی الاٹ کر رہی ہے، ضلع غربی میں ایک نیا قبرستان مبارک ویلیج کے قریب قائم کیا جا رہا ہے، انھوں نے کہا کہ حکومت پرانے قبرستانوں میں گنجائش ختم ہونے سے واقف ہے ، اسی لیے مختلف مقامات پر نئے قبرستانوں کی اراضی قانون کے مطابق الاٹ کرنے کا عمل شروع کیا گیا ہے
شہر قائد میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر نگرانی 39قبرستان ہیں جن میں 6قبرستانوں کو تدفین کے لیے بند کردیا گیا ہے جبکہ فلاحی اداروں کے تعاون سے دو نئے قبرستان تعمیر کرکے تدفین کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
قبرستانوں میں غیراخلاقی حرکات کو کنٹرول اور جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ڈائریکٹر انفارمیشن اور کنوینر قبرستان کمیٹی علی حسن ساجد نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
انھوں نے کہا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے قبرستانوں میں غیر رجسٹرڈ شدہ گورکن، پانی ڈالنے کے لیے کم عمر بچے بچیاں اور دیگر اسٹاف بہت عرصے سے کام کررہے تھے جس کی وجہ سے کئی مسائل جنم لے چکے تھے۔
مانیٹرنگ نہ ہونے کی وجہ سے قبرستانوں میں منشیات کی خرید وفروخت ودیگر غیراخلاقی سرگرمیاں جاری تھیں اور جرائم پیشہ افراد کے لیے یہ قبرستان محفوظ پناہ گاہیں بن چکی تھیں، ایک مضبوط مافیا اس پورے نیٹ ورک کے پیچھے کام کررہا تھا، ان تمام مسائل اور جرائم کی بیخ کنی کے لیے سابق ایڈمنسٹریٹر لیئق احمد نے موچر اقدام کیے تھے، قبرستانوں کے گورکن سمیت تمام عملے کو رجسٹرڈ کرنے کی ہدایت جاری کیں۔
بچیوں کی آمد ورفت کو ممنوع قرار دیا، قبروں پر پانی ڈالنے کے لیے 18سال اور زائد عمر کے لڑکے کی شرط لازمی قرار دی، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اعلیٰ حکام نے رواں سال 9جولائی کو سینٹرل کمیٹی قبرستان قائم کی جس کے اراکین میں سرکاری افسران، سماجی و فلاحی ادارے الخدمت، سیلانی ویلفئیر ٹرسٹ، جی ڈی سی، عالمگیر ویلفئیر ٹرسٹ، دعوت اسلامی اور النور ٹرسٹ کے نمائندے شامل ہیں۔
یہ کمیٹی اب قبرستانوں کے تما م معاملات کی نگرانی کررہی ہے اور ہر امور پر کڑی نگاہ رکھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے غیراخلاقی سرگرمیوں پرقابوپایا جاچکا ہے، قبرستانوں میں عملے کیبھرتی کے لیے اشہارات شائع کرکے ان کی تقرری کی گئی ہے، وقتا فوقتا کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے جس میں تمام امور کا جائزہ لے کر اہم فیصلے کیے جاتے ہیں۔
ڈائریکٹر انفارمیشن اور کنوینر قبرستان کمیٹی علی حسن ساجد نے بتایا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی نے گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے چھ قبرستان تدفین کے لیے بند کردیے ہیں جن میں طارق روڈ قبرستان، ماڈل کالونی قبرستان، یاسین آباد اور دیگر شامل ہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی قبرستانوں کی سڑکوں کی مرمت، اسٹریٹ لائٹس کی درستگی، شجرکاری اور اور دیگر کاموں کے لیے کام کا آغاز کریگی، پہلے مرحلے میں چھ قبرستانوں میں یہ امور انجام دیے جائیں گے، بعدازاں بتدریج تمام قبرستانوں کی حالت بہتر کی جائے گی، انھوں نے کہا کہ فلاحی ادارے جے ڈی سی اور سیلانی ویلفئیر ٹرسٹ کے تعاون سے گذشتہ سال لنک روڈ نیشنل ہائی وے اور سرجانی ٹاؤن سیکٹر 16/Aپر دو نئے قبرستان قائم کرکے وہاں تدفین کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔
کراچی میں پرانے قبرستانوںمیں قبر کا حصول مشکل ترین مرحلہ بن گیا ہے، ان پرانے قبرستانوں میں گورکنوں کی مرضی سے مہنگے داموں لوگ قبریں انتقال کر جانے والے عزیزوں کی تدفین کے لیے حاصل کرنے پر مجبور ہیں، ہر قبرستان میں قبر کے ریٹ الگ الگ اور جگہ کے حساب سے ہیں۔ مہنگائی کے سبب خام مال مہنگا ہونے کی وجہ سے قبروں کو اطراف سے پکا کرانے کی قیمتیں بھی مہنگی ہوگئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میں یہاں رہائش کرائے پر حاصل کرنا یا خریدنا مشکل اور مہنگا ہے ،اسی طرح کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے لیے قریبی قربرستان میں قبر ڈھونڈنا ایک دشوار گزار عمل ہے کیونکہ اس وقت شہر کے تمام بڑے قبرستان بھر چکے ہیں اور ان میں مزید تدفین کی گنجائش ختم ہو گئی ہے تاہم ان قبرستانوں میں موجود ایک شخص ایسا ہوتا ہے ، جو آپ کی اس مشکل کو باآسانی حل کر سکتا ہے، اس شخص کا نام '' گورکن '' ہے۔
اس گورکن کو آپ اس کی مرضی کے مطابق پیسے دیں ، وہ آپ کو آپ کی مرضی کے مطابق قبر کے لیے جگہ تلاش کرکے دے دے گا تاہم قبر کی یہ جگہ ہر قبرستان میں الگ الگ قیمتوں پر دستیاب ہے، ایکسپریس نے کراچی میں قبرستانوں میں قبر کے حصول اور تدفین کے اخراجات کے حوالے سے معلومات حاصل کیں، کراچی میں اس وقت میوہ شاہ ، سخی حسن، سی ون ایریا ، پاپوش ، عیسی نگری ، یاسین آباد ، محمد شاہ ، اورنگی ٹاؤن ، حب ریور روڈ ،ملیر ، شاہ فیصل کالونی ، طارق روڈ ، ڈیفنس ، کورنگی ، لانڈھی سمیت مختلف علاقوںمیں قبرستان موجود ہیں۔
یہ قبرستان بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ماتحت ہیں، شہر کے بڑے قبرستانوں میں تدفین کا عمل کئی برسوں سے بند ہو چکا، ان قبرستانوں میں برادریوں کے حوالے سے بھی جگہیں مختص ہیں اور انفرادی طور پر بھی یہاں تدفین کا عمل ہوتا ہے، میوہ شاہ قبرستان کے گورکن یوسف نے بتایا کہ کراچی کے ہر قبرستان میں الگ الگ قبروں کے ریٹ مقرر ہیں، زیادہ تر ان افراد کو قبر کے لیے جگہیں فراہم کی جاتی ہیں۔
جہاں اس خاندان کا کوئی شخص پہلے سے دفن ہو، جب اس کی قبر پرانی ہو جاتی ہے تو اس خاندان کے خونی رشتے میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے توپھر اہلخانہ مشاورت سے اس قبر کی نشاندہی پر انتقال کر جانیوالے شخص کو دفن کرتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ہم اپنی مرضی سے کسی بھی شخص کو قبر نہیں دیتے یا پھر اگر کسی کو ضرورت ہوتی ہے تو پھر ایسی قبر میں نئی تدفین کی جاتی ہے ، جو کافی پرانی ہو اور اس کی دیکھ بھال کے لئے کوئی شخص نہیں آتا ہو۔
انھوں نے کہا کہ ہر قبرستان میں قبر کے ریٹ الگ الگ ہیں،میوہ شاہ قبرستان میں قبر 15 ہزار روپے سے لے کر 30 ہزار روپے یا اس سے زائد تک دستیاب ہے جو قبر قبرستان کے دروازے یا کسی اچھے مقام پر ہوتی ہے ، اس کے ریٹ زیادہ ہوتے ہیں۔
سی ون ایریا قبرستان میں کام کرنے والے ایک گورکن ( نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ) فرضی نام اشتیاق نے بتایاکہ کراچی کے قدیم قبرستان میں اب گنجائش نہیں، زیادہ تر قبرستانوں میں پرانی قبروںمیں تدفین کا عمل جاری ہے، متوسط علاقوں میں موجود قبرستانوں میں قبروں کے ریٹ 12 ہزار سے لے کر 20 ہزار روپے کے درمیان ہیں جبکہ طارق روڈ اور دیگر مہنگے علاقوںمیں واقع قبرستانوں میں قبر کے ریٹ 30 ہزار یا اس سے زائد ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ قبرستان میں تدفین کے عمل کے بعد سرکاری پرچی ضرور جاری کی جاتی ہے، مقامی قبرستان کے گورکن عمر نے بتایا کہ جب کسی شخص کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کے اہلخانہ میں سے کوئی شخص کم از کم 6 گھنٹے پہلے آکر اپنے انتقال کر جانے والے شخص کے لئے قبر تلاش کرتاہے۔ پھر جگہ کی مناسبت سے اس قبر کے ریٹ طے کیے جاتے ہیں۔
جان پہچان پر قبر کے ریٹ میں کمی بیشی کر دی جاتی ہے، ایک قبر کی کھدائی میں کم از کم دو افراد حصہ لیتے ہیں اور دو سے تین گھنٹے میں قبر کھود دی جاتی ہے، بعض لوگ قبر کا اندرونی حصہ کچا رکھتے ہیں جبکہ بعض افراد قبر کے اندرونی احاطے میں بلاکس رکھ کر چاروں اطراف دیوار بنوا دیتے ہیں تاکہ بارشوں کے دوران اندرونی طور پر قبر خراب نہ ہو، انھوں نے کہا کہ انتقال کر جانے والے شخص کی تدفین کے عمل میں کم از کم ایک گھنٹہ لگتا ہے۔
قبر کا سائز جسم کی لمبائی اور چوڑائی کی مناسبت سے رکھا جاتا ہے، حالیہ دنوں میں انتقال کر جانے والے ایک شخص کے بیٹے سید فیصل علی نے بتایا کہ ان کے والد کا انتقال گذشتہ دنوں ہوا اور ان کی تدفین کھجی گراؤنڈ سے ملحقہ قبرستان میں کی گئی، نیم یا گھنے درخت کے نیچے یا کسی اچھے مقام پر قبر کے تعین کے لیے جب ہم نے معلومات حاصل کیں تو ہمیں دور قبر کے 13 سے 14 ہزار اور سایہ دار درخت کے قریب قبر کی جگہ کے لیے 20 ہزار روپے طلب کیے گئے تاہم پھر میں نے سایہ دار درخت کے نیچے اپنے والد کی تدفین کی اور قبر کے لیے 17 ہزار روپے ادا کیے۔
یہ عمل بھی جان پہچان پر ہوا، انھوں نے کہا کہ شہر میں اب نئے قبرستان بنانے کی ضرورت ہے، طارق روڈ قبرستان میں حالیہ دنوں دفن کی جانے والی خاتون کے صاحبزادے سہیل نے بتایا کہ ہم لائنز ایریا کے رہائشی ہیں، میری والدہ کے انتقال کے بعد ان کی تدفین طارق روڈ قبرستان میں کی گئی ، جہاں گورکن نے اپنی مرضی سے قبر دی اور اس کے لیے تقریبا 25 ہزار روپے لیے گئے۔
انھوں نے کہا کہ ہماری اپنی مرضی کی جگہ کے لیے قبر بہت مہنگی تھی ، جو ہماری گنجائش میں نہیں تھی، مقامی قبرستان کے قریب مدرسے کے مہتمم حاجی الیاس خان نے بتایا کہ کراچی میں تدفین کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے کیونکہ تمام پرانے قبرستانوںمیں گنجائش نہیں ، حکومت جو قبرستان بنا رہی ہے ، وہ بہت دور مقامات پر ہے، ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ قریب ترین قبرستان میں اپنے انتقال کر جانے والے شخص کی تدفین کرے۔
اسی لیے لوگ قریبی قبرستان میں اپنی مرضی کی قبر تلاش کرتے ہیں اور اس کی منہ مانگی قیمت ادا کرتے ہیں، قبرستانوں میں تدفین کے علاوہ قبروں کو اطراف سے پکا کرانے کا عمل بھی بہت مہنگا ہوتا جا رہا ہے، اس حوالے سے میوہ شاہ قبرستان میں قبروں کا پکا کرنے کا کام کرنے والے گورکن طارق بلوچ نے بتایا کہ قبروں کو اطراف سے پکا کرنے کی مختلف درجہ بندیاں ہیں، کچھ لوگ اپنے انتقال کر جانے والے عزیزوں کی سادہ قبریں پکی کراتے ہیں، یہ قبریں تین مراحل میں بنتی ہیں۔ جو ایک ، دو اور تین منزلوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
سادی کچی قبر کی پہلی منزل 6 ہزار روپے سے لے کر 8 ہزار روپے ، دوسری منزل سادہ 9 سے 12 ہزار روپے اور تیسری منزل 15 سے 20 ہزار روپے کے درمیان ہوتی ہے، ہر قبرستان میں سادہ قبروں کو پکا کرانے کے ریٹ الگ الگ ہوتے ہیں جبکہ ٹائل اور ماربل والی قبروں کے ریٹ بھی قبرستانوں کے مقامات کی مناسبت سے طے کیے جاتے ہیں، کم از کم ٹائل والی قبر 17 ہزار روپے سے لے کر 30 ہزار روپے تک ہے جبکہ اچھے ماربل والی تین منزلہ قبر کو پکا کرنے کی قیمت 70 ہزار سے ایک لاکھ روپے کے درمیان ہے، قبر ے اطراف سے پکا کرانے کا کام انتقال کرنے والے خاندان کے افراد کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے، سادہ قبر کو پکا کرنے میں 6 گھنٹے اور ماربل والی قبر 3 دن میں تیار ہوتی ہے۔
ان قبروں کی شناخت کے لئے تختی بھی لگائی جاتی ہے ، جو انھیں پیسوں میں شامل ہوتی ہے، اب زیادہ تر لوگ شناخت کے لیے تختی پر نام اور تاریخ وفات کا اندراج کراتے ہیں، ہم قرآنی آیات لکھنے سے منع کرتے ہیں تاکہ بے حرمتی نہ ہو،قبرستانوں میں گنجائش کی وجہ سے بعض قبرستانوں میں ڈبل قبریں بھی بنی ہوئی ہیں، قبرستانوں میں قبروں کو پکا کرنے کے لئے خام مال سپلائی کرنے والے ایک شخص ریاض مستری نے بتایا کہ قبرستانوں میں قبریں گورکن خود تیار کرتے ہیں، اس وقت سیمنٹ ، بجری اور اینٹیں مہنگی ہو گئی ہیں ، جس کی وجہ سے قبروں کو پکا کرنے کے ریٹ دگنے ہو گئے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ سیمنٹ کی بوری اس وقت 800 سے 850 ، مشینی بلاک 30 سے 35 روپے اور ریتی کی آدھی گاڑی 700 اور ٹائل اور ماربل خوبصورتی اور معیار کے حساب سے مارکیٹ میں دستیاب ہیں، وزیر اعلی سندھ کے معاون خصوصی برائے بلدیات ضلع غربی آصف محمد خان نے بتایا کہ حکومت سندھ کراچی میں نئے قبرستان کے لئے اراضی الاٹ کر رہی ہے، ضلع غربی میں ایک نیا قبرستان مبارک ویلیج کے قریب قائم کیا جا رہا ہے، انھوں نے کہا کہ حکومت پرانے قبرستانوں میں گنجائش ختم ہونے سے واقف ہے ، اسی لیے مختلف مقامات پر نئے قبرستانوں کی اراضی قانون کے مطابق الاٹ کرنے کا عمل شروع کیا گیا ہے