سورج کی فضا کو’چھونے‘ والے پہلے خلائی جہاز نے اہم انکشاف کردئیے
خلائی جہاز پارکر سورج کی فضا کے انتہائی قریب جانے والا پہلا جہاز ہے
PESHAWAR:
چند روز قبل ناسا نے ایک تاریخی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پہلی بار انسان کی بنائی ہوئی کسی شے نے سورج کی فضا کے اندر کا سفر کیا ہے۔ ناسا نے مشہور پارکر سولر پروب کے متعلق کہا تھا کہ یہ سورج کو چھونے والا پہلا خلائی جہاز بھی ہے۔
پارکر نے سورج کے ایک بڑے راز پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ آخر اس کی فضا شمسی سطح سے زیادہ گرم کیوں ہے؟ پھر سائنس دانوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سورج کی سطح سے اوپر بالائی فضا میں مسلسل حرکت میں ایک غیر مرئی رکاوٹ یا سرحد ہے جسے ایلف وین پوائنٹ کا نام دیا گیا ہے۔
خیال ہے کہ اس نقطے کے آگے عجیب وغریب طبعی مظاہر ہیں یعنی مختلف عناصر مختلف انداز میں گرم ہوتے ہیں۔ پارکر تحقیق کے بعد ناسا نے اس پر تین مقالے بھی لکھے ہیں۔
اس سال اپریل میں پارکر سورج کی فضا میں جاپہنچا جسے کورونا کا نام دیا گیا ہے لیکن خیال رہے کہ یہ مقام بھی سورج سے 81 لاکھ میل دوری پر واقع ہے۔
کم سے کم فاصلے کی بات کی جائے تو پارکر سورج سے 65 لاکھ میل کی قربت تک پہنچا ہے۔ یہاں سورج کی ناموافق فضا اور خوفناک گرمی سے بچانے کے لیے اس پر خصوصی حفاظتی پرت (شیلڈ) لگائی گئی ہے۔
پارکر خلائی جہاز نے بتایا کہ سورج کی فضا مسلسل ہموار نہیں اور اس میں نشیب و فراز ہیں۔ دوسری جانب اس نے تیز شمسی جھکڑ کے ایک ماخذ (سورس) کا بھی اشارہ دیا ہے جنہیں 'سوئچ بیکس' کہا گیا اور دوم ایک طرح کا جعلی فضائی اسٹریمر دریافت کیا ہے جسے سوڈواسٹریمر پکارا گیا ہے۔
سوئچ بیک چارج والے ذرات کی ایک بوچھاڑ ہے جو سورج پر زگ زیگ کی صورت میں سفر کرتی ہے۔ سوڈو اسٹریمر ایک بڑی گیسی ساخت ہے جو کورونا میں رہتے ہوئے آگے اور پیچھے گردش کرتی رہتی ہے۔
چند روز قبل ناسا نے ایک تاریخی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پہلی بار انسان کی بنائی ہوئی کسی شے نے سورج کی فضا کے اندر کا سفر کیا ہے۔ ناسا نے مشہور پارکر سولر پروب کے متعلق کہا تھا کہ یہ سورج کو چھونے والا پہلا خلائی جہاز بھی ہے۔
پارکر نے سورج کے ایک بڑے راز پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ آخر اس کی فضا شمسی سطح سے زیادہ گرم کیوں ہے؟ پھر سائنس دانوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سورج کی سطح سے اوپر بالائی فضا میں مسلسل حرکت میں ایک غیر مرئی رکاوٹ یا سرحد ہے جسے ایلف وین پوائنٹ کا نام دیا گیا ہے۔
خیال ہے کہ اس نقطے کے آگے عجیب وغریب طبعی مظاہر ہیں یعنی مختلف عناصر مختلف انداز میں گرم ہوتے ہیں۔ پارکر تحقیق کے بعد ناسا نے اس پر تین مقالے بھی لکھے ہیں۔
اس سال اپریل میں پارکر سورج کی فضا میں جاپہنچا جسے کورونا کا نام دیا گیا ہے لیکن خیال رہے کہ یہ مقام بھی سورج سے 81 لاکھ میل دوری پر واقع ہے۔
کم سے کم فاصلے کی بات کی جائے تو پارکر سورج سے 65 لاکھ میل کی قربت تک پہنچا ہے۔ یہاں سورج کی ناموافق فضا اور خوفناک گرمی سے بچانے کے لیے اس پر خصوصی حفاظتی پرت (شیلڈ) لگائی گئی ہے۔
پارکر خلائی جہاز نے بتایا کہ سورج کی فضا مسلسل ہموار نہیں اور اس میں نشیب و فراز ہیں۔ دوسری جانب اس نے تیز شمسی جھکڑ کے ایک ماخذ (سورس) کا بھی اشارہ دیا ہے جنہیں 'سوئچ بیکس' کہا گیا اور دوم ایک طرح کا جعلی فضائی اسٹریمر دریافت کیا ہے جسے سوڈواسٹریمر پکارا گیا ہے۔
سوئچ بیک چارج والے ذرات کی ایک بوچھاڑ ہے جو سورج پر زگ زیگ کی صورت میں سفر کرتی ہے۔ سوڈو اسٹریمر ایک بڑی گیسی ساخت ہے جو کورونا میں رہتے ہوئے آگے اور پیچھے گردش کرتی رہتی ہے۔