فضائی آلودگی کی سائنس
انسانوں کو خطرناک بیماریوں میں مبتلا کرنے والے عجوبے کا چشم کشا قصّہ جسے انسانی و قدرتی سرگرمیاں جنم دے چکیں۔
ROME:
آپ برگر کھا رہے ہیں، اچانک وہ نیچے مٹی میں گر گیا۔ آپ کو علم ہے کہ وہ گندا ہو چکا لہٰذا اب اسے نہیں کھائیں گے۔ اسی طرح پانی میں کوئی آلائش نظرا ٓئے تو آپ اسے نوش نہیں کریں گے۔
غرض کھانے پینے کی اشیا گندگی سے آلودہ ہو جائیں تو ہم انہیں استعمال نہیں کرتے۔ یہی معاملہ ہوا کے ساتھ بھی پیش آتا ہے۔ دور جدید میں بہت سی آلودگیاں ہوا کو گندا کر رہی ہیں لیکن عموماً ہم پروا نہیں کرتے۔ وجہ یہی کہ ہوا کی گندگی ہمیں دکھائی نہیں دیتی مگر وہ ہماری جسمانی وذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور اس سے بچائو ضروری ہے۔
بے حسی کی سنگین مثال
پچھلے ماہ کے اواخر سے خبریں آنے لگیں کہ وطن عزیز کے دو بڑے شہر، کراچی اور لاہور فضائی آلودگی کے معاملے میں دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہو رہے ہیں۔بلکہ سرفہرست آنے کے لیے لاہور اور بھارتی دارالحکومت،نئی دہلی کے مابین مقابلہ ہوتا رہا۔مگر یہ کوئی فخر وعزت نہیں ہمارے حکمران طبقے اور قوم کے لیے بھی شرمندگی و ذلت کی بات ہے۔
اس امر سے عیاں ہوا کہ پاکستانی حکومت فضائی آلودگی ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتی۔جبکہ عام پاکستانی بھی ایسی منفی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں جو فضائی آلودگی میں اضافہ کر دیں۔اسی بنا پر کروڑوں پاکستانی قسم قسم کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔یہ حکومتی بدانتظامی و نااہلی اور عوام کی غفلت و بے حسی کی سنگین مثال ہے اور ملک وقوم کے دامن پہ پڑنے والا سیاہ دھبہ بھی۔
استعمار کا ایک منفی روپ
فضائی آلودگی دور حاضر کا کرشمہ نہیں بلکہ یہ کروڑوں برس سے موجود ہے۔قدرتی طور پہ پائے جانے والی بعض گیسیں اور مائع و ٹھوس مادے فضائی آلودگی پیدا کرتے ہیں۔مگر تاریخی طور پہ فضا میں اس آلودگی کی مقدار کم رہی ہے۔اسی لیے یہ جانداروں کو زیادہ نقصان نہیں پہنچاتی تھی۔مگر جوں جوں انسان اپنی سرگرمیاں پھیلانے لگے، فضا میں آلودگی پھیلانے والے قدرتی و انسان ساختہ مادوں (Pollutants) کی مقدار بڑھنے لگی۔اسی خرابی نے فضا کو گندہ اور آلودہ کر دیا۔آج فضائی آلودگی پیدا کرنے والے کئی مادوں کی مقدار زمینی ٖفضا میں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ چکی۔
اسی لیے وہ اب دنیا بھر میں انسانی صحت کے لیے خطرہ بن چکے۔وہ بچوں، خواتین اور مردوں کو عجیب وغریب امراض میں مبتلا کر رہے ہیں۔یہ طرفہ تماشہ ہے کہ انسانوں کی سرگرمیاں انہی کے لیے خطرہ و باعث ِتکلیف بن گئیں۔یہ دور جدید کی ترقی کا ایک بڑا تناقص اور منفی پہلو ہے۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا میں ''پچاس فیصد سے زائد'' فضائی آلودگی امیر ممالک کے باشندے پیدا کرتے ہیں جو کرہ ارض کی کل آبادی کا صرف ''دس فیصد ''حصہ ہیں۔گویا امیر مغربی باشندوں کی سرگرمیوں نے غریب ملکوں کے اربوں باشندوں کو آلودگی سے جنم لینے والے کئی عذابوں میں مبتلا کر دیا۔ یہ مغربی استعمار کا ایک اور منفی روپ ہے۔
قدرتی ذرائع
قدیم زمانے میں آتش فشاں پھٹنے یا جنگل میں آگ لگنے سے ہوا میں آلودگی پھیلتی تھی۔ آتش فشاں گندھک، کلورین گیس اور راکھ کے ذرات ہوا میں چھوڑتا ہے۔ جنگل میں لگی آگ سے دھواں اور کاربن مونو آکسائیڈ ہوا کا حصہ بنتی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی حکمت سے کرۂ ارض پر زندگی نے جنم لیا۔ جاندار بھی فضا میں آلودگی پیدا کرنے لگے۔
حیوانوں اور انسانوں میں نظام تنفس کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے جبکہ کچھ جانور غذا ہضم کرتے ہوئے میتھین گیس خارج کرتے ہیں۔یہ دونوں آلودگی میں اضافہ کرنے والی گیسیں ہیں۔ہوا میں آلودگیاں پیدا کرنے والے دیگر قدرتی ذرائع بھی ہیں مثلاً جن علاقوں میں سبزہ کم ہے وہاں ریت اور مٹی ہوا میں شامل رہتی ہے۔ زمین کی پرت (Crust) میں ریڈیم، تھوریم اور یورینیم عناصر بھی شامل ہیں۔
یہ عناصر گل سڑ کر ریڈون (Radon) گیس بناتے ہیں۔ یہ بھی میتھین، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور گندھک کی طرح انسانی صحت کے لیے مضر گیس ہے۔ اگر ہوا میں ریڈون گیس بکثرت موجود ہو تو اس میں طویل عرصہ سانس لینے سے انسان پھیپھڑوں کے کینسر کا نشانہ بن جاتا ہے۔درختوں اور پودوں کی بعض اقسام خصوصاً موسم گرما میں وولٹائل آرگینک کمپاؤنڈز(Volatile organic compounds) خارج کرتے ہیں۔ یہ نامیاتی کیمیکل ہیں جو ہوا میں موجود نائٹروجن گیس اور گندھک کے ساتھ مل کر سموگ پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ نامیاتی کیمیکل خارج کرنے والے درختوں میں پاپولر، بلوط، بید اور سیاہ گوند کے درخت شامل ہیں۔
اسموگ کا عجوبہ
رفتہ رفتہ انسان مختلف کیمیائی مادے استعمال کرنے لگے۔ پھر صنعتی دور کا آغاز ہوگیا۔ انسان کوئلہ، پٹرول، قدرتی گیس، لکڑی، مٹی کا تیل اور دیگر ایندھن اپنی سرگرمیوں میں استعمال کرنے لگا۔ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے نت نئی آلودگیاں ہوا یا فضا میںشامل ہونے لگیں۔ اہم بات یہ کہ پچھلے ایک سو برس سے فضا میں ان آلودگیوں کی مقدار کافی زیادہ بڑھ چکی۔ اسی باعث اب وہ انسان کی صحت اور روزمرہ زندگی پر منفی اثرات پیدا کر رہی ہیں۔روزمرہ زندگی متاثر کرنے والا فضائی آلودگی کا ایک عجوبہ ''سموگ'' ہے۔
یہ عموماً اس وقت جنم لیتی ہے جب گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں میں آبی بخارات شامل ہو جائیں۔ سردیوں میں فضا میں موجود آبی بخارات منجمد ہو کر ''دھند'' پیدا کرتے ہیں۔ دھند مگر انسانی صحت کے لیے نقصان دہ نہیں کیونکہ وہ صرف آبی بخارات پر مشتمل ہوتی ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلتا دھواں بھی دھند کا حصہ بن جائے۔ تب یہ مرکب سموگ کہلاتا اور انسان سمیت تمام جانداروں کے لیے نقصان دہ شے بن جاتا ہے۔
دو حصے
فضائی آلودگی کے دو بڑے حصّے ہیں: اول مضر صحت گیسیں اور دوم کیمیائی مادوں کے ننھے منے ذرے جو ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔ یہ ذرے اصطلاح میں ''پارٹیکولیٹ میٹر'' (particulate matter)کہلاتے ہیں۔ ان ذروں کی دو اقسام ہیں۔ اول دس سے اڑھائی مائیکرو میٹر قطررکھنے والے ذرے اور دوم وہ ذرات جو اڑھائی مائیکرو میٹر سے چھوٹے ہوں۔
انہیں پی ایم 2.5 (PM 2.5) کہا جاتا ہے۔انسان کا بال 70 مائیکرو میٹر قطر رکھتا ہے لہٰذا پارٹیکولیٹ میٹر کے ذرات انسانی بال سے بھی زیادہ باریک ہوتے ہیں۔ یہ اگر ناک، منہ اور کان کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو جائیں تو خون کی روانی میں شامل ہو کر ہر عضو تک پہنچ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے اگر ذرات خطرناک کیمیائی مادوں کے ہوں تو وہ انسانی جسم میں کوئی نہ کوئی خرابی پیدا کرنے لگتے ہیں۔
گاڑیوں کا اژدہام
آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ پچھلے پچاس ساٹھ برس سے انسان عجیب وغریب بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے ہیں۔ اکثر اوقات ایک انسان بھلا چنگا ہوتا ہے لیکن اچانک بیمار پڑتا اور دیکھتے ہی دیکھتے چل بنتا ہے۔ ان انوکھی بیماریوں کو جنم دینے میں فضائی آلودگی کا بھی کردار ہے جو پچھلے کئی عشروں سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ بڑھاؤ اسی لیے پیدا ہوا کہ انسانی آبادی بڑھنے کے باعث انسانوں کی سرگرمیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔مثال کے طور پر محض ایک صدی قبل تک کراچی اور لاہور کی سڑکوں پر خال خال گاڑی نظر آتی تھی۔ آج پاکستان کے دونوں شہروں میں گاڑیوں کا اژدہام دکھائی دیتا ہے۔
سڑکوں پر ان کی اتنی زیادہ کثرت ہو چکی کہ اب دونوں شہروں میں کئی جگہ ٹریفک جام رہنا معمول بن چکا ہے۔ یہی نہیں، یہ گاڑیاں ہر سال لاکھوں ٹن گیسیں اور پارٹیکولیٹ میٹر مادے فضا میں خارج کرتی ہیں۔ کراچی اور لاہور میں بنیادی طور پر گاڑیوں اور فیکٹریوں کا یہی اخراج آبی بخارات سے مل کر سموگ پیدا کرتا ہے۔ درحقیقت آبی بخارات نہ ہوں تب بھی گاڑیوں وفیکٹریوں کا دھواں دیگر گیسوں کے کیمیائی ردعمل سے گزر کر سموگ کو جنم دے سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق کاربن مونو آکسائیڈ (گیس)، نائٹروجن آکسائیڈز (گیسیں)، کاربن ڈائی آکسائیڈ (گیس)، سیسہ، اوزون (گیس)، پارہ (مرکری)، سلفر ڈائی آکسائیڈ (گیس)، پارٹیکولیٹ میٹر، ایسبٹوس، بینزین، ایندھنی تیل، ہائیڈرو کاربنز، وولٹالئل آرگینک کمپاؤنڈز، کلوروفلورو کاربنز، ایمونیا (گیس) اور ریڈیائی عناصر کے گلنے سڑنے سے پیدا ہونے والی گیسیں زمین میں فضائی آلودگی بڑھانے کی ذمہ دار ہیں۔
دو قسم کے اثرات
فضائی آلودگی سے انسان کی صحت پر دو قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک تو مختصر مدت تک رہتے ہیں۔ دوسری قسم کے اثرات طویل مدتی ہیں۔ مختصر مدتی اثرات کی وجہ سے آنکھیں درد کرتی ہیں۔ وہ لال ہو جاتی ہیں۔ انسان کو کھانسی چمٹ جاتی ہے۔ وہ سانس لینے میں تکلیف محسوس کرتا ہے۔ طبیعت بھاری بھاری رہتی ہے اور کوئی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ اگر پاک صاف فضا میں چلا جائے تو مختصر مدتی اثرات جلد ختم ہو جاتے ہیں۔طویل المدتی اثرات اس وقت جنم لیتے ہیں جب انسان بہت سارا وقت فضائی آلودگی کے ماحول میں گزارے۔ تب فضا میں شامل مختلف زہریلی گیسیں اور زہریلے ذرات اس کے دوران خون میں شامل ہو کر رفتہ رفتہ انسان کو مختلف بیماریوں کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ ان بیماریوں میں امراض تنفس، فالج اور امراض قلب سرفہرست ہیں۔ بعض قسم کے کینسر بھی جنم لیتے ہیں۔
نصف صدی قبل لاہور میں رواج تھا کہ جب موسم سرما آتا تو صبح شام اکثر جگہوں پر دھند چھا جاتی۔ یہ قدرتی عجوبہ اس وقت جنم لیتا ہے جب فضا میں موجود آبی بخارات سردی کی وجہ سے منجمد ہو جائیں چناںچہ وہ سفید دھوئیں جیسی صورت اختیار کر لیتے ۔ یہ دھند مگر انسانی وحیوانی جانداروں کو نقصان نہیں پہچاتی، بس سردی میں اضافہ کر دیتی ہے۔ دھند میں انسان زیادہ سردی محسوس کرتا ہے۔جیسا کہ بتایا گیا،رفتہ رفتہ انسانی سرگرمیوں کے سبب فضا میں جنم لینے والی آلودگیاں دھند میں شامل ہونے لگیں۔ اس عمل نے اسموگ پیدا کر ڈالا۔ یہ عجوبہ جانداروں کے لیے خطرناک ہے کیونکہ دھند سے ملتے جلتے اس دھوئیں میں فضائی آلودگیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔ یہ انسانی وحیوانی صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اسموگ ان آلودگیوں کا ایک اہم مظہر ہے۔
قاتل فضائی آلودگی
عالمی صحت پر تحقیق کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کی تازہ رپورٹیں افشا کرتی ہیں کہ اب ہر سال فضائی آلودگی کے باعث ''اسّی لاکھ سے ایک کروڑ انسان'' اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ گویا فضائی آلودگی بھی کچھ بیماریوں کی طرح بنی نوع انسان کی ایک بڑی دشمن بن چکی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس خطرے کو انسان نے اپنی سرگرمیوں کے باعث خود جنم دیا۔ فضا آلودہ کرنے اور گندگی پھیلانے والے عناصر کی تعداد پچھلے چند سو برس سے کہیں زیادہ ہو چکی۔ ان میں بعض عناصر زندگی کے لیے زیادہ خطرناک ہیں اور بعض کم۔ ایک خوش آئند بات یہ کہ ایسے آلات ایجاد ہو چکے جن کی مدد سے اب یہ جاننا ممکن ہے کہ کسی بھی جگہ ہوا میں آلودگی پیدا کرنے والے کون کون سے عناصر موجود ہیں اور ان کی مقدار کتنی ہے۔
آلودگی کی جانچ
ماہرین ماحولیات کے نزدیک چھ سات عناصر فضا زیادہ آلودہ کرتے ہیں۔ ان میں یہ شامل ہیں: کاربن مونو آکسائیڈ، سیسہ، نائٹروجن آکسائیڈز، اوزون، پارٹیکولیٹ میٹر، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈرو کاربنز۔ اسی لیے ہوا میں آلودگی کی جانچ کرنے والے بیشتر آلات درج بالا چھ سات عناصر کی مقدار ہی کا پتا لگاتے ہیں۔ اگر مقدار کم ہو تو اس جگہ کی فضا صاف ستھری ہے لیکن مقدار زیادہ ہو تو وہ جگہ آلودہ (یعنی مضرصحت) بن جاتی ہے۔
آئی کیو ایئر(IQAir) فضا میں آلودگیاں دریافت کرنے والے آلات بنانے والی قدیم ترین کمپنی ہے۔ اس کی بنیاد 1963ء میں دو جرمن موجدوں نے رکھی تھی۔ فی الوقت کمپنی کا ہیڈکوارٹر سوئٹزرلینڈ میں ہے۔ خاص بات یہ کہ یہ کمپنی دنیا بھر کے شہروں میں فضائی آلودگیاں چیک کرتی ہے۔ حاصل کردہ ڈیٹا پھر کمپنی کی ویب سائٹ سے مشتہر ہوتا ہے۔ یہ ڈیٹا دنیا بھر میں قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے۔آئی کیو ایئر نے فضائی آلودگی کی جانچ کے لیے جو پیمانہ ایجاد کیا وہ بھی دنیا بھر میں رواج پا چکا۔ اسی پیمانے کے چھ نمایاں درجے ہیں:
٭عمدہ... 0 سے 50
٭درمیانی... 51 سے 100
٭حساس جانداروں کے لیے غیرصحت مند... 101 سے 150
٭غیرصحت مند... 151 تا 200
٭بہت غیر صحت مند... 201 سے 300
٭نقصان دہ... 301 سے 500
اس پیمانے سے عیاں ہے کہ فضا میں 0 سے 50 تک کی فضائی آلودگی کم ہے۔ اس فضا میں جانداروں کو آکسیجن بھری اچھی ہوا میسّر آتی ہے۔ 51 سے 100 تک کی فضا میں آلودگیاں بڑھ جاتی ہیں مگر وہ جاندار کو زیادہ نقصان نہیں پہنچاتیں۔ اس کے بعد آلودگیوں کی کثرت خطرناک ہونے لگتی ہے جبکہ 301 سے اوپر پہنچ کر آلودگی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔
لمحہ فکریہ
آئی کیو ایئر کی ویب سائٹ پر ایک حصہ اہم شہروں کی موجودہ (Live) فضائی آلودگی ظاہر کرتا ہے۔ اس حصے میں نومبر کے آخر سے اگلے کئی دن تک سب سے اوپر پاکستانی شہر لاہور براجمان رہا۔ کئی بار وہاں ایک دن میں فضائی آلودگی کی مقدار 280 کے آس پاس ریکارڈ کی گئی۔ گویا لاہور کی فضا ''بہت غیرصحت مند'' قرار پائی۔ دوسرا نمبر بھارتی دارالحکومت دہلی کو ملا۔ دس بڑے آلودہ شہروں کی فہرست میں پاکستانی شہر کراچی بھی شامل ہوتا رہا۔پچھلے دو عشروں میں لاہور کی آبادی تیزی سے بڑھی ہے۔ اس کے آس پاس ہزارہا فیکٹریاں بھی واقع ہیں۔ مزیدبرآں لاہور کی سڑکوں پر گاڑیوں کی کثرت ہو چکی ۔ ان تینوں عوامل نے لاہور کی فضا میں ٹھوس، مائع اور گیسی آلودگیوں کی مقدار بہت زیادہ بڑھا دی۔ یہی وجہ ہے کہ سردیاں آتے ہی یہ آلودگیاں آبی بخارات کے ساتھ مل کر اسموگ پیدا کر دیتی ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں قانون کا نفاذ کمزور ہے۔ کئی لوگوں کی گاڑیاں، رکشے اور موٹرسائیکل فضا میں بکثرت زہریلا دھواں خارج کرتے ہیں مگر وہ اپنے خراب پرزے ٹھیک نہیں کراتے۔ ان بے حس لوگوں کو یہ احساس تک نہیں کہ دھواں چھوڑ کر وہ دوسرے انسان کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ تعلیم وتربیت نہ ہونے سے اس قسم کی مجرمانہ بے حسی وغفلت پیدا ہوتی ہے مگر اسے روکنے کا کوئی اقدام نہیں کیا جاتا۔ دھوئیں کا اخراج اسی وقت ختم ہو سکتا ہے جب اسے جنم دینے والوں کو بھاری جرمانے کیے اور سخت سزائیں دی جائیں۔
آئی کیو ایئر کے پیمانے کی رو سے دنیا میں دس آلودہ ترین ممالک یہ ہیں: بنگلہ دیش، پاکستان، بھارت، منگولیا، افغانستان، عمان، قطر، کرغستان، انڈونیشیا اور بوسنیا ہرزگونیا۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کی فضا پچھلے تین برس سے ''غیرصحت مند'' چلی آ رہی ہے۔ یہ صورت حال حکمران طبقے اور پاکستانی قوم کے لیے بھی باعث شرمندگی ہونی چاہئے۔پاکستان میں فضائی آلودگی اس باعث بھی زیادہ ہے کہ لوگوں کی کثیر تعداد یہی نہیں جانتی کہ آلودگیاں کیونکر صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس بے خبری کے باعث وہ آلودگی پھیلا کر نہ صرف اپنی بلکہ دوسرے لوگوں کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ ذیل میں اہم آلودہ عناصر کے نقصانات درج ہیں۔
کاربن مونو آکسائیڈ
یہ ایک بے رنگ اور بے بو گیس ہے۔ پٹرول، لکڑی، مٹی کا تیل، کوئلہ اور دیگر گاڑی ایندھن جلنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر فضا میں اس گیس کی مقدار بڑھ جائے تو انسانی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ وجہ یہ کہ جسم کے اندر پہنچ کر کاربن مونو آکسائیڈ خول کے سرخ خلیوں میں آکسیجن کی جگہ لے لیتی ہے۔ لہٰذا جسم کے خلیوں کو آکسیجن نہ ملے تو وہ خرابی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔
فضا میں اس گیس کی مقدار کم ہو تب بھی اسے پی کر صحت مند انسان تھکن اور گھبراہٹ محسوس کرتا ہے۔ وجہ یہی کہ خلیوں کو آکسیجن ملنا کم ہو جاتی ہے جبکہ جو مرد و زن دل کی بیماریوں میں مبتلا ہوں انہیں سینے میں درد ہوتا ہے۔
کاربن مونو آکسائیڈ کی مقدار فضا میں مزید بڑھ جائے تو انسان کو انجائنا کا درد چمٹ جاتا ہے۔اس کیفیت میں دل کو آکسیجن سے بھرا خون نہیں ملتا چناں چہ وہ اپنا کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔اس بنا پر جلد سینے میں درد ہونے لگتا ہے۔لگتا ہے کہ سینے پہ کوئی بوجھ رکھا جا چکا۔انسا ن بدستور یہ زہریلی گیس پیتا رہے تو اس کی بینائی متاثر ہوتی ہے۔آنکھوں میں درد ہونے لگتا ہے اور چیزیں صاف دکھائی نہیں دیتیں۔جوں جوں جسم میں کاربن مونو آکسائیڈ ک مقدار بڑھے،بینائی مذید متاثر ہوتی ہے۔اب سر درد بھی ہونے لگتا ہے۔انسان کے حواس بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اسے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا ہو رہا ہے۔متلی بھی آتی ہے۔آخرکا انسان تکلیف کی شدت برداشت نہ کرتے ہوئے بے ہوش ہو جاتا ہے۔وہ فضا سے بذریعہ سانس زہریلی گیس لیتا رہے تو وہ اس کی جان لے کر ہی دم لیتی ہے۔
جیسا کہ بتایا گیا، یہ گیس پٹرول،گیس،کوئلہ اور دیگر رکازی ایندھنوں کے جلنے سے جنم لیتی ہے۔لہذا کبھی ٹریفک میں پھنس جائیں تو وہاں حتی الامکان گہرے سانس لینے سے پرہیز کیجیے۔کیونکہ گاڑیوں کا دھواں کثیر مقدار میں جمع ہو جاتا ہے جس میں کاربن مونو آکسائڈ موجود ہوتی ہے۔اسی طرح بند جگہوں میں بھی پٹرول،گیس اور کوئلہ کبھی نہ جلائیے۔
جدید دور میں خصوصاً شہروں میں رہنے والے لوگ دن میں بیشتر عرصہ سانس لیتے ہوئے گاڑیوں اور کارخانوں سے نکلتا دھواں پیتے ہیں۔حیرت انگیز بات یہ کہ اب تک کسی محقق نے یہ تحقیق نہیں کی کہ کم مقدار میں کاربن مونو آکسائیڈ طویل عرصہ پینے سے انسان پہ جسمانی و ذہنی لحاظ سے کس قسم کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔آج اربوں شہری اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ایک شہری بچہ جیسے ہی پیدا ہو، ہر قسم کا دھواں اس کے جسم میں جانے لگتا ہے۔وہ عموماً ساری زندگی اس حالت سے دوچار رہتا ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ کاربن مونو آسائیڈ اور دیگر گیسی ، مائع اور ٹھوس آلودہ مادے طویل المعیاد طور پہ انسان پہ کیا اثرات ڈالتے ہیں۔ظاہر ہے، ان کی وجہ سے بھی ہر سال لاکھوں انسان چل بستے ہوں گے مگر یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ فضائی آلودگی بھی موت کی ذمے دار ہے۔
سیسہ
یہ دھات ہے۔اسے پگھلا کر فیکٹریوں میں مختلف طریقوں سے کام میں لایا جاتا ہے۔پٹرول میں بھی ڈالا جاتا ہے تاکہ اسے موثر بنایا جا سکے۔بیٹریوں کی تیاری میں مستعمل ہے۔بندوق کی گولیاں، کنسٹریکشن انڈسٹری،ٹانکے لگانے،پینٹ تیار کرنے اور دیگر اشیا بنانے میں بھی مستعمل ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال انسان ایک کروڑ ٹن سیسہ استعمال کرتے ہیں۔پچاس لاکھ ٹن ری سائیکلنگ سے حاصل ہوتا ہے۔
سیسے کے ذرات فضا میں موجود ہوتے ہیں۔یہ سانس لینے کے علاوہ پانی اور غذا میں شامل ہو کر بھی انسانی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔یہ جب بدن کے اندر پہنچ جائیں تو ہڈیوں میں جمع ہونے لگتے ہیں۔ماہرین طب کے مطابق مقدار اگر زیادہ ہو تو یہ دھات انسان کے اعصابی نظام، گردوں کے فعل،مامون نظام(immune system)، نظام تناسل اور دل کے عضلات پہ منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔خون آکسیجن لے جانے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھتا ہے۔
اس دھات کے زہریلے اثرات سے بچے بھی متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ان کا ناپختہ مامون نظام سیسے کی معمول مقدار سے بھی ڈھے جاتا ہے۔یہ دھات پھر بچوں کو مختلف اعصابی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ان کی ذہنی وجسمانی نشوونما بھی فطری طریقے سے نہیں ہو پاتی اور وہ کند ذہن وغبی ہو جاتے ہیں۔سیسے کے ذرات مٹی میں شامل ہو جاتے ہیں۔چونکہ یہ دھات ہزارہا برس تک خراب نہیں ہوتی لہذا یہ ذرات انسان کے لیے مستقل خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔مٹی اور گردوغبار میں ان کی موجودگی کے امکان کی وجہ سے بھی ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ بچوں کو ان اشیا سے دور ہی رکھیں تو بہتر ہے۔
نائٹروجن آکسائیڈز
یہ دو گیسوں...نائٹرک آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی اکسائیڈ کا مجموعی نام ہے۔یہ دونوں گیسیں گاڑیوں اور کارخانوں میں ایندھن جلنے سے فضا میں خارج ہوتی ہیں۔آتش فشاں پھٹنے ،سمندروں میں نباتات گلنے سڑنے اور بجلی چمکنے سے بھی جنم لیتی ہیں۔یہ گیسیں فضا میں آکسیجن اور نائٹروجن گیسوں کے ملاپ سے بنتی ہیں۔اسموگ کی تشکیل میں اہم حصہ لیتی ہیں۔
فضا میں نائٹروجن آکسائیڈ کی کثرت ہو جائے تو بذریعہ سانس اسے پینے سے انسان میں مختلف جسمانی وذہنی اثرات پیدا ہوتے ہیں۔سب سے پہلے وہ سانس لینے میں دشواری محسوس کرتا ہے۔پھر اسے کھانسی چمٹ جاتی ہے۔سینے میں بعض اوقات درد ہوتا ہے۔اگر کوئی دمے کا مریض ہے تو اس کی حالت مذید بگڑ جاتی ہے۔نائٹروجن آکسائیڈز گیسیں فضا میں موجود آبی بخارات اور دیگر کیمیائی مادوں کے ساتھ ردعمل کر کے اوزون گیس اور پارٹیکولیٹ میٹر کی تشکیل میں حصہ لیتی ہیں۔لہذا اس لحاظ سے بھی دونوں گیسیں انسان کو نقصان پہنچاتی ہیں۔انسان کا نظام تنفس ان کا خاص نشانہ بنتا ہے۔
اوزون گیس
یہ گیس کبھی اچھی ہوتی ہے اور کبھی بُری۔زمین سے انتہائی بلندی پر یہ گیس ہمیں سورج کی مضرصحت بالائے بنقشہ شعاعوں سے بچاتی ہے۔تب اس کا کردار مثبت ہے۔مگر جب یہ زمین سے قریب جنم لے تو آلودہ گیس بن جاتی ہے۔وجہ یہ کہ تب اس میں نائٹروجن آکسائیڈز اور وولٹائل آرگینک کمپائونڈز بھی شامل ہوتے ہیں۔ایسا اس وقت ہوتا ہے جب گاڑیوں ،بجلی گھروں، فیکٹریوں کے بوائلروں ،ریفائنریوں ،کیمیکل بنانے والے کارخانوں اور دیگر ذرائع سے خارج ہوتی آلودگیاں فضا میں دھوپ اور آبی بخارات سے تال میل کرتی ہیں۔اوزون گیس بھی بنیادی طور پر انسان کے نظام تنفس پہ حملہ آور ہوتی ہے۔یہ اسے قدرتی طریقے سے کام نہیں کرنے دیتی۔اس باعث انسان سانس لینے میں دقت محسوس کرتا ہے۔اس کا گلا خراب ہو جاتا ہے۔کھانسی اکثر آتی ہے۔دمے میں مبتلا مروزن کی حالت کافی بگڑ جاتی ہے۔بعض اوقات شدید حملے کی وجہ سے انھیں اسپتال جانا پڑتا ہے۔
سلفر آکسائیڈز
یہ آکسیجن مرکبات گندھک اور آکسیجن کے ملاپ سے وجود میں آتے ہیں۔ان میں سلفر ڈائی آکسائیڈ سب سے آلودہ مرکب ہے۔یہ مرکب کارخانوں میں مختلف صنعتی اشیا بناتے ہوئے جنم لتا ہے۔کوئلہ اور پٹرول بھی یہ اسے رکھتے ہیں۔چناں چہ ان ایندھنوں کو جلایا جائے تو سلفر ڈائی اکسائیڈ فضا میں شامل ہو جاتا ہے۔یہ مرکب بھی انسانی نظام تنفس کو نشانہ بناتا ہے۔سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔جو مردوزن سانس کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں، ان کی حالت زیادہ بگڑ جاتی ہے۔
آپ برگر کھا رہے ہیں، اچانک وہ نیچے مٹی میں گر گیا۔ آپ کو علم ہے کہ وہ گندا ہو چکا لہٰذا اب اسے نہیں کھائیں گے۔ اسی طرح پانی میں کوئی آلائش نظرا ٓئے تو آپ اسے نوش نہیں کریں گے۔
غرض کھانے پینے کی اشیا گندگی سے آلودہ ہو جائیں تو ہم انہیں استعمال نہیں کرتے۔ یہی معاملہ ہوا کے ساتھ بھی پیش آتا ہے۔ دور جدید میں بہت سی آلودگیاں ہوا کو گندا کر رہی ہیں لیکن عموماً ہم پروا نہیں کرتے۔ وجہ یہی کہ ہوا کی گندگی ہمیں دکھائی نہیں دیتی مگر وہ ہماری جسمانی وذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور اس سے بچائو ضروری ہے۔
بے حسی کی سنگین مثال
پچھلے ماہ کے اواخر سے خبریں آنے لگیں کہ وطن عزیز کے دو بڑے شہر، کراچی اور لاہور فضائی آلودگی کے معاملے میں دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہو رہے ہیں۔بلکہ سرفہرست آنے کے لیے لاہور اور بھارتی دارالحکومت،نئی دہلی کے مابین مقابلہ ہوتا رہا۔مگر یہ کوئی فخر وعزت نہیں ہمارے حکمران طبقے اور قوم کے لیے بھی شرمندگی و ذلت کی بات ہے۔
اس امر سے عیاں ہوا کہ پاکستانی حکومت فضائی آلودگی ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتی۔جبکہ عام پاکستانی بھی ایسی منفی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں جو فضائی آلودگی میں اضافہ کر دیں۔اسی بنا پر کروڑوں پاکستانی قسم قسم کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔یہ حکومتی بدانتظامی و نااہلی اور عوام کی غفلت و بے حسی کی سنگین مثال ہے اور ملک وقوم کے دامن پہ پڑنے والا سیاہ دھبہ بھی۔
استعمار کا ایک منفی روپ
فضائی آلودگی دور حاضر کا کرشمہ نہیں بلکہ یہ کروڑوں برس سے موجود ہے۔قدرتی طور پہ پائے جانے والی بعض گیسیں اور مائع و ٹھوس مادے فضائی آلودگی پیدا کرتے ہیں۔مگر تاریخی طور پہ فضا میں اس آلودگی کی مقدار کم رہی ہے۔اسی لیے یہ جانداروں کو زیادہ نقصان نہیں پہنچاتی تھی۔مگر جوں جوں انسان اپنی سرگرمیاں پھیلانے لگے، فضا میں آلودگی پھیلانے والے قدرتی و انسان ساختہ مادوں (Pollutants) کی مقدار بڑھنے لگی۔اسی خرابی نے فضا کو گندہ اور آلودہ کر دیا۔آج فضائی آلودگی پیدا کرنے والے کئی مادوں کی مقدار زمینی ٖفضا میں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ چکی۔
اسی لیے وہ اب دنیا بھر میں انسانی صحت کے لیے خطرہ بن چکے۔وہ بچوں، خواتین اور مردوں کو عجیب وغریب امراض میں مبتلا کر رہے ہیں۔یہ طرفہ تماشہ ہے کہ انسانوں کی سرگرمیاں انہی کے لیے خطرہ و باعث ِتکلیف بن گئیں۔یہ دور جدید کی ترقی کا ایک بڑا تناقص اور منفی پہلو ہے۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا میں ''پچاس فیصد سے زائد'' فضائی آلودگی امیر ممالک کے باشندے پیدا کرتے ہیں جو کرہ ارض کی کل آبادی کا صرف ''دس فیصد ''حصہ ہیں۔گویا امیر مغربی باشندوں کی سرگرمیوں نے غریب ملکوں کے اربوں باشندوں کو آلودگی سے جنم لینے والے کئی عذابوں میں مبتلا کر دیا۔ یہ مغربی استعمار کا ایک اور منفی روپ ہے۔
قدرتی ذرائع
قدیم زمانے میں آتش فشاں پھٹنے یا جنگل میں آگ لگنے سے ہوا میں آلودگی پھیلتی تھی۔ آتش فشاں گندھک، کلورین گیس اور راکھ کے ذرات ہوا میں چھوڑتا ہے۔ جنگل میں لگی آگ سے دھواں اور کاربن مونو آکسائیڈ ہوا کا حصہ بنتی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی حکمت سے کرۂ ارض پر زندگی نے جنم لیا۔ جاندار بھی فضا میں آلودگی پیدا کرنے لگے۔
حیوانوں اور انسانوں میں نظام تنفس کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے جبکہ کچھ جانور غذا ہضم کرتے ہوئے میتھین گیس خارج کرتے ہیں۔یہ دونوں آلودگی میں اضافہ کرنے والی گیسیں ہیں۔ہوا میں آلودگیاں پیدا کرنے والے دیگر قدرتی ذرائع بھی ہیں مثلاً جن علاقوں میں سبزہ کم ہے وہاں ریت اور مٹی ہوا میں شامل رہتی ہے۔ زمین کی پرت (Crust) میں ریڈیم، تھوریم اور یورینیم عناصر بھی شامل ہیں۔
یہ عناصر گل سڑ کر ریڈون (Radon) گیس بناتے ہیں۔ یہ بھی میتھین، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور گندھک کی طرح انسانی صحت کے لیے مضر گیس ہے۔ اگر ہوا میں ریڈون گیس بکثرت موجود ہو تو اس میں طویل عرصہ سانس لینے سے انسان پھیپھڑوں کے کینسر کا نشانہ بن جاتا ہے۔درختوں اور پودوں کی بعض اقسام خصوصاً موسم گرما میں وولٹائل آرگینک کمپاؤنڈز(Volatile organic compounds) خارج کرتے ہیں۔ یہ نامیاتی کیمیکل ہیں جو ہوا میں موجود نائٹروجن گیس اور گندھک کے ساتھ مل کر سموگ پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ نامیاتی کیمیکل خارج کرنے والے درختوں میں پاپولر، بلوط، بید اور سیاہ گوند کے درخت شامل ہیں۔
اسموگ کا عجوبہ
رفتہ رفتہ انسان مختلف کیمیائی مادے استعمال کرنے لگے۔ پھر صنعتی دور کا آغاز ہوگیا۔ انسان کوئلہ، پٹرول، قدرتی گیس، لکڑی، مٹی کا تیل اور دیگر ایندھن اپنی سرگرمیوں میں استعمال کرنے لگا۔ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے نت نئی آلودگیاں ہوا یا فضا میںشامل ہونے لگیں۔ اہم بات یہ کہ پچھلے ایک سو برس سے فضا میں ان آلودگیوں کی مقدار کافی زیادہ بڑھ چکی۔ اسی باعث اب وہ انسان کی صحت اور روزمرہ زندگی پر منفی اثرات پیدا کر رہی ہیں۔روزمرہ زندگی متاثر کرنے والا فضائی آلودگی کا ایک عجوبہ ''سموگ'' ہے۔
یہ عموماً اس وقت جنم لیتی ہے جب گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں میں آبی بخارات شامل ہو جائیں۔ سردیوں میں فضا میں موجود آبی بخارات منجمد ہو کر ''دھند'' پیدا کرتے ہیں۔ دھند مگر انسانی صحت کے لیے نقصان دہ نہیں کیونکہ وہ صرف آبی بخارات پر مشتمل ہوتی ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلتا دھواں بھی دھند کا حصہ بن جائے۔ تب یہ مرکب سموگ کہلاتا اور انسان سمیت تمام جانداروں کے لیے نقصان دہ شے بن جاتا ہے۔
دو حصے
فضائی آلودگی کے دو بڑے حصّے ہیں: اول مضر صحت گیسیں اور دوم کیمیائی مادوں کے ننھے منے ذرے جو ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔ یہ ذرے اصطلاح میں ''پارٹیکولیٹ میٹر'' (particulate matter)کہلاتے ہیں۔ ان ذروں کی دو اقسام ہیں۔ اول دس سے اڑھائی مائیکرو میٹر قطررکھنے والے ذرے اور دوم وہ ذرات جو اڑھائی مائیکرو میٹر سے چھوٹے ہوں۔
انہیں پی ایم 2.5 (PM 2.5) کہا جاتا ہے۔انسان کا بال 70 مائیکرو میٹر قطر رکھتا ہے لہٰذا پارٹیکولیٹ میٹر کے ذرات انسانی بال سے بھی زیادہ باریک ہوتے ہیں۔ یہ اگر ناک، منہ اور کان کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو جائیں تو خون کی روانی میں شامل ہو کر ہر عضو تک پہنچ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے اگر ذرات خطرناک کیمیائی مادوں کے ہوں تو وہ انسانی جسم میں کوئی نہ کوئی خرابی پیدا کرنے لگتے ہیں۔
گاڑیوں کا اژدہام
آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ پچھلے پچاس ساٹھ برس سے انسان عجیب وغریب بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے ہیں۔ اکثر اوقات ایک انسان بھلا چنگا ہوتا ہے لیکن اچانک بیمار پڑتا اور دیکھتے ہی دیکھتے چل بنتا ہے۔ ان انوکھی بیماریوں کو جنم دینے میں فضائی آلودگی کا بھی کردار ہے جو پچھلے کئی عشروں سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ بڑھاؤ اسی لیے پیدا ہوا کہ انسانی آبادی بڑھنے کے باعث انسانوں کی سرگرمیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔مثال کے طور پر محض ایک صدی قبل تک کراچی اور لاہور کی سڑکوں پر خال خال گاڑی نظر آتی تھی۔ آج پاکستان کے دونوں شہروں میں گاڑیوں کا اژدہام دکھائی دیتا ہے۔
سڑکوں پر ان کی اتنی زیادہ کثرت ہو چکی کہ اب دونوں شہروں میں کئی جگہ ٹریفک جام رہنا معمول بن چکا ہے۔ یہی نہیں، یہ گاڑیاں ہر سال لاکھوں ٹن گیسیں اور پارٹیکولیٹ میٹر مادے فضا میں خارج کرتی ہیں۔ کراچی اور لاہور میں بنیادی طور پر گاڑیوں اور فیکٹریوں کا یہی اخراج آبی بخارات سے مل کر سموگ پیدا کرتا ہے۔ درحقیقت آبی بخارات نہ ہوں تب بھی گاڑیوں وفیکٹریوں کا دھواں دیگر گیسوں کے کیمیائی ردعمل سے گزر کر سموگ کو جنم دے سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق کاربن مونو آکسائیڈ (گیس)، نائٹروجن آکسائیڈز (گیسیں)، کاربن ڈائی آکسائیڈ (گیس)، سیسہ، اوزون (گیس)، پارہ (مرکری)، سلفر ڈائی آکسائیڈ (گیس)، پارٹیکولیٹ میٹر، ایسبٹوس، بینزین، ایندھنی تیل، ہائیڈرو کاربنز، وولٹالئل آرگینک کمپاؤنڈز، کلوروفلورو کاربنز، ایمونیا (گیس) اور ریڈیائی عناصر کے گلنے سڑنے سے پیدا ہونے والی گیسیں زمین میں فضائی آلودگی بڑھانے کی ذمہ دار ہیں۔
دو قسم کے اثرات
فضائی آلودگی سے انسان کی صحت پر دو قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک تو مختصر مدت تک رہتے ہیں۔ دوسری قسم کے اثرات طویل مدتی ہیں۔ مختصر مدتی اثرات کی وجہ سے آنکھیں درد کرتی ہیں۔ وہ لال ہو جاتی ہیں۔ انسان کو کھانسی چمٹ جاتی ہے۔ وہ سانس لینے میں تکلیف محسوس کرتا ہے۔ طبیعت بھاری بھاری رہتی ہے اور کوئی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ اگر پاک صاف فضا میں چلا جائے تو مختصر مدتی اثرات جلد ختم ہو جاتے ہیں۔طویل المدتی اثرات اس وقت جنم لیتے ہیں جب انسان بہت سارا وقت فضائی آلودگی کے ماحول میں گزارے۔ تب فضا میں شامل مختلف زہریلی گیسیں اور زہریلے ذرات اس کے دوران خون میں شامل ہو کر رفتہ رفتہ انسان کو مختلف بیماریوں کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ ان بیماریوں میں امراض تنفس، فالج اور امراض قلب سرفہرست ہیں۔ بعض قسم کے کینسر بھی جنم لیتے ہیں۔
نصف صدی قبل لاہور میں رواج تھا کہ جب موسم سرما آتا تو صبح شام اکثر جگہوں پر دھند چھا جاتی۔ یہ قدرتی عجوبہ اس وقت جنم لیتا ہے جب فضا میں موجود آبی بخارات سردی کی وجہ سے منجمد ہو جائیں چناںچہ وہ سفید دھوئیں جیسی صورت اختیار کر لیتے ۔ یہ دھند مگر انسانی وحیوانی جانداروں کو نقصان نہیں پہچاتی، بس سردی میں اضافہ کر دیتی ہے۔ دھند میں انسان زیادہ سردی محسوس کرتا ہے۔جیسا کہ بتایا گیا،رفتہ رفتہ انسانی سرگرمیوں کے سبب فضا میں جنم لینے والی آلودگیاں دھند میں شامل ہونے لگیں۔ اس عمل نے اسموگ پیدا کر ڈالا۔ یہ عجوبہ جانداروں کے لیے خطرناک ہے کیونکہ دھند سے ملتے جلتے اس دھوئیں میں فضائی آلودگیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔ یہ انسانی وحیوانی صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اسموگ ان آلودگیوں کا ایک اہم مظہر ہے۔
قاتل فضائی آلودگی
عالمی صحت پر تحقیق کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کی تازہ رپورٹیں افشا کرتی ہیں کہ اب ہر سال فضائی آلودگی کے باعث ''اسّی لاکھ سے ایک کروڑ انسان'' اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ گویا فضائی آلودگی بھی کچھ بیماریوں کی طرح بنی نوع انسان کی ایک بڑی دشمن بن چکی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس خطرے کو انسان نے اپنی سرگرمیوں کے باعث خود جنم دیا۔ فضا آلودہ کرنے اور گندگی پھیلانے والے عناصر کی تعداد پچھلے چند سو برس سے کہیں زیادہ ہو چکی۔ ان میں بعض عناصر زندگی کے لیے زیادہ خطرناک ہیں اور بعض کم۔ ایک خوش آئند بات یہ کہ ایسے آلات ایجاد ہو چکے جن کی مدد سے اب یہ جاننا ممکن ہے کہ کسی بھی جگہ ہوا میں آلودگی پیدا کرنے والے کون کون سے عناصر موجود ہیں اور ان کی مقدار کتنی ہے۔
آلودگی کی جانچ
ماہرین ماحولیات کے نزدیک چھ سات عناصر فضا زیادہ آلودہ کرتے ہیں۔ ان میں یہ شامل ہیں: کاربن مونو آکسائیڈ، سیسہ، نائٹروجن آکسائیڈز، اوزون، پارٹیکولیٹ میٹر، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈرو کاربنز۔ اسی لیے ہوا میں آلودگی کی جانچ کرنے والے بیشتر آلات درج بالا چھ سات عناصر کی مقدار ہی کا پتا لگاتے ہیں۔ اگر مقدار کم ہو تو اس جگہ کی فضا صاف ستھری ہے لیکن مقدار زیادہ ہو تو وہ جگہ آلودہ (یعنی مضرصحت) بن جاتی ہے۔
آئی کیو ایئر(IQAir) فضا میں آلودگیاں دریافت کرنے والے آلات بنانے والی قدیم ترین کمپنی ہے۔ اس کی بنیاد 1963ء میں دو جرمن موجدوں نے رکھی تھی۔ فی الوقت کمپنی کا ہیڈکوارٹر سوئٹزرلینڈ میں ہے۔ خاص بات یہ کہ یہ کمپنی دنیا بھر کے شہروں میں فضائی آلودگیاں چیک کرتی ہے۔ حاصل کردہ ڈیٹا پھر کمپنی کی ویب سائٹ سے مشتہر ہوتا ہے۔ یہ ڈیٹا دنیا بھر میں قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے۔آئی کیو ایئر نے فضائی آلودگی کی جانچ کے لیے جو پیمانہ ایجاد کیا وہ بھی دنیا بھر میں رواج پا چکا۔ اسی پیمانے کے چھ نمایاں درجے ہیں:
٭عمدہ... 0 سے 50
٭درمیانی... 51 سے 100
٭حساس جانداروں کے لیے غیرصحت مند... 101 سے 150
٭غیرصحت مند... 151 تا 200
٭بہت غیر صحت مند... 201 سے 300
٭نقصان دہ... 301 سے 500
اس پیمانے سے عیاں ہے کہ فضا میں 0 سے 50 تک کی فضائی آلودگی کم ہے۔ اس فضا میں جانداروں کو آکسیجن بھری اچھی ہوا میسّر آتی ہے۔ 51 سے 100 تک کی فضا میں آلودگیاں بڑھ جاتی ہیں مگر وہ جاندار کو زیادہ نقصان نہیں پہنچاتیں۔ اس کے بعد آلودگیوں کی کثرت خطرناک ہونے لگتی ہے جبکہ 301 سے اوپر پہنچ کر آلودگی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔
لمحہ فکریہ
آئی کیو ایئر کی ویب سائٹ پر ایک حصہ اہم شہروں کی موجودہ (Live) فضائی آلودگی ظاہر کرتا ہے۔ اس حصے میں نومبر کے آخر سے اگلے کئی دن تک سب سے اوپر پاکستانی شہر لاہور براجمان رہا۔ کئی بار وہاں ایک دن میں فضائی آلودگی کی مقدار 280 کے آس پاس ریکارڈ کی گئی۔ گویا لاہور کی فضا ''بہت غیرصحت مند'' قرار پائی۔ دوسرا نمبر بھارتی دارالحکومت دہلی کو ملا۔ دس بڑے آلودہ شہروں کی فہرست میں پاکستانی شہر کراچی بھی شامل ہوتا رہا۔پچھلے دو عشروں میں لاہور کی آبادی تیزی سے بڑھی ہے۔ اس کے آس پاس ہزارہا فیکٹریاں بھی واقع ہیں۔ مزیدبرآں لاہور کی سڑکوں پر گاڑیوں کی کثرت ہو چکی ۔ ان تینوں عوامل نے لاہور کی فضا میں ٹھوس، مائع اور گیسی آلودگیوں کی مقدار بہت زیادہ بڑھا دی۔ یہی وجہ ہے کہ سردیاں آتے ہی یہ آلودگیاں آبی بخارات کے ساتھ مل کر اسموگ پیدا کر دیتی ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں قانون کا نفاذ کمزور ہے۔ کئی لوگوں کی گاڑیاں، رکشے اور موٹرسائیکل فضا میں بکثرت زہریلا دھواں خارج کرتے ہیں مگر وہ اپنے خراب پرزے ٹھیک نہیں کراتے۔ ان بے حس لوگوں کو یہ احساس تک نہیں کہ دھواں چھوڑ کر وہ دوسرے انسان کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ تعلیم وتربیت نہ ہونے سے اس قسم کی مجرمانہ بے حسی وغفلت پیدا ہوتی ہے مگر اسے روکنے کا کوئی اقدام نہیں کیا جاتا۔ دھوئیں کا اخراج اسی وقت ختم ہو سکتا ہے جب اسے جنم دینے والوں کو بھاری جرمانے کیے اور سخت سزائیں دی جائیں۔
آئی کیو ایئر کے پیمانے کی رو سے دنیا میں دس آلودہ ترین ممالک یہ ہیں: بنگلہ دیش، پاکستان، بھارت، منگولیا، افغانستان، عمان، قطر، کرغستان، انڈونیشیا اور بوسنیا ہرزگونیا۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کی فضا پچھلے تین برس سے ''غیرصحت مند'' چلی آ رہی ہے۔ یہ صورت حال حکمران طبقے اور پاکستانی قوم کے لیے بھی باعث شرمندگی ہونی چاہئے۔پاکستان میں فضائی آلودگی اس باعث بھی زیادہ ہے کہ لوگوں کی کثیر تعداد یہی نہیں جانتی کہ آلودگیاں کیونکر صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس بے خبری کے باعث وہ آلودگی پھیلا کر نہ صرف اپنی بلکہ دوسرے لوگوں کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ ذیل میں اہم آلودہ عناصر کے نقصانات درج ہیں۔
کاربن مونو آکسائیڈ
یہ ایک بے رنگ اور بے بو گیس ہے۔ پٹرول، لکڑی، مٹی کا تیل، کوئلہ اور دیگر گاڑی ایندھن جلنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر فضا میں اس گیس کی مقدار بڑھ جائے تو انسانی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ وجہ یہ کہ جسم کے اندر پہنچ کر کاربن مونو آکسائیڈ خول کے سرخ خلیوں میں آکسیجن کی جگہ لے لیتی ہے۔ لہٰذا جسم کے خلیوں کو آکسیجن نہ ملے تو وہ خرابی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔
فضا میں اس گیس کی مقدار کم ہو تب بھی اسے پی کر صحت مند انسان تھکن اور گھبراہٹ محسوس کرتا ہے۔ وجہ یہی کہ خلیوں کو آکسیجن ملنا کم ہو جاتی ہے جبکہ جو مرد و زن دل کی بیماریوں میں مبتلا ہوں انہیں سینے میں درد ہوتا ہے۔
کاربن مونو آکسائیڈ کی مقدار فضا میں مزید بڑھ جائے تو انسان کو انجائنا کا درد چمٹ جاتا ہے۔اس کیفیت میں دل کو آکسیجن سے بھرا خون نہیں ملتا چناں چہ وہ اپنا کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔اس بنا پر جلد سینے میں درد ہونے لگتا ہے۔لگتا ہے کہ سینے پہ کوئی بوجھ رکھا جا چکا۔انسا ن بدستور یہ زہریلی گیس پیتا رہے تو اس کی بینائی متاثر ہوتی ہے۔آنکھوں میں درد ہونے لگتا ہے اور چیزیں صاف دکھائی نہیں دیتیں۔جوں جوں جسم میں کاربن مونو آکسائیڈ ک مقدار بڑھے،بینائی مذید متاثر ہوتی ہے۔اب سر درد بھی ہونے لگتا ہے۔انسان کے حواس بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اسے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا ہو رہا ہے۔متلی بھی آتی ہے۔آخرکا انسان تکلیف کی شدت برداشت نہ کرتے ہوئے بے ہوش ہو جاتا ہے۔وہ فضا سے بذریعہ سانس زہریلی گیس لیتا رہے تو وہ اس کی جان لے کر ہی دم لیتی ہے۔
جیسا کہ بتایا گیا، یہ گیس پٹرول،گیس،کوئلہ اور دیگر رکازی ایندھنوں کے جلنے سے جنم لیتی ہے۔لہذا کبھی ٹریفک میں پھنس جائیں تو وہاں حتی الامکان گہرے سانس لینے سے پرہیز کیجیے۔کیونکہ گاڑیوں کا دھواں کثیر مقدار میں جمع ہو جاتا ہے جس میں کاربن مونو آکسائڈ موجود ہوتی ہے۔اسی طرح بند جگہوں میں بھی پٹرول،گیس اور کوئلہ کبھی نہ جلائیے۔
جدید دور میں خصوصاً شہروں میں رہنے والے لوگ دن میں بیشتر عرصہ سانس لیتے ہوئے گاڑیوں اور کارخانوں سے نکلتا دھواں پیتے ہیں۔حیرت انگیز بات یہ کہ اب تک کسی محقق نے یہ تحقیق نہیں کی کہ کم مقدار میں کاربن مونو آکسائیڈ طویل عرصہ پینے سے انسان پہ جسمانی و ذہنی لحاظ سے کس قسم کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔آج اربوں شہری اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ایک شہری بچہ جیسے ہی پیدا ہو، ہر قسم کا دھواں اس کے جسم میں جانے لگتا ہے۔وہ عموماً ساری زندگی اس حالت سے دوچار رہتا ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ کاربن مونو آسائیڈ اور دیگر گیسی ، مائع اور ٹھوس آلودہ مادے طویل المعیاد طور پہ انسان پہ کیا اثرات ڈالتے ہیں۔ظاہر ہے، ان کی وجہ سے بھی ہر سال لاکھوں انسان چل بستے ہوں گے مگر یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ فضائی آلودگی بھی موت کی ذمے دار ہے۔
سیسہ
یہ دھات ہے۔اسے پگھلا کر فیکٹریوں میں مختلف طریقوں سے کام میں لایا جاتا ہے۔پٹرول میں بھی ڈالا جاتا ہے تاکہ اسے موثر بنایا جا سکے۔بیٹریوں کی تیاری میں مستعمل ہے۔بندوق کی گولیاں، کنسٹریکشن انڈسٹری،ٹانکے لگانے،پینٹ تیار کرنے اور دیگر اشیا بنانے میں بھی مستعمل ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال انسان ایک کروڑ ٹن سیسہ استعمال کرتے ہیں۔پچاس لاکھ ٹن ری سائیکلنگ سے حاصل ہوتا ہے۔
سیسے کے ذرات فضا میں موجود ہوتے ہیں۔یہ سانس لینے کے علاوہ پانی اور غذا میں شامل ہو کر بھی انسانی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔یہ جب بدن کے اندر پہنچ جائیں تو ہڈیوں میں جمع ہونے لگتے ہیں۔ماہرین طب کے مطابق مقدار اگر زیادہ ہو تو یہ دھات انسان کے اعصابی نظام، گردوں کے فعل،مامون نظام(immune system)، نظام تناسل اور دل کے عضلات پہ منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔خون آکسیجن لے جانے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھتا ہے۔
اس دھات کے زہریلے اثرات سے بچے بھی متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ان کا ناپختہ مامون نظام سیسے کی معمول مقدار سے بھی ڈھے جاتا ہے۔یہ دھات پھر بچوں کو مختلف اعصابی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ان کی ذہنی وجسمانی نشوونما بھی فطری طریقے سے نہیں ہو پاتی اور وہ کند ذہن وغبی ہو جاتے ہیں۔سیسے کے ذرات مٹی میں شامل ہو جاتے ہیں۔چونکہ یہ دھات ہزارہا برس تک خراب نہیں ہوتی لہذا یہ ذرات انسان کے لیے مستقل خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔مٹی اور گردوغبار میں ان کی موجودگی کے امکان کی وجہ سے بھی ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ بچوں کو ان اشیا سے دور ہی رکھیں تو بہتر ہے۔
نائٹروجن آکسائیڈز
یہ دو گیسوں...نائٹرک آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی اکسائیڈ کا مجموعی نام ہے۔یہ دونوں گیسیں گاڑیوں اور کارخانوں میں ایندھن جلنے سے فضا میں خارج ہوتی ہیں۔آتش فشاں پھٹنے ،سمندروں میں نباتات گلنے سڑنے اور بجلی چمکنے سے بھی جنم لیتی ہیں۔یہ گیسیں فضا میں آکسیجن اور نائٹروجن گیسوں کے ملاپ سے بنتی ہیں۔اسموگ کی تشکیل میں اہم حصہ لیتی ہیں۔
فضا میں نائٹروجن آکسائیڈ کی کثرت ہو جائے تو بذریعہ سانس اسے پینے سے انسان میں مختلف جسمانی وذہنی اثرات پیدا ہوتے ہیں۔سب سے پہلے وہ سانس لینے میں دشواری محسوس کرتا ہے۔پھر اسے کھانسی چمٹ جاتی ہے۔سینے میں بعض اوقات درد ہوتا ہے۔اگر کوئی دمے کا مریض ہے تو اس کی حالت مذید بگڑ جاتی ہے۔نائٹروجن آکسائیڈز گیسیں فضا میں موجود آبی بخارات اور دیگر کیمیائی مادوں کے ساتھ ردعمل کر کے اوزون گیس اور پارٹیکولیٹ میٹر کی تشکیل میں حصہ لیتی ہیں۔لہذا اس لحاظ سے بھی دونوں گیسیں انسان کو نقصان پہنچاتی ہیں۔انسان کا نظام تنفس ان کا خاص نشانہ بنتا ہے۔
اوزون گیس
یہ گیس کبھی اچھی ہوتی ہے اور کبھی بُری۔زمین سے انتہائی بلندی پر یہ گیس ہمیں سورج کی مضرصحت بالائے بنقشہ شعاعوں سے بچاتی ہے۔تب اس کا کردار مثبت ہے۔مگر جب یہ زمین سے قریب جنم لے تو آلودہ گیس بن جاتی ہے۔وجہ یہ کہ تب اس میں نائٹروجن آکسائیڈز اور وولٹائل آرگینک کمپائونڈز بھی شامل ہوتے ہیں۔ایسا اس وقت ہوتا ہے جب گاڑیوں ،بجلی گھروں، فیکٹریوں کے بوائلروں ،ریفائنریوں ،کیمیکل بنانے والے کارخانوں اور دیگر ذرائع سے خارج ہوتی آلودگیاں فضا میں دھوپ اور آبی بخارات سے تال میل کرتی ہیں۔اوزون گیس بھی بنیادی طور پر انسان کے نظام تنفس پہ حملہ آور ہوتی ہے۔یہ اسے قدرتی طریقے سے کام نہیں کرنے دیتی۔اس باعث انسان سانس لینے میں دقت محسوس کرتا ہے۔اس کا گلا خراب ہو جاتا ہے۔کھانسی اکثر آتی ہے۔دمے میں مبتلا مروزن کی حالت کافی بگڑ جاتی ہے۔بعض اوقات شدید حملے کی وجہ سے انھیں اسپتال جانا پڑتا ہے۔
سلفر آکسائیڈز
یہ آکسیجن مرکبات گندھک اور آکسیجن کے ملاپ سے وجود میں آتے ہیں۔ان میں سلفر ڈائی آکسائیڈ سب سے آلودہ مرکب ہے۔یہ مرکب کارخانوں میں مختلف صنعتی اشیا بناتے ہوئے جنم لتا ہے۔کوئلہ اور پٹرول بھی یہ اسے رکھتے ہیں۔چناں چہ ان ایندھنوں کو جلایا جائے تو سلفر ڈائی اکسائیڈ فضا میں شامل ہو جاتا ہے۔یہ مرکب بھی انسانی نظام تنفس کو نشانہ بناتا ہے۔سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔جو مردوزن سانس کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں، ان کی حالت زیادہ بگڑ جاتی ہے۔