ڈاکٹر اور مریض شریعت اسلامیہ کی روشنی میں
مریض اورڈاکٹر کے درمیان حساس اور رازداری کارشتہ ہوتا ہے اوریہ اس وقت تک برقراررہتا ہے جب تک اسے صیغہ رازمیں رکھا جائے۔
DUBAI:
انسان کے لیے اس کا اپنا جسم اﷲ کی طرف سے عطا کردہ عظیم امانت ہے، اس لیے حدیث پاک میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے جسم کو راحت پہنچانے، اسے تن درست رکھنے اور صحت مند بنانے کے لیے ان الفاظ میں تلقین فرمائی ہے کہ تیرے اوپر اپنے جسم کا حق ادا کرنا ضروری ہے، اس لیے اپنے جسم کو بیماریوں سے دور اور چاق و چوبند رکھنا جہاں طبی نقطۂ نظر سے ضروری ہے وہاں اسلامی نقطۂ نظر سے اس سے بڑھ کر ضروری ہے۔
یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ انسانی جسم کو علاقائی آب و ہوا، قدرتی وبائیں، حفظانِ صحت کے اصولوں سے ہٹ کر غیرمعیاری خوراک اور مضر صحت اشیاء سے پرہیز نہ کرنے کی وجہ سے امراض لاحق ہوتے ہیں، ان امراض کی صحیح تشخیص اور موثر علاج معالجے کے لیے علم طب و حکمت اور میڈیکل سائنس وجود میں آئے۔
اس میدان میں ڈاکٹرز اور اطباء نے ہر دور میں نت نئے علاج دریافت کیے، بالخصوص ماضی قریب میں لاعلاج، جان لیوا اور مہلک بیماریوں کے جدید طریقہ علاج نے بہت سے مریضوں کو نئی زندگی بخشی ہے، یوں یہ طبقہ بجا طور پر محسن کہلانے کا صحیح معنوں میں حق دار ہے۔ خدمت خلق کے سارے پہلو اپنی جگہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
مثال کے طور پر بھوکوں کو کھانا کھلانا، محتاجوں کو کپڑے پہنانا اور اپاہج و معذور افراد کے کام میں ہاتھ بٹانا اور ضرورت مند کی حاجت پوری کرنا وغیرہ۔ لیکن ان سب سے زیادہ خدمت کا محتاج ایک مریض ہوتا ہے، بسا اوقات اس کی بیماری اسے مقام پر پہنچا دیتی ہے جہاں وہ بے بس ہو جاتا ہے، کھانا موجود ہونے کے باوجود نہیں کھا سکتا، کپڑے پہننے کے باوجود اس کا جسم اذیّت میں مبتلا ہوتا ہے۔ تب وہ ڈاکٹروں اور تیمار داروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ چوں کہ عموماً ایسے موقع پر مریض مایوسی کا شکار بہت جلد ہو جاتا ہے اس لیے شریعت نے بیمار پرسی اور تیمارداری کا حکم دیا ہے اور اس پر بہت اجر و ثواب کا اعلان کیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان گرامی کا مفہوم ہے: ''اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا، اے ابن آدم! میں مریض تھا تُو نے میری تیمارداری کیوں نہ کی؟ بندہ عرض کرے گا: اے اﷲ! میں آپ کی عیادت کیسے کرتا حالاں کہ آپ رب العالمین ہیں۔ (یعنی آپ بیمار ہونے سے پاک ہیں) اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جواب آئے گا کہ میرا فلاں بندہ مریض تھا تُو نے اس کی تیمارداری نہیں کی، کیا تجھے پتا نہیں کہ اگر تُو اس کی تیمارداری کرتا تو مجھے اسی کے پاس پاتا۔''
حضرت ابوہریرہ اور عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہم سے مروی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے: جب کوئی شخص کسی مریض کی تیمارداری کے لیے جاتا ہے تو اﷲ تعالی پچھتّر ہزار فرشتوں کو مقرر فرماتے ہیں جو اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں، (یہ تیمارداری کی غرض سے جانے والا شخص) جب قدم زمین سے اٹھاتا ہے تو اس کے لیے نیکی لکھ دی جاتی ہے اور جب قدم زمین پر رکھتا ہے تو اس کا گناہ مٹا دیا جاتا ہے اور اس کا درجہ بلند کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس مریض کے پاس (تیمارداری) کے لیے جا بیٹھتا ہے تو اﷲ کی رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے اور اس وقت تک اﷲ کی رحمت میں ڈھکا رہتا ہے جب تک (مریض کی تیمارداری کر کے) واپس نہیں آجاتا۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے: جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور ثواب کی نیّت سے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے جائے تو اس کو جہنّم سے ستّر سال کی مسافت کے برابر دور کردیا جاتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے: تیمارداری کرنے والا مریض کے پاس بیٹھ کر سات مرتبہ یہ دعا کرے تو اﷲ اسے اس مرض سے شفاء عطا فرماتے ہے: اَسئَل اﷲَ العَظِیمَ رَبَّ العَرشِ العَظِیمِ اَن یَّشفِیکَ۔ اس کے علاوہ بھی دعائیں احادیث میں آئی ہیں۔
اس لیے ڈاکٹر (بہ شرط ایمان) ان سب اجر و ثواب کا اس وقت حق دار ہوتا ہے جب وہ نیک نیّتی اور خدمت خلق کے جذبے سے یہ امور سرانجام دے۔ مریض کو تسلی کے کلمات کہنا ہی عیادت ہے اس کے بعد اس کے
علاج معالجے کرنا مزید باعث اجر ہے۔ اگر خدا نہ خواستہ ڈاکٹر مریض سے محض پیسے بٹورنے کے لیے کام کر رہا ہے تو وہ دھندا تو کہلایا جاسکتا ہے خدمت خلق کا نام دینا ناانصافی ہے۔ چوں کہ یہ انسانیت کی
بہت بڑی خدمت ہے اور اسلام انسانیت سے مکمل ہم دردی کا نام ہے اس لیے شریعت نے اس بارے مکمل راہ نمائی کی ہے اور ڈاکٹر کی ضرورت، معیار، ذمے داریاں اور اس کی معاشرتی حیثیت کو اہمیت سے بیان کیا ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے: اﷲ تعالیٰ نے بڑھاپے کے سوا ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔
شریعت جعلی ڈاکٹروں کو معاشرے میں برداشت نہیں کرتی اور پابندی لگانے کا حکم دیتی ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ جو شخص علم طب کے بغیر کسی کا علاج کرے تو وہ ہونے والے نقصان کا ذمے دار ہے۔
الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے کہ جعلی ڈاکٹر وہ ہوتا ہے جو بیماری اور اس کی دوا کو سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، دواؤں کی تاثیر اور نقصان سے واقف نہ ہو، جس کی دوائیں ری ایکشن کر جائیں اور مرض مزید بڑھ جائے اور اسے کنٹرول نہ کر سکتا ہو۔ فقہ اسلامی میں یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ جعلی ڈاکٹر کو فی الفور گرفتار کیا جائے، سزا دی جائے اور ہونے والے نقصان کا ذمے دار ٹھہرا کر اس سے جرمانہ وصول کیا جائے اور اگر اس کی تجویز کردہ دوائی سے مریض فوت ہوجائے تو اسے قصاصاً ختم کر دیا جائے۔
آج کل ہمارے اسپتالوں میں ایسے ذمے دار اور فرض شناس ڈاکٹروں کی کمی ہے، مریض تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار جاتا ہے اور ڈاکٹرز صاحبان اپنے نجی امور میں مصروف رہتے ہیں۔
غریب اور متوسط طبقے کے لوگ منہ مانگی فیسوں اور مہنگی ادویات خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لیے سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں جب کہ یہاں سرکاری ڈیوٹی دینے والے ڈاکٹر صاحبان ان مریضوں کو اپنے پرائیویٹ کلینک کی راہ دکھلاتے ہیں جہاں ان سے منہ مانگی فیس وصول کرتے ہیں اور مفت ادویات کو ان کے ہاتھوں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں، ایک طرف مریضوں کی لمبی قطاریں ہوتی ہیں جب کہ دوسری طرف ڈاکٹر صاحبان انتہائی غیر ذمے دارانہ حرکتوں کا ثبوت دیتے ہوئے باہمی خوش گپیوں میں مصروف ہوتے ہیں۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ غریب، مسکین اور نادار افراد کو اسپتالوں میں شفا کے بہ جائے زندگی سے ہی نجات مل جاتی ہے۔
مریض اور ڈاکٹر کے درمیان حساس اور رازداری کا رشتہ ہوتا ہے اور یہ اس وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک اسے صیغہ راز میں رکھا جائے اور جب اس راز کو افشا کردیا جائے تو وہ غیر اخلاقی، غیر مذہبی، غیر انسانی اور ناقابل معافی جرم بن جاتا ہے اور یہ جرائم آئے دن بڑھ رہے ہیں، نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ آپریشن تھیٹرز میں مریضوں کی نیم برہنہ تصویریں کھینچی جا رہی ہیں اور ظلم بالائے ظلم یہ کہ اسے سوشل میڈیا پر وائرل کیا جا رہا ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔
آپ خود سوچیے کہ جب حالات یہاں تک پہنچ جائیں تو بھلا ایک خاندانی اور شریف شخص کس طرح اپنی فیملی کو اسپتالوں میں علاج کے لیے لائے گا۔ لوگ اسپتال جانے کے بہ جائے مرجانے کو ترجیح دیں گے۔ اس لیے حکومت وقت کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اسپتالوں کے نظام کا ازسر نو جائزہ لیں اور موجودہ خرابیوں کو دور کرنے کے لیے جامع حکمت عملی مرتب کرکے اسے نافذ العمل کریں۔
ڈاکٹروں کو اپنی ذمے داریاں نبھانے کا پابند کیا جائے، اسپتالوں میں مریضوں کی نگہہ داشت، دیکھ بھال کا بلا امتیاز خیال رکھا جائے، مہنگی ادویات پر رعایت کی سہولت دی جائے، سستا اور معیاری علاج فراہم کیا جائے اور سب سے بڑھ کر مریضوں کی پرائیویسی کو یقینی بنایا جائے۔
انسان کے لیے اس کا اپنا جسم اﷲ کی طرف سے عطا کردہ عظیم امانت ہے، اس لیے حدیث پاک میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے جسم کو راحت پہنچانے، اسے تن درست رکھنے اور صحت مند بنانے کے لیے ان الفاظ میں تلقین فرمائی ہے کہ تیرے اوپر اپنے جسم کا حق ادا کرنا ضروری ہے، اس لیے اپنے جسم کو بیماریوں سے دور اور چاق و چوبند رکھنا جہاں طبی نقطۂ نظر سے ضروری ہے وہاں اسلامی نقطۂ نظر سے اس سے بڑھ کر ضروری ہے۔
یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ انسانی جسم کو علاقائی آب و ہوا، قدرتی وبائیں، حفظانِ صحت کے اصولوں سے ہٹ کر غیرمعیاری خوراک اور مضر صحت اشیاء سے پرہیز نہ کرنے کی وجہ سے امراض لاحق ہوتے ہیں، ان امراض کی صحیح تشخیص اور موثر علاج معالجے کے لیے علم طب و حکمت اور میڈیکل سائنس وجود میں آئے۔
اس میدان میں ڈاکٹرز اور اطباء نے ہر دور میں نت نئے علاج دریافت کیے، بالخصوص ماضی قریب میں لاعلاج، جان لیوا اور مہلک بیماریوں کے جدید طریقہ علاج نے بہت سے مریضوں کو نئی زندگی بخشی ہے، یوں یہ طبقہ بجا طور پر محسن کہلانے کا صحیح معنوں میں حق دار ہے۔ خدمت خلق کے سارے پہلو اپنی جگہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
مثال کے طور پر بھوکوں کو کھانا کھلانا، محتاجوں کو کپڑے پہنانا اور اپاہج و معذور افراد کے کام میں ہاتھ بٹانا اور ضرورت مند کی حاجت پوری کرنا وغیرہ۔ لیکن ان سب سے زیادہ خدمت کا محتاج ایک مریض ہوتا ہے، بسا اوقات اس کی بیماری اسے مقام پر پہنچا دیتی ہے جہاں وہ بے بس ہو جاتا ہے، کھانا موجود ہونے کے باوجود نہیں کھا سکتا، کپڑے پہننے کے باوجود اس کا جسم اذیّت میں مبتلا ہوتا ہے۔ تب وہ ڈاکٹروں اور تیمار داروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ چوں کہ عموماً ایسے موقع پر مریض مایوسی کا شکار بہت جلد ہو جاتا ہے اس لیے شریعت نے بیمار پرسی اور تیمارداری کا حکم دیا ہے اور اس پر بہت اجر و ثواب کا اعلان کیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان گرامی کا مفہوم ہے: ''اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا، اے ابن آدم! میں مریض تھا تُو نے میری تیمارداری کیوں نہ کی؟ بندہ عرض کرے گا: اے اﷲ! میں آپ کی عیادت کیسے کرتا حالاں کہ آپ رب العالمین ہیں۔ (یعنی آپ بیمار ہونے سے پاک ہیں) اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جواب آئے گا کہ میرا فلاں بندہ مریض تھا تُو نے اس کی تیمارداری نہیں کی، کیا تجھے پتا نہیں کہ اگر تُو اس کی تیمارداری کرتا تو مجھے اسی کے پاس پاتا۔''
حضرت ابوہریرہ اور عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہم سے مروی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے: جب کوئی شخص کسی مریض کی تیمارداری کے لیے جاتا ہے تو اﷲ تعالی پچھتّر ہزار فرشتوں کو مقرر فرماتے ہیں جو اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں، (یہ تیمارداری کی غرض سے جانے والا شخص) جب قدم زمین سے اٹھاتا ہے تو اس کے لیے نیکی لکھ دی جاتی ہے اور جب قدم زمین پر رکھتا ہے تو اس کا گناہ مٹا دیا جاتا ہے اور اس کا درجہ بلند کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس مریض کے پاس (تیمارداری) کے لیے جا بیٹھتا ہے تو اﷲ کی رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے اور اس وقت تک اﷲ کی رحمت میں ڈھکا رہتا ہے جب تک (مریض کی تیمارداری کر کے) واپس نہیں آجاتا۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے: جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور ثواب کی نیّت سے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے جائے تو اس کو جہنّم سے ستّر سال کی مسافت کے برابر دور کردیا جاتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے: تیمارداری کرنے والا مریض کے پاس بیٹھ کر سات مرتبہ یہ دعا کرے تو اﷲ اسے اس مرض سے شفاء عطا فرماتے ہے: اَسئَل اﷲَ العَظِیمَ رَبَّ العَرشِ العَظِیمِ اَن یَّشفِیکَ۔ اس کے علاوہ بھی دعائیں احادیث میں آئی ہیں۔
اس لیے ڈاکٹر (بہ شرط ایمان) ان سب اجر و ثواب کا اس وقت حق دار ہوتا ہے جب وہ نیک نیّتی اور خدمت خلق کے جذبے سے یہ امور سرانجام دے۔ مریض کو تسلی کے کلمات کہنا ہی عیادت ہے اس کے بعد اس کے
علاج معالجے کرنا مزید باعث اجر ہے۔ اگر خدا نہ خواستہ ڈاکٹر مریض سے محض پیسے بٹورنے کے لیے کام کر رہا ہے تو وہ دھندا تو کہلایا جاسکتا ہے خدمت خلق کا نام دینا ناانصافی ہے۔ چوں کہ یہ انسانیت کی
بہت بڑی خدمت ہے اور اسلام انسانیت سے مکمل ہم دردی کا نام ہے اس لیے شریعت نے اس بارے مکمل راہ نمائی کی ہے اور ڈاکٹر کی ضرورت، معیار، ذمے داریاں اور اس کی معاشرتی حیثیت کو اہمیت سے بیان کیا ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے: اﷲ تعالیٰ نے بڑھاپے کے سوا ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔
شریعت جعلی ڈاکٹروں کو معاشرے میں برداشت نہیں کرتی اور پابندی لگانے کا حکم دیتی ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ جو شخص علم طب کے بغیر کسی کا علاج کرے تو وہ ہونے والے نقصان کا ذمے دار ہے۔
الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے کہ جعلی ڈاکٹر وہ ہوتا ہے جو بیماری اور اس کی دوا کو سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، دواؤں کی تاثیر اور نقصان سے واقف نہ ہو، جس کی دوائیں ری ایکشن کر جائیں اور مرض مزید بڑھ جائے اور اسے کنٹرول نہ کر سکتا ہو۔ فقہ اسلامی میں یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ جعلی ڈاکٹر کو فی الفور گرفتار کیا جائے، سزا دی جائے اور ہونے والے نقصان کا ذمے دار ٹھہرا کر اس سے جرمانہ وصول کیا جائے اور اگر اس کی تجویز کردہ دوائی سے مریض فوت ہوجائے تو اسے قصاصاً ختم کر دیا جائے۔
آج کل ہمارے اسپتالوں میں ایسے ذمے دار اور فرض شناس ڈاکٹروں کی کمی ہے، مریض تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار جاتا ہے اور ڈاکٹرز صاحبان اپنے نجی امور میں مصروف رہتے ہیں۔
غریب اور متوسط طبقے کے لوگ منہ مانگی فیسوں اور مہنگی ادویات خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لیے سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں جب کہ یہاں سرکاری ڈیوٹی دینے والے ڈاکٹر صاحبان ان مریضوں کو اپنے پرائیویٹ کلینک کی راہ دکھلاتے ہیں جہاں ان سے منہ مانگی فیس وصول کرتے ہیں اور مفت ادویات کو ان کے ہاتھوں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں، ایک طرف مریضوں کی لمبی قطاریں ہوتی ہیں جب کہ دوسری طرف ڈاکٹر صاحبان انتہائی غیر ذمے دارانہ حرکتوں کا ثبوت دیتے ہوئے باہمی خوش گپیوں میں مصروف ہوتے ہیں۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ غریب، مسکین اور نادار افراد کو اسپتالوں میں شفا کے بہ جائے زندگی سے ہی نجات مل جاتی ہے۔
مریض اور ڈاکٹر کے درمیان حساس اور رازداری کا رشتہ ہوتا ہے اور یہ اس وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک اسے صیغہ راز میں رکھا جائے اور جب اس راز کو افشا کردیا جائے تو وہ غیر اخلاقی، غیر مذہبی، غیر انسانی اور ناقابل معافی جرم بن جاتا ہے اور یہ جرائم آئے دن بڑھ رہے ہیں، نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ آپریشن تھیٹرز میں مریضوں کی نیم برہنہ تصویریں کھینچی جا رہی ہیں اور ظلم بالائے ظلم یہ کہ اسے سوشل میڈیا پر وائرل کیا جا رہا ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔
آپ خود سوچیے کہ جب حالات یہاں تک پہنچ جائیں تو بھلا ایک خاندانی اور شریف شخص کس طرح اپنی فیملی کو اسپتالوں میں علاج کے لیے لائے گا۔ لوگ اسپتال جانے کے بہ جائے مرجانے کو ترجیح دیں گے۔ اس لیے حکومت وقت کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اسپتالوں کے نظام کا ازسر نو جائزہ لیں اور موجودہ خرابیوں کو دور کرنے کے لیے جامع حکمت عملی مرتب کرکے اسے نافذ العمل کریں۔
ڈاکٹروں کو اپنی ذمے داریاں نبھانے کا پابند کیا جائے، اسپتالوں میں مریضوں کی نگہہ داشت، دیکھ بھال کا بلا امتیاز خیال رکھا جائے، مہنگی ادویات پر رعایت کی سہولت دی جائے، سستا اور معیاری علاج فراہم کیا جائے اور سب سے بڑھ کر مریضوں کی پرائیویسی کو یقینی بنایا جائے۔