کوچۂ سخن
غزل
ہم نے سوچا نہیں تاوان کا ہنستے ہنستے
سامنا کر لیا بہتان کا ہنستے ہنستے
سرفروشوں نے ستم گر کو پریشان کیا
راستہ پوچھ کے زندان کا ہنستے ہنستے
ہائے وہ عشق میں خود اپنا تماشہ کرنا
چاک کر لینا گریبان کا ہنستے ہنستے
صحبتِ ہمدمِ دیرینہ میں ہو جاتا ہے
بھیگنا گوشۂ مژگان کا ہنستے ہنستے
اور پھر کارِ محبت کی سمجھ آتے ہی
ہم نے سودا کیا نقصان کا ہنستے ہنستے
قہقہے موت کا پیغام بھی ہو سکتے ہیں
دم نکل سکتا ہے انسان کا ہنستے ہنستے
یار تو یار ہیں پوچھیں گے سبب ہم سے حسن ؔ
ذکر کر بیٹھے ہیں ملتان کا ہنستے ہنستے
(احتشام حسن ۔ بہاولپور)
۔۔۔
غزل
خواب اتنے بھی پراسرار نہیں ہوتے تھے
ہاں مگر ہم کبھی بیدار نہیں ہوتے تھے
کیسی موجیں تھیں مجھے کھینچ کے لے جاتی تھیں
کیسے دریا تھے کبھی پار نہیں ہوتے تھے
حاکم ِوقت تری بات کے منکر تھے کئی
سبھی مجرم تو گنہگار نہیں ہوتے تھے
اپنے ہاتھوں سے بناتا تھا کئی سورج میں
جس جگہ دھوپ کے آثار نہیں ہوتے تھے
اب وہ پہلے سی مروت بھی کہاں باقی ہے
لوگ اتنے بھی ریاکار نہیں ہوتے تھے
ایسی مٹی میں نمو پائی ہے ہم نے تو سہیل ؔ
پیڑ اگتے تھے ثمر بار نہیں ہوتے تھے
(سہیل رائے۔ جڑانوالہ)
۔۔۔
غزل
ہر چہرے میں اُس کا چہرہ دیکھے گا
دِل، جیسا سوچے گا، ویسا دیکھے گا
آنکھوں والو سوچو، سوچ کے بتلاؤ
اندھا خواب میں دیکھے تو کیادیکھے گا
حاسد شخص کی ایک نشانی یہ بھی ہے
جل جائے گا جس کو ہنستا دیکھے گا
وہ میری تعریف کرے تو حیرت کیوں
اچھا تو ہر اک کو اچھا دیکھے گا
سارے جسم کو آنکھ بنا کر بھی دیکھے
پھر بھی دیکھنے والا کتنا دیکھے گا
تیری آنکھیں دیکھتا ہوں تو حیرت کیوں
جس کو پیاس لگے گی، دریا دیکھے گا
مجھ کو دیکھنے کی خاطر شہبازؔ کوئی
سب کی جانب جھوٹا مُوٹا دیکھے گا
(شہباز نیّر۔ رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
طلب نہیں رہی جب اِس کی تب کیا گیا ہے
بدن میں نصب مجھے آ کے اب کیا گیا ہے
تمہارے ساتھ تو پھر بھی ہوا عداوت میں
ہمارے ساتھ محبت میں سب کیا گیا ہے
پھر ایک رات اذیت سے دن بنائی گئی
پھر ایک دن کو مشقت سے شب کیا گیا ہے
ہمیں تو ناپ سے بھی کم دیے گئے ہیں وجود
ہمارے ساتھ تماشہ عجب کیا گیا ہے
کسی عوض جو ہوئے ہیں سبھی کرم ہیں درست
کھٹک رہا ہے جو اک بے سبب کیا گیا ہے
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)
۔۔۔
غزل
بڑے اسی کوہی کہتے ہیں دل لگی مرے دوست
کسی سے کچھ بھی نہ کہنا ہے زندگی مرے دوست
جہاں میں ایک بھی ایسا نظر نہیں آیا
کرے جو آکے تمہاری برابری مرے دوست
بتا رہی ہیں مہکتی فضائیں گلیوں کی
گذر ہوا ہے تمہارا ابھی ابھی مرے دوست
فقط یہ آپ تلک سلسلہ ٔ یاری نہیں
کروں گا آپ کے بچوں کی نوکری مرے دوست
میں اک وظیفہ تمہیں دان کرنے والا ہوں
کشید کرنا اندھیروں سے روشنی مرے دوست
(اسد رضا سحر۔احمد پور سیال)
۔۔۔
غزل
سلگتی یاد جلائے کسی دسمبر کی
ہوائے سرد بھی شعلہ بنی دسمبر کی
تخیلات کے پنچھی فضا میں اڑنے لگے
مجھے بھی اچھی لگی شاعری دسمبر کی
گلاب رت کے مناظر نظر میں پھرتے رہے
اداس کرتی رہی بے کلی دسمبر کی
اداس کمرہ تری یاد اور تنہائی
ہے شام جیسی یہاں صبح بھی دسمبر کی
مرے مشام میں مانوس سی مہک اتری
بہار جیسی لگی د لکشی دسمبر کی
ہے بے یقینی کا رنگ اس کی روشن آنکھوں میں
کہ دھوپ دھند میں لپٹی ہوئی دسمبر کی
تُو عنبرینؔ بھرے ٹھنڈی آہیں جس کے لیے
اسے تو یاد نہ آئی کبھی دسمبر کی
(عنبرین خان۔لاہور)
۔۔۔
غزل
رنگ آنکھوں سے بھی لگتا ہے نیا ہو جیسے
دل کی دھڑکن نے کوئی ساز بنا ہو جیسے
اس کی آنکھوں میں تھے پیغام ہزاروں لیکن
تیری خاطر تھا جو روشن وہ جدا ہو جیسے
اب تو بس یاد ہے اتنا ہی تعارف اس سے
کوئی رستے میں اچانک ہی ملا ہو جیسے
اس کی جھپکن میں مرا نام تھا میں چونک گیا
مجھ کو لگتا تھا کہ ہر شے نے سنا ہو جیسے
تم مرا حال سنو گے تو پریشاں ہوںگے
اجڑی قبروںسے دیا ٹوٹا ملا ہو جیسے
اس کا میں نام جو دہراؤں بھلا لگتا ہے
نام اس کا یہ فرشتوں نے رکھا ہو جیسے
اب اندھیروں میں بھی چلنے کا میں عادی ہوں شہابؔ
میرے اس دل میں محبت کا دیا ہو جیسے
(شہاب اللہ شہاب۔منڈا دیر لوئر، خیبر پختونخوا)
۔۔۔
غزل
وہ شامل خواب میں میرے، وہی ہے اب خیالوں میں
جوابوں میں فقط وہ ہے ،وہی وہ ہے سوالوں میں
سیاہ تاریک راتیں بھی چمک اٹھیں وہ جب آئے
بدل دے چاند سا چہرا اندھیروں کو اجالوں میں
بیانِ رنگ و بوکے واسطے اب گل نہیں آتے
وہی تشبیہ، کنایہ وہ،وہی ہے اب مثالوں میں
وہ ترچھی آنکھ ایسی ہے کہ دو دھاری کوئی خنجر
صفت واللہ نہیں ایسی جہاں بھر کی غزالوں میں
ہم اس کوچے نہیں آتے جہاں دھتکارکھائی ہو
ضیاعِ وقت ہے جاناں معافی اور ازالوں میں
کسی کھاتے میں جومجھ کونہیں لاتے،وہ دیکھیں گے
مرے کردار کاشہرہ مضامیں میں مقالوں میں
ابھی تم خاکساری کو مری سمجھے نہیں دائمؔ
مراتم نام دیکھو گے محبت کے حوالوں میں
(ندیم دائم ۔ہری پور)
۔۔۔
غزل
صرف لفظوں میں ہو اظہار، ضروری تو نہیں
یہ تماشا سرِ بازار، ضروری تو نہیں
دل کا سب حال جب آنکھیں ہی بتا دیتی ہیں
پھر لبوں سے بھی ہو اقرار، ضروری تو نہیں
یوں بھی چین آپ کے بیمار کو آسکتا ہے
آپ کی دید ہو ہر بار، ضروری تو نہیں
بس یہی سوچ کے ٹالا نہ کسی سائل کو
ہر سوالی ہو اداکار، ضروری تو نہیں
ہم نے مانا کہ تیرا حْسن نرالا ہے مگر
سب ہوں تیرے ہی طرف دار، ضروری تو نہیں
اک اشارہ ہی تری آنکھ کا کافی ہے مجھے
میری گردن پہ ہو تلوار، ضروری تو نہیں
تم بھی توصیف ؔفقط شعر ہی کہنا، لیکن
درد میں درد کا اظہار ضروری تو نہیں
(توصیف احمد توصیف۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
زندگی درد ہے
واقعی درد ہے
کیا کہا عشق میں
سرسری درد ہے؟
جھانک دل میں مرے
درد ہی درد ہے
بعد از آگہی
خامشی درد ہے
جاہلوں نے کہا
روشنی درد ہے
تجھ سے کیسے کہیں
شاعری درد ہے
(اویس قرنی۔ بنوں)
۔۔۔
غزل
عشق پُتلی سکیڑ دیتا ہے
ہجر بخیے ادھیڑ دیتاہے
ظلم کر تاہے بھاگتا پانی
پیڑ جڑ سے اکھیڑ دیتا ہے
عشق پتھر ہے جب بھی گر تاہے
شیشہ ٔدل تر یڑ دیتا ہے
چو ٹ لگتی ہے یار کو لیکن
دانت اپنے اکھیڑ دیتاہے
کیا مسیحا کی ہے مسیحائی
بھرتے زخموں کو چھیڑ دیتا ہے
(عمران عاشر۔ فتح پور، لیہ)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی