سقوط مشرقی پاکستان سوال اب بھی موجود ہیں
مشرقی پاکستان علیحدگی کی تالی دونوں ہاتھوں سے بجی مگر مغربی پاکستان کا ہاتھ بھاری ثابت ہوا۔
تاریخ کسی بھی قوم کا اجتماعی حافظہ ہوتی ہے۔ کامیاب قومیں اپنی تاریخ کو جاننے اور یاد رکھنے کے جتن کرتی ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ تاریخ میں شامل ہو جانے یا کر دیے جانے والے کھوٹ کو الگ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔تاہم تاریخ کے سفاک سچ سے گریز یا فرار کی کوشش خود انکاری کے رویے جنم دیتی ہے ۔
پاکستان بنے ابھی پچیس سال بھی نہیں گذرے تھے کہ16دسمبر1971 کو یہ نوزائیدہ ملک دولخت ہو گیا۔ کیوں؟ اس ''کیوں'' کا جواب متنازع سا ہے۔ ہر سال جب سولہ دسمبر کی تاریخ آتی ہے تو میڈیا میں اس'' کیوں'' پر ایک آدھ روز بحث ہوتی ہے، کچھ مضامین اور کالم شایع ہوتے ہیں اور بس!
ریاستی سنجیدگی کا یہ عالم رہا کہ ملک دو لخت ہو نے کی وجوہات جاننے کے لیے قائم حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ باضابطہ طور پر کبھی پبلک نہیں کی گئی۔ یہ الگ بات کہ اس رپورٹ کے مندرجات بیرون ملک چھپ کر ملک میں عام ہوئے۔ یہ ہے وہ سنجیدگی جو ملک دو لخت ہونے کی وجوہات جاننے اور سبق سیکھنے کے لیے روا رکھی گئی۔
پاکستان کی تعمیر ہی میں کئی صورتیں ممکنہ خرابی کی بھی شامل تھیں۔ ایک ملک کے دو حصے ایک ہزار میل دور واقع تھے۔ دونوں حصوں کی زبان اور ثقافت میں مذہب کی قدر مشترک کے سوا شاید کچھ بھی مشترک نہ تھا۔ مغربی پاکستان جغرافیائی اور تعلقات کے اعتبار سے مشرق وسطیٰ،افغانستان، سینٹرل ایشیاء اور چین کے زیادہ قریب تھا جب کہ مشرقی پاکستان بنگال، بھارت ، برما اور فار ایسٹ ایشیاء سے قربتوں کا حامل تھا۔
مذہب کے اشتراک کے سوا اس قدر غیرمبہم اور واضح فرق کی موجودگی میں ضرورت تو اس امر کی تھی کہ ریاستی امور کا ڈھانچہ اس انداز میں ترتیب دیا جاتا کہ اختیارات، وسائل اور انتظامیہ میں حصہ بہ قدرِ جثہ شرکت ممکن بنائی جاتی۔ ملک کے نظم و نسق کا دستور اول دور ہی میں اس انداز میں ترتیب پاتا کہ کسی کو مہم جوئی اور حیلہ سازی سے ایک دوسرے کے حقوق پر تصرف کا موقع نہ ملتا، مگر جو ہوا وہ اس سے بالکل مختلف ہوا۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان باہمی اختلاف اور تضاد کے عوامل میں زبان کا مسئلہ بلا شبہ سب سے اہم تھا۔ دوسرا اہم فیکٹر جس نے آغاز ہی سے مشرقی پاکستان کے عوام کو برگشتہ اور مشتعل کیا ، وہ ان کا احساس محرومی تھا کہ انھیںحکومت میں شراکت اور وسائل میں ان کا جائز حصہ نہیں مل رہا۔ اعلیٰ سطح کی زیادہ تر بیوروکریسی کا تعلق بھی مغربی پاکستان سے تھا۔ ان میں سے اکثر نے مشرقی پاکستان پر اس طرح حکومت کی جیسے سامراجی آقا اپنی نوآبادیات پر حکومت کرتے ہیں۔
معروف بیوروکریٹ اور مصنف مسعود مفتی اپنی کتاب لمحے جو ان کی ڈائری پر مشتمل ہے اتوار 23 مارچ 1971 کے روز کا احوال لکھتے ہیں؛ کراچی سے صبح نو بجے بوئنگ روانہ ہوا۔ اس طیارے میں خالد محمود بھی ہیں جو اب کمشنر چٹاگانگ ہوں گے اور سید محمد حسن بھی ، جو گورنر کے سیکریٹری ہوں گے۔ مجھے بھی اپنی پوسٹنگ کا پتہ چل گیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں سیکریٹری تعلیم ہوں گا۔ واضح رہے کہ مارچ 1971 میں سیاسی ڈیڈ لاک کی وجہ سے سیاسی عمل معطل ہو گیا اور آپریشن شروع کر دیا گیا۔ اس نازک وقت میں بھی مشرقی پاکستان میں زیادہ تر اعلیٰ سطح کی بیوروکریسی کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔
شفافیت اور گمراہ کن معلومات کا یہ عالم تھا کہ عوام کو سقوطِ ڈھاکا سے دو روز قبل بتایا جا رہا تھا کہ بھارتی افواج اور ان کے ٹینک ہماری لاشوں سے گذر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہوں گے مگر دوسری طرف بڑی طاقتیں صورت حال کو بہت پہلے بھانپ چکی تھی۔
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ امریکا کی خفیہ دستاویزات جو تیس سال بعد ڈی کلاسیفائی ہوئیں ان کے مطابق یہ صورتحال انھیں مہینوں پہلے آشکار ہو چکی تھی۔ معروف سیاستدان اور مصنف قیوم نظامی نے ان پیپرز کو اردو میں خفیہ پیپرز کے عنوان سے ایک کتابی شکل دے کر تاریخ کا ریکارڈ درست کرنے اور تاریخ کے ان خفیہ گوشوں کو بے نقاب کرنے کی قابل قدر کوشش کی ہے کہ کس طرح بڑی طاقتیں ہمارے معاملات میں ملوث رہیں اور کس طرح ہمارے حکمران ان سے مفادات اور اقتدار کے دوام کے لیے بے تاب رہے۔
مشرقی پاکستان کے بارے میں اس وقت کے امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر نے صدر کے نام 22فروری 1971 کو ایک خفیہ مراسلے میں اپنا تجزیہ لکھا؛ اس بات کے واضح امکانات موجود ہیں کہ جلد ہی پاکستان اندرونی خلفشار سے دوچار ہوگا۔
امریکا کا موقف ہے کہ پاکستان کی سالمیت کو سہارا دیا جائے، مگر ہم یہ امید کرتے ہیں کہ جلد ہی ہمیں مشرقی پاکستان کی جانب سے خود مختاری کے اعلان کی خبر مل جائے گی، اگرچہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سلسلے میں ابھی بھی بات چیت کا ایک بڑا میدان خالی ہے مگر پھر بھی ایسا ہوسکتا ہے۔
مشرقی پاکستان علیحدگی کی تالی دونوں ہاتھوں سے بجی مگر مغربی پاکستان کا ہاتھ بھاری ثابت ہوا۔ پاکستان دو لخت ہونے کے واقعے کو فقط سقوطِ ڈھاکا کے ایک مخصوص منظر میں رکھ کر دیکھنے کے بجائے اس کا پورا تاریخی پس منظر ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ صرف پچیس سال بعد ہی ملک کیوں دو لخت ہوگیا۔
ابھی دو روز قبل ہی بنگلہ دیش نے اپنا پچاس سالہ جشنِ آزادی منایا ہے اور کئی معاشی اشاریوں میں پاکستان سے اپنی سبقت کو واضح کیا ۔ ایکسپورٹ ہو یا جی ڈی پی سائز، فی کس آمدنی ہو یا بجٹ خسارہ، آبادی کی شرح میں کمی کا معرکہ ہو یا خطے میں اقتصادی ترقی کا کامیاب ماڈل، بنگلہ دیش بیشتر چارٹس میں پاکستان سے آگے ہے۔
نصیر ترابی کی شہرہ آفاق غزل جو مشرقی پاکستان علیحدگی کے صدمے اور پسِ منظر کا نوحہ ہے، اس کے دو اشعار ادھورے سوالوں کا جواب یوں دیتے ہیں ۔
نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال
شبِ فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
عداوتیں تھیں تغافل تھا رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بے وفائی نہ تھی
پاکستان بنے ابھی پچیس سال بھی نہیں گذرے تھے کہ16دسمبر1971 کو یہ نوزائیدہ ملک دولخت ہو گیا۔ کیوں؟ اس ''کیوں'' کا جواب متنازع سا ہے۔ ہر سال جب سولہ دسمبر کی تاریخ آتی ہے تو میڈیا میں اس'' کیوں'' پر ایک آدھ روز بحث ہوتی ہے، کچھ مضامین اور کالم شایع ہوتے ہیں اور بس!
ریاستی سنجیدگی کا یہ عالم رہا کہ ملک دو لخت ہو نے کی وجوہات جاننے کے لیے قائم حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ باضابطہ طور پر کبھی پبلک نہیں کی گئی۔ یہ الگ بات کہ اس رپورٹ کے مندرجات بیرون ملک چھپ کر ملک میں عام ہوئے۔ یہ ہے وہ سنجیدگی جو ملک دو لخت ہونے کی وجوہات جاننے اور سبق سیکھنے کے لیے روا رکھی گئی۔
پاکستان کی تعمیر ہی میں کئی صورتیں ممکنہ خرابی کی بھی شامل تھیں۔ ایک ملک کے دو حصے ایک ہزار میل دور واقع تھے۔ دونوں حصوں کی زبان اور ثقافت میں مذہب کی قدر مشترک کے سوا شاید کچھ بھی مشترک نہ تھا۔ مغربی پاکستان جغرافیائی اور تعلقات کے اعتبار سے مشرق وسطیٰ،افغانستان، سینٹرل ایشیاء اور چین کے زیادہ قریب تھا جب کہ مشرقی پاکستان بنگال، بھارت ، برما اور فار ایسٹ ایشیاء سے قربتوں کا حامل تھا۔
مذہب کے اشتراک کے سوا اس قدر غیرمبہم اور واضح فرق کی موجودگی میں ضرورت تو اس امر کی تھی کہ ریاستی امور کا ڈھانچہ اس انداز میں ترتیب دیا جاتا کہ اختیارات، وسائل اور انتظامیہ میں حصہ بہ قدرِ جثہ شرکت ممکن بنائی جاتی۔ ملک کے نظم و نسق کا دستور اول دور ہی میں اس انداز میں ترتیب پاتا کہ کسی کو مہم جوئی اور حیلہ سازی سے ایک دوسرے کے حقوق پر تصرف کا موقع نہ ملتا، مگر جو ہوا وہ اس سے بالکل مختلف ہوا۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان باہمی اختلاف اور تضاد کے عوامل میں زبان کا مسئلہ بلا شبہ سب سے اہم تھا۔ دوسرا اہم فیکٹر جس نے آغاز ہی سے مشرقی پاکستان کے عوام کو برگشتہ اور مشتعل کیا ، وہ ان کا احساس محرومی تھا کہ انھیںحکومت میں شراکت اور وسائل میں ان کا جائز حصہ نہیں مل رہا۔ اعلیٰ سطح کی زیادہ تر بیوروکریسی کا تعلق بھی مغربی پاکستان سے تھا۔ ان میں سے اکثر نے مشرقی پاکستان پر اس طرح حکومت کی جیسے سامراجی آقا اپنی نوآبادیات پر حکومت کرتے ہیں۔
معروف بیوروکریٹ اور مصنف مسعود مفتی اپنی کتاب لمحے جو ان کی ڈائری پر مشتمل ہے اتوار 23 مارچ 1971 کے روز کا احوال لکھتے ہیں؛ کراچی سے صبح نو بجے بوئنگ روانہ ہوا۔ اس طیارے میں خالد محمود بھی ہیں جو اب کمشنر چٹاگانگ ہوں گے اور سید محمد حسن بھی ، جو گورنر کے سیکریٹری ہوں گے۔ مجھے بھی اپنی پوسٹنگ کا پتہ چل گیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں سیکریٹری تعلیم ہوں گا۔ واضح رہے کہ مارچ 1971 میں سیاسی ڈیڈ لاک کی وجہ سے سیاسی عمل معطل ہو گیا اور آپریشن شروع کر دیا گیا۔ اس نازک وقت میں بھی مشرقی پاکستان میں زیادہ تر اعلیٰ سطح کی بیوروکریسی کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔
شفافیت اور گمراہ کن معلومات کا یہ عالم تھا کہ عوام کو سقوطِ ڈھاکا سے دو روز قبل بتایا جا رہا تھا کہ بھارتی افواج اور ان کے ٹینک ہماری لاشوں سے گذر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہوں گے مگر دوسری طرف بڑی طاقتیں صورت حال کو بہت پہلے بھانپ چکی تھی۔
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ امریکا کی خفیہ دستاویزات جو تیس سال بعد ڈی کلاسیفائی ہوئیں ان کے مطابق یہ صورتحال انھیں مہینوں پہلے آشکار ہو چکی تھی۔ معروف سیاستدان اور مصنف قیوم نظامی نے ان پیپرز کو اردو میں خفیہ پیپرز کے عنوان سے ایک کتابی شکل دے کر تاریخ کا ریکارڈ درست کرنے اور تاریخ کے ان خفیہ گوشوں کو بے نقاب کرنے کی قابل قدر کوشش کی ہے کہ کس طرح بڑی طاقتیں ہمارے معاملات میں ملوث رہیں اور کس طرح ہمارے حکمران ان سے مفادات اور اقتدار کے دوام کے لیے بے تاب رہے۔
مشرقی پاکستان کے بارے میں اس وقت کے امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر نے صدر کے نام 22فروری 1971 کو ایک خفیہ مراسلے میں اپنا تجزیہ لکھا؛ اس بات کے واضح امکانات موجود ہیں کہ جلد ہی پاکستان اندرونی خلفشار سے دوچار ہوگا۔
امریکا کا موقف ہے کہ پاکستان کی سالمیت کو سہارا دیا جائے، مگر ہم یہ امید کرتے ہیں کہ جلد ہی ہمیں مشرقی پاکستان کی جانب سے خود مختاری کے اعلان کی خبر مل جائے گی، اگرچہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سلسلے میں ابھی بھی بات چیت کا ایک بڑا میدان خالی ہے مگر پھر بھی ایسا ہوسکتا ہے۔
مشرقی پاکستان علیحدگی کی تالی دونوں ہاتھوں سے بجی مگر مغربی پاکستان کا ہاتھ بھاری ثابت ہوا۔ پاکستان دو لخت ہونے کے واقعے کو فقط سقوطِ ڈھاکا کے ایک مخصوص منظر میں رکھ کر دیکھنے کے بجائے اس کا پورا تاریخی پس منظر ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ صرف پچیس سال بعد ہی ملک کیوں دو لخت ہوگیا۔
ابھی دو روز قبل ہی بنگلہ دیش نے اپنا پچاس سالہ جشنِ آزادی منایا ہے اور کئی معاشی اشاریوں میں پاکستان سے اپنی سبقت کو واضح کیا ۔ ایکسپورٹ ہو یا جی ڈی پی سائز، فی کس آمدنی ہو یا بجٹ خسارہ، آبادی کی شرح میں کمی کا معرکہ ہو یا خطے میں اقتصادی ترقی کا کامیاب ماڈل، بنگلہ دیش بیشتر چارٹس میں پاکستان سے آگے ہے۔
نصیر ترابی کی شہرہ آفاق غزل جو مشرقی پاکستان علیحدگی کے صدمے اور پسِ منظر کا نوحہ ہے، اس کے دو اشعار ادھورے سوالوں کا جواب یوں دیتے ہیں ۔
نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال
شبِ فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
عداوتیں تھیں تغافل تھا رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بے وفائی نہ تھی