لائیں کہاں سے ایسے پراگندہ طبع لوگ
شبر اعظمی این ایس ایف کے متحرک کارکنوں میں سے ایک تھے۔ پھر قیدوبند کی صعوبتیں شروع ہوئی تھی۔
ISLAMABAD:
شبر بھائی بھی طویل بیماری سے نجات حاصل کرگئے۔ شبر اعظمی کی زندگی مزاحمتی تحریکوں کے لیے جستجو کرنے، اپنے کیریئر کو اہمیت نہ دینے اور قربانیوں کی تاریخ سے عبارت ہے۔
شبر اعظمی کے والدین متحدہ ہندوستان کے شہر اعظم گڑھ کے رہنے والے تھے۔ شبر اعظمی کا بچپن کراچی اور حیدرآباد میں گزرا ، وہ کراچی کی غریبوں کی بستی کورنگی میں پروان چڑھے۔ کورنگی 60 کی دہائی میں نوجوان ترقی پسندوں اور سابقہ کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کورنگی اور لانڈھی میں آباد ہوئی۔ شبر بھائی ذکر کرتے تھے کہ لانڈھی میں عظیم شاعر و صحافی خالد علیگ بھی رہتے تھے، پھر کورنگی میں ابرار الحسن آگئے تھے۔
ابرار صاحب کی زندگی نیشنل عوامی پارٹی، پیپلز پارٹی اور قومی محاذ آزادی وغیرہ میں گزری۔ معروف شاعر نقاش کاظمی ، آسٹریلیا ہجرت کرکے آباد ہونے والے صحافی ، ایڈیٹر و شاعر اشرف شاد ، کینیڈا میں مقیم ترقی پسند ادیب اشفاق حسین اور شبر اعظمی ایک ہی محلہ میں رہتے تھے۔
یوں ایک صحت مندانہ ماحول تھا جس میں ادبی چاشنی بھی تھی اور کارل مارکس کا نظریہ بھی تھا۔ شبر اعظمی 1962 میں اسکول یونین کے صدر منتخب ہوئے اور پھر انٹر کالجیٹ اسکول باڈی کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ انھوں نے کورنگی اور لانڈھی کے طلبہ کو منظم کیا اور لانڈھی کورنگی اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔
ہندوستان کی تقسیم کے بعد کراچی نئی ریاست کا دارالحکومت بنا، لاکھوں افراد ہجرت کر کے کراچی منتقل ہوئے، یہ لوگ جھگیوں میں مقیم ہوئے۔ جنرل ایوب خان نے کراچی میں کچی جھگیوں کو ختم کرکے ان کو کوارٹروں میں منتقل کرنے کے لیے کورنگی اور نیو کراچی میں کوارٹر تعمیرکیے تھے۔ 60 کی دہائی میں کراچی میں مون سون کے مہینے قیامت خیز تھے۔
بارش کے پانی سے ندی نالوں میں سیلاب آگیا تھا مگر کراچی کی انتظامیہ لانڈھی کورنگی کے بارش سے متاثرہ افراد کو نو تعمیر شدہ کوارٹروں میں داخل ہونے کی اجازت دینے کو تیار نہیں تھی۔ بارش کے متاثرین نے ان کوارٹروں میں پناہ ڈھونڈھ لی۔ انتظامیہ کے لیے یہ صورتحال ناپسندیدہ تھی۔ پولیس نے ان کوارٹروں کو خالی کرانے کے لیے آپریشن کیا۔ شبر اعظمی اور ان کے ساتھی پولیس آپریشن کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔ شبر اعظمی نے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی۔
ڈاکٹر حسن جاوید نے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تاریخ پر ایک کتاب ''سورج پر کمند'' تحریرکی ہے۔ اس کتاب میں لکھا ہے کہ این ایس ایف کے دو رہنماؤں فتحیاب علی خان اور ذکی عباس نے ان سے ملاقات کرکے بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت کے لیے آمادہ کیا ، یوں شبر اعظمی اور این ایس ایف ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوئے۔ شبر اعظمی نے سندھ مسلم کالج میں داخلہ لیا۔ 1966 میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن دو حصوں کاظمی اور رشید گروپ میں بٹ گئی۔ شبر اعظمی پہلے معراج محمد خان اور پھر رشید حسن خان کے ساتھ منسلک ہوئے۔
ڈاکٹر حسن جاوید نے لکھا کہ1967 میں شبر اعظمی این ایس ایف کی سینٹرل کمیٹی کے رکن بن گئے تھے اور مرکزی کمیٹی کے اس اجلاس میں موجود تھے جس میں جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک شرع کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ شبر اعظمی نے اندرون سندھ این ایس ایف کے یونٹ قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ شبر اعظمی نے 1968 میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں داخلہ لیا ۔
شبر اعظمی این ایس ایف کے متحرک کارکنوں میں سے ایک تھے۔ پھر قیدوبند کی صعوبتیں شروع ہوئی تھی۔ شبر اعظمی کمیونسٹ پارٹی چین نواز گروپ میں شامل ہوئے ، یہ ایک خفیہ پارٹی تھی۔ طفیل عباس اور زین الدین خان لودھی اس خفیہ پارٹی کے اہم رہنماؤں میں شامل تھے۔ کمیونسٹ پارٹی چین کے مرد آہن ماؤزے تنگ کے کسانوں کے تاریخی لانگ مارچ سے متاثر تھی۔
بھارت کی ریاست مغربی بنگال میں کمیونسٹ رہنما چارو مجمدار کی نیکسلائٹ پارٹی کسانوں کو مسلح انقلاب کے لیے تیار کررہی تھی، یوں کمیونسٹ پارٹی چین نواز نے '' پرچی نہیں برچھی '' کا نعرہ دیا۔ کمیونسٹ پارٹی کی ہدایت پر شبر اعظمی کو اندرون سندھ ہاریوں کو منظم کرنے کے لے حیدرآباد ، میرپور خاص، نواب شاہ اور سکھر وغیرہ میں بھیجا گیا۔ شبر اعظمی نے کراچی یونیورسٹی سے صحافت میں پوسٹ گریجویشن کیا اور بائیں بازو کے ہفت روزہ الفتح میں شمولیت اختیارکر لی، مشہور ناول نگار شوکت صدیقی اس ہفت روزہ کے نگراں تھے۔ ارشاد راؤ ایڈیٹر اور وہاب صدیقی شعبہ ادارت میں شامل ہوئے۔ الفتح میں تنخواہ نہ ہونے کے برابر تھی مگر خیالات پر کوئی قدغن نہ تھی۔
الفتح میں صحافیوں کے رہنما منہاج برنا ہم رکاب ہوئے۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی سے اپنا ترجمان روزنامہ مساوات شایع کیا تو اس کے چیف ایڈیٹر شوکت صدیقی مقرر ہوئے۔ شبر اعظمی اب روزنامہ مساوات میں سب ایڈیٹر ہوئے، پہلی دفعہ تنخواہ بہتر ہوئی۔ اس وقت خالد علیگ اور احفاظ الرحمن وغیرہ کا شمار مساوات کے سینئر ارکان میں ہوتا تھا۔ شبر اعظمی، احفاظ الرحمن اور حسان سنگرامی وغیرہ نے مساوات ایمپلائز یونین قائم کی۔ شبر اعظمی اس ایمپلائز یونین کے عہدیدار منتخب ہوئے۔
کراچی یونین آف جرنلسٹس میں متحرک ہوئے اور اس کے مختلف عہدوں پر منتخب ہوئے ۔ سب صحافیوں کی وفاقی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس میں کام شروع کیا۔ 1974ء میں روزنامہ مساوات لاہور سے صحافیوں کو برطرف کیا گیا تو پی ایف یو جے نے رضاکارانہ گرفتاریوں کا فیصلہ کیا تو شبر اعظمی دیگر صحافیوں کے ہمراہ لاہور گئے۔
جب 1978 میں جنرل ضیاء الحق نے روزنامہ مساوات پر پابندی لگادی تو پی ایف یو جے نے احتجاجی تحریکوں کا آغاز کیا۔ یہ تحریک پہلے کراچی پھر لاہور اور کراچی میں چلائی گئی۔ شبر اعظمی اس تحریک کو منظم کرنے والی خفیہ ایکشن کمیٹی کے بنیادی رکن تھے۔ انھوں نے اس دوران روپوشی کی زندگی گزاری ، پھر گرفتار ہوئے۔
اندرون سندھ مختلف جیلوں میں نظربند رہے۔ جب مطالبات کی منظوری کے لیے منہاج برنا نے سکھر جیل میں بھوک ہڑتال شروع کی تو شبر اعظمی بھی طویل ہڑتال میں شریک رہے۔ تحریک کامیاب ہوئی مگر پھر جنرل ضیاء الحق نے روزنامہ مساوات سمیت مخالف اخبارات کو بند کردیا۔ شبر اعظمی بے روزگار ہوئے ، انھیں روزنامہ امن میں ملازمت ملی۔ 80 کی دہائی میں ان کی شادی ہوئی۔
شبر اعظمی کی اہلیہ تسنیم حیدر نے جو ایک قومی بینک میں ملازم تھیں شبر بھائی کی نگہداشت کا فریضہ سنبھال لیا جو 13 دسمبر 2021تک جاری رہا۔ شبر بھائی بلڈ پریشر کے عارضہ میں مبتلا ہوئے اور ان کا جسم مفلوج ہوا۔ وہ کئی سال تک بستر پر مقید رہے۔ ان کی اہلیہ نے 24 گھنٹوں میں سے بیس بائیس گھنٹے اپنے شوہر کے لیے وقف کیے۔
لائیں کہاں سے ایسے پراگندہ طبع لوگ