عالمی ادارہ صحت اور پاکستان میں صحت کی صورتحال
ترقی پذیر ممالک چاہے جنوبی ایشیا کے ہوں یا افریقہ یا دیگر خطوں کے ہوں، ان سب کے صحت کے مسائل دیرینہ ہیں۔
ISLAMABAD:
عالمی ادارہ صحت اور عالمی بینک نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ کورونا نے بین الاقوامی سطح پر صحت کی خدمات کو متاثرکیا ہے۔ 1930 کے بعد بدترین معاشی بحران نے جنم لیا جس نے لوگوں کے لیے صحت کی سہولیات کے لیے ادائیگی کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔
ادھر عالمی بینک کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کے دوران ایک ارب افراد اپنے گھریلو بجٹ کا 10 فی صد سے زیادہ حصہ صحت پر خرچ کر رہے ہیں، یہ ناقابل قبول ہے۔
دنیا کے امیر اور صنعتی ممالک کے شہریوں کو جس طرح صحت سے متعلق سہولیات حاصل ہیں ، بعض ترقی پذیر ممالک کے شہری اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کووڈ 19 نے سب سے زیادہ دنیا کی غریب آبادیوں کے صحت مسائل کو مسخ کیا ہے۔ اس وبا کی لپیٹ میں آنے والے غریب شہری ہی زیادہ تعداد میں موت کی آغوش میں جاتے رہے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک چاہے جنوبی ایشیا کے ہوں یا افریقہ یا دیگر خطوں کے ہوں، ان سب کے صحت کے مسائل دیرینہ ہیں۔ جنھیں حل کرنے کے لیے ان ممالک کی حکومتوں کے پاس اتنے وسیع وسائل دستیاب نہ ہوئے اور نہ ہی ترقیاتی یافتہ ممالک جوکہ میڈیکل ٹیکنالوجی سے لیس ہیں انھوں نے کچھ مدد کی۔ البتہ لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کرکے ادویات اور میڈیکل آلات و دیگر کی درآمد کرتے رہے لیکن پھر بھی صحت کے معاملے میں کبھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح خودکفیل نہ ہوسکے۔
اب اس عالم میں جب کہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کورونا وبا سے اتنے شدید متاثر ہوئے ہیں کہ ان کا پورا نظام صحت ہی شکست و ریخت کے مراحل سے گزر رہا ہے اور ان کے ہاں وسائل کی کمی کے باعث اتنی مالی استطاعت نہیں کہ ہر شہری کو مناسب سطح پر صحت کی سہولیات فراہم کرسکیں۔
ادھر ڈبلیو ایچ او کے ایک اعلیٰ عہدیدارکا کہنا ہے کہ تمام حکومتیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر اپنی کوششیں بحال اور تیز کردیں کہ ہر شہری کو مالی اثرات کے خوف کے بغیر صحت کی سہولیات تک رسائی ہو۔ ان کے اس بیان کو آسان الفاظ میں یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ہر شہری کو حکومت مفت علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرے اور اس بات کو یقینی بنائے۔
اگرچہ یہ بات درست ہے کہ ملک کے ہر شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ ریاست اسے صحت سے متعلق تمام سہولیات مفت فراہم کرے۔ پاکستان میں اگرچہ بہت سے سرکاری اسپتال اسی مقاصد کے حصول کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن اب تک پون صدی گزرنے کے بعد بھی کسی ایک سرکاری اسپتال کے بارے میں یہ شاندار کارکردگی کہ ہر وہ شخص جوکہ اسپتال آیا ہو، اسے تسلی بخش طریقے سے صحت سے متعلق تمام سہولیات بہم نہیں پہنچائی گئیں۔
اس کی ایک اہم اور بڑی وجہ آبادی کا دباؤ اور ڈاکٹروں اور فنڈز کی کمی بھی ہے۔ ہر سرکاری اسپتال کے یوں تو بے شمار مسائل ہیں جن میں سے بہت سوں کا تعلق مالیات سے ہے یعنی فنڈز کی کمی، بروقت عدم دستیابی۔ پھر خرد برد کے معاملات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ سرکاری دوا خانے کی ادویات کا مارکیٹ میں فروخت ہوتے رہنا بھی باعث تعجب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ عملے کی کمی سے لے کر مریضوں سے بھرپور تعاون میں کمی اور ڈاکٹروں کی کمی سے لے کر مریضوں پر توجہ میں کمی کے معاملات بھی گاہے بہ گاہے مریضوں سے سننے میں آتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں یوں تو ہر سال 8 تا 10 ہزار طلبا وطالبات ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرلیتے ہیں۔ ایک رپورٹ یہ ظاہر کر رہی ہے کہ ملک میں ہر سال 7 تا 8 ہزار ڈاکٹرز رجسٹرڈ ہو رہے ہیں۔ چند سال قبل کی ایک رپورٹ پر نظر ڈالتے ہیں جب 2011 میں رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی تعداد ایک لاکھ 52 ہزار تھی۔ اگلے برس اس میں 8 ہزار کا اضافہ ہوا، اس سے اگلے برس 2013 میں مزید 7 ہزار 7 سو کا اضافہ ہوکر 2015 کے نصف تک یہ تعداد پونے دو لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔
اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق 2 لاکھ 30 ہزار رجسٹرڈ ڈاکٹر اگر مان لیتے ہیں تو کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ 23 کروڑ آبادی میں سے ایک ہزار افراد کے لیے ایک ڈاکٹر میسر ہے۔ ایسا قطعاً نہیں ہے البتہ شہری علاقوں میں ڈاکٹروں کی بڑی تعداد پریکٹس کرنا چاہتی ہے اور دیہی علاقے ڈاکٹروں سے خال خال ہونے کے باعث وہاں اتائی ڈاکٹروں کی بھرمار ہے۔ کہیں کمپاؤنڈر ہی ڈاکٹر بن کر لاکھوں روپے ماہانہ کما رہا ہے۔
راقم نے پاکستان کے کئی چھوٹے بڑے دیہاتوں میں ایسے نام نہاد ڈاکٹر دیکھے ہیں جو یا تو اتائی ڈاکٹر ہیں یا کمپاؤنڈرتھے اب ڈاکٹربن گئے ہیں اور سالہا سال سے پریکٹس بھی کر رہے ہیں۔ جن کے بارے میں دیہات کے سادہ لوح عوام کو یہ تک کہتے سنا ہے کہ ''یہ بڑا سیانا ڈاکٹر ہے۔''
اس کے علاوہ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کو مدنظر رکھیں تو ترقی پذیر ممالک میں کب صحت کی سہولیات ان کے شہریوں کو میسر آئی ہیں۔ اگر پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی بات کریں تو صرف کراچی شہر کے ہی مختلف علاقوں، محلوں اور گلیوں، سڑکوں پر نکاسی آب کے نظام کی خرابی کے باعث سڑک پر گندا پانی جمع ہو جاتا ہے اور سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کر رہ جاتی ہیں تو کہیں موٹرسائیکل سوار گر کرکیچڑ میں لت پت زخمی یا پھر کہیں موٹرسائیکل ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار۔
ایسے حالات میں جب سڑکوں کی مرمت کے لیے ہی فنڈز نہ ہوں، نکاسی آب کی درستگی کے لیے رقوم نہ ہوں تو ہر شہری کو صحت کی مناسب سہولیات فراہم کرنا یہ بھی ایک مشکل امر بن کر رہ جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت اور عالمی بینک نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ کورونا نے بین الاقوامی سطح پر صحت کی خدمات کو متاثرکیا ہے۔ 1930 کے بعد بدترین معاشی بحران نے جنم لیا جس نے لوگوں کے لیے صحت کی سہولیات کے لیے ادائیگی کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔
ادھر عالمی بینک کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کے دوران ایک ارب افراد اپنے گھریلو بجٹ کا 10 فی صد سے زیادہ حصہ صحت پر خرچ کر رہے ہیں، یہ ناقابل قبول ہے۔
دنیا کے امیر اور صنعتی ممالک کے شہریوں کو جس طرح صحت سے متعلق سہولیات حاصل ہیں ، بعض ترقی پذیر ممالک کے شہری اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کووڈ 19 نے سب سے زیادہ دنیا کی غریب آبادیوں کے صحت مسائل کو مسخ کیا ہے۔ اس وبا کی لپیٹ میں آنے والے غریب شہری ہی زیادہ تعداد میں موت کی آغوش میں جاتے رہے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک چاہے جنوبی ایشیا کے ہوں یا افریقہ یا دیگر خطوں کے ہوں، ان سب کے صحت کے مسائل دیرینہ ہیں۔ جنھیں حل کرنے کے لیے ان ممالک کی حکومتوں کے پاس اتنے وسیع وسائل دستیاب نہ ہوئے اور نہ ہی ترقیاتی یافتہ ممالک جوکہ میڈیکل ٹیکنالوجی سے لیس ہیں انھوں نے کچھ مدد کی۔ البتہ لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کرکے ادویات اور میڈیکل آلات و دیگر کی درآمد کرتے رہے لیکن پھر بھی صحت کے معاملے میں کبھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح خودکفیل نہ ہوسکے۔
اب اس عالم میں جب کہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کورونا وبا سے اتنے شدید متاثر ہوئے ہیں کہ ان کا پورا نظام صحت ہی شکست و ریخت کے مراحل سے گزر رہا ہے اور ان کے ہاں وسائل کی کمی کے باعث اتنی مالی استطاعت نہیں کہ ہر شہری کو مناسب سطح پر صحت کی سہولیات فراہم کرسکیں۔
ادھر ڈبلیو ایچ او کے ایک اعلیٰ عہدیدارکا کہنا ہے کہ تمام حکومتیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر اپنی کوششیں بحال اور تیز کردیں کہ ہر شہری کو مالی اثرات کے خوف کے بغیر صحت کی سہولیات تک رسائی ہو۔ ان کے اس بیان کو آسان الفاظ میں یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ہر شہری کو حکومت مفت علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرے اور اس بات کو یقینی بنائے۔
اگرچہ یہ بات درست ہے کہ ملک کے ہر شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ ریاست اسے صحت سے متعلق تمام سہولیات مفت فراہم کرے۔ پاکستان میں اگرچہ بہت سے سرکاری اسپتال اسی مقاصد کے حصول کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن اب تک پون صدی گزرنے کے بعد بھی کسی ایک سرکاری اسپتال کے بارے میں یہ شاندار کارکردگی کہ ہر وہ شخص جوکہ اسپتال آیا ہو، اسے تسلی بخش طریقے سے صحت سے متعلق تمام سہولیات بہم نہیں پہنچائی گئیں۔
اس کی ایک اہم اور بڑی وجہ آبادی کا دباؤ اور ڈاکٹروں اور فنڈز کی کمی بھی ہے۔ ہر سرکاری اسپتال کے یوں تو بے شمار مسائل ہیں جن میں سے بہت سوں کا تعلق مالیات سے ہے یعنی فنڈز کی کمی، بروقت عدم دستیابی۔ پھر خرد برد کے معاملات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ سرکاری دوا خانے کی ادویات کا مارکیٹ میں فروخت ہوتے رہنا بھی باعث تعجب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ عملے کی کمی سے لے کر مریضوں سے بھرپور تعاون میں کمی اور ڈاکٹروں کی کمی سے لے کر مریضوں پر توجہ میں کمی کے معاملات بھی گاہے بہ گاہے مریضوں سے سننے میں آتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں یوں تو ہر سال 8 تا 10 ہزار طلبا وطالبات ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرلیتے ہیں۔ ایک رپورٹ یہ ظاہر کر رہی ہے کہ ملک میں ہر سال 7 تا 8 ہزار ڈاکٹرز رجسٹرڈ ہو رہے ہیں۔ چند سال قبل کی ایک رپورٹ پر نظر ڈالتے ہیں جب 2011 میں رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی تعداد ایک لاکھ 52 ہزار تھی۔ اگلے برس اس میں 8 ہزار کا اضافہ ہوا، اس سے اگلے برس 2013 میں مزید 7 ہزار 7 سو کا اضافہ ہوکر 2015 کے نصف تک یہ تعداد پونے دو لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔
اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق 2 لاکھ 30 ہزار رجسٹرڈ ڈاکٹر اگر مان لیتے ہیں تو کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ 23 کروڑ آبادی میں سے ایک ہزار افراد کے لیے ایک ڈاکٹر میسر ہے۔ ایسا قطعاً نہیں ہے البتہ شہری علاقوں میں ڈاکٹروں کی بڑی تعداد پریکٹس کرنا چاہتی ہے اور دیہی علاقے ڈاکٹروں سے خال خال ہونے کے باعث وہاں اتائی ڈاکٹروں کی بھرمار ہے۔ کہیں کمپاؤنڈر ہی ڈاکٹر بن کر لاکھوں روپے ماہانہ کما رہا ہے۔
راقم نے پاکستان کے کئی چھوٹے بڑے دیہاتوں میں ایسے نام نہاد ڈاکٹر دیکھے ہیں جو یا تو اتائی ڈاکٹر ہیں یا کمپاؤنڈرتھے اب ڈاکٹربن گئے ہیں اور سالہا سال سے پریکٹس بھی کر رہے ہیں۔ جن کے بارے میں دیہات کے سادہ لوح عوام کو یہ تک کہتے سنا ہے کہ ''یہ بڑا سیانا ڈاکٹر ہے۔''
اس کے علاوہ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کو مدنظر رکھیں تو ترقی پذیر ممالک میں کب صحت کی سہولیات ان کے شہریوں کو میسر آئی ہیں۔ اگر پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی بات کریں تو صرف کراچی شہر کے ہی مختلف علاقوں، محلوں اور گلیوں، سڑکوں پر نکاسی آب کے نظام کی خرابی کے باعث سڑک پر گندا پانی جمع ہو جاتا ہے اور سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کر رہ جاتی ہیں تو کہیں موٹرسائیکل سوار گر کرکیچڑ میں لت پت زخمی یا پھر کہیں موٹرسائیکل ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار۔
ایسے حالات میں جب سڑکوں کی مرمت کے لیے ہی فنڈز نہ ہوں، نکاسی آب کی درستگی کے لیے رقوم نہ ہوں تو ہر شہری کو صحت کی مناسب سہولیات فراہم کرنا یہ بھی ایک مشکل امر بن کر رہ جاتا ہے۔