سولہ ہزار سرکاری ملازمین کی بحالی اور معیشت
شہروں میں کاروباری سرگرمیاں ابھی تک اس مقام تک نہیں پہنچیں جہاں کورونا وباء سے پہلے تھیں۔
ISLAMABAD:
سپریم کورٹ نے گزشتہ روز عوامی مفاد کے آئینی آرٹیکل کو برورکار لاتے سولہ ہزار برطرف سرکاری ملازمین کو بحال کر دیا، عدالتی فیصلے کے مطابق یہ ملازمین سترہ اگست سے بحال ہوں گے اور نکلنے کے وقت کے مطابق بھرتی کے طریقہ کار کو اپنایا جائے گا۔
بحال ہونے والے سرکاری ملازمین کی خوشی دیدنی تھی، انھیں ملازمت پر بحالی کے عدالتی فیصلے سے بہار کا ایک جھونکا لگنے لگا کیونکہ ملک بلاشبہ بیروزگاری، مہنگائی، غربت اور حصول ملازمت کے شدید ترین مصائب سے دوچار ہے، سرکاری ملازمتوں کا ملنا بے حد مشکل ہوگیا ہے، معیشت نے عوام کو نہ صرف نامساعد حالات سے دوچار کیا ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی محدود کر دیے ہیں۔
کورونا نے بیروزگاری اور مہنگائی کے باعث جینا مشکل بنا دیا تھا، اب غربت اور بیروزگاری نے متوسط گھرانوں کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے، آج محنت کشوں کے لیے روزگار کا حصول زندگی کی سب سے ہولناک اور بقا کی شدید اقتصادی جنگ بن گئی ہے، مہنگائی نے ان خاندانوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے کے امکانات جب کہ جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کو بنیادی مسئلہ بنا دیا ہے۔
معیشت کی بحرانی صورتحال اور ملکی معاشی دلدل سے نکلنے کا کوئی حل تلاش کرنا حکومت کے لیے سیاسی، سماجی اور معاشی چیلنج کی صورت اختیار کر گیا ہے، حکومت گزشتہ تین سالوں سے مسلسل اس انداز نظر کو ایک بیانیہ کی صورت عوام کے سامنے پیش کرتی رہی ہے کہ سرکاری ملازمتوں کا خیال اور آسامیوں کی خواہش چھوڑیں، اپنا بزنس شروع کرنے کی سوچیں، کیونکہ حکومت نے قرضوں کے سود در سود کی ادائیگی کرنی ہے۔
سرکاری ملازمتیں دینے کے لیے وسائل کی تنگی کا حوالہ اقتصادی پالیسیوں اور معاشی تنگدستی کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ارباب اختیار کے لیے بڑا مسئلہ معیشت کے دباؤ کا سامنا کرنا ہے، 22 کروڑ کی آبادی کے ملک کی معاشی صورتحال، غربت، بیروزگاری اور روزگار کی فراہمی کے گراں بار چیلنجز نے معاشی مسیحاؤں اور حکومت کے لیے آج کا بنیادی مسئلہ بنا دیا ہے، کوئی بریک تھرو نہیں ملتا۔
سپریم کورٹ نے جن سرکاری ملازمین کی بحالی کا فیصلہ دیا ہے، اس کی اہمیت، افادیت اور مقصدیت کو وہی گھرانے محسوس کر سکتے ہیں جو سالہا سال سے بحالی کے منتظر رہے، دن گن گن کر کاٹے ہیں، انھیں رزق کے لیے کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اس بروقت عدالتی فیصلے میں جمہوریت کی جیت ہے، پارلیمنٹ کی بالادستی کا پیغام مضمر ہے، عوام کو درپیش مسائل کا حل ایک بڑے فورم پر مل گیا۔
16 ہزار ملازمین کی بحالی سے متعلق کیس کا جسٹس عمر عطا بندیال نے اکثریتی فیصلہ پڑھ کر سنایا جس کے مطابق چار ججز نے نظرثانی کی اپیلیں مسترد کرنے کے حق میں فیصلہ دیا تاہم معاملے میں عوامی مفاد کے مد نظر سپریم کورٹ آئینی آرٹیکل ایک سو چوراسی تین اور مکمل انصاف فراہمی کے آئینی آرٹیکل 187 کے تحت ملازمین کی اداروں کے لیے دی گئی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے درج ذیل حکم دیتی ہے، جن ملازمین کی ابتدائی ملازمت سے برخاستگی جو 1996 سے 1999 کے دوران ہوئی ہے اور ان ملازمین کی بھرتیوں کے لیے تعلیمی یا کسی مہارت کے ٹیسٹ کی ضرورت نہیں، ان ملازمین کو17 اگست سے بحال کیا جاتا ہے۔
عدالتی فیصلے کے دوسرے نکتے میں کہا گیا جن ملازمین کی بھرتی کے لیے تعلیمی یا دیگر مہارت درکار ہے، ان کی بحالی کے لیے ان کو ملازمت کی شرائط کو پورا کرنا ہو گا۔ عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا ملازمین کی ترقیوں میں اداروں کے قواعد کی مکمل پاسداری کی جائے گی، عدم حاضری، مس کنڈکٹ، طبی بنیادوں یا مالی بد عنوانی کی بنیاد پر نکالے گئے ملازمین عدالتی فیصلے سے بحال نہیں ہوں گے۔
دوسری جانب جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ملازمین کو جس تاریخ سے نکالا گیا، اسی سے بحال کیا جائے، اس عرصے کو چھٹی بمع تنخواہ تصور کیا جائے، سیکڈ امپلائز ایکٹ 2010 کے کیسز کو سپریم کورٹ کے ریگولر بنچ میں میرٹ کے مطابق سنا جائے، جسٹس منصور علی شاہ نے قرار دیا کہ پارلیمانی نظام حکومت میں پارلیمان سپریم ہے، سیکڈ ایمپلائز ایکٹ کالعدم قرار دینے کے خلاف نظرثانی اپیلوں کو منظور کیا جاتا ہے، نکالے گئے ملازمین کو تمام مراعات دی جائیں، مضبوط جمہوری نظام میں پارلیمان ہی سپریم ہوتی ہے، پارلیمنٹ کو نیچا دکھانا جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے، ایکٹ آف پارلیمنٹ کی شق چار آئین سے متصادم ہے، سیکشن چار اور سیکشن 10 آئین سے متصادم ہیں جس کا جائزہ لینا ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد بحال ہونے والے ملازمین نے خوشی کا اظہار کیا جب کہ کچھ ملازمین سپریم کورٹ کے فیصلے سے افسردہ بھی نظر آئے۔ دریں اثنا سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تو شاہراہِ دستور پر احتجاج پر بیٹھے سرکاری ملازمین نے عدلیہکی تعریفیں شروع کر دیں ، ملازمین نے شاہراہِ دستور پر سپریم کورٹ کے حق میں نعرہ بازی بھی کی۔
وکیل شعیب شاہین نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل مناسب ہے، ملازمین بحال ہو گئے اور میرٹ کی پاسداری بھی ہو گئی، ایڈوکیٹ شہباز کھوسہ نے کہا ملازمین کو فوری ریلیف ملے گا۔ عدالتی فیصلے سے عوام کو سابق برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل کی وہ بات بھی یاد آگئی ہوگی جو انھوں نے جنگ عظیم دوم کے موقع پر عدلیہ کے بارے میں کہی تھی کہ ''پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اگر ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں تو ملک کو کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچے گا''۔
یہی پیغام ہماری عدلیہ سے اپنے حالیہ پیغام میں ملازمین کو بحالی کے موقع پر ملا ہے، یہ بلاشبہ ایک منجمد اور بحران سے لڑنے والی معیشت کو فعالیت اور قومی امنگوں کی ترجمانی میں مصروف منصب انصاف کے اعزاز کی بات ہے کہ حکومت نے بحالی کے فیصلے کا ایک خوشگوار موقع محنت کشوں کو مہیا کر دیا، عدلیہ نے ان کے بجھے ہوئے چولہے پھر سے جلا دیے، بیروزگاری رک گئی، روزگار مل گیا۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کے معاشی مسائل کے چیلنج کو مشترکہ اور اجتماعی سیاسی و سماجی بصیرت اور دور اندیشی سے بچایا جائے، ہر مسئلے کا حل موجود ہے، ارباب اختیار عوام کو ریلیف دینے کے لیے معیشت کی بند گلی سے نکلیں، قابل عمل بریک تھرو کی تیاری کریں، ملک میں گیس کا ذخیرہ ختم ہونے کی بات نہ کریں، عادتیں بدلنے اور نئے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عوام ہمہ وقت تیار ہیں، ایمی کرون کا بھی سامنا کرنے کو تیار ہیں، لیکن حکمراں عوام کے شانہ بہ شانہ چلنے کا عہد کریں، تمام چیلنجز سے قوم انشا اللہ نمٹے گی، لیکن اس کے لیے قومی یکجہتی کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کمٹمنٹ بھی قوم کو نظر آنی چاہیے، ٹھیک ہے کہ شہر قائد کراچی کے مختلف علاقوں میں گیس کی عدم فراہمی کے خلاف مظاہرے کیے گئے، احتجاج کے باعث کراچی کے کئی علاقوں میں بدترین ٹریفک جام ہوگیا اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ کوئی ایک شعبہ نہیں ہے بلکہ توانائی کے دیگر شعبوں کی طرف دیکھا جائے تو وہاں بھی ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں اختیار کی جا رہی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر کب تک وفاقی اور صوبائی حکومتیں ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کے ذریعے ملکی معیشت کی پہئے کو رواں رکھ سکتی ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں بھی آئے روز اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء کے نرخوں میں بھی ہفتہ پندرہ دن بعد اضافہ ہو جاتا ہے۔ افراطِ زر میں اضافے کے باعث مہنگائی سیلاب کی طرح بڑھ رہی ہے۔
حکومت کے اکنامک منیجرز کی کارکردگی کہیں نظر نہیں آتی۔ زراعت کے حوالے سے سرکاری طور پر کہا جاتا ہے کہ کسان خوشحال ہو رہاہے حالانکہ زمینی حقیقت کچھ اور کہانی سناتی ہے۔ چھوٹے کسان کا استحصال اسی طرح جاری ہے جس طرح پہلے جاری تھا۔ اگر حکومت نے کسی فصل کی سپورٹ یا امدادی قیمت بڑھائی ہے تو دوسری جانب کھاد اور دوسرے زرعی مداخل کے نرخ بہت بڑھ گئے ہیں جس کی وجہ سے چھوٹے کسان کی فی ایکڑ پیداواری لاگت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنی فی ایکڑ پیداوار کو بیچ کر اپنی لاگت بھی بمشکل پوری کرتا ہے بلکہ کئی مواقع پر تو لاگت بھی پوری نہیں ہوتی۔
شہروں میں کاروباری سرگرمیاں ابھی تک اس مقام تک نہیں پہنچیں جہاں کورونا وباء سے پہلے تھیں۔ پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اسٹریٹ کرائمز میں بھی غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ارباب اختیار گیس کو اس صورت حال کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے اور درپیش مسائل کے فوری حل کے لیے مناسب اور صائب اقدامات کرکے عوام کو ریلیف دینے کے لیے توانائی اور اشیائے ضروریہ کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ معیشت میں استحکام آئے اور کاروباری سرگرمیوں میں تیزی آئے۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ روز عوامی مفاد کے آئینی آرٹیکل کو برورکار لاتے سولہ ہزار برطرف سرکاری ملازمین کو بحال کر دیا، عدالتی فیصلے کے مطابق یہ ملازمین سترہ اگست سے بحال ہوں گے اور نکلنے کے وقت کے مطابق بھرتی کے طریقہ کار کو اپنایا جائے گا۔
بحال ہونے والے سرکاری ملازمین کی خوشی دیدنی تھی، انھیں ملازمت پر بحالی کے عدالتی فیصلے سے بہار کا ایک جھونکا لگنے لگا کیونکہ ملک بلاشبہ بیروزگاری، مہنگائی، غربت اور حصول ملازمت کے شدید ترین مصائب سے دوچار ہے، سرکاری ملازمتوں کا ملنا بے حد مشکل ہوگیا ہے، معیشت نے عوام کو نہ صرف نامساعد حالات سے دوچار کیا ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی محدود کر دیے ہیں۔
کورونا نے بیروزگاری اور مہنگائی کے باعث جینا مشکل بنا دیا تھا، اب غربت اور بیروزگاری نے متوسط گھرانوں کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے، آج محنت کشوں کے لیے روزگار کا حصول زندگی کی سب سے ہولناک اور بقا کی شدید اقتصادی جنگ بن گئی ہے، مہنگائی نے ان خاندانوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے کے امکانات جب کہ جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کو بنیادی مسئلہ بنا دیا ہے۔
معیشت کی بحرانی صورتحال اور ملکی معاشی دلدل سے نکلنے کا کوئی حل تلاش کرنا حکومت کے لیے سیاسی، سماجی اور معاشی چیلنج کی صورت اختیار کر گیا ہے، حکومت گزشتہ تین سالوں سے مسلسل اس انداز نظر کو ایک بیانیہ کی صورت عوام کے سامنے پیش کرتی رہی ہے کہ سرکاری ملازمتوں کا خیال اور آسامیوں کی خواہش چھوڑیں، اپنا بزنس شروع کرنے کی سوچیں، کیونکہ حکومت نے قرضوں کے سود در سود کی ادائیگی کرنی ہے۔
سرکاری ملازمتیں دینے کے لیے وسائل کی تنگی کا حوالہ اقتصادی پالیسیوں اور معاشی تنگدستی کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ارباب اختیار کے لیے بڑا مسئلہ معیشت کے دباؤ کا سامنا کرنا ہے، 22 کروڑ کی آبادی کے ملک کی معاشی صورتحال، غربت، بیروزگاری اور روزگار کی فراہمی کے گراں بار چیلنجز نے معاشی مسیحاؤں اور حکومت کے لیے آج کا بنیادی مسئلہ بنا دیا ہے، کوئی بریک تھرو نہیں ملتا۔
سپریم کورٹ نے جن سرکاری ملازمین کی بحالی کا فیصلہ دیا ہے، اس کی اہمیت، افادیت اور مقصدیت کو وہی گھرانے محسوس کر سکتے ہیں جو سالہا سال سے بحالی کے منتظر رہے، دن گن گن کر کاٹے ہیں، انھیں رزق کے لیے کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اس بروقت عدالتی فیصلے میں جمہوریت کی جیت ہے، پارلیمنٹ کی بالادستی کا پیغام مضمر ہے، عوام کو درپیش مسائل کا حل ایک بڑے فورم پر مل گیا۔
16 ہزار ملازمین کی بحالی سے متعلق کیس کا جسٹس عمر عطا بندیال نے اکثریتی فیصلہ پڑھ کر سنایا جس کے مطابق چار ججز نے نظرثانی کی اپیلیں مسترد کرنے کے حق میں فیصلہ دیا تاہم معاملے میں عوامی مفاد کے مد نظر سپریم کورٹ آئینی آرٹیکل ایک سو چوراسی تین اور مکمل انصاف فراہمی کے آئینی آرٹیکل 187 کے تحت ملازمین کی اداروں کے لیے دی گئی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے درج ذیل حکم دیتی ہے، جن ملازمین کی ابتدائی ملازمت سے برخاستگی جو 1996 سے 1999 کے دوران ہوئی ہے اور ان ملازمین کی بھرتیوں کے لیے تعلیمی یا کسی مہارت کے ٹیسٹ کی ضرورت نہیں، ان ملازمین کو17 اگست سے بحال کیا جاتا ہے۔
عدالتی فیصلے کے دوسرے نکتے میں کہا گیا جن ملازمین کی بھرتی کے لیے تعلیمی یا دیگر مہارت درکار ہے، ان کی بحالی کے لیے ان کو ملازمت کی شرائط کو پورا کرنا ہو گا۔ عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا ملازمین کی ترقیوں میں اداروں کے قواعد کی مکمل پاسداری کی جائے گی، عدم حاضری، مس کنڈکٹ، طبی بنیادوں یا مالی بد عنوانی کی بنیاد پر نکالے گئے ملازمین عدالتی فیصلے سے بحال نہیں ہوں گے۔
دوسری جانب جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ملازمین کو جس تاریخ سے نکالا گیا، اسی سے بحال کیا جائے، اس عرصے کو چھٹی بمع تنخواہ تصور کیا جائے، سیکڈ امپلائز ایکٹ 2010 کے کیسز کو سپریم کورٹ کے ریگولر بنچ میں میرٹ کے مطابق سنا جائے، جسٹس منصور علی شاہ نے قرار دیا کہ پارلیمانی نظام حکومت میں پارلیمان سپریم ہے، سیکڈ ایمپلائز ایکٹ کالعدم قرار دینے کے خلاف نظرثانی اپیلوں کو منظور کیا جاتا ہے، نکالے گئے ملازمین کو تمام مراعات دی جائیں، مضبوط جمہوری نظام میں پارلیمان ہی سپریم ہوتی ہے، پارلیمنٹ کو نیچا دکھانا جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے، ایکٹ آف پارلیمنٹ کی شق چار آئین سے متصادم ہے، سیکشن چار اور سیکشن 10 آئین سے متصادم ہیں جس کا جائزہ لینا ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد بحال ہونے والے ملازمین نے خوشی کا اظہار کیا جب کہ کچھ ملازمین سپریم کورٹ کے فیصلے سے افسردہ بھی نظر آئے۔ دریں اثنا سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تو شاہراہِ دستور پر احتجاج پر بیٹھے سرکاری ملازمین نے عدلیہکی تعریفیں شروع کر دیں ، ملازمین نے شاہراہِ دستور پر سپریم کورٹ کے حق میں نعرہ بازی بھی کی۔
وکیل شعیب شاہین نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل مناسب ہے، ملازمین بحال ہو گئے اور میرٹ کی پاسداری بھی ہو گئی، ایڈوکیٹ شہباز کھوسہ نے کہا ملازمین کو فوری ریلیف ملے گا۔ عدالتی فیصلے سے عوام کو سابق برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل کی وہ بات بھی یاد آگئی ہوگی جو انھوں نے جنگ عظیم دوم کے موقع پر عدلیہ کے بارے میں کہی تھی کہ ''پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اگر ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں تو ملک کو کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچے گا''۔
یہی پیغام ہماری عدلیہ سے اپنے حالیہ پیغام میں ملازمین کو بحالی کے موقع پر ملا ہے، یہ بلاشبہ ایک منجمد اور بحران سے لڑنے والی معیشت کو فعالیت اور قومی امنگوں کی ترجمانی میں مصروف منصب انصاف کے اعزاز کی بات ہے کہ حکومت نے بحالی کے فیصلے کا ایک خوشگوار موقع محنت کشوں کو مہیا کر دیا، عدلیہ نے ان کے بجھے ہوئے چولہے پھر سے جلا دیے، بیروزگاری رک گئی، روزگار مل گیا۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کے معاشی مسائل کے چیلنج کو مشترکہ اور اجتماعی سیاسی و سماجی بصیرت اور دور اندیشی سے بچایا جائے، ہر مسئلے کا حل موجود ہے، ارباب اختیار عوام کو ریلیف دینے کے لیے معیشت کی بند گلی سے نکلیں، قابل عمل بریک تھرو کی تیاری کریں، ملک میں گیس کا ذخیرہ ختم ہونے کی بات نہ کریں، عادتیں بدلنے اور نئے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عوام ہمہ وقت تیار ہیں، ایمی کرون کا بھی سامنا کرنے کو تیار ہیں، لیکن حکمراں عوام کے شانہ بہ شانہ چلنے کا عہد کریں، تمام چیلنجز سے قوم انشا اللہ نمٹے گی، لیکن اس کے لیے قومی یکجہتی کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کمٹمنٹ بھی قوم کو نظر آنی چاہیے، ٹھیک ہے کہ شہر قائد کراچی کے مختلف علاقوں میں گیس کی عدم فراہمی کے خلاف مظاہرے کیے گئے، احتجاج کے باعث کراچی کے کئی علاقوں میں بدترین ٹریفک جام ہوگیا اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ کوئی ایک شعبہ نہیں ہے بلکہ توانائی کے دیگر شعبوں کی طرف دیکھا جائے تو وہاں بھی ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں اختیار کی جا رہی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر کب تک وفاقی اور صوبائی حکومتیں ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کے ذریعے ملکی معیشت کی پہئے کو رواں رکھ سکتی ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں بھی آئے روز اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء کے نرخوں میں بھی ہفتہ پندرہ دن بعد اضافہ ہو جاتا ہے۔ افراطِ زر میں اضافے کے باعث مہنگائی سیلاب کی طرح بڑھ رہی ہے۔
حکومت کے اکنامک منیجرز کی کارکردگی کہیں نظر نہیں آتی۔ زراعت کے حوالے سے سرکاری طور پر کہا جاتا ہے کہ کسان خوشحال ہو رہاہے حالانکہ زمینی حقیقت کچھ اور کہانی سناتی ہے۔ چھوٹے کسان کا استحصال اسی طرح جاری ہے جس طرح پہلے جاری تھا۔ اگر حکومت نے کسی فصل کی سپورٹ یا امدادی قیمت بڑھائی ہے تو دوسری جانب کھاد اور دوسرے زرعی مداخل کے نرخ بہت بڑھ گئے ہیں جس کی وجہ سے چھوٹے کسان کی فی ایکڑ پیداواری لاگت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنی فی ایکڑ پیداوار کو بیچ کر اپنی لاگت بھی بمشکل پوری کرتا ہے بلکہ کئی مواقع پر تو لاگت بھی پوری نہیں ہوتی۔
شہروں میں کاروباری سرگرمیاں ابھی تک اس مقام تک نہیں پہنچیں جہاں کورونا وباء سے پہلے تھیں۔ پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اسٹریٹ کرائمز میں بھی غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ارباب اختیار گیس کو اس صورت حال کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے اور درپیش مسائل کے فوری حل کے لیے مناسب اور صائب اقدامات کرکے عوام کو ریلیف دینے کے لیے توانائی اور اشیائے ضروریہ کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ معیشت میں استحکام آئے اور کاروباری سرگرمیوں میں تیزی آئے۔