طلبا کی سیاست میں شمولیت کی مخالفت کیوں

طلبا کی سیاست میں شمولیت کے حامی عناصر کے نزدیک پاکستان ایک روایت پسند معاشرہ ہے۔


جبار قریشی December 19, 2021
[email protected]

DUBLIN: طلبا کو عملی سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو ہمارے یہاں ماہرین تعلیم اور ماہرین سیاست کے لیے ہمیشہ حل طلب رہا ہے ، بعض ارباب علم طلبا کو سیاست میں کھل کر حصہ لینے کا مشورہ دیتے ہیں اور بعض اس کو طلبا کے لیے نقصان دہ عمل قرار دیتے ہیں۔

طلبا کی سیاست میں شمولیت کے حامی عناصر کے نزدیک پاکستان ایک روایت پسند معاشرہ ہے۔ روایتی معاشرے میں قیادت موروثی ہوتی ہے اس پر چند خاندانوں کا قبضہ ہوتا ہے ، جن کا تعلق عمومی طور پر جاگیردار، سرمایہ دار اورگدی نشینوں سے ہوتا ہے۔

ایسے معاشرے میں متوسط طبقے کی قیادت کا وجود میں آنا نا ممکن ہوتا ہے، ایسے معاشرے میں تعلیمی اداروں میں جنم لینے والی لیڈرشپ ہی سیاسی قیادت کا واحد ذریعہ ہے اگر طلبا کی سیاست میں شمولیت کی مخالفت کی جائے گی تو متوسط طبقہ کی قیادت کی فراہمی کا واحد ذریعہ ختم ہو جائے گا اور ملک متوسط طبقہ کی قیادت کے حوالے سے بانجھ ہو جائے گا۔ ان حامی عناصرکے نزدیک جو لوگ طلبا کی عملی سیاست میں شمولیت کی مخالفت کرتے ہیں ، دراصل وہ ملک کو ایک اہم فعال قوت سے محروم کر دیتے ہیں یہ عمل ملک اور قوم کے لیے کسی طرح بھی مفید نہیں۔

طلبا کی سیاست میں شمولیت کے مخالف عناصرکے نزدیک بلاشبہ طلبا ایک اہم قوت ہیں لیکن پوری نشوونما اور تربیت سے قبل ان کا میدان سیاست میں استعمال خود اس قوت کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ ملک کا محفوظ سرمایہ ہوتے ہیں فوری منافع کی خاطر اس سرمایہ کو قبل ازوقت استعمال کر ڈالنا خود ان کی تباہی کے مترادف ہے بلکہ ملک اور قوم کے بھی مفادات کے خلاف ہے۔

طلبا کی سیاست میں شمولیت کے مخالف عناصر کے نزدیک طلبا زمانہ طالبعلمی میں اپنی عمرکے جس دور میں سیاست میں داخل ہوتے ہیں، اس وقت ان کا شعور ، شعورکی اس منزل پر نہیں ہوتا کہ وہ مسائل کا تجزیہ کرکے اپنی سیاسی فکر کا درست تعین کرسکیں۔وہ عمومی طور پر جذبات کی رو میں بہہ کر ان طلبا تنظیموں کا حصہ بنتے ہیں کیونکہ ان کے ذہن میں مسائل کی اصل وجوہات کی تہہ تک پہنچنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے لہٰذا جب انھیں چیلنج پیش آتے ہیں تو ان کی سیاست میں شکایت اور احتجاج کا عنصر غالب آ جاتا ہے۔

جب وہ عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو یہ طرز عمل ان کی نفسیات کا حصہ بن جاتا ہے جو زندگی بھر ان کے ساتھ رہتا ہے۔ ان کی سیاست پرامن جدوجہد حقیقت پسندانہ اور سائنسی انداز فکر کے بجائے احتجاجی سیاست کے گرد گھومتی ہے۔ طلبا سیاست کے بطن سے جنم لینے والی بیشتر لیڈر شپ میں آپ کو یہی طرز عمل دکھائی دے گا۔

طلبا کی سیاست میں شمولیت کے مخالف عناصر کے نزدیک جہاں تک متوسط طبقہ کی قیادت کا تعلق ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ متوسط طبقہ پاکستان کا وہ واحد طبقہ ہے جس میں سماجی اور اجتماعی شعور سب سے زیادہ ہے کیونکہ یہ طبقہ مسائل کا شکار ہے ، اس لیے اس طبقے کو ہی مسائل کا ادراک بھی ہے اور اس کے حل کی تڑپ بھی دنیا میں جہاں جہاں بھی انقلاب آئے ہیں۔

اس متوسط طبقے ہی نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے لیکن ایک عمومی تاثر ہے کہ اس طبقے کی ایک کمزوری یہ رہی ہے کہ یہ طبقہ خوشامدی ، چاپلوس اور موقع پرست واقع ہوا ہے، اس طبقے کو جب بھی عملی سیاست میں اوپر آنے کا موقع ملا ہے یہ بالادست طبقے کی خوش آمدی اور چاپلوسی کرکے خود غلط نظام کا حصہ بن گیا ہے ، دراصل یہ طبقہ بالادست طبقات بالخصوص ولایتی پوز رکھنے والوں کی گرفت میں آکر اپنی خود اعتمادی کھو دیتا ہے جس کی وجہ سے یہ صورت حال پیش آتی ہے اس طبقے کے اکثریتی نوجوانوں کی اولین ترجیح سرکاری ملازمت کا حصول ہوتا ہے۔

ایک دانشور کے نزدیک جو لوگ ہر ماہ کی پہلی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں ان کا تاریخ میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس طبقے سے تبدیلی کی توقع رکھنا دیوانے کا خواب ہی قرار دیا جاسکتا ہے ان عناصر کے نزدیک نظام کی تبدیلی کے لیے معاشرے کے ہر طبقے بالخصوص اہل علم اور فکر و دانش کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اس صورت میں بھی تبدیلی کا خواب پورا کیا جاسکتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں دور طالبعلمی کا مخصوص تقاضے اور مخصوص ضروریات ہوتی ہیں۔ طلبا کی عملی سیاست میں شمولیت نقصان دہ ہوتی ہے۔

اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہ عمل ان کی تعلیم اور مستقبل کی تیاری میں رکاوٹ بنتا ہے۔ دوسری طرف ہم اس محفوظ سرمایہ کے مستقبل کو تاریک کرکے ملک اور قوم کا مستقبل تاریک کردیتے ہیں جو ایک قومی نقصان ہے۔ جہاں تک طلبا میں فہم اور شعورکی بالیدگی کے موقع کی فراہمی کا تعلق ہے تو دنیا میں اس مقصد کے لیے طلبا انجمن اور طلبا کی نمایندہ یونین قائم کی جاتی ہیں طلبا کے سیاسی ونگ نہیں ہوتے۔ ہم بھی اس طرز عمل کو اپناکر طلبا کو سیاسی جماعتوں کا ایندھن بنانے کے عمل سے محفوظ کرکے ان کے مستقبل کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔

یاد رکھیے جب ہم سیاست کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارا ذہن ایسا بن جاتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست ہی سب کچھ ہے۔ مسائل جو زندگی کا جز ہیں اور جو کبھی ختم نہیں ہونے انھیں قوانین فطرت کے روپ میں دیکھنے اور انھیں چیلنج سمجھ کر قبول کرنے اور ان کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن سیاست ہی سب کچھ ہے کا ذہن کچھ ایسا ذہن بن جاتا ہے کہ وہ ہر مسئلے کو سیاسی نعرہ بنا دیتا ہے۔

ایسی لیڈرشپ قوم کو ایسے رخ پر ڈال دیتی ہے جہاں قومیں اپنی قوت کو بے فائدہ ہنگاموں اور خیالی تصورات میں ضایع کردیتی ہیں ہمیں اس عمل سے گریزکرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں