100 برس اور ایک علمی مجلہ آخری حصہ

کانفرنس کا سب سے بڑا حسن یہ ہوتا ہے کہ مختلف ادیب اور دانشور ایک ہی موضوع کو اپنے اپنے رنگ میں دیکھتے ہیں۔


Zahida Hina December 19, 2021
[email protected]

کسی بھی علمی ، ادبی اور تحقیقی کانفرنس کا سب سے بڑا حسن یہ ہوتا ہے کہ مختلف ادیب اور دانشور ایک ہی موضوع کو اپنے اپنے رنگ میں دیکھتے ہیں اور اسے اپنے ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں۔ طلبہ کے لیے یہ بات نہایت بصیرت افروز اور چشم کشا ہوتی ہے۔

اس کانفرنس میں '' قومی زبان '' کی مدیر ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی نے ماہ نامہ '' قومی زبان : اجرا سے عصر حاضر تک'' لکھ کر لوگوں کو بتایا کہ ابتدا میں یہ ہفت روزہ رہا اور اس کے بارہ صفحات ہوتے تھے جس میں ایک صفحے پر سندھی میں ایک حکایت اور اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا تھا۔

2019 میں جب نظما کی نئی منتخب شدہ انجمن نے اردو شعروادب کے پرستار واجد جواد، خازن سید عابد رضوی اور اس خاکسار نے اپنا اپنا عہدہ سنبھالا ، تو ہم وقیع اور اعلیٰ کتب کی اشاعت کی خواہش رکھتے تھے۔ ہم تینوں نے علمی اور ادبی کتابوں کو منظر عام پر لانے کا بیڑا اٹھایا۔ مولوی عبدالحق نے انجمن کی طرف سے اعلیٰ کتابوں ، علمی کتابوں کا جو ڈول ڈالا تھا اس کی پیروی کرتے ہوئے علم دوست اور سخن فہم نئے صدر انجمن جناب واجد جواد کی معاونت اور مشاورت سے مجھ خاکسار نے کئی تاریخی حیثیت کی کتب شایع کیں۔

اس بات پر مجھے ناز ہے کہ اردوکے نابعۂ روزگار افسانہ نگار منشی پریم چند کا نا مکمل ناول '' منگل سوتر '' اور ان کی شریک حیات شورانی نے '' منشی پریم چند گھر میں '' لکھ کر اردوکہانی کے بنیاد گزار کی زندگی کے پیچ و خم لکھے اور منشی جی کی زندگی کے ان گوشوں کو منورکیا۔ یہ دونوں کتابیں دیوناگری میں تھیں اور ان کو اردو رسم الخط میں منتقل ہمارے آج کے ایک بڑے افسانہ نگار ڈاکٹر حسن منظر نے کیا۔ ان دونوں کتابوں کی تقریب رونمائی واجد جواد اور عابد رضوی کی کوششوں اور کاوشوں سے انجمن کی نئی اور شاندار عمارت میں ہوئی۔

دلی کے آسمان پرکیسے کیسے آفتاب طلوع ہوئے اورکتنے ہی مہتاب ضوفشاں ہوئے۔ ان ہی میں ایک شخص بے مثال شان الحق حقی تھے۔ لوگوں کو دولت و ثروت ورثے میں ملتی ہے ، ان کے حصے میں لغت نگاری آئی۔ یہ دماغ سوزی اور دیدہ ریزی کا ایک ایسا کام تھا جس کی ہمت کم ہی لوگوں کو ہوتی ہے۔ لیکن شان الحق حقی نے باپ کی طرح اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔

انھوں نے ہوش سنبھالنے کے بعد اپنے والد مولوی احتشام الحق دین حقی کو دیکھا جو شب و روز لفظوں کی اصل کو یوں تلاش کرتے تھے ، جیسے کوئی جوہری کنکروں میں سے قیمتی پتھر تلاش کرے۔ انھوں نے یہ بھی دیکھا کہ ان کے والد نے اپنی تمام زندگی جس کام میں لگا دی وہ کسی اورکے نام سے دنیا میں معروف و مشہور ہوا۔ باپ کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا داغ بیٹے کے دل سے نہیں گیا۔ ڈاکٹر عرفان شاہ نے بجا لکھا ہے کہ :

شان الحق حقی کی پوری زندگی کسی نہ کسی حوالے سے لغت نگاری کے گرد گھومتی ہے۔ لفظوں کی اصل تک پہنچنا ، ان کے ماخذکو ڈھونڈنا اور ہر لفظ کا کارڈ بنانا ، شان صاحب کا محبوب مشغلہ تھا۔ عرفان صاحب نے ان کے کام کی تفصیل اس طرح تحریرکی ہے کہ نگاہوں کے سامنے اس کا نقشہ کھنچ جاتا ہے۔ لفظوں کی تلاش اور ان کے مفاہیم کی کھوج آخری سانس تک ان کے ساتھ رہی۔ یوں کہیے کہ ان کا اوڑھنا بچھونا تھے۔

وہ اردو ، فارسی ، انگریزی ، ہندی اور سنسکرت پر عبور رکھتے تھے۔ ان کے ساتھ ہی پاکستان کی مختلف زبانوں سندھی ، پنجابی ، سرائیکی ، پشتو اور ہندکو پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان سے احساس کمتری میں مبتلا کئی لوگوں نے ان کو حسد کے نگاہ سے دیکھا۔ ایسے افراد کی در اندازیوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود وہ اپنے کام سے جڑے رہے۔ یہ کتاب جہاں ہمیں شان صاحب کے شاندار تحقیق ، تخلیق اور ادبی کاموں سے آگاہ کرتی ہے ، وہیں ہمیں ان افسوسناک سازشوں سے بھی روشناس کراتی ہے جو ہمارے بعض اکابرین کے زیر سایہ پروان چڑھیں۔ ڈاکٹر عرفان شاہ نے نہایت رنج و الم کے ساتھ ان چہروں کو بے نقاب کیا ہے ، جن کے نام نامی ہم میں سے بیشترکے لیے بے حد محترم رہے ہیں۔

1939 میں ترقی پسند ادب میں افسانے ، ناول اور شاعری کے ساتھ ہی تنقید میں کئی اہم نام سامنے آئے۔ احتشام حسین ، ڈاکٹر محمد حسن ، ممتاز حسین ، احمد ہمدانی ، محمد علی صدیقی ، قمر رئیس اور علی احمد فاطمی اوراس کے بعد یہ سفر آج بھی جاری ہے۔ ارتقا اسی کا نام ہے ، علم و ادب کی راہوں پر سفر اسی طرح آگے بڑھتا رہتا ہے۔ نئے لکھنے والے آتے ہیں اور ہمیں نئے خیالات و افکار سے آشنا کراتے ہیں۔ خاص طور پر وہ لکھنے والے جو مغربی دنیا کے فلسفے سے شناوری کرتے ہیں اور مشکل اصطلاحات کو اردو کے قالب میں ڈھال کر پڑھنے والوں خاص طور سے طلبہ کے لیے جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے فلسفیانہ گتھیوں کو سلجھاتے ہوئے آگے چلے ہیں۔

ڈاکٹر ناصرعباس نیر ہمارے ایسے ہی جدید تنقید نگاروں میں سے ایک اہم نام ہیں ، ان کی زیر نظر کتاب بہت مقبول ہوئی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے سہل زبان میں مغربی تنقید نگاروں کی مشکل اور پر پیچ باتوں کو لکھ دیا ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں میں تحقیق و تنقید کے میدان میں نئے موضوعات پر عموماً توجہ نہیں دی جاتی ، لیکن ثروت اختر نے پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس کی زیر نگرانی ایک ایسے موضوع پرکام کیا ہے ، جس کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔

دہشت گردی ایک ایسی جونک ہے جو عالمی سطح پر انسانوں کو چمٹ گئی ہے۔ یہ انسانوں اور ان کی تہذیب وثقافت کا خون چوس رہی ہے۔ ہماری سیکڑوں ، ہزاروں برس کی اقدار ، ثقافتیں ، تہذیبیں ، روایتیں منہدم ہورہی ہیں۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والے اور دہشت گردی میں ملوث ہونے والے دونوں ہی فریق خود کو مظلوم کہتے ہیں۔کوئی اپنے مذہب کی دہائی دیتے ہوئے دوسرے گروہوں پر جہنم کے درکھول رہا ہے اورکوئی اپنی ثقافت کو بچانے کا دعویٰ کرتے ہوئے دوسری ثقافتوں کو پامال کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔

اس میں سب سے الم ناک یہ صورت حال ہے کہ ایک ہی مذہب کے ماننے والے اپنے ہی ہم مذہب لوگوں کو تہس نہس کرنے میں ، ان کے نوزائیدہ بچوں ، تعلیم حاصل کرنے کی طلب گار لڑکیوں اور جدید سائنسی اور سماجی علوم کو سیکھ کر اپنے جنگ زدہ ملک کی تعمیر نوکے خواہش مند نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ اس کے لیے دور جانے کی ضرورت نہیں ، افغانستان میں کلمہ گو انتہا پسندوں کی کارروائیاں اس کی سامنے کی مثال ہیں جس کا شکار کلمہ گو ہورہے ہیں۔ کچھ یہی عالم پاکستان کا ہے ، جہاں مختلف مسلک کے گروہ بے گناہ پاکستانیوں کو اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔

1917 کے بالشوک انقلاب نے جہاں دنیا میں تہلکہ مچایا ، وہیں ہندوستان کے روشن خیال اور ترقی پسند افراد میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑا دی۔ ہندوستان اس وقت تاج برطانیہ کے زیر نگیں تھا۔ اس کے باسیوں کے لیے اس سے بڑی نوید مسرت نہیں ہوسکتی تھی کہ ان کی سرحدوں سے کچھ فاصلے پر زار شاہی جیسی سفاک اور قدیم سلطنت پرکاہ کی طرح اڑ گئی اور وہاں کے لوگوں پر ایک نیا سورج طلوع ہوا۔

ان دنوں ہندوستان کی تقریباً ہر زبان سمجھنے والوں میں روسی ادب اور ادیبوں کے بارے میں جستجو تھی ایسے میں ہمارے ایک معتبر اور معروف محقق پروفیسر مجیب نے آٹھ برس کی محنت کے بعد اردو میں '' روسی ادب '' کے عنوان سے ایک وقیع کتاب لکھی۔ آج اس کتاب کی اشاعت کو اسی برس گزرچکے ہیں۔ اس دوران انجمن نے اس کے دو ایڈیشن شایع کیے ، جو ہاتھوں ہاتھ لیے گئے اور اب تیسر ایڈیشن آپ کے سامنے ہے۔ پروفیسر مجیب کی یہ کتاب میں نے نو عمری میں پڑھی تھی۔ اس وقت اس سے بہت متاثر ہوئی تھی۔

انجمن کے خازن اور مشیر ادبی سید عابد رضوی نے کانفرنس کے اختتام پر صدر انجمن واجد جواد اور انجمن کے تمام اراکین اور عاملین کا فرداً فرداً شکریہ ادا کیا اور حاضرین کو بتایا کہ 1921 میں مجلہ اردو کی پیدائش سے اب تک یہ کن کٹھن مرحلوں سے گزرا ہے اور اب پروفیسر شاداب احسانی کی زیر نگرانی ایک صدی کی روایات کا تسلسل قائم رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں