پیپلز پارٹی کے سیاسی اندازے
پی پی قیادت کے ملک کا اقتدار ملنے کے دعوے صرف سیاسی نعرے اور خود کو زندہ رکھنے کے لیے ہیں۔
کراچی:
لاہور کے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوارکو توقع سے زیادہ ووٹ ملنے کے بعد لگتا ہے پیپلز پارٹی کے حوصلے بڑھے ہیں۔
پی پی کی مرکزی قیادت سمیت پنجاب میں پی پی کے رہنما سمجھ رہے ہیں کہ نتائج نہایت حوصلہ افزا ہیں اور پنجاب میں پی پی کا سروائیوول شروع ہو گیا ہے اور پنجاب میں پی پی پھر مقبول ہوگئی ہے، جس کا تازہ ثبوت لاہور کے ضمنی انتخابات کا نتیجہ ہے جہاں پی پی امیدوار کو گزشتہ کے مقابلے میں چھ سو گنا 32 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرلینا ہے۔ لاہور کے ضمنی الیکشن کے موقع پر راقم خود لاہور کے مذکورہ قومی اسمبلی کے حلقے میں موجود تھا۔
کوٹ لکھپت ریلوے اسٹیشن سے ٹاؤن شپ آنے تک شاہراؤں پر مسلم لیگ (ن) کے مختلف رنگوں، پیپلز پارٹی کے اپنے پرچموں کے رنگ پر مشتمل بڑے بڑے بینرز انتخابی ماحول میں گرمی کا پتا دے رہے تھے جب کہ کہیں کہیں پی ٹی آئی کے نااہل ہو جانے والے امیدواروں کے بینر بھی ان کی موجودگی کا پتا دے رہے تھے۔
حلقے کی وسیع شاہراؤں پر بڑے بینر جوڑ کر بڑی تعداد میں لگائے گئے تھے۔ انتخابی نتائج پر ہوٹلوں، دکانوں، ہیئرکٹنگ شاپ اور پارکوں کی دھوپ تاپنے والوں کے درمیان جگہ جگہ یہی سننے کو مل رہا تھا کہ وہ شیر کو ووٹ دیں گے ، ہر جگہ مہنگائی کا رونا عام تھا کہیں پی ٹی آئی کے حق میں آوازیں نہیں سنائی دیں۔
قومی اسمبلی کا حلقہ بہت وسیع تھا جہاں چار لاکھ سے زائد ووٹر تھے اور اس حلقے کو مسلم لیگ (ن) کا گڑھ قرار دیا جاتا ہے جہاں سے سابق رکن قومی اسمبلی پرویز ملک متعدد بار منتخب ہو چکے تھے اس لیے مسلم لیگ (ن) ضمنی انتخاب کو ایزی لے رہی تھی اور ضمنی الیکشن کو عام الیکشن سمجھ ہی نہیں رہی تھی اور لگتا تھا کہ مسلم لیگ (ن) جلسوں اور انتخابی مہم چلانے پر توجہ دینے کے بجائے بینر بڑی تعداد میں لگائے جانے کو ہی الیکشن مہم سمجھ رہی ہے۔
الیکشن کے روز صبح 7 بجے ٹاؤن شپ مارکیٹ میں ایک جگہ پی پی پرچم لگے بڑی تعداد میں چنگ چی رکشے کھڑے تھے جب کہ ووٹروں کو لانے لے جانے کے لیے شیر اور مسلم لیگ (ن) کے پرچم لگی گاڑیاں بھی مصروف تھیں اور عام انتخابات جیسی رونق کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔
الیکشن کے روز راقم کو ٹاؤن شپ سے گجومتہ سے آگے ایل ڈی اے سٹی جانے کا موقعہ ملا تھا جہاں انتخابی حلقے میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی کے انتخابی کیمپوں پر (ن) لیگ کے کیمپوں میں زیادہ رش تھا اور ووٹر ووٹ کی پرچیاں بنوا رہے تھے۔ یہ حلقہ شہری علاقوں پر مشتمل تھا جس میں گرین ٹاؤن کی مسیحی آبادی اور ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کا آبائی علاقہ ماڈل ٹاؤن بھی شامل تھا اور ڈاکٹرقادری نے 2002 میں اس علاقے سے خود الیکشن بھی لڑا تھا۔ الیکشن اتوار کو تھا اور دوپہر کے بعد ہی پولنگ اسٹیشنوں پر رش بڑھا۔ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں پی پی اپنے حامیوں اور ووٹروں کو نکالنے کے لیے سرگرم رہی اور یہ کہیں نہیں تھا کہ ووٹروں نے پی ٹی آئی کے کہنے پر گھروں میں رہنا پسند کیا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا مخالف ووٹ پی پی امیدوار کو ملا۔ مسیحی حلقوں اور غریب آبادیوں میں ووٹ خریدے جانے کی شکایتیں غلط نہیں تھیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا حامی ووٹ پی پی امیدوار کو ملا جب کہ مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے حلقے میں کوئی جلسہ کیا نہ (ن) لیگ نے اپنے حامیوں کو پولنگ اسٹیشن لے جانے پر توجہ دی جس کی وجہ سے تقریباً 18 فیصد ووٹ ہی ڈالے جاسکے۔
ملک اور خصوصاً پنجاب کے عوام نے میاں نواز شریف کا '' ووٹ کو عزت دو '' کا بیانیہ قبول کرلیا ہے اور وہ بھی چاہتے ہیں کہ ملکی انتخابات میں کوئی مداخلت نہ ہو۔ عوام جسے چاہیں منتخب کریں کسی اور کو زبردستی مسلط نہ کیا جائے۔ پیپلز پارٹی نواز شریف کا بیانیہ عملی طور پر قبول نہیں کر رہی اور پی پی قیادت صرف اپنے سیاسی مفاد کو ترجیح دیتی رہی ہے اور اپنی سندھ کی حکومت برقرار رکھنا ہی نہیں بلکہ چوتھی بار بھی سندھ میں اپنی حکومت چاہتی ہے۔
پی پی قیادت کے ملک کا اقتدار ملنے کے دعوے صرف سیاسی نعرے اور خود کو زندہ رکھنے کے لیے ہیں اور پیپلز پارٹی پنجاب کے مخصوص علاقوں تک ہی محدود ہے۔ پنجاب میں پی پی کے نظریاتی اور مخلص رہنماؤں کو بھی پنجاب کی سیاسی سوچ کا پتا ہے کہ ان کے جو ووٹر ٹوٹ کر پی ٹی آئی کی طرف گئے تھے وہ تیسرا آپشن نہ ہونے کی وجہ سے مجبور ہیں۔
پی پی کا اینٹی مسلم لیگ ووٹ پی ٹی آئی کو اچھی توقعات کے لیے گیا تھا جو پی پی قیادت کی دہری پالیسی کے باعث پی ٹی آئی کو ملا تھا وہ اب پی ٹی آئی کو ملے گا نہ پی پی کو واپس ملے گا بلکہ وہ ووٹر مایوس ہوکر گھر تک محدود رہے گا کیونکہ پی پی قیادت ان کی فکر کو تبدیل نہیں کرسکی اور کچھ لوگ میاں نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کے ضرور حامی ہیں۔