2021 انٹرنیٹ اسپیکٹرم کی نیلامی سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے
معاشی ترقی کی خاطر آئندہ سال IoT کے لیے لائسنس فری اسپیکٹرم کا اجرا ضروری ہے۔
RAWALPINDI:
ٹیلی کوم سیکٹر کے حوالے سے 2021 ایک اچھا سال رہا جب کہ اس برس سب سے اہم واقعہ اسپیکٹرم کی نیلامی تھی جس کے نتیجے میں انٹرنیٹ کی رفتار اور معیار میں بہتری کی توقع تھی۔
بدقسمتی سے اسپیکٹرم کی نیلامی سے موبائل انٹرنیٹ میں بہتری کا مقصد حاصل نہ ہوسکا نہ ہی حکومت کے لیے اس سے متوقع آمدنی حاصل ہوپائی۔ وجہ یہ تھی کہ پورے کے بجائے جزوی طور پر اسپیکٹرم فروخت ہوسکا جس سے حکومت کو متوقع 830 ملین کے بجائے 279 ملین ڈالر کی آمدنی ہوئی۔
گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں اسی طرح کی نیلامی سے بہتر نتائج حاصل ہوئے۔ وہاں پیش کش کردہ اسپیکٹرم کا 62فیصد نیلام ہو گیا اور حکومت کو تخمینہ شدہ آمدن کا 76فیصد حاصل ہوا۔ 5مزید بینڈز میں بے تحاشا اسپیکٹرم غیراستعمال شدہ ہے۔
بہتر یہ ہے کہ اس اسپیکٹرم کو جتنی جلد ہوسکے ریلیز کردیا جائے قبل اس کے کہ اسٹار لنک سیٹیلائٹس جیسی ٹیکنالوجیز اسپیکٹرم کی افادیت صفر کردیں۔ اگست 2021ء میں انٹرنیٹ آف تھنگز ( آئی او ٹی ) کے لیے لائسنس فری اسپیکٹرم اور ریگولیٹری فریم ورک پر مشاورت مکمل ہوگئی تھی مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
عالمی سطح پر آئی او ٹی ٹیلی کوم سیکٹر کا برق رفتاری سے وسعت پاتا جزو ہے۔ یہ زراعت، لائیواسٹاک، جنگلات، پانی کا تحفظ اور ذخیرہ کاری، سپلائی چین، ٹریفک اینڈ یوٹیلٹیز مینجمنٹ سمیت متعدد شعبوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔
آئی او ٹی کے لیے لائسنس فری اسپیکٹرم کا اجرا نہ ہونے سے متعدد شعبے مطلوبہ ترقی سے محروم ہیں۔ اس کے علاوہ ریفارمڈ موبائل لائسنسنگ فریم ورک، فریکوئنسی شیئرنگ؍ ٹریڈنگ فریم ورک وغیرہ بھی 2021ء میں حقیقت نہ بن سکے۔
پاکستانی ٹیلی کوم کمپنیاں متوقع طور پر اگلے پانچ سالوں میں اپنے نیٹ ورکس پر ساڑھے تین ارب ڈالر خرچ کریں گی۔ ورلڈ بینک کی معاونت سے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی فائیو جی حکمت عملی تشکیل دینے پر احسن طریقے سے کام کررہی ہے۔
ٹیلی کوم سیکٹر کے حوالے سے 2021 ایک اچھا سال رہا جب کہ اس برس سب سے اہم واقعہ اسپیکٹرم کی نیلامی تھی جس کے نتیجے میں انٹرنیٹ کی رفتار اور معیار میں بہتری کی توقع تھی۔
بدقسمتی سے اسپیکٹرم کی نیلامی سے موبائل انٹرنیٹ میں بہتری کا مقصد حاصل نہ ہوسکا نہ ہی حکومت کے لیے اس سے متوقع آمدنی حاصل ہوپائی۔ وجہ یہ تھی کہ پورے کے بجائے جزوی طور پر اسپیکٹرم فروخت ہوسکا جس سے حکومت کو متوقع 830 ملین کے بجائے 279 ملین ڈالر کی آمدنی ہوئی۔
گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں اسی طرح کی نیلامی سے بہتر نتائج حاصل ہوئے۔ وہاں پیش کش کردہ اسپیکٹرم کا 62فیصد نیلام ہو گیا اور حکومت کو تخمینہ شدہ آمدن کا 76فیصد حاصل ہوا۔ 5مزید بینڈز میں بے تحاشا اسپیکٹرم غیراستعمال شدہ ہے۔
بہتر یہ ہے کہ اس اسپیکٹرم کو جتنی جلد ہوسکے ریلیز کردیا جائے قبل اس کے کہ اسٹار لنک سیٹیلائٹس جیسی ٹیکنالوجیز اسپیکٹرم کی افادیت صفر کردیں۔ اگست 2021ء میں انٹرنیٹ آف تھنگز ( آئی او ٹی ) کے لیے لائسنس فری اسپیکٹرم اور ریگولیٹری فریم ورک پر مشاورت مکمل ہوگئی تھی مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
عالمی سطح پر آئی او ٹی ٹیلی کوم سیکٹر کا برق رفتاری سے وسعت پاتا جزو ہے۔ یہ زراعت، لائیواسٹاک، جنگلات، پانی کا تحفظ اور ذخیرہ کاری، سپلائی چین، ٹریفک اینڈ یوٹیلٹیز مینجمنٹ سمیت متعدد شعبوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔
آئی او ٹی کے لیے لائسنس فری اسپیکٹرم کا اجرا نہ ہونے سے متعدد شعبے مطلوبہ ترقی سے محروم ہیں۔ اس کے علاوہ ریفارمڈ موبائل لائسنسنگ فریم ورک، فریکوئنسی شیئرنگ؍ ٹریڈنگ فریم ورک وغیرہ بھی 2021ء میں حقیقت نہ بن سکے۔
پاکستانی ٹیلی کوم کمپنیاں متوقع طور پر اگلے پانچ سالوں میں اپنے نیٹ ورکس پر ساڑھے تین ارب ڈالر خرچ کریں گی۔ ورلڈ بینک کی معاونت سے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی فائیو جی حکمت عملی تشکیل دینے پر احسن طریقے سے کام کررہی ہے۔