منفرد ذائقہ لیے ’سرمئی نان‘

اسے عام باورچی خانے کے بہ جائے باقاعدہ ’تنور‘ میں ہی تیار کرنا ہوتا ہے۔

اسے عام باورچی خانے کے بہ جائے باقاعدہ ’تنور‘ میں ہی تیار کرنا ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
دنیا کی تاریخ میں کم از کم 9000 سال سے گندم انسانی خوراک کا اہم اور بنیادی حصہ رہا ہے۔ اس کی بے شمار اقسام ہیں۔

گندم کا تعلق گھاس کے خاندان سے ہے۔ اس کی ابتدا وادی فرات سے ہوئی تھی، مگر آج یہ دنیا کے ہر براعظم اور اس کے ہر ملک میں پایا جاتا ہے۔ گیہوں کو پیس کر اس سے آٹا بنایا جاتا ہے، جس کی روٹی تیار کی جاتی ہے۔ ابتدا میں گندم کچی شکل میں استعمال کیا جاتا تھا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے گندم کو پیسنا شروع کیا۔ پھر اس آٹے سے روٹی اور اس جیسی بے شمار غذائی اشیا تیار کرنے کا آغاز ہوا۔

گیہوں یا گندم کے پودے کی اونچائی عام طور سے دو سے چار فٹ تک ہوتی ہے۔ اس کو دو بڑے گروپس میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ موسم بہار کا گیہوں اور موسم سرما کا گیہوں، موسم بہار کا گیہوں موسم بہار میں بویا جاتا ہے اور موسم گرما میں اس کی فصل کاٹی جاتی ہے ۔ موسم سرما کا گیہوں موسم خزاں میں بویا جاتا ہے اس کی فصل موسم بہار میںکاٹی جاتی ہے۔ جب گندم کی بالیاں سنہری ہوجاتی ہیں اور یہ مکمل طور پر خشک بھی ہوجاتی ہیں تو اسے کاٹ لیا جاتا ہے۔ گندم پروٹین اور نشاستہ نکال کر اسے متعدد صنعتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

گندم میں پروٹین، شکر، وٹامن بی اور کئی دیگر معدنیات جیسے فولاد، مینگنیز، میگنیشم اور جست (زنک) خوب پایا جاتا ہے، جو انسانی جسم کی قوت و توانائی کے لیے بہت اہم ہیں۔ گندم سے عام طور پر روٹی، پاستا، کئی طرح کے دلیے اور اناج تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے کئی غذائی اشیا میں بھی شامل کیا جاتا ہے، جس کی بدولت غذائی اشیا کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور انہیں صحت بخش قرار دیا جاتا ہے۔ گندم کی بھوسی میں ریشہ وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ اس لیے ماہرین صحت بھوسی والے آٹے کی روٹی کو توانائی سے بھرپور قرار دیتے ہیں، لہٰذا بغیر چھنے ہوئے آٹے کی روٹی پکاکر کھانی چاہیے۔ تاکہ ہمارے جسم کو قدرتی ریشہ حاصل ہو سکے۔

روٹی کی ایک مقبول قسم نان کہلاتی ہے۔ سرمئی نان نہ صرف آنکھوں کو نہایت بھلے معلوم ہوتے ہیں، بلکہ آپ کی بھوک میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے بیکنگ کی خاص خوش بو آپ کی طلب میں اضافہ کرتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نہایت کم خرچ لیکن نہایت محنت اور فن کے ساتھ بنائے جانے والے یہ نان کئی ملکوں میں دسترخوان کی زینت بنتے ہیں اور دل چسپ بات یہ ہے کہ ناشتا ہو، دوپہر کا کھانا ہو یا پھر رات کا کھانا یہ ہر وقت کے کھانے کے لیے موزوں سمجھے جاتے ہیں۔ انگریزوں کے نزدیک نان بنیادی غذا ہے، جب کہ متحدہ عرب امارات میں ناشتا ان کے بغیر نامکمل ہے۔


یہاں پر یہ سرمئی نان ہر آدمی کی کمزوری بن چکا ہے۔ بہت سے ملکوں میں اسکول کے بچے اس نان پر ہی گزارا کرتے ہیں کیوں کہ یہ نہ صرف سستا ہے، بلکہ غذائیت سے بھرپور اور ذائقے میں بہترین ہے۔ ان ممالک میں ڈاکٹرز شوگر کے مریضوں کے لیے بھی یہ نان استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں کیوں کہ ان میں شوگر کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ یہ ریشے سے بھرپور ہوتے ہیں اور ریشہ (فائبر) انسانی غذا میں معدے اور نظام ہضم کو درست رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پوٹاشیم اور میگنیشم خاص مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ یہ سرمئی نان غذائیت کے اعتبار سے بہت زیادہ کیلوریز مہیا کرتے ہیں اور ذائقہ دار بھی ہوتے ہیں۔

اس نان کو تیار کرنا واقعی ایک فن ہے۔ یوں تو کوئی بھی شخص اس کو بنا سکتا ہے، لیکن اس میں وہ بات نہیں ہوتی، جو ایک مہارت سے حاصل ہوتی ہے، صرف کھانا پکانے میں دل چسپی رکھنے والے افراد ہی اس کو صحیح طریقے سے بنا سکتے ہیں، اس کو بنانے کے لیے بہت ہی بنیادی، سادہ اور آسانی سے دست یاب اجزا کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً آٹا پانی، انڈے، نمک، خمیر اور تیل یا گھی۔ جہاں تک ان کی مقدار کا تعلق ہے تو ایک کلو آٹے کے لیے تین عدد انڈے ، ڈیڑھ کپ پانی، 50 گرام نمک اور تھوڑی سی مقدر خمیر کی ضرورت پڑتی ہے، جب کہ تیل یا گھی نان ہلکا براؤن کرنے کے لیے حسب ضرورت استعمال ہوتا ہے۔

ان تمام اجزا کو ماسوائے تیل کے ملا کر آٹے کی شکل میں گوندھ لیں، اس کے بعد بیلن کی مدد سے مختلف شکل کے نان تیار کر کے ٹرے میں رکھ کر تنور میں رکھ دیں، لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کو بیک (Bake) کرنے کے لیے خاص قسم کے تنور جو کہ خمارا کہلاتے ہیں وہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ خمارا دراصل ایک چھوٹا سا کمرا ہوتا ہے، جس میں پانی کے ہیٹر لگے ہوئے ہوتے ہیں اور ان سے نکلنے والی بھاپ سوراخوں میں سے باہر نکلتی رہتی ہے لیکن کمرے کا درجہ حرارت اتنا رکھا جاتا ہے کہ نان آرام سے بیک ہوتے رہیں، جب ہی تو ان کی لذت اور فلیور منفرد ہوتے ہیں کیوں کہ یہ نان بھاپ کی مدد سے ہی بیک ہوتے ہیں اس کے بعد ان کو 350 ڈگری فارن ہائیٹ ٹمپریچر پر بیک کیا جاتا ہے تاکہ یہ سرمئی مائل ہو جائیں۔

خمارا یا تنور سے نکالنے کے بعد ان پر ہلکا سا تیل یا دیسی گھی لگایا جاتا ہے، تاکہ یہ سخت نہ ہوں تاریخی اعتبار سے یہی نان سینڈوچ کی ایجاد کا باعث بنے ہیں۔ ان کو رول کرکے ان میں کسی قسم کی سبزی، سالن یا تلا ہوا انڈا اور کباب وغیرہ رکھ کر بہترین رول تیار کیے جا سکتے ہیں، لیکن اس صورت میں نان کو ذرا باریک یا پتلا رکھنا پڑے گا، تاکہ اس کو بہ آسانی رول کیا جا سکے۔ گھر پر تیار کردہ یہ رول نہ صرف مزے دار ہوتے ہیں بلکہ غذائیت سے بھی بھرپور ہوتے ہیں۔

یوں تو تیار شدہ نان بہ آسانی دست یاب ہوجاتے ہیں، لیکن گھر پر تیار نان کی بات ہی اور ہوتی ہے۔ آپ بھی گھر پر نان تیار کر سکتی ہیں۔ خاص طور پر گھر میں تقریب کے اہتمام کے موقع پر یا کسی دعوت کے موقع پر اسے ضرور آزمائیں اور اپنے مہمانوں سے داد وصول کریں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس کے خاص تنور کا اہتمام بھی کرسکیں۔ ضروری نہیں ہے کہ یہ اہتمام گھر میں ہو، آپ کو اگر یہ سہولت کسی اور جگہ میسر ہو، تو وہاں بھی آپ اسے تیار کرسکتی ہیں۔

ایک بات کا خاص خیال رکھیں دعوت کے لیے نان تیار کرنے سے پہلے روزمرہ کے کھانے کے لیے نان تیار کریں، تاکہ آپ کو مہارت حاصل ہوجائے تو پھر آج ہی سرمئی نان تیار کریں۔
Load Next Story