4 حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا جواب غیر تسلی بخش قرار
پولنگ کے لئے انتخابی عملے کی تعیناتی قواعد کے مطابق ہونی چاہئے، چہف جسٹس تصدق حسین گیلانی
سپریم کورٹ نے 4 انتخابی حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق سے متعلق کیس میں الیکشن کمیشن سے انتخابی عملے میں وفاق اور صوبائی ملازمین کی شرح سے متعلق تحریری جواب طلب کر لیا۔
سپریم کورٹ میں 4 انتخابی حلقوں میں دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت ہوئی، عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ملک بھر میں دھاندلی ہوئی تو پھر 4 حلقوں کی کیوں درخواست دی ؟، جس پر حامد خان نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ اس لیے آئے ہیں تاکہ دھاندلی کا معاملہ سامنے آسکے، سماعت کے دوران قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 125 لاہور اور این اے 154 لودھراں میں داخل عذرداریوں کی سماعت کرنے والے الیکشن ٹربیونل نے تحریری جواب میں بتایا کہ تحریک انصاف کے امیدوار حامد خان اپنی مرضی سے رپورٹ لینا چاہتے ہیں، ہمارے سامنے نہ گواہ پیش کئے گئے نہ ہی دھاندلی کے کوئی ثبوت دیئے گئے اور تحریک انصاف صرف نادرا سے انگوٹھوں کی تصدیق کرانے پر اصرار کررہی ہے۔
تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن ٹریبونل کے سامنے معاملہ جھگڑے میں پڑگیا تھا اس لئے جج معاملہ نمٹانا نہیں چاہتے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی درخواست کسی دوسرے ٹریبونل کو بھجوانے کی درخواست دی تھی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ الیکشن ٹریبونل کے خیال میں ثبوت ناکافی ہوتے تو وہ اسے مسترد کر دیتے، آپ کو الیکشن ٹریبونل کے سامنے دھاندلی کے ثبوت رکھنے چاہئے تھے۔
سماعت کے دوران سیکریٹری الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے کوشش کی کہ انتخابی عملے کی تعیناتی میں وفاقی و صوبائی حکومت کے اہلکار شامل ہوں لیکن وفاق کی جانب سے ملازمین کی عدم دستیابی پر عملے کی تعیناتی غیر متوازن ہوئی۔ ریٹرننگ افسر اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ پولنگ عملہ کون ہوگا، انتخابی عملے کے لئے وفاقی اور صوبائی ملازمین کی تعیناتی کی شرح مخصوص نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انتخابی عملے کی تعیناتی قواعد کے مطابق ہونی چاہئے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا جواب تسلی بخش نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے انتخابی عملے میں وفاق اور صوبائی ملازمین کی شرح سے متعلق الیکشن کمیشن سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ میں 4 انتخابی حلقوں میں دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت ہوئی، عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ملک بھر میں دھاندلی ہوئی تو پھر 4 حلقوں کی کیوں درخواست دی ؟، جس پر حامد خان نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ اس لیے آئے ہیں تاکہ دھاندلی کا معاملہ سامنے آسکے، سماعت کے دوران قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 125 لاہور اور این اے 154 لودھراں میں داخل عذرداریوں کی سماعت کرنے والے الیکشن ٹربیونل نے تحریری جواب میں بتایا کہ تحریک انصاف کے امیدوار حامد خان اپنی مرضی سے رپورٹ لینا چاہتے ہیں، ہمارے سامنے نہ گواہ پیش کئے گئے نہ ہی دھاندلی کے کوئی ثبوت دیئے گئے اور تحریک انصاف صرف نادرا سے انگوٹھوں کی تصدیق کرانے پر اصرار کررہی ہے۔
تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن ٹریبونل کے سامنے معاملہ جھگڑے میں پڑگیا تھا اس لئے جج معاملہ نمٹانا نہیں چاہتے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی درخواست کسی دوسرے ٹریبونل کو بھجوانے کی درخواست دی تھی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ الیکشن ٹریبونل کے خیال میں ثبوت ناکافی ہوتے تو وہ اسے مسترد کر دیتے، آپ کو الیکشن ٹریبونل کے سامنے دھاندلی کے ثبوت رکھنے چاہئے تھے۔
سماعت کے دوران سیکریٹری الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے کوشش کی کہ انتخابی عملے کی تعیناتی میں وفاقی و صوبائی حکومت کے اہلکار شامل ہوں لیکن وفاق کی جانب سے ملازمین کی عدم دستیابی پر عملے کی تعیناتی غیر متوازن ہوئی۔ ریٹرننگ افسر اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ پولنگ عملہ کون ہوگا، انتخابی عملے کے لئے وفاقی اور صوبائی ملازمین کی تعیناتی کی شرح مخصوص نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انتخابی عملے کی تعیناتی قواعد کے مطابق ہونی چاہئے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا جواب تسلی بخش نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے انتخابی عملے میں وفاق اور صوبائی ملازمین کی شرح سے متعلق الیکشن کمیشن سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔