ڈپریشن کی اکثر دوائیں غلط استعمال ہورہی ہیں تحقیق
کم شدت والے ڈپریشن میں اینٹی ڈپریسنٹس کا استعمال فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے
SRINAGAR:
برطانوی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈپریشن کی بیشتر دوائیں نہ صرف غلط تجویز کی جارہی ہیں بلکہ انہیں غلط طور پر استعمال بھی کیا جارہا ہے۔
یہ بات انہوں نے ڈپریشن کی ادویہ پر اب تک ہونے والی بڑی تحقیقات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد کہی ہے۔
''ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ڈپریشن کی دوائیں بالکل بھی نہ دی جائیں،'' ڈاکٹر مارک ہارووِٹز نے کہا جو یونیورسٹی کالج لندن میں نفسیاتی علاج (سائیکیاٹری) کے پروفیسر اور ''ڈرگز اینڈ تھراپیوٹکس بلیٹن'' کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والے اس تجزیاتی مقالے (ریویو آرٹیکل) کے مرکزی مصنف بھی ہیں۔
''اس کے برعکس، ہم نفسیاتی معالجین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ڈپریشن کی ادویہ کم تعداد میں اور کم مدت کےلیے دیں؛ اور شدید ڈپریشن میں مبتلا مریضوں پر زیادہ توجہ دیں،'' ڈاکٹر مارک نے واضح کیا۔
اس تجزیاتی مقالے میں ڈپریشن کی دواؤں پر کی گئی مختلف اور تفصیلی تحقیقات کا نئے سرے سے جائزہ لیا گیا، جن میں بہت سی تکنیکی خامیاں سامنے آئیں۔
مثلاً یہ کہ ایسی بیشتر تحقیقات کا دورانیہ 6 سے 12 ہفتے تک رہا لیکن اس کے بعد مریضوں کی نفسیاتی صحت پر اکثر نظر نہیں رکھی گئی، لہذا یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اگر ان مریضوں نے بعد میں بھی ڈپریشن کی دوائیں جاری رکھیں تو ان کی ذہنی کیفیت کیا رہی۔
تجزیاتی مقالے کے مصنفین کا کہنا ہے کہ کم شدت والے ڈپریشن میں اینٹی ڈپریسنٹس (ڈپریشن کی دوائیں) فائدے سے زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ ڈپریشن کی بیشتر دوائیں شدید نوعیت والی علامات پر مختصر مدت کےلیے دی جاتی ہیں لیکن مریض ان کا استعمال کئی سال تک جاری رکھتے ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ ساری دنیا میں ڈپریشن کی ادویہ کا استعمال بڑھتا جارہا ہے لیکن ان کی وہ تاثیر سامنے نہیں آرہی جس کے دعوے ان سے متعلق تحقیقات میں کیے گئے تھے۔
تازہ تجزیاتی مقالے میں یہ نکتہ بھی بطورِ خاص اجاگر کرتے ہوئے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ڈپریشن کی ادویہ پر کی گئی بیشتر تحقیقات میں معمولی فوائد کو بہت بڑھا چڑھا کر، جبکہ ان کے مضر اثرات کو غیر اہم بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
یہی نہیں بلکہ ایسی زیادہ تر تحقیقات میں ڈپریشن کی دوائیں استعمال کرنے کے بعد مریضوں میں عمومی معیارِ زندگی یعنی جسم و دماغ کی مجموعی صحت پر توجہ نہیں دی گئی بلکہ سارا زور صرف ڈپریشن کی ظاہری علامات پر ہی دیا گیا۔
مثلاً ڈپریشن سے چھٹکارا پانے کےلیے ''ایس ایس آر آئی'' (SSRI) کی دوائیں لینے والے 20 فیصد مریضوں نے دن بھر غنودگی طاری رہنے، منہ میں خشکی، بہت زیادہ پسینہ آنے اور وزن بڑھنے جیسی شکایات کی تھیں۔
25 فیصد مریضوں نے جنسی خواہش متاثر ہونے کے بارے میں بتایا جبکہ 10 فیصد مریضوں کو بے آرامی، پٹھوں میں اچانک کھنچاؤ یا سنسناہٹ، متلی، قبض، ہیضے اور سر چکرانے جیسی کیفیات کا سامنا رہا۔
ایک طویل مدتی سروے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لمبے عرصے تک ڈپریشن کی دوائیں کھانے والوں 71 فیصد افراد نے خود میں جذباتی بے حسی کا مشاہدہ کیا، 70 فیصد نے کہا کہ وہ ہر وقت خود کو بوجھل اور ارد گرد معاملات سے لاتعلق محسوس کرتے ہیں، 66 فیصد نے جنسی مسائل کا تذکرہ کیا جبکہ 63 فیصد نے زیادہ تر وقت اپنے غنودگی میں مبتلا رہنے کا بتایا۔
اس تجزیاتی مطالعے میں کم عمر بچوں کو ڈپریشن کی دوائیں استعمال کرانے کے رجحان پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اب تک اس بارے میں کوئی واضح تحقیق موجود نہیں لیکن پھر بھی کم عمر بچوں، بالخصوص نوبالغ لڑکیوں میں ڈپریشن کی ادویہ کا استعمال بڑھتا جارہا ہے۔
ان تمام باتوں کی روشنی میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کی دوائیں تجویز کرتے وقت ڈاکٹروں کو بہت زیادہ احتیاط برتنی چاہیے جبکہ ان کے مضر اور مفید، دونوں اثرات پر خصوصی نظر رکھنی چاہیے۔
''ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈپریشن کی ادویہ پر زیادہ طویل، زیادہ محتاط اور زیادہ جامع تحقیقات کی جائیں تاکہ انہیں درست طور پر استعمال کیا جاسکے،'' ڈاکٹر مارک نے کہا۔
برطانوی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈپریشن کی بیشتر دوائیں نہ صرف غلط تجویز کی جارہی ہیں بلکہ انہیں غلط طور پر استعمال بھی کیا جارہا ہے۔
یہ بات انہوں نے ڈپریشن کی ادویہ پر اب تک ہونے والی بڑی تحقیقات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد کہی ہے۔
''ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ڈپریشن کی دوائیں بالکل بھی نہ دی جائیں،'' ڈاکٹر مارک ہارووِٹز نے کہا جو یونیورسٹی کالج لندن میں نفسیاتی علاج (سائیکیاٹری) کے پروفیسر اور ''ڈرگز اینڈ تھراپیوٹکس بلیٹن'' کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والے اس تجزیاتی مقالے (ریویو آرٹیکل) کے مرکزی مصنف بھی ہیں۔
''اس کے برعکس، ہم نفسیاتی معالجین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ڈپریشن کی ادویہ کم تعداد میں اور کم مدت کےلیے دیں؛ اور شدید ڈپریشن میں مبتلا مریضوں پر زیادہ توجہ دیں،'' ڈاکٹر مارک نے واضح کیا۔
اس تجزیاتی مقالے میں ڈپریشن کی دواؤں پر کی گئی مختلف اور تفصیلی تحقیقات کا نئے سرے سے جائزہ لیا گیا، جن میں بہت سی تکنیکی خامیاں سامنے آئیں۔
مثلاً یہ کہ ایسی بیشتر تحقیقات کا دورانیہ 6 سے 12 ہفتے تک رہا لیکن اس کے بعد مریضوں کی نفسیاتی صحت پر اکثر نظر نہیں رکھی گئی، لہذا یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اگر ان مریضوں نے بعد میں بھی ڈپریشن کی دوائیں جاری رکھیں تو ان کی ذہنی کیفیت کیا رہی۔
تجزیاتی مقالے کے مصنفین کا کہنا ہے کہ کم شدت والے ڈپریشن میں اینٹی ڈپریسنٹس (ڈپریشن کی دوائیں) فائدے سے زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ ڈپریشن کی بیشتر دوائیں شدید نوعیت والی علامات پر مختصر مدت کےلیے دی جاتی ہیں لیکن مریض ان کا استعمال کئی سال تک جاری رکھتے ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ ساری دنیا میں ڈپریشن کی ادویہ کا استعمال بڑھتا جارہا ہے لیکن ان کی وہ تاثیر سامنے نہیں آرہی جس کے دعوے ان سے متعلق تحقیقات میں کیے گئے تھے۔
تازہ تجزیاتی مقالے میں یہ نکتہ بھی بطورِ خاص اجاگر کرتے ہوئے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ڈپریشن کی ادویہ پر کی گئی بیشتر تحقیقات میں معمولی فوائد کو بہت بڑھا چڑھا کر، جبکہ ان کے مضر اثرات کو غیر اہم بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
یہی نہیں بلکہ ایسی زیادہ تر تحقیقات میں ڈپریشن کی دوائیں استعمال کرنے کے بعد مریضوں میں عمومی معیارِ زندگی یعنی جسم و دماغ کی مجموعی صحت پر توجہ نہیں دی گئی بلکہ سارا زور صرف ڈپریشن کی ظاہری علامات پر ہی دیا گیا۔
مثلاً ڈپریشن سے چھٹکارا پانے کےلیے ''ایس ایس آر آئی'' (SSRI) کی دوائیں لینے والے 20 فیصد مریضوں نے دن بھر غنودگی طاری رہنے، منہ میں خشکی، بہت زیادہ پسینہ آنے اور وزن بڑھنے جیسی شکایات کی تھیں۔
25 فیصد مریضوں نے جنسی خواہش متاثر ہونے کے بارے میں بتایا جبکہ 10 فیصد مریضوں کو بے آرامی، پٹھوں میں اچانک کھنچاؤ یا سنسناہٹ، متلی، قبض، ہیضے اور سر چکرانے جیسی کیفیات کا سامنا رہا۔
ایک طویل مدتی سروے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لمبے عرصے تک ڈپریشن کی دوائیں کھانے والوں 71 فیصد افراد نے خود میں جذباتی بے حسی کا مشاہدہ کیا، 70 فیصد نے کہا کہ وہ ہر وقت خود کو بوجھل اور ارد گرد معاملات سے لاتعلق محسوس کرتے ہیں، 66 فیصد نے جنسی مسائل کا تذکرہ کیا جبکہ 63 فیصد نے زیادہ تر وقت اپنے غنودگی میں مبتلا رہنے کا بتایا۔
اس تجزیاتی مطالعے میں کم عمر بچوں کو ڈپریشن کی دوائیں استعمال کرانے کے رجحان پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اب تک اس بارے میں کوئی واضح تحقیق موجود نہیں لیکن پھر بھی کم عمر بچوں، بالخصوص نوبالغ لڑکیوں میں ڈپریشن کی ادویہ کا استعمال بڑھتا جارہا ہے۔
ان تمام باتوں کی روشنی میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کی دوائیں تجویز کرتے وقت ڈاکٹروں کو بہت زیادہ احتیاط برتنی چاہیے جبکہ ان کے مضر اور مفید، دونوں اثرات پر خصوصی نظر رکھنی چاہیے۔
''ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈپریشن کی ادویہ پر زیادہ طویل، زیادہ محتاط اور زیادہ جامع تحقیقات کی جائیں تاکہ انہیں درست طور پر استعمال کیا جاسکے،'' ڈاکٹر مارک نے کہا۔