فیصلہ عوام کریں گے
حکمران کو آئینہ عوام دکھاتے ہیں اور عوام نے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی الیکشن میں حکومت کو آئینہ دکھا دیا ہے۔
کراچی:
فوجی حکومتیں الیکشن کے حق میں نہیں ہوتی کیونکہ یہ خود کسی الیکشن کے بغیر حکومت سنبھال لیتی ہیں، اس لیے ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ملک میں الیکشن نہ ہوں تاکہ ان کی غیر جمہوری حکومت ہی چلتی رہے۔
اس کا مشاہدہ ہم بار بار کر چکے ہیں لیکن بالآخر یہ غیر جمہوری طاقتیں بھی الیکشن کرانے پر مجبور کر دی جاتی ہیں اور عوامی خواہشات غالب آجاتی ہیں اور الیکشن کا نقارہ بج جاتا ہے۔ ہماری جمہوری حکومتوں کی بھی خواہش یہی ہوتی ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے ذریعے اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہ کیے جائیں اور ضلع اداروں کو براہ راست کنٹرول کیا جائے ۔
اس کی ایک بڑی وجہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کا یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں کی براہ راست نگرانی کریں گے اور جو بھی منصوبے شروع کیے جائیں، ان کے نام کی تختی لگائی جائے۔ سادہ الفاظ میں ان کو اپنے حلقہ انتخاب میں کسی دوسرے فریق کی مداخلت سخت ناگوار گزرتی ہے،اسی لیے وہ بلدیاتی الیکشن کے حق میں نہیں ہوتے۔
پاکستان میں نواز لیگ نے ایک آدھ مرتبہ دوتہائی اکثریت سے حکومت بنائی لیکن اسے یہ راس نہ آسکی۔ اس کے علاوہ جو بھی حکمران بنا، وہ اتحادیوں کی بیساکھیوں کے سہارے حکومت چلانے کی کوشش کرتا رہا ۔ موجودہ حکومت بھی اتحادی بیساکھیوں کی مرہون منت ہے اور کسی ایک اتحادی کے الگ ہونے سے حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا لیکن ان بیساکھیوں کو تھام کر رکھنے والے بھی موجود ہیں ، یوں حکومت کا کاروبار چل رہا ہے۔
بات جمہوری دور حکومت میں بلدیاتی الیکشن سے شروع ہوئی تھی، موجودہ جمہوری حکومت نے بھی اپنے اقتدار کے چوتھے سال میں بلدیاتی الیکشن کا ڈول ڈالا ہے اور بڑے کٹھن حالات میں بلدیاتی الیکشن کا مشکل ترین فیصلہ کیا ہے جس کے پہلے مرحلے میں خیبرپختونخوا کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی بدترین کارکردگی اورنااہلی کے سبب حکمران جماعت سے زیادہ نشستیں حاصل کر لیں ہیں تاہم حکومتی عہدیداروں نے مہنگائی کو بنیادی محرک قرار دیتے ہوئے کھلے دل سے اپنی شکست کو تسلیم بھی کر لیا ہے۔ آزاد امیدواروں کی بھی ایک بڑی تعداد کامیاب ہوئی ہے جب کہ تحریک انصاف کومیئر کی ایک بھی نشست نہ مل سکی ۔یہ عوامی فیصلہ ہے کہ وہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے سخت نالاں ہیں اور اس کا اظہار انھوں نے ووٹ کی طاقت سے کیا ہے۔
اب بھی اگر ارباب اقتدار کو ہوش نہ آئے تو کیا کہا جا سکتا ہے۔اس صورتحال میں اپوزیشن کے نقاروں پر چوٹ پڑ چکی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ تبدیلی لانے کا جونعرہ بلند کیا گیا تھا وہ تبدیلی آنہیں رہی بلکہ جارہی ہے یعنی بلدیاتی الیکشن کی صورت میں اپوزیشن کے مردے گھوڑے میں عوام نے جان ڈال دی ہے۔ اس میں اپوزیشن کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ حکومت مہنگائی میں ہوشربا اضافہ کر کے اپنے لیے گڑھے خود کھود رہی ہے اور اس پر نمک مرچ خود حکومتی عہدیدار چھڑک رہے ہیں جن کو مہنگائی نظر نہیں آتی اور جن کو نظر آرہی ہے وہ اس کی ایسی ایسی تاویلیں پیش کر رہے ہوتے ہیں جن کو سن کر سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ حکمرانوں کے اپنے اللے تللے شدو مد کے ساتھ جاری ہیں۔
حکومت کو بہر حال اس بات کی داد ضرور دینا پڑے گی جس نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ عوام میں اس کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر رہا ہے اس نے بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کا جرات مندانہ اقدام کیا ہے جس کے نتائج حکمرانوںکا دل ہلا دینے والے ہیں۔ یہ وہ خالص الیکشن ہوتا ہے جو ہر گھر کا الیکشن ہے جیساکہ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ اس الیکشن کی دوستیاں دشمنیاں ایک مدت تک ساتھ چلتی ہیں۔
اگر کسی خوش فہم نے حکومت کو بلدیاتی الیکشن کا مشورہ دیا ہے تو اس کی فہم و فراست کو سات سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ حکمران تخت پر بیٹھ کر بہرہ اور اندھا ہو جاتا ہے اور وہ صرف وہی کچھ دیکھتا یا سنتا ہے جو اس کے خوشامدی اور حواری اسے سناتے ہیں۔
سرکاردربار میں جرات مند، ہمدرداور خیر خواہ لوگوں کا دخل کم ہی ہوتا ہے کیونکہ نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے اور جس کو صرف سب اچھا سننے کی عادت ہو جائے وہ ایسے جرات مند اور خیر خواہ لوگوں سے دور رہتا ہے جو اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
حکمران کو آئینہ عوام دکھاتے ہیں اور عوام نے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی الیکشن میں حکومت کو آئینہ دکھا دیا ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ ابھی تو پنجاب باقی ہے جہاں پر اپوزیشن کی بڑی پارٹی نواز لیگ اکثریت میں ہے اور پیپلز پارٹی بھی خم ٹھوک کر میدان میں آرہی ہے حالانکہ ان دونوں بڑی پارٹیوں کے طرز حکمرانی اور ماضی سے عوام اچھی طرح آگاہ ہیں مگر پھر بھی ہوشرباء مہنگائی کے موجودہ دور میں فیصلہ عوام ہی کریں گے۔
حکمران پی ٹی آئی کے مقدر کے فیصلے کا پہلا مرحلہ اس جماعت کے مستقبل کے بارے اچھے اشارے نہیں دے رہا ،باقی عمران خان اور اس کی کچن کیبنٹ کے ارکان بادشاہ لوگ ہیں، وہ اشاروں کی پرواہ نہیں کرتے۔زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا، اقتدار نہیں رہے گا ،بس...
فوجی حکومتیں الیکشن کے حق میں نہیں ہوتی کیونکہ یہ خود کسی الیکشن کے بغیر حکومت سنبھال لیتی ہیں، اس لیے ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ملک میں الیکشن نہ ہوں تاکہ ان کی غیر جمہوری حکومت ہی چلتی رہے۔
اس کا مشاہدہ ہم بار بار کر چکے ہیں لیکن بالآخر یہ غیر جمہوری طاقتیں بھی الیکشن کرانے پر مجبور کر دی جاتی ہیں اور عوامی خواہشات غالب آجاتی ہیں اور الیکشن کا نقارہ بج جاتا ہے۔ ہماری جمہوری حکومتوں کی بھی خواہش یہی ہوتی ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے ذریعے اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہ کیے جائیں اور ضلع اداروں کو براہ راست کنٹرول کیا جائے ۔
اس کی ایک بڑی وجہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کا یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں کی براہ راست نگرانی کریں گے اور جو بھی منصوبے شروع کیے جائیں، ان کے نام کی تختی لگائی جائے۔ سادہ الفاظ میں ان کو اپنے حلقہ انتخاب میں کسی دوسرے فریق کی مداخلت سخت ناگوار گزرتی ہے،اسی لیے وہ بلدیاتی الیکشن کے حق میں نہیں ہوتے۔
پاکستان میں نواز لیگ نے ایک آدھ مرتبہ دوتہائی اکثریت سے حکومت بنائی لیکن اسے یہ راس نہ آسکی۔ اس کے علاوہ جو بھی حکمران بنا، وہ اتحادیوں کی بیساکھیوں کے سہارے حکومت چلانے کی کوشش کرتا رہا ۔ موجودہ حکومت بھی اتحادی بیساکھیوں کی مرہون منت ہے اور کسی ایک اتحادی کے الگ ہونے سے حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا لیکن ان بیساکھیوں کو تھام کر رکھنے والے بھی موجود ہیں ، یوں حکومت کا کاروبار چل رہا ہے۔
بات جمہوری دور حکومت میں بلدیاتی الیکشن سے شروع ہوئی تھی، موجودہ جمہوری حکومت نے بھی اپنے اقتدار کے چوتھے سال میں بلدیاتی الیکشن کا ڈول ڈالا ہے اور بڑے کٹھن حالات میں بلدیاتی الیکشن کا مشکل ترین فیصلہ کیا ہے جس کے پہلے مرحلے میں خیبرپختونخوا کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی بدترین کارکردگی اورنااہلی کے سبب حکمران جماعت سے زیادہ نشستیں حاصل کر لیں ہیں تاہم حکومتی عہدیداروں نے مہنگائی کو بنیادی محرک قرار دیتے ہوئے کھلے دل سے اپنی شکست کو تسلیم بھی کر لیا ہے۔ آزاد امیدواروں کی بھی ایک بڑی تعداد کامیاب ہوئی ہے جب کہ تحریک انصاف کومیئر کی ایک بھی نشست نہ مل سکی ۔یہ عوامی فیصلہ ہے کہ وہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے سخت نالاں ہیں اور اس کا اظہار انھوں نے ووٹ کی طاقت سے کیا ہے۔
اب بھی اگر ارباب اقتدار کو ہوش نہ آئے تو کیا کہا جا سکتا ہے۔اس صورتحال میں اپوزیشن کے نقاروں پر چوٹ پڑ چکی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ تبدیلی لانے کا جونعرہ بلند کیا گیا تھا وہ تبدیلی آنہیں رہی بلکہ جارہی ہے یعنی بلدیاتی الیکشن کی صورت میں اپوزیشن کے مردے گھوڑے میں عوام نے جان ڈال دی ہے۔ اس میں اپوزیشن کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ حکومت مہنگائی میں ہوشربا اضافہ کر کے اپنے لیے گڑھے خود کھود رہی ہے اور اس پر نمک مرچ خود حکومتی عہدیدار چھڑک رہے ہیں جن کو مہنگائی نظر نہیں آتی اور جن کو نظر آرہی ہے وہ اس کی ایسی ایسی تاویلیں پیش کر رہے ہوتے ہیں جن کو سن کر سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ حکمرانوں کے اپنے اللے تللے شدو مد کے ساتھ جاری ہیں۔
حکومت کو بہر حال اس بات کی داد ضرور دینا پڑے گی جس نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ عوام میں اس کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر رہا ہے اس نے بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کا جرات مندانہ اقدام کیا ہے جس کے نتائج حکمرانوںکا دل ہلا دینے والے ہیں۔ یہ وہ خالص الیکشن ہوتا ہے جو ہر گھر کا الیکشن ہے جیساکہ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ اس الیکشن کی دوستیاں دشمنیاں ایک مدت تک ساتھ چلتی ہیں۔
اگر کسی خوش فہم نے حکومت کو بلدیاتی الیکشن کا مشورہ دیا ہے تو اس کی فہم و فراست کو سات سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ حکمران تخت پر بیٹھ کر بہرہ اور اندھا ہو جاتا ہے اور وہ صرف وہی کچھ دیکھتا یا سنتا ہے جو اس کے خوشامدی اور حواری اسے سناتے ہیں۔
سرکاردربار میں جرات مند، ہمدرداور خیر خواہ لوگوں کا دخل کم ہی ہوتا ہے کیونکہ نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے اور جس کو صرف سب اچھا سننے کی عادت ہو جائے وہ ایسے جرات مند اور خیر خواہ لوگوں سے دور رہتا ہے جو اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
حکمران کو آئینہ عوام دکھاتے ہیں اور عوام نے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی الیکشن میں حکومت کو آئینہ دکھا دیا ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ ابھی تو پنجاب باقی ہے جہاں پر اپوزیشن کی بڑی پارٹی نواز لیگ اکثریت میں ہے اور پیپلز پارٹی بھی خم ٹھوک کر میدان میں آرہی ہے حالانکہ ان دونوں بڑی پارٹیوں کے طرز حکمرانی اور ماضی سے عوام اچھی طرح آگاہ ہیں مگر پھر بھی ہوشرباء مہنگائی کے موجودہ دور میں فیصلہ عوام ہی کریں گے۔
حکمران پی ٹی آئی کے مقدر کے فیصلے کا پہلا مرحلہ اس جماعت کے مستقبل کے بارے اچھے اشارے نہیں دے رہا ،باقی عمران خان اور اس کی کچن کیبنٹ کے ارکان بادشاہ لوگ ہیں، وہ اشاروں کی پرواہ نہیں کرتے۔زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا، اقتدار نہیں رہے گا ،بس...