مستقبل کا سیاسی منظرنامہ
شاید وہ نہیں جانتے کہ اگر یہاں مدینہ کی ریاست قائم ہوتی تو وزیر اعظم کے اکثر وزیر اور مشیر جیل میں ہوتے۔
کراچی:
پی ٹی آئی کا مضبوط قلعہ بھی مسمار ہوگیاہے، اپنی بدترین حکمرانی کے باعث وہ خیبر پختونخوا کے تمام بڑے شہروں میں شکست کھاگئی اوراس طرح کے پی کے عوام نے بھی اگلے انتخابات کے لیے حکومتی جماعت کو مسترد کرنے کا سگنل دے دیا ہے۔ اس سے پہلے خانیوال کے ضمنی الیکشن نے پنجاب میںمستقبل کا سیاسی منظرنامہ بالکل واضح کردیا ہے۔
عوام میں کس پارٹی کی کتنی مقبولیت ہے اور اگلے انتخابات میں بڑی پارٹیوں کی کیا پوزیشن ہوگی، یہ خانیوال کے الیکشن سے عیاں ہوگیا ہے۔ اس الیکشن میں کارفرما چند اہم عوامل ضرور پیشِ نظر رکھنا ہوںگے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر ضمنی انتخاب میں حکومت، اپوزیشن کی نسبت بہتر پوزیشن میں ہوتی ہے کیونکہ ووٹر یہ جانتے ہیں کہ حکومت اُسی پارٹی کی رہے گی، ایک سیٹ سے اپوزیشن حکومت نہیں بناسکے گی۔
دوسرا یہ کہ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں صوبائی اور مرکزی حکومت کی سوچ واضح ہوگئی تھی کہ وہ الیکشن جیتنے کے لیے پولیس، انتظامیہ اور دوسرے سرکاری محکموں کو استعمال کرنا جائز سمجھتے ہیں،سرکاری مشینری کے استعمال سے دس ہزار کے قریب ووٹوں کا فرق ڈالا جا سکتا ہے ۔
خانیوال، جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے شہر ملتان سے ملحق ہے اور اسے ملتان سے کاٹ کر ہی ضلع بنایا گیا تھا۔جنوبی پنجاب کے بارے میں یہ تاثر ہے یا پھیلایا گیا ہے کہ وہاں میاں نوازشریف یا مسلم لیگ ن کی مقبولیت کم ہے۔ پی ٹی آئی نے مرحوم ایم پی اے کی اہلیہ کو ٹکٹ دیا تھا، لہٰذا انھیں ہمدردی کا ووٹ ملنے کی توقع بھی تھی، ان تمام عوامل کی موجودگی میں اگر ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کا امیدوار چودہ ہزار کی لیڈ سے جیتا ہے تو عام انتخابات میں یہ لیڈ ڈبل ہونے کا قوی امکان ہے۔
صوبائی اسمبلی میں لیڈ تیس ہزار ہوتی ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ عام انتخابات میں (جب پی ٹی آئی کی حکومت نہیں ہوگی) مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی کے امیدو ار جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کے امیدوار سے چالیس سے پچاس ہزار ووٹوں کی لیڈ سے جیتیں گے۔ کئی حلقوں میں یہ لیڈ زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔
اگر ملک میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نہ آگئی تو آیندہ آنے والے منصفانہ انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو بیس سے تیس ہزار، پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ( یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود کے علاوہ ) پندرہ سے بیس ہزار اور ٹی ایل پی کو آٹھ سے دس ہزار تک ووٹ ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
جہاں تک سینٹرل پنجاب کا تعلق ہے تو واضح نظر آرہا ہے کہ وہاں پی ٹی آئی کے امیدوار مسلم لیگ ن سے کم از کم پچاس ہزار ووٹوں کی لیڈ سے ہاریں گے ، اور باقی پارٹیوں کی ضمانتیں ضبط ہوںگی۔ 2018میں مسلم لیگ ن کے لیے حالات سب سے زیادہ نامساعد تھے کیونکہ ان کے لیڈر میاں نواز شریف سے وزارتِ عظمیٰ چھین لی گئی ، انھیں نا اہل کرا دیا گیا اور پھر سزا دلوا کر انھیں صاحبزادی سمیت پسِ دیوارِ زنداں بند کر دیا گیا ۔ لہٰذا اس پارٹی کے پاس قومی سطح پر انتخابی مہم چلانے اور بڑے جلسے کرنے کے لیے قومی سطح کا کوئی مقبول لیڈر نہیں تھا۔
اس کے علاوہ عام آدمی تک بھی یہ پیغام پہنچ چکا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ میاں نواز شریف کے خلاف ہے اس لیے مسلم لیگ ن کے بجائے عمران خان کی حکومت بنوائی جائے گی۔ اس واضح تاثرکی موجودگی میں اور انتہائی un-favoruable حالات کے ہوتے ہوئے بھی مسلم لیگ ن نے ایک آدھ ضلع چھوڑ کر پورے سینٹرل پنجاب میں کلین سویپ کیا تھا اور وہاں پی ٹی آئی کا کوئی ایک امیدوار بھی کامیاب نہ ہو سکا تھا۔ میرے خیال میں اگلے انتخابات میں تو سینٹرل پنجاب میں مسلم لیگ کا سیلاب ہو گا جس کے آگے کھڑا ہونا کسی پارٹی کے لیے ممکن نہ ہوگا۔
اس لیے سینٹرل پنجاب میں تو یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بھی کچھ امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو جائیں گی اور زیادہ تر بہت بڑے مارجن سے ہاریں گے۔ سینٹرل پنجاب میں پی پی پی اور ٹی ایل پی کے امیدواروں کو سات سے دس ہزار تک ووٹ ملنے کی توقع ہے۔
اس منظر نامے کے مطابق 2022 میں یا 2023 کے آغاز میں ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن پنجاب اور مرکز میں بڑی آسانی سے حکومت بنائے گی۔ خیبرپختونخوا میں بھی وہ جے یوآئی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنالے گی۔
مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف ، فوری طور پر اپنی پارٹی کی طرف سے شہباز شریف کو وزارتِ عظمٰی کا امیدوار نامزد کردیں ، کیونکہ اس عہدے کے لیے شہباز شریف صاحب ہی سب سے موزوں امیدوار ہیں۔ شہباز صاحب گورننس اور انتظامی امور کاوسیع تجربہ رکھتے ہیں ، وہ بے پناہ محنتی انتھک اور جوش و جنون سے کام کرنے والے انسان ہیں، امن و امان ہو یا انفرااسٹرکچر ، تعلیم ہو یا صحت پولیس ہو یا ریونیو، انھوں نے ہر شعبے اور ہر سیکٹر میں اصلاحات اور بہتری لاکر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایاہے اور وہ بلاشک و شبہ ملک کے تمام سیاستدانوں میں سے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ منتظم مانے جاتے ہیں۔ پھر یہ کہ ان کے لیے اسٹیبلشمنٹ بھی نرم گوشہ رکھتی ہے اور وہ تمام اداروں کے لیے قابلِ قبول ہیں۔
اصلی جمہوریت میں تو اسٹیبلشمنٹ کے تحفظات کی زیادہ اہمیت نہیں ہونی چاہیے مگر ہمارے ملک کے حقائق مختلف ہیں اور یہاں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم لیگ ن کے لیے بھی سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ اسے اگلے الیکشن میں Level playing field ملے ، مقتدر ادارے غیر جانبدار رہیں اور ہر پارٹی بیرونی امداد کے بغیر صرف اپنے زور اور اپنی کارکردگی کی بناء پر الیکشن لڑے ۔
باخبر ذرایع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آیندہ انتخابات بیرونی مداخلت کے بغیر ہوںگے لیکن اگر مسلم لیگ( ن) اگلی بار بھی منصفانہ الیکشن حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی تو یہ اس کی نااہلی سمجھی جائے گی ۔ کیا عمران خان صاحب اور ان کے قریبی ساتھی حالات کا ادراک رکھتے ہیں؟ اور اگر انھیں اصل حقائق کا اندازہ ہے تو وہ اس کے لیے کیا تیاری کر رہے ہیں؟
اطلاعات یہ ہیں کہ ان کے پچاس فیصد ممبران کو حالات کی سنگینی کا بخوبی احساس ہے مگر وہ چونکہ حکومتی پارٹی میں ہیں اس لیے وہ آخری دن تک کروڑوں روپے کے فنڈز سمیت حکومتی نوازشات سے پوری طرح فیضیاب بھی ہوتے رہیں گے مگر اندر خانے مسلم لیگ ن میں جگہ تلاش کرنے کی کوشش بھی کرتے رہیں گے۔ میرے خیال میں خان صاحب اور ان کے قریبی ساتھی دو تین چیزوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں ، ان کی پہلی خواہش ہوگی کہ ادارے انتخابی پراسیس میں ملوث ہو کر انھیں جتوادیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ملک کے اہم ترین انٹیلی جنس ادارے کی سربراہی تبدیل ہونے سے حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔
جنرل ندیم انجم ایک پروفیشنل سولجر اور ملک سے محبت کرنے والے جرنیل ہیں ، قائداعظم ؒ اور علامہ اقبال ؒ سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں ، ان سے توکسی ایسے کام کی توقع نہیں کی جاسکتی جس سے ان کے ادارے پر حرف آئے۔ ویسے بھی اگر دوسری بار پنجاب کے عوام کی اکثریت سے ان کا حق حکمرانی چھینا گیا تو ان کے دل میں سخت قسم کے منفی جذبات پیدا ہوںگے جو ملکی سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوں گے۔
اب وزیرِاعظم کا سب سے بڑا ٹارگٹ شہباز شریف ہیں کیونکہ وہ اپنے اصل متبادل شہباز شریف سے بیحد خائف ہیں اور وہ پوری کوشش کریں گے کہ شہباز شریف صاحب کو کسی طریقے سے سزا دلوادی جائے تاکہ قوم اور مقتدر اداروں کو ان کا کوئی متبادل نظر نہ آئے، لیکن جب حکومت کی کشتی ڈانواں ڈول ہو تو سرکاری افسر ایسی کمزور اور غیر مقبول حکومت کے لیے اپنے کیریئر داؤ پر نہیں لگاتے، لہٰذا شہباز شریف کو سزا دلوانا ممکن نہیں ہوگا۔
وزیر اعظم کا آخری سہارا EVM ہے ، لطیفہ یہ ہے کہ وزراء کہہ رہے ہیں کہ ''بلدیاتی انتخابات کے لیے ہم مشینیں فراہم نہیں کر سکتے، یہ تو صرف اسمبلی کے انتخابات کے لیے ہیں'' اصل مقصد قارئین سمجھ گئے ہوںگے مگر میرا خیال ہے کہ عام انتخابات کے لیے نہ تو حکومت مطلوبہ مشینیں فراہم کرسکے گی اور نہ ہی الیکشن کمیشن اس قدر متنازعہ مشینوں کو قبول کرے گا، لہٰذا برقی مشینیں پی ٹی آئی کی مدد نہیں کر سکیں گی ۔
چوتھا یہ کہ عمران خان صاحب سے بار بار تقریریں کرائی جائیں اور بیرونی میڈیا کو انٹرویو دلائے جائیں جن میں پھر ریاستِ مدینہ اور عدل وغیرہ کی باتیں کی جائیں اور میڈیا ان کی باتوں اور دیسی کپڑوں کو project کرے ، جنھیں سن کر لوگ خان صاحب کی طرف پھر راغب ہوجائیں ، مگر ان کی ساڑھے تین سال کی تباہ کن کارکردگی اور ملک کی معیشت کی بربادی کے بعد اب یہ حَربہ بھی ٹھُس ہو جائے گا۔
کل ہی ایک جید اسکالر کہہ رہے تھے کہ ہمارے وزیرِاعظم ریاست مدینہ کا نام بار بار لیتے ہیں لیکن شاید وہ نہیں جانتے کہ اگر یہاں مدینہ کی ریاست قائم ہوتی تو وزیر اعظم کے اکثر وزیر اور مشیر جیل میں ہوتے ۔
پی ٹی آئی کا مضبوط قلعہ بھی مسمار ہوگیاہے، اپنی بدترین حکمرانی کے باعث وہ خیبر پختونخوا کے تمام بڑے شہروں میں شکست کھاگئی اوراس طرح کے پی کے عوام نے بھی اگلے انتخابات کے لیے حکومتی جماعت کو مسترد کرنے کا سگنل دے دیا ہے۔ اس سے پہلے خانیوال کے ضمنی الیکشن نے پنجاب میںمستقبل کا سیاسی منظرنامہ بالکل واضح کردیا ہے۔
عوام میں کس پارٹی کی کتنی مقبولیت ہے اور اگلے انتخابات میں بڑی پارٹیوں کی کیا پوزیشن ہوگی، یہ خانیوال کے الیکشن سے عیاں ہوگیا ہے۔ اس الیکشن میں کارفرما چند اہم عوامل ضرور پیشِ نظر رکھنا ہوںگے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر ضمنی انتخاب میں حکومت، اپوزیشن کی نسبت بہتر پوزیشن میں ہوتی ہے کیونکہ ووٹر یہ جانتے ہیں کہ حکومت اُسی پارٹی کی رہے گی، ایک سیٹ سے اپوزیشن حکومت نہیں بناسکے گی۔
دوسرا یہ کہ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں صوبائی اور مرکزی حکومت کی سوچ واضح ہوگئی تھی کہ وہ الیکشن جیتنے کے لیے پولیس، انتظامیہ اور دوسرے سرکاری محکموں کو استعمال کرنا جائز سمجھتے ہیں،سرکاری مشینری کے استعمال سے دس ہزار کے قریب ووٹوں کا فرق ڈالا جا سکتا ہے ۔
خانیوال، جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے شہر ملتان سے ملحق ہے اور اسے ملتان سے کاٹ کر ہی ضلع بنایا گیا تھا۔جنوبی پنجاب کے بارے میں یہ تاثر ہے یا پھیلایا گیا ہے کہ وہاں میاں نوازشریف یا مسلم لیگ ن کی مقبولیت کم ہے۔ پی ٹی آئی نے مرحوم ایم پی اے کی اہلیہ کو ٹکٹ دیا تھا، لہٰذا انھیں ہمدردی کا ووٹ ملنے کی توقع بھی تھی، ان تمام عوامل کی موجودگی میں اگر ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کا امیدوار چودہ ہزار کی لیڈ سے جیتا ہے تو عام انتخابات میں یہ لیڈ ڈبل ہونے کا قوی امکان ہے۔
صوبائی اسمبلی میں لیڈ تیس ہزار ہوتی ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ عام انتخابات میں (جب پی ٹی آئی کی حکومت نہیں ہوگی) مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی کے امیدو ار جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کے امیدوار سے چالیس سے پچاس ہزار ووٹوں کی لیڈ سے جیتیں گے۔ کئی حلقوں میں یہ لیڈ زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔
اگر ملک میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نہ آگئی تو آیندہ آنے والے منصفانہ انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو بیس سے تیس ہزار، پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ( یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود کے علاوہ ) پندرہ سے بیس ہزار اور ٹی ایل پی کو آٹھ سے دس ہزار تک ووٹ ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
جہاں تک سینٹرل پنجاب کا تعلق ہے تو واضح نظر آرہا ہے کہ وہاں پی ٹی آئی کے امیدوار مسلم لیگ ن سے کم از کم پچاس ہزار ووٹوں کی لیڈ سے ہاریں گے ، اور باقی پارٹیوں کی ضمانتیں ضبط ہوںگی۔ 2018میں مسلم لیگ ن کے لیے حالات سب سے زیادہ نامساعد تھے کیونکہ ان کے لیڈر میاں نواز شریف سے وزارتِ عظمیٰ چھین لی گئی ، انھیں نا اہل کرا دیا گیا اور پھر سزا دلوا کر انھیں صاحبزادی سمیت پسِ دیوارِ زنداں بند کر دیا گیا ۔ لہٰذا اس پارٹی کے پاس قومی سطح پر انتخابی مہم چلانے اور بڑے جلسے کرنے کے لیے قومی سطح کا کوئی مقبول لیڈر نہیں تھا۔
اس کے علاوہ عام آدمی تک بھی یہ پیغام پہنچ چکا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ میاں نواز شریف کے خلاف ہے اس لیے مسلم لیگ ن کے بجائے عمران خان کی حکومت بنوائی جائے گی۔ اس واضح تاثرکی موجودگی میں اور انتہائی un-favoruable حالات کے ہوتے ہوئے بھی مسلم لیگ ن نے ایک آدھ ضلع چھوڑ کر پورے سینٹرل پنجاب میں کلین سویپ کیا تھا اور وہاں پی ٹی آئی کا کوئی ایک امیدوار بھی کامیاب نہ ہو سکا تھا۔ میرے خیال میں اگلے انتخابات میں تو سینٹرل پنجاب میں مسلم لیگ کا سیلاب ہو گا جس کے آگے کھڑا ہونا کسی پارٹی کے لیے ممکن نہ ہوگا۔
اس لیے سینٹرل پنجاب میں تو یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بھی کچھ امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو جائیں گی اور زیادہ تر بہت بڑے مارجن سے ہاریں گے۔ سینٹرل پنجاب میں پی پی پی اور ٹی ایل پی کے امیدواروں کو سات سے دس ہزار تک ووٹ ملنے کی توقع ہے۔
اس منظر نامے کے مطابق 2022 میں یا 2023 کے آغاز میں ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن پنجاب اور مرکز میں بڑی آسانی سے حکومت بنائے گی۔ خیبرپختونخوا میں بھی وہ جے یوآئی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنالے گی۔
مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف ، فوری طور پر اپنی پارٹی کی طرف سے شہباز شریف کو وزارتِ عظمٰی کا امیدوار نامزد کردیں ، کیونکہ اس عہدے کے لیے شہباز شریف صاحب ہی سب سے موزوں امیدوار ہیں۔ شہباز صاحب گورننس اور انتظامی امور کاوسیع تجربہ رکھتے ہیں ، وہ بے پناہ محنتی انتھک اور جوش و جنون سے کام کرنے والے انسان ہیں، امن و امان ہو یا انفرااسٹرکچر ، تعلیم ہو یا صحت پولیس ہو یا ریونیو، انھوں نے ہر شعبے اور ہر سیکٹر میں اصلاحات اور بہتری لاکر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایاہے اور وہ بلاشک و شبہ ملک کے تمام سیاستدانوں میں سے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ منتظم مانے جاتے ہیں۔ پھر یہ کہ ان کے لیے اسٹیبلشمنٹ بھی نرم گوشہ رکھتی ہے اور وہ تمام اداروں کے لیے قابلِ قبول ہیں۔
اصلی جمہوریت میں تو اسٹیبلشمنٹ کے تحفظات کی زیادہ اہمیت نہیں ہونی چاہیے مگر ہمارے ملک کے حقائق مختلف ہیں اور یہاں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم لیگ ن کے لیے بھی سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ اسے اگلے الیکشن میں Level playing field ملے ، مقتدر ادارے غیر جانبدار رہیں اور ہر پارٹی بیرونی امداد کے بغیر صرف اپنے زور اور اپنی کارکردگی کی بناء پر الیکشن لڑے ۔
باخبر ذرایع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آیندہ انتخابات بیرونی مداخلت کے بغیر ہوںگے لیکن اگر مسلم لیگ( ن) اگلی بار بھی منصفانہ الیکشن حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی تو یہ اس کی نااہلی سمجھی جائے گی ۔ کیا عمران خان صاحب اور ان کے قریبی ساتھی حالات کا ادراک رکھتے ہیں؟ اور اگر انھیں اصل حقائق کا اندازہ ہے تو وہ اس کے لیے کیا تیاری کر رہے ہیں؟
اطلاعات یہ ہیں کہ ان کے پچاس فیصد ممبران کو حالات کی سنگینی کا بخوبی احساس ہے مگر وہ چونکہ حکومتی پارٹی میں ہیں اس لیے وہ آخری دن تک کروڑوں روپے کے فنڈز سمیت حکومتی نوازشات سے پوری طرح فیضیاب بھی ہوتے رہیں گے مگر اندر خانے مسلم لیگ ن میں جگہ تلاش کرنے کی کوشش بھی کرتے رہیں گے۔ میرے خیال میں خان صاحب اور ان کے قریبی ساتھی دو تین چیزوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں ، ان کی پہلی خواہش ہوگی کہ ادارے انتخابی پراسیس میں ملوث ہو کر انھیں جتوادیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ملک کے اہم ترین انٹیلی جنس ادارے کی سربراہی تبدیل ہونے سے حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔
جنرل ندیم انجم ایک پروفیشنل سولجر اور ملک سے محبت کرنے والے جرنیل ہیں ، قائداعظم ؒ اور علامہ اقبال ؒ سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں ، ان سے توکسی ایسے کام کی توقع نہیں کی جاسکتی جس سے ان کے ادارے پر حرف آئے۔ ویسے بھی اگر دوسری بار پنجاب کے عوام کی اکثریت سے ان کا حق حکمرانی چھینا گیا تو ان کے دل میں سخت قسم کے منفی جذبات پیدا ہوںگے جو ملکی سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوں گے۔
اب وزیرِاعظم کا سب سے بڑا ٹارگٹ شہباز شریف ہیں کیونکہ وہ اپنے اصل متبادل شہباز شریف سے بیحد خائف ہیں اور وہ پوری کوشش کریں گے کہ شہباز شریف صاحب کو کسی طریقے سے سزا دلوادی جائے تاکہ قوم اور مقتدر اداروں کو ان کا کوئی متبادل نظر نہ آئے، لیکن جب حکومت کی کشتی ڈانواں ڈول ہو تو سرکاری افسر ایسی کمزور اور غیر مقبول حکومت کے لیے اپنے کیریئر داؤ پر نہیں لگاتے، لہٰذا شہباز شریف کو سزا دلوانا ممکن نہیں ہوگا۔
وزیر اعظم کا آخری سہارا EVM ہے ، لطیفہ یہ ہے کہ وزراء کہہ رہے ہیں کہ ''بلدیاتی انتخابات کے لیے ہم مشینیں فراہم نہیں کر سکتے، یہ تو صرف اسمبلی کے انتخابات کے لیے ہیں'' اصل مقصد قارئین سمجھ گئے ہوںگے مگر میرا خیال ہے کہ عام انتخابات کے لیے نہ تو حکومت مطلوبہ مشینیں فراہم کرسکے گی اور نہ ہی الیکشن کمیشن اس قدر متنازعہ مشینوں کو قبول کرے گا، لہٰذا برقی مشینیں پی ٹی آئی کی مدد نہیں کر سکیں گی ۔
چوتھا یہ کہ عمران خان صاحب سے بار بار تقریریں کرائی جائیں اور بیرونی میڈیا کو انٹرویو دلائے جائیں جن میں پھر ریاستِ مدینہ اور عدل وغیرہ کی باتیں کی جائیں اور میڈیا ان کی باتوں اور دیسی کپڑوں کو project کرے ، جنھیں سن کر لوگ خان صاحب کی طرف پھر راغب ہوجائیں ، مگر ان کی ساڑھے تین سال کی تباہ کن کارکردگی اور ملک کی معیشت کی بربادی کے بعد اب یہ حَربہ بھی ٹھُس ہو جائے گا۔
کل ہی ایک جید اسکالر کہہ رہے تھے کہ ہمارے وزیرِاعظم ریاست مدینہ کا نام بار بار لیتے ہیں لیکن شاید وہ نہیں جانتے کہ اگر یہاں مدینہ کی ریاست قائم ہوتی تو وزیر اعظم کے اکثر وزیر اور مشیر جیل میں ہوتے ۔