ان کا مؤقف درست تھا
اس ملک پر قابض طالع آزما قوتوں کی استحصال کی پالیسیاں اس سانحے کی بنیادی وجہ ہیں۔
FAISALABAD:
کیا تاریخ مسخ کرنے سے ملک میں استحکام آئے گا ؟ ایک ہاری ہوئی جنگ میں کارناموں کا جشن منانے سے نوجوانوں کی صحت مندانہ ذہنی تربیت ہوسکتی ہے؟ یہ حقیقت ہے کہ 16دسمبر 1971کو جنرل اے اے کے نیازی نے مشرقی پاکستان میں بھارتی جنرلز کے سامنے سرنڈر دستاویز پر دستخط کیے تھے۔
یوں مشرقی پاکستان کہلانے والا اکثریتی صوبہ بنگلہ دیش کے نام سے ایک نئے ملک میں تبدیل ہوا۔ یہ سب کچھ دشمن کی سازشوں کے نتیجہ میں رونما نہیں ہوا بلکہ اس ملک پر قابض طالع آزما قوتوں کی استحصال کی پالیسیاں اس سانحے کی بنیادی وجہ ہیں۔
کیسی عجیب بات ہے کہ معروف صحافی اور کئی اخبارات کے سابق مدیر اس المیہ کی ذمے داری اس وقت کے الیکشن کمیشن پر عائد کر رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے یہ بات کیوں نہ بھاپ لی کہ پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان اور عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں امیدوار کھڑے نہیں کیے تھے۔ الیکشن کمیشن کو اس صورتحال کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔
ایک دانشور جو خوبصورت انگریزی میں گفتگو کرتے ہیں اور خوبصورت انگریزی میں لکھتے ہیں، انھوں نے ایک ڈاکومنٹری تیار کی ہے جس میں مشرقی پاکستان کے عوام کے استحصال کی 20 سالہ تاریخ کو فراموش کردیا گیا ہے اور ساری ذمے داری دشمن ملک پر عائد کردی گئی ہے۔
بنگال کی تاریخ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے مقابلہ میں مختلف ہے۔ برصغیر میں سب سے پہلے کرناٹک اور بنگال میں عرب تاجر آئے، یوں بنگال کے لوگ پہلے مسلمان ہوئے۔ بنگال مسلسل سمندری طوفانوں ، بارشوں اور دریاؤں میں طغیانی جیسی صورتحال کا شکار رہا، بنگال کے کسان کا بد ترین استحصال ہوا۔ کبھی یہ استحصال مقامی نوابوں نے کیا ، کبھی دہلی کے حکمرانوں نے اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے۔ بنگالی عوام اور دانشوروں میں ہمیشہ سے ایک مزاحمتی رویہ رہا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی پالیسیوں کے نتیجہ میں بنگال کی ململ تیار کرنے والی صنعت ختم ہوئی اور کاریگر بھوکے مرگئے۔
کمپنی نے کسانوں کو افیون اگانے پر مجبور کیا، یہی وجہ ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی ہند حکومت کے خلاف بنگال میں مزاحمتی تحریکیں زیادہ تھیں۔ بنگال میں ٹیگور جیسا عظیم شاعر پیدا ہوا جس نے نوجوانوں کی انقلابی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام میں بنگال کے مسلمان رہنماؤں کا زیادہ اہم کردار رہا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا اساسی اجلاس 23 اور 24 مارچ 1940کو لاہور میں ہوا۔ اس اجلاس میں تاریخی قرارداد منظور ہوئی جس کی بناء پر نیا ملک وجود میں آیا۔ اس قرارداد میں مسلم اکثریتی صوبوں کی کنفیڈریشن کے قیام کے لیے جدوجہد کا عزم کیا گیا تھا۔
نیا کنفیڈریشن کا مطلب صوبوں کو مکمل خود مختاری تھا مگر 14اگست 1947کو نیا ملک وجود میں آیا تو صورت حال یکسر تبدیل تھی۔ نئے ملک کا آئین بنانے کے لیے آئین ساز اسمبلی کا اجلاس 10اگست 1947 کو کراچی میں شروع ہوا۔ مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے ہندو رکن جو گیندر ناتھ منڈل نے اجلاس کی صدارت کی اور اراکین سے حلف لیا۔ اراکین نے مطالبہ کیا کہ اپنی مادری زبان بنگالی میں حلف اٹھانے اور اظہار رائے کی آزادی دی جائے مگر قائد ایوان نوابزادہ لیاقت علی خان اور ان کے رفقاء نے اس کی مخالفت کی۔ بنگالی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے سے انکار کیا گیا۔
مغربی پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں بنگالی زبان کی مخالفت کرنے لگی۔ بنگالی زبان اور بنگال کے کلچر کو غیر اسلامی قرار دیا گیا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے پہلے بنگالی وزیر اعظم کے خلاف سازشیں شروع کیں ۔ میاں ممتاز دولتانہ نے پنجاب میں مذہبی تنازع کھڑا کیا جو پورے مغربی پاکستان میں پھیل گیا۔
اس تنازع کو ہوا دینے کے لیے بعض اخبارات کی مالی مدد کی گئی ۔ گورنر جنرل غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کردیا، پہلی آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا گیا۔ لندن میں مقیم پاکستانی صحافی آصف جیلانی نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ 50ء کی دہائی میں وہ روزنامہ ''امروز '' کراچی میں رپورٹر تھے اور آئین ساز اسمبلی توڑنے کے خلاف اسپیکر اسمبلی مولوی تمیز الدین نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
وہ اس مقدمہ کی سماعت کو کور کررہے تھے تو ایک دن کینٹین میں ایک بنگالی سیاسی رہنما آئے اور انھوں نے باتوں کے دوران یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کی اسی طرح کی پالیسیاں جاری رہیں تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ سینئر وکیل حامد خان نے اپنی کتاب '' پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ '' میں لکھا ہے کہ جب چیف فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عبدالرشید ریٹائر ہوئے تو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جسٹس اکرم سینئر ترین جج تھے مگر گورنر جنرل نے سینئر جج کو نیا چیف جسٹس بنانے سے انکار کیا اور ملکہ برطانیہ کے ذریعہ انگریز جج بلانے کا عندیہ دیا مگر جسٹس اکرم نے ایک تاریخی فیصلہ کیا۔
انھوں نے پیشکش کی کہ انگریز جج کو نہ بلایا جائے، وہ اپنی سینیارٹی سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔ گورنر جنرل نے پنجاب ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس منیر کو نیا چیف جسٹس مقرر کیا۔ جسٹس منیر نے منتخب حکومتوں کی برطرفی کو قانونی جواز فراہم کرنے کی روایت قائم کی۔ مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ جگتو فرنٹ کو 21 نکات کی بنیاد پر کامیابی حاصل ہوئی۔
اس حکومت نے مشرقی پاکستان میں جاگیرداری کو ختم کردیا۔ کراچی کی مرکزی حکومت نے جگتو فرنٹ کے وزیر اعلیٰ پر غداری کا الزام لگا کر 8 ماہ بعد حکومت برطرف کردی۔ 1955 میں سندھ، پنجاب، سرحد اور بلوچستان کو ون یونٹ میں ضم کیا گیا اور مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کردیا گیا۔ ملک میں پہلا مارشل لاء لگا تو سب سے زیادہ مایوسی مشرقی پاکستان میں ہوئی، جب محترمہ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب میں جنرل ایوب خان کو چیلنج کیا تو وہ مشرقی پاکستان کی مقبول ترین شخصیت بن گئیں۔
عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن ، فاطمہ جناح کے چیف پولنگ ایجنٹ بنے مگر انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔ فاطمہ جناح کی شکست سے مشرقی پاکستان کے نوجوان زیادہ متاثر ہوئے۔ 1965 کی جنگ کے نتائج پر کھل کر بحث نہیں ہوئی۔ اس جنگ کے بعد بنگالی دانشوروں نے 6 نکات تیار کیے۔ 6 نکات جگتو فرنٹ کے 21 نکات کی مختصر شکل تھے مگر طالع آزما قوتوں نے عوامی لیگ پر غداری کا لیبل لگا دیا ، شیخ مجیب الرحمن دو سال سے جیل میں تھے۔
انھیں اگرتلہ سازش کیس میں ملوث کیا گیا۔ 1969 میں جنرل ایوب خان نے گول میز کانفرنس بلائی مگر مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے صوبائی خود مختاری کے مسئلہ کو نظر انداز کیا۔ 1970 میں جنرل یحییٰ خان نے عام انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ مشرقی پاکستان میں بد ترین سمندری طوفان آیا ، ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ مغربی پاکستان سے کوئی مدد نہیں آئی۔ مغربی پاکستان کے اخبارات میں اس تباہی کی کوریج نہیں ہوئی۔ لاہور سے شایع ہونے والے اخبار روزنامہ آزاد کے ایڈیٹر عبداﷲ ملک طوفان زدہ علاقے کی رپورٹنگ کے لیے گئے، یہ بات غلط ہے۔
الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم کے لیے ایک سال کا وقت دیا، اس بناء پر عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی۔ مشرقی پاکستان کے حالات سے واقف بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ اگر عوامی لیگ کو صرف 10 ، 15دن کا بھی وقت ملتا تو بھی کامیابی عوامی لیگ کے حصے میں ہی ہوتی، بعد ازاں عوامی لیگ کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
بھارت نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور 16 دسمبر 1971 کا دن آگیا۔ ایک سانحہ تو 16 دسمبر 1971 کو ہوا دوسرا بڑا سانحہ یہ ہوا کہ اس شکست کے براہ راست ذمے داروں کو مکمل اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے "The Bangladesh Story" کے عنوان سے ملک کے انگریزی کے سب سے بڑے اخبار میں لکھا ہے کہ بنگلہ دیش میں عام آدمی کی آمدنی 50 گنا سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔
فی کس آمدنی میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح آبادی میں اضافے کی شرح 2.5 فیصد پر رک گئی ۔ اسی طرح برآمدات میں 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر عشرت نے بنگلہ دیش کو رول ماڈل قرار دیا ہے۔ بنگلہ دیش کی ترقی کے ماڈل سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا مؤقف درست تھا۔ تاریخ مسخ کرنے سے بنگلہ دیش کے عوام کا تو کچھ نہیں بگڑے گا مگر یہ نوآبادیاتی ذہنیت پاکستان کے وفاق کو کمزور کر دے گی۔
کیا تاریخ مسخ کرنے سے ملک میں استحکام آئے گا ؟ ایک ہاری ہوئی جنگ میں کارناموں کا جشن منانے سے نوجوانوں کی صحت مندانہ ذہنی تربیت ہوسکتی ہے؟ یہ حقیقت ہے کہ 16دسمبر 1971کو جنرل اے اے کے نیازی نے مشرقی پاکستان میں بھارتی جنرلز کے سامنے سرنڈر دستاویز پر دستخط کیے تھے۔
یوں مشرقی پاکستان کہلانے والا اکثریتی صوبہ بنگلہ دیش کے نام سے ایک نئے ملک میں تبدیل ہوا۔ یہ سب کچھ دشمن کی سازشوں کے نتیجہ میں رونما نہیں ہوا بلکہ اس ملک پر قابض طالع آزما قوتوں کی استحصال کی پالیسیاں اس سانحے کی بنیادی وجہ ہیں۔
کیسی عجیب بات ہے کہ معروف صحافی اور کئی اخبارات کے سابق مدیر اس المیہ کی ذمے داری اس وقت کے الیکشن کمیشن پر عائد کر رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے یہ بات کیوں نہ بھاپ لی کہ پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان اور عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں امیدوار کھڑے نہیں کیے تھے۔ الیکشن کمیشن کو اس صورتحال کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔
ایک دانشور جو خوبصورت انگریزی میں گفتگو کرتے ہیں اور خوبصورت انگریزی میں لکھتے ہیں، انھوں نے ایک ڈاکومنٹری تیار کی ہے جس میں مشرقی پاکستان کے عوام کے استحصال کی 20 سالہ تاریخ کو فراموش کردیا گیا ہے اور ساری ذمے داری دشمن ملک پر عائد کردی گئی ہے۔
بنگال کی تاریخ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے مقابلہ میں مختلف ہے۔ برصغیر میں سب سے پہلے کرناٹک اور بنگال میں عرب تاجر آئے، یوں بنگال کے لوگ پہلے مسلمان ہوئے۔ بنگال مسلسل سمندری طوفانوں ، بارشوں اور دریاؤں میں طغیانی جیسی صورتحال کا شکار رہا، بنگال کے کسان کا بد ترین استحصال ہوا۔ کبھی یہ استحصال مقامی نوابوں نے کیا ، کبھی دہلی کے حکمرانوں نے اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے۔ بنگالی عوام اور دانشوروں میں ہمیشہ سے ایک مزاحمتی رویہ رہا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی پالیسیوں کے نتیجہ میں بنگال کی ململ تیار کرنے والی صنعت ختم ہوئی اور کاریگر بھوکے مرگئے۔
کمپنی نے کسانوں کو افیون اگانے پر مجبور کیا، یہی وجہ ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی ہند حکومت کے خلاف بنگال میں مزاحمتی تحریکیں زیادہ تھیں۔ بنگال میں ٹیگور جیسا عظیم شاعر پیدا ہوا جس نے نوجوانوں کی انقلابی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام میں بنگال کے مسلمان رہنماؤں کا زیادہ اہم کردار رہا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا اساسی اجلاس 23 اور 24 مارچ 1940کو لاہور میں ہوا۔ اس اجلاس میں تاریخی قرارداد منظور ہوئی جس کی بناء پر نیا ملک وجود میں آیا۔ اس قرارداد میں مسلم اکثریتی صوبوں کی کنفیڈریشن کے قیام کے لیے جدوجہد کا عزم کیا گیا تھا۔
نیا کنفیڈریشن کا مطلب صوبوں کو مکمل خود مختاری تھا مگر 14اگست 1947کو نیا ملک وجود میں آیا تو صورت حال یکسر تبدیل تھی۔ نئے ملک کا آئین بنانے کے لیے آئین ساز اسمبلی کا اجلاس 10اگست 1947 کو کراچی میں شروع ہوا۔ مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے ہندو رکن جو گیندر ناتھ منڈل نے اجلاس کی صدارت کی اور اراکین سے حلف لیا۔ اراکین نے مطالبہ کیا کہ اپنی مادری زبان بنگالی میں حلف اٹھانے اور اظہار رائے کی آزادی دی جائے مگر قائد ایوان نوابزادہ لیاقت علی خان اور ان کے رفقاء نے اس کی مخالفت کی۔ بنگالی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے سے انکار کیا گیا۔
مغربی پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں بنگالی زبان کی مخالفت کرنے لگی۔ بنگالی زبان اور بنگال کے کلچر کو غیر اسلامی قرار دیا گیا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے پہلے بنگالی وزیر اعظم کے خلاف سازشیں شروع کیں ۔ میاں ممتاز دولتانہ نے پنجاب میں مذہبی تنازع کھڑا کیا جو پورے مغربی پاکستان میں پھیل گیا۔
اس تنازع کو ہوا دینے کے لیے بعض اخبارات کی مالی مدد کی گئی ۔ گورنر جنرل غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کردیا، پہلی آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا گیا۔ لندن میں مقیم پاکستانی صحافی آصف جیلانی نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ 50ء کی دہائی میں وہ روزنامہ ''امروز '' کراچی میں رپورٹر تھے اور آئین ساز اسمبلی توڑنے کے خلاف اسپیکر اسمبلی مولوی تمیز الدین نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
وہ اس مقدمہ کی سماعت کو کور کررہے تھے تو ایک دن کینٹین میں ایک بنگالی سیاسی رہنما آئے اور انھوں نے باتوں کے دوران یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کی اسی طرح کی پالیسیاں جاری رہیں تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ سینئر وکیل حامد خان نے اپنی کتاب '' پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ '' میں لکھا ہے کہ جب چیف فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عبدالرشید ریٹائر ہوئے تو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جسٹس اکرم سینئر ترین جج تھے مگر گورنر جنرل نے سینئر جج کو نیا چیف جسٹس بنانے سے انکار کیا اور ملکہ برطانیہ کے ذریعہ انگریز جج بلانے کا عندیہ دیا مگر جسٹس اکرم نے ایک تاریخی فیصلہ کیا۔
انھوں نے پیشکش کی کہ انگریز جج کو نہ بلایا جائے، وہ اپنی سینیارٹی سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔ گورنر جنرل نے پنجاب ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس منیر کو نیا چیف جسٹس مقرر کیا۔ جسٹس منیر نے منتخب حکومتوں کی برطرفی کو قانونی جواز فراہم کرنے کی روایت قائم کی۔ مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ جگتو فرنٹ کو 21 نکات کی بنیاد پر کامیابی حاصل ہوئی۔
اس حکومت نے مشرقی پاکستان میں جاگیرداری کو ختم کردیا۔ کراچی کی مرکزی حکومت نے جگتو فرنٹ کے وزیر اعلیٰ پر غداری کا الزام لگا کر 8 ماہ بعد حکومت برطرف کردی۔ 1955 میں سندھ، پنجاب، سرحد اور بلوچستان کو ون یونٹ میں ضم کیا گیا اور مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کردیا گیا۔ ملک میں پہلا مارشل لاء لگا تو سب سے زیادہ مایوسی مشرقی پاکستان میں ہوئی، جب محترمہ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب میں جنرل ایوب خان کو چیلنج کیا تو وہ مشرقی پاکستان کی مقبول ترین شخصیت بن گئیں۔
عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن ، فاطمہ جناح کے چیف پولنگ ایجنٹ بنے مگر انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔ فاطمہ جناح کی شکست سے مشرقی پاکستان کے نوجوان زیادہ متاثر ہوئے۔ 1965 کی جنگ کے نتائج پر کھل کر بحث نہیں ہوئی۔ اس جنگ کے بعد بنگالی دانشوروں نے 6 نکات تیار کیے۔ 6 نکات جگتو فرنٹ کے 21 نکات کی مختصر شکل تھے مگر طالع آزما قوتوں نے عوامی لیگ پر غداری کا لیبل لگا دیا ، شیخ مجیب الرحمن دو سال سے جیل میں تھے۔
انھیں اگرتلہ سازش کیس میں ملوث کیا گیا۔ 1969 میں جنرل ایوب خان نے گول میز کانفرنس بلائی مگر مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے صوبائی خود مختاری کے مسئلہ کو نظر انداز کیا۔ 1970 میں جنرل یحییٰ خان نے عام انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ مشرقی پاکستان میں بد ترین سمندری طوفان آیا ، ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ مغربی پاکستان سے کوئی مدد نہیں آئی۔ مغربی پاکستان کے اخبارات میں اس تباہی کی کوریج نہیں ہوئی۔ لاہور سے شایع ہونے والے اخبار روزنامہ آزاد کے ایڈیٹر عبداﷲ ملک طوفان زدہ علاقے کی رپورٹنگ کے لیے گئے، یہ بات غلط ہے۔
الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم کے لیے ایک سال کا وقت دیا، اس بناء پر عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی۔ مشرقی پاکستان کے حالات سے واقف بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ اگر عوامی لیگ کو صرف 10 ، 15دن کا بھی وقت ملتا تو بھی کامیابی عوامی لیگ کے حصے میں ہی ہوتی، بعد ازاں عوامی لیگ کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
بھارت نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور 16 دسمبر 1971 کا دن آگیا۔ ایک سانحہ تو 16 دسمبر 1971 کو ہوا دوسرا بڑا سانحہ یہ ہوا کہ اس شکست کے براہ راست ذمے داروں کو مکمل اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے "The Bangladesh Story" کے عنوان سے ملک کے انگریزی کے سب سے بڑے اخبار میں لکھا ہے کہ بنگلہ دیش میں عام آدمی کی آمدنی 50 گنا سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔
فی کس آمدنی میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح آبادی میں اضافے کی شرح 2.5 فیصد پر رک گئی ۔ اسی طرح برآمدات میں 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر عشرت نے بنگلہ دیش کو رول ماڈل قرار دیا ہے۔ بنگلہ دیش کی ترقی کے ماڈل سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا مؤقف درست تھا۔ تاریخ مسخ کرنے سے بنگلہ دیش کے عوام کا تو کچھ نہیں بگڑے گا مگر یہ نوآبادیاتی ذہنیت پاکستان کے وفاق کو کمزور کر دے گی۔