اوآئی سی کا اجلاس۔ کشمیرکیوں غائب
سب کی زبان بندی کرا دی گئی کہ بات نہ کریں کہ پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے۔
لاہور:
او آئی سی کا خصوصی اجلاس پاکستان میں ہوا۔ اس کا ایجنڈا افغانستان تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ اجلاس کس قدر کامیاب اور کس قدر ناکام رہا۔
یہ سوال بھی اہم ہے پاکستان کو یہ اجلاس منعقد کرنے کا کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا، اگر صرف افغانستان کے تناظر میں ہی دیکھ لیا جائے تو میں پھر بھی اس اجلاس کو کوئی خاص کامیاب نہیں سمجھتا۔ مسلم ممالک پاکستان اور بالخصوص وزیر اعظم عمران خان کے موقف کے بھی کوئی خاص حامی نظر نہیں آرہے ہیں۔ویسے تو اعلان کی خاطر ایک ٹرسٹ قائم کر دیا گیا ہے۔
لیکن سعودی عرب کے سوا کسی بھی ملک نے اس ٹرسٹ میں کوئی مدد دینے کا فوری اعلان نہیں کیا ہے۔ جب یورپی ممالک نے اکتوبر میں افغانستان کی مدد کے لیے ایسا ہی غیر معمولی اجلاس منعقد کیا تھا تو اس میں ایک ارب یورو یعنی ایک ارب ڈالر سے کہیں زیادہ رقم جمع ہوئی تھی۔
مسلم ممالک کے وزر ا ء خارجہ اور نمایندوں نے اسلام آباد میں موجود طالبان رہنماؤں اور طالبان کے وزیر خارجہ سے ملاقات کرنے میں بھی خصوصی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ شاید اسی لیے ٹرسٹ قائم کیا گیا ہے تاکہ بالواسطہ مدد کا راستہ نکالا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم ممالک اس ٹرسٹ میں کتنی رقم اور اقتصادی مدد دیتے ہیں۔ عالمی سیاست کے ماہرین کے مطابق یہ اجلاس پاکستان نے سعودی عرب کی تجویز پر بلایا تھا۔ سعودی عرب ایسے ایک اجلاس کا خواہاں تھا لیکن خود میزبانی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ قطر کو بھی اس کی میزبانی نہیں دینا چاہتے تھے۔
ملائیشیا اور ترکی بھی انھیں قابل قبول نہیں تھے۔ کسی اور عرب ملک کو بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس لیے پاکستان کے سوا کوئی آپشن نہیں تھی۔ ہم بھی خوشی خوشی مان گئے کہ چلو ہم سعودی عرب کے کچھ توکام آسکیں گے۔ پھر ہمیں آج کل افغانستان اور طالبان کی وکالت کا جنون بھی ہے اورہمارے اس جنون کی بھی تسلی ہو رہی تھی۔ ہمیں اپنی سفارتی تنہائی کا بھی بہت شدت سے احساس تھا، اس لیے ہم فوری مان گئے۔ پاکستانی عوام کو بار با ر یہ باور کرایا گیا کہ یہ یک نکاتی اجلاس ہے اور اس کا صرف ایک ہی ایجنڈا افغانستان ہے، اس لیے اجلاس میں افغانستان کے سوا کوئی اور بات نہیں ہوگی۔
حالانکہ افغانستان پر سوویت جارحیت کے بعد بھی ایسا ہی ایک غیر معمولی اجلاس صرف افغانستان کے ایجنڈاے پر پاکستان میں ہوا تھا۔ لیکن اس میں کشمیر اور فلسطین پر قرارد اد منظور ہوئی تھی۔ تاہم اس بار بار یہ باور کرایا گیا کہ یہ صرف افغانستان پر ہے، اس لیے کسی اور موضوع پر بات نہیں ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ کشمیر پر کوئی بات نہ کرنا اور قرارداد منظور نہ کرانے کی پالیسی پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے سفارتی محاذ پر سرنڈر ہے۔ ہم نے مسلم ممالک کی یہ بات مان لی کہ ہم اپنے ملک میں او آئی سی کا اجلاس تو کریں گے لیکن ہمارے منہ سے کشمیر کا لفظ نہیں نکلے گا۔ ہمارے ہاتھ اور منہ باندھ کر ہمیں اس اجلاس کی میزبانی دی گئی ہے۔
حالانکہ او آئی سی کے اس اجلاس کے انعقاد کے لیے مسلم خصوصاً عرب ممالک کے پاس بھی پاکستان کے سوا کوئی دوسری چوائس نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی پاکستان کی موجودہ حکومت اور و زیر اعظم نے اس پہلو کو کیوں نظرانداز کیا۔ ایسا ہی ایک اجلاس جب پاکستان میں ہوا تھا۔ تو اس وقت کے پاکستان کے سربراہ جنرل ضیاء الحق کی تقریر نکال کر دیکھ لیں تو اس کے تین نکا ت تھے۔ پہلا افغانستان ،دوسراکشمیر اور تیسرا فلسطین۔ لیکن آج ہم اتنے لاتعلق ہو گئے ہیں کہ ہم نے او آئی سی کے اجلاس میں کشمیر اور کشمیری مسلمان کے حق میںکوئی بات نہیں کی حالانکہ یہ اجلاس پاکستان کے دارالحکومت میں ہورہا تھا۔
آپ دیکھیں فلسطین کا تو قرارداد میں ذکر ہے، ترکی اور ایران نے دباؤ ڈال کر فلسطین کا ذکر ڈلوایا، لیکن ہم میں اتنی جرات بھی نہیں تھی کہ کشمیر کے بارے میں ایک لائن ہی ڈلوا دیتے۔ ہم تو اس قدر تابعداربنے ہوئے تھے کہ وزیر اعظم کی تقریر میں بھی کشمیر کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔ اس لیے دیکھا جائے تو او آئی سی کے اس اجلاس کا پاکستان میں انعقاد پاکستان کی کوئی کامیابی نہیں بلکہ اسے کچھ اور ہی نام دینا چاہیے ہے۔ ہم نے سفارتی محاذ پر ایک اور سرنڈر کیا ہے۔ ہم نے مان لیا ہے کہ ہم اب عالمی فورمز پر کشمیر کی بات نہیں کریں گے۔
ہم او آئی سی میں کشمیر کی بات نہیں کریں گے۔ کسے یاد نہیں ہے کہ ہمیں او آئی سی سے گلہ تھا کہ وہ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف بولتی نہیں ہے۔ ہمیں عربوں سے گلہ تھا کہ جب بھارت نے آرٹیکل 370ختم کیا تو انھوں نے ہماری درخواست پر اوآئی سی کا اجلاس نہیں بلایا تھا، عرب بھارت کے زیر اثرآگئے۔ لیکن آج ہم نے کیاکیا۔ ہم نے بالواسطہ بھارت کی بات مان لی۔ ہم نے مان لیا کہ پاکستان میں او آئی سی کا اجلاس ہو گا لیکن کشمیر کا ذکر نہیں ہوگا۔ آج طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان ہمارے لیے کشمیر اور کشمیریوں سے زیادہ اہم اور عزیز ہوگیا ہے۔
جنگ ہم نے بھارت کے ساتھ نہیں کرنی ہے اور اگر اب ہم نے کشمیر پر بھی بات نہیں کرنی ہے تو پھر بھارت سے کیا لڑائی رہ گئی ہے۔ فیٹف کے کہنے پر ہم نے کشمیری حریت پسندوں، حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کو دہشت گردی کے الزام میں سزائیں دے دی ہیں۔
سب کی زبان بندی کرا دی گئی کہ بات نہ کریں کہ پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ طالبان اورافغانستان کے لیے یہ قربانی دی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے مفادات کی قربانی کیوں دی گئی ہے؟ یہ اجلاس پاکستان میں نہ ہوتا تو کونسی قیامت آجاتی۔ کسی اور ملک میں ہوجاتا، ہم کم از کم یہ تو کہہ سکتے تھے کہ ہم میزبان نہیں تھے، اس لیے ہم بات نہیں کر سکے۔ ہم اب میزبان تھے اور بات نہیں کر سکے۔ یہ زیادہ بری اور دکھ والی بات ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے تو بھارت کے سامنے جتنا سرنڈر کیا ہے، اتنا توانھوں نے بھی نہیں کیا تھا جن کو مودی کا یار کہا جاتا تھا۔ مودی کے دشمن تو مودی کے یاروں سے زیادہ کمزور ثابت ہوئے ہیں۔
او آئی سی کا خصوصی اجلاس پاکستان میں ہوا۔ اس کا ایجنڈا افغانستان تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ اجلاس کس قدر کامیاب اور کس قدر ناکام رہا۔
یہ سوال بھی اہم ہے پاکستان کو یہ اجلاس منعقد کرنے کا کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا، اگر صرف افغانستان کے تناظر میں ہی دیکھ لیا جائے تو میں پھر بھی اس اجلاس کو کوئی خاص کامیاب نہیں سمجھتا۔ مسلم ممالک پاکستان اور بالخصوص وزیر اعظم عمران خان کے موقف کے بھی کوئی خاص حامی نظر نہیں آرہے ہیں۔ویسے تو اعلان کی خاطر ایک ٹرسٹ قائم کر دیا گیا ہے۔
لیکن سعودی عرب کے سوا کسی بھی ملک نے اس ٹرسٹ میں کوئی مدد دینے کا فوری اعلان نہیں کیا ہے۔ جب یورپی ممالک نے اکتوبر میں افغانستان کی مدد کے لیے ایسا ہی غیر معمولی اجلاس منعقد کیا تھا تو اس میں ایک ارب یورو یعنی ایک ارب ڈالر سے کہیں زیادہ رقم جمع ہوئی تھی۔
مسلم ممالک کے وزر ا ء خارجہ اور نمایندوں نے اسلام آباد میں موجود طالبان رہنماؤں اور طالبان کے وزیر خارجہ سے ملاقات کرنے میں بھی خصوصی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ شاید اسی لیے ٹرسٹ قائم کیا گیا ہے تاکہ بالواسطہ مدد کا راستہ نکالا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم ممالک اس ٹرسٹ میں کتنی رقم اور اقتصادی مدد دیتے ہیں۔ عالمی سیاست کے ماہرین کے مطابق یہ اجلاس پاکستان نے سعودی عرب کی تجویز پر بلایا تھا۔ سعودی عرب ایسے ایک اجلاس کا خواہاں تھا لیکن خود میزبانی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ قطر کو بھی اس کی میزبانی نہیں دینا چاہتے تھے۔
ملائیشیا اور ترکی بھی انھیں قابل قبول نہیں تھے۔ کسی اور عرب ملک کو بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس لیے پاکستان کے سوا کوئی آپشن نہیں تھی۔ ہم بھی خوشی خوشی مان گئے کہ چلو ہم سعودی عرب کے کچھ توکام آسکیں گے۔ پھر ہمیں آج کل افغانستان اور طالبان کی وکالت کا جنون بھی ہے اورہمارے اس جنون کی بھی تسلی ہو رہی تھی۔ ہمیں اپنی سفارتی تنہائی کا بھی بہت شدت سے احساس تھا، اس لیے ہم فوری مان گئے۔ پاکستانی عوام کو بار با ر یہ باور کرایا گیا کہ یہ یک نکاتی اجلاس ہے اور اس کا صرف ایک ہی ایجنڈا افغانستان ہے، اس لیے اجلاس میں افغانستان کے سوا کوئی اور بات نہیں ہوگی۔
حالانکہ افغانستان پر سوویت جارحیت کے بعد بھی ایسا ہی ایک غیر معمولی اجلاس صرف افغانستان کے ایجنڈاے پر پاکستان میں ہوا تھا۔ لیکن اس میں کشمیر اور فلسطین پر قرارد اد منظور ہوئی تھی۔ تاہم اس بار بار یہ باور کرایا گیا کہ یہ صرف افغانستان پر ہے، اس لیے کسی اور موضوع پر بات نہیں ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ کشمیر پر کوئی بات نہ کرنا اور قرارداد منظور نہ کرانے کی پالیسی پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے سفارتی محاذ پر سرنڈر ہے۔ ہم نے مسلم ممالک کی یہ بات مان لی کہ ہم اپنے ملک میں او آئی سی کا اجلاس تو کریں گے لیکن ہمارے منہ سے کشمیر کا لفظ نہیں نکلے گا۔ ہمارے ہاتھ اور منہ باندھ کر ہمیں اس اجلاس کی میزبانی دی گئی ہے۔
حالانکہ او آئی سی کے اس اجلاس کے انعقاد کے لیے مسلم خصوصاً عرب ممالک کے پاس بھی پاکستان کے سوا کوئی دوسری چوائس نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی پاکستان کی موجودہ حکومت اور و زیر اعظم نے اس پہلو کو کیوں نظرانداز کیا۔ ایسا ہی ایک اجلاس جب پاکستان میں ہوا تھا۔ تو اس وقت کے پاکستان کے سربراہ جنرل ضیاء الحق کی تقریر نکال کر دیکھ لیں تو اس کے تین نکا ت تھے۔ پہلا افغانستان ،دوسراکشمیر اور تیسرا فلسطین۔ لیکن آج ہم اتنے لاتعلق ہو گئے ہیں کہ ہم نے او آئی سی کے اجلاس میں کشمیر اور کشمیری مسلمان کے حق میںکوئی بات نہیں کی حالانکہ یہ اجلاس پاکستان کے دارالحکومت میں ہورہا تھا۔
آپ دیکھیں فلسطین کا تو قرارداد میں ذکر ہے، ترکی اور ایران نے دباؤ ڈال کر فلسطین کا ذکر ڈلوایا، لیکن ہم میں اتنی جرات بھی نہیں تھی کہ کشمیر کے بارے میں ایک لائن ہی ڈلوا دیتے۔ ہم تو اس قدر تابعداربنے ہوئے تھے کہ وزیر اعظم کی تقریر میں بھی کشمیر کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔ اس لیے دیکھا جائے تو او آئی سی کے اس اجلاس کا پاکستان میں انعقاد پاکستان کی کوئی کامیابی نہیں بلکہ اسے کچھ اور ہی نام دینا چاہیے ہے۔ ہم نے سفارتی محاذ پر ایک اور سرنڈر کیا ہے۔ ہم نے مان لیا ہے کہ ہم اب عالمی فورمز پر کشمیر کی بات نہیں کریں گے۔
ہم او آئی سی میں کشمیر کی بات نہیں کریں گے۔ کسے یاد نہیں ہے کہ ہمیں او آئی سی سے گلہ تھا کہ وہ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف بولتی نہیں ہے۔ ہمیں عربوں سے گلہ تھا کہ جب بھارت نے آرٹیکل 370ختم کیا تو انھوں نے ہماری درخواست پر اوآئی سی کا اجلاس نہیں بلایا تھا، عرب بھارت کے زیر اثرآگئے۔ لیکن آج ہم نے کیاکیا۔ ہم نے بالواسطہ بھارت کی بات مان لی۔ ہم نے مان لیا کہ پاکستان میں او آئی سی کا اجلاس ہو گا لیکن کشمیر کا ذکر نہیں ہوگا۔ آج طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان ہمارے لیے کشمیر اور کشمیریوں سے زیادہ اہم اور عزیز ہوگیا ہے۔
جنگ ہم نے بھارت کے ساتھ نہیں کرنی ہے اور اگر اب ہم نے کشمیر پر بھی بات نہیں کرنی ہے تو پھر بھارت سے کیا لڑائی رہ گئی ہے۔ فیٹف کے کہنے پر ہم نے کشمیری حریت پسندوں، حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کو دہشت گردی کے الزام میں سزائیں دے دی ہیں۔
سب کی زبان بندی کرا دی گئی کہ بات نہ کریں کہ پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ طالبان اورافغانستان کے لیے یہ قربانی دی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے مفادات کی قربانی کیوں دی گئی ہے؟ یہ اجلاس پاکستان میں نہ ہوتا تو کونسی قیامت آجاتی۔ کسی اور ملک میں ہوجاتا، ہم کم از کم یہ تو کہہ سکتے تھے کہ ہم میزبان نہیں تھے، اس لیے ہم بات نہیں کر سکے۔ ہم اب میزبان تھے اور بات نہیں کر سکے۔ یہ زیادہ بری اور دکھ والی بات ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے تو بھارت کے سامنے جتنا سرنڈر کیا ہے، اتنا توانھوں نے بھی نہیں کیا تھا جن کو مودی کا یار کہا جاتا تھا۔ مودی کے دشمن تو مودی کے یاروں سے زیادہ کمزور ثابت ہوئے ہیں۔