خواتین کے تحفظ کیلیے قوانین موجود عملدرآمد کا میکنزم نہیں ایکسپریس فورم

اداروں میں ہراسمنٹ کمیٹیاں بننے سے کافی بہتری آئی،عظمیٰ کاردار، صنفی مساوات کوفروغ، جینڈرگیپ ختم کرناہوگا، بشریٰ خالق

’’ایکسپریس فورم‘‘ میں عظمیٰ کاردار ،بشریٰ خالق، سلمیٰ عبدالغنی اور ثمینہ ناز شریک ہیں ۔ فوٹو : ایکسپریس

JERUSALEM:
ورکنگ وومن کی رہائش کا مسئلہ حل کرنے کیلیے اتھارٹی بنانے جا رہے ہیں جس کے ذریعے تمام سرکاری و نجی ہاسٹلز کی مانیٹرنگ اور خواتین کو رہنے کیلیے محفوظ جگہ کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔

کام کی جگہ پر ہراسمنٹ کے خاتمے کیلیے خاتون محتسب کا ادارہ موجود ہے، تمام سرکاری و نجی اداروں میں ہراسمنٹ کمیٹیاں بھی قائم کر دی گئی ہیں جبکہ ڈے کیئر سینٹرز کا قیام یقینی بنایا جا رہا ہے۔

غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین اپنے حقوق سے محروم ہے،ان خیالات کا اظہار مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے ''ورکنگ ویمن کے قومی دن ''کے موقع پر منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔


پنجاب اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے جینڈر مین سٹریمنگ کی چیئرپرسن عظمیٰ کاردار نے کہا کہ پنجاب میں 16 سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز ہیں جو انتہائی کم ہیں تاہم نجی ہاسٹلز کو چلانے والا مافیا مضبوط ہے سوا کروڑ خواتین کے پاس آئی ڈی کارڈ نہیں ہے جو ووٹ کے حق سے محروم ہیں ملکی آبادی کا 50 فیصد سے زائدحصہ خواتین پر مشتمل ہے لہٰذا انہیں قومی دھارے میں لائے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا،خواتین کے حوالے سے اچھے قوانین موجود ہیں مگر بیشتر قوانین پر عملدرآمد کا میکنزم نہیں ہے۔ عوامی مقامات پر خواتین کی کم تعداد نظر آتی ہے اس کی وجہ ہراسمنٹ جیسے مسائل ہیں، اس کے علاوہ خواتین کو کام کی جگہ پر بھی ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

نمائندہ سول سوسائٹی بشریٰ خالق نے کہا کہ ہم خوتین کے کام کو مانتے ہیں اور انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے کوشاں ہیں، کام کی جگہ پر ہراسانی کے خلاف اب کمیٹیاں موجود ہیں، خاتون محتسب کا ادارہ قائم ہے، موثر قانون سازی ہوچکی ہے، یہ خواتین اور ان کے خاندان کیلئے حوصلہ افزا ہے کہ انہیں کام کی جگہ سازگار اور محفوظ ماحول فراہم کرنے کیلئے حکومت کام کر رہی ہے۔

لیڈی پٹرولنگ آفیسر سلمیٰ عبدالغنی نے کہا کہ ٹریفک پولیس میں ہراسمنٹ نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم اگر ہو تو اس پر زیرو ٹالرنس اور فوری ایکشن لیا جاتا ہے، اس حوالے سے واٹس ایپ گروپ قائم کیا گیا ہے جس میں ڈی آئی جی ٹریفک، سی ٹی او، ایس پی، ڈی ایس پی و دیگر موجود ہیں، خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے اچھے قوانین بنائے گئے ہیں تاہم عملدرآمد کے مسائل ہیں جن پر کام کرنا ہوگا۔

چیئرپرسن لیڈی ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن پنجاب ثمینہ ناز نے کہا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے کام کو عالمی و قومی سطح پر سراہا گیا مگر ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہے، ہمیں اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر آنا پڑتا ہے، لیڈی ہیلتھ ورکز کا اصل کام ماں بچے کی صحت اور فیملی پلاننگ ہے مگر ہمیں اس سے ہٹا کر پولیو، حفاظتی ٹیکہ جات، کرونا، الیکشن و دیگر ڈیوٹیاں دے دی جاتی ہیں، جب ان کیحقوق کی بات آتی ہے تو کنارہ کشی اختیار کر لی جاتی ہے۔
Load Next Story