چین کی معاشی ترقی سے کچھ تو سیکھ لیجئے
چین کے ساتھ تعلقات اعزاز کی بات ہے لیکن ہمیں چین کے مستحکم معاشی ماڈل سے بھی کچھ سیکھنا چاہیے
چین نے اپنی 5 ہزار سالہ تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے متوازن معاشرے کی تشکیل اور مستحکم معیشت کےلیے گزشتہ پانچ دہائیوں سے درست سمت میں کڑی محنت کی۔ چین کی معاشی حکمت عملی میں حالات کے مطابق بتدریج بدلاؤ آتے رہے جس کی بدولت چین اس وقت غربت سے پاک دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ پاکستان سمیت بہت سے ممالک نے چین سے پہلے آزادی حاصل کی لیکن ایسے ممالک ترقی کی دوڑ میں چین سے بہت پیچھے کیوں رہ گئے؟ اس بات کو سمجھنے کےلیے ہمیں چین کی معاشی و اقتصادی ترجیحات اور اہداف حاصل کرنے کےلیے ان کے ماڈیولز کو سمجھنا ہوگا۔
پاک چین دوستی کی بات تو کی جاتی ہے لیکن بحیثیت قوم ہم چین کو نہیں جانتے۔ چین کی معاشی ترقی کا راز جاننے کےلیے ضروری ہے کہ ہم ان کے رہن سہن، عادات و اطوار، رجحانات، فطرت اور ترجیحات کو سمجھیں۔ دنیا میں اس وقت تین بنیادی معاشی نظام ہیں جن میں کمیونزم ایسا نظام ہے جس میں ریاست ہی ہر فیصلہ کرتی ہے، دوسرا نظام سرمایہ دارانہ ہے جس میں انفرادی نفع کو اہمیت حاصل ہے جبکہ تیسرا نظام سوشلزم ہے جس میں اجتماعی معاشرے کو فوقیت دی جاتی ہے۔ چین نے اقتصادی ترقی کےلیے سوشلزم کو اپنایا اور چین کا ہر اقدام بہتر معاشرے کی تشکیل کے گرد گھوم رہا ہے۔
چین کی معاشی ترقی کے پیچھے سالہا سال کی جدوجہد اور آگے بڑھنے کی سوچ کا اثر ہے۔ جائزہ لیا جائے تو چین میں معاشی و معاشرتی استحکام کے تین مراحل دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں معاشرتی بدلاؤ لایا گیا اور باہمی تفریق کی جڑیں کاٹی گئیں۔ چین نے ایسے انسانی سرمایہ کی تیاری پر توجہ دی جن کا دل و دماغ چین کی فلاح و بہبود سے جڑ گیا۔ دوسرے مرحلے میں بڑھتی معاشرتی ضروریات اور وسائل کی کمی سے نمٹنے پر توجہ دی گئی۔ اس مقصد کےلیے چین نے انڈسٹری اور زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ ایگریکلچر ٹاؤن شپ اور اجتماعی گھریلو نظام کو ترجیحات میں شامل کیا۔ لوکل گورنمنٹ، پارٹی، ریاست، معاشی دھڑوں اور ہاؤس ہولڈ کی اکائی قائم کی گئی۔ ٹاؤن شپ ویلیج انٹرپرائز کے نظام کی اعانت کی۔ لوکل گورنمنٹ کو اختیارات منتقل کیے تاکہ وہ اہداف کے حصول کو یقینی بنانے کےلیے بروقت فیصلے کرسکیں۔ آخری مرحلے میں چین نے غربت کے مکمل خاتمے پر کام کیا۔ عوام کو مالی امداد فراہم کرنے کے بجائے روزگار کے مواقع فراہم کیے، غربت و بے روزگاری کو مٹانے کےلیے کثیرالمقاصد اہداف رکھے، دیہی آبادی کو انڈسٹری سے جوڑ کر معاشی سرگرمیوں کا جال بنا۔ مزید یہ کہ زندگی کے بہتر وسائل فراہم کیے۔
چین کی ترقی کا راز یہ بھی ہے کہ وہ نہ صرف قلیل المیعاد منصوبوں پر کام کرتے رہے بلکہ طویل المیعاد منصوبوں پر بھی کام کیا۔ چین نے ہر فیصلہ مستقبل کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا، فیصلہ سازی کو آسان بنایا۔ چین جب بھی کوئی کام کرنے کی ٹھان لے تو اس کی منصوبہ بندی تین سال قبل ہی شروع کردی جاتی ہے۔
چینی اقتصادی ماڈل کے نتائج پر غور کیا جائے تو کامیابیوں کی فہرست طویل ہے۔ اصلاحات کی بدولت چین نے 770 ملین افراد کو بے روزگاری سے نکالا۔ 2018 میں 16.8 ملین افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ 2 سال کے عرصے میں چین نے غربت کے مکمل خاتمے کا اعلان کردیا۔ 1976 میں چین کے جنگلات 10 فیصد تھے جو بڑھ کر 2018 میں 22.66 فیصد تک پھیل گئے۔ یہ چین کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ 9 فیصد زرعی رقبے کے ساتھ دنیا کی 20 فیصد آبادی کی خوراک کا بندوبست کررہا ہے۔
چین نے جو مقام آج حاصل کیا ہوا ہے وہ ایک دن میں حاصل نہیں ہوا بلکہ چین قدم بہ قدم مرحلہ وار بھرپور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھا۔ اب چین کی معاشی حکمت عملی اس بات کے گرد گھوم رہی ہے کہ اقوام عالم کے ساتھ دوستانہ اور تجارتی روابط ہوں۔ اس معاملے میں چین مالی منافع سے زیادہ تعلقات کو اہمیت دے رہا ہے۔ چین کا یہ ماننا ہے کہ دشمن کو دوست اور دوست کو بھائی بنا سکتے ہیں، مزید یہ کہ دیگر اقوام سے صرف نفع کمانے پر ہی توجہ نہ ہو بلکہ روزگار کے مواقع دے کر ان کی قوت خرید کو بھی مستحکم کیا جائے۔ کورونا وبا کے دوران پاکستان نے معیشت کو خوش اسلوبی سے بحال رکھا تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم زرعی و صنعتی پیداوار میں اضافہ کرکے معیشت کو نئی زندگی دیں اور اس کےلیے ہمیں ایک مضبوط و پائیدار معاشی نمونے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی ترقی یافتہ معیشت چین کے ساتھ تعلقات اعزاز کی بات ہے، تاہم ہمیں چاہیے کہ چین کے مستحکم معاشی ماڈل سے سیکھیں۔
پاکستان میں معاشی استحکام کےلیے ضروری ہے کہ چین کی تیز رفتار معاشی و معاشرتی ترقی سے سیکھا جائے اور طویل المیعاد منصوبوں پر توجہ مرکوز کی جائے۔ ہنرمند افرادی قوت میں اضافے پر توجہ اور صحت مند ماحول کی تشکیل کی جائے تاکہ عوام منفی رجحانات سے ہٹ کر ترقی میں مثبت کردار ادا کرسکیں۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ نتائج کی فکر کیے بغیر ملکی تعمیر و ترقی میں شرکت کریں۔ سب سے اہم بات کہ تعلیم کو عام کرنا ہوگا کیونکہ تعلیم ہی وہ زینہ ہے جو ہمارے مستقبل کو چین کی طرح استحکام کی جانب لے جاسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ پاکستان سمیت بہت سے ممالک نے چین سے پہلے آزادی حاصل کی لیکن ایسے ممالک ترقی کی دوڑ میں چین سے بہت پیچھے کیوں رہ گئے؟ اس بات کو سمجھنے کےلیے ہمیں چین کی معاشی و اقتصادی ترجیحات اور اہداف حاصل کرنے کےلیے ان کے ماڈیولز کو سمجھنا ہوگا۔
پاک چین دوستی کی بات تو کی جاتی ہے لیکن بحیثیت قوم ہم چین کو نہیں جانتے۔ چین کی معاشی ترقی کا راز جاننے کےلیے ضروری ہے کہ ہم ان کے رہن سہن، عادات و اطوار، رجحانات، فطرت اور ترجیحات کو سمجھیں۔ دنیا میں اس وقت تین بنیادی معاشی نظام ہیں جن میں کمیونزم ایسا نظام ہے جس میں ریاست ہی ہر فیصلہ کرتی ہے، دوسرا نظام سرمایہ دارانہ ہے جس میں انفرادی نفع کو اہمیت حاصل ہے جبکہ تیسرا نظام سوشلزم ہے جس میں اجتماعی معاشرے کو فوقیت دی جاتی ہے۔ چین نے اقتصادی ترقی کےلیے سوشلزم کو اپنایا اور چین کا ہر اقدام بہتر معاشرے کی تشکیل کے گرد گھوم رہا ہے۔
چین کی معاشی ترقی کے پیچھے سالہا سال کی جدوجہد اور آگے بڑھنے کی سوچ کا اثر ہے۔ جائزہ لیا جائے تو چین میں معاشی و معاشرتی استحکام کے تین مراحل دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں معاشرتی بدلاؤ لایا گیا اور باہمی تفریق کی جڑیں کاٹی گئیں۔ چین نے ایسے انسانی سرمایہ کی تیاری پر توجہ دی جن کا دل و دماغ چین کی فلاح و بہبود سے جڑ گیا۔ دوسرے مرحلے میں بڑھتی معاشرتی ضروریات اور وسائل کی کمی سے نمٹنے پر توجہ دی گئی۔ اس مقصد کےلیے چین نے انڈسٹری اور زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ ایگریکلچر ٹاؤن شپ اور اجتماعی گھریلو نظام کو ترجیحات میں شامل کیا۔ لوکل گورنمنٹ، پارٹی، ریاست، معاشی دھڑوں اور ہاؤس ہولڈ کی اکائی قائم کی گئی۔ ٹاؤن شپ ویلیج انٹرپرائز کے نظام کی اعانت کی۔ لوکل گورنمنٹ کو اختیارات منتقل کیے تاکہ وہ اہداف کے حصول کو یقینی بنانے کےلیے بروقت فیصلے کرسکیں۔ آخری مرحلے میں چین نے غربت کے مکمل خاتمے پر کام کیا۔ عوام کو مالی امداد فراہم کرنے کے بجائے روزگار کے مواقع فراہم کیے، غربت و بے روزگاری کو مٹانے کےلیے کثیرالمقاصد اہداف رکھے، دیہی آبادی کو انڈسٹری سے جوڑ کر معاشی سرگرمیوں کا جال بنا۔ مزید یہ کہ زندگی کے بہتر وسائل فراہم کیے۔
چین کی ترقی کا راز یہ بھی ہے کہ وہ نہ صرف قلیل المیعاد منصوبوں پر کام کرتے رہے بلکہ طویل المیعاد منصوبوں پر بھی کام کیا۔ چین نے ہر فیصلہ مستقبل کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا، فیصلہ سازی کو آسان بنایا۔ چین جب بھی کوئی کام کرنے کی ٹھان لے تو اس کی منصوبہ بندی تین سال قبل ہی شروع کردی جاتی ہے۔
چینی اقتصادی ماڈل کے نتائج پر غور کیا جائے تو کامیابیوں کی فہرست طویل ہے۔ اصلاحات کی بدولت چین نے 770 ملین افراد کو بے روزگاری سے نکالا۔ 2018 میں 16.8 ملین افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ 2 سال کے عرصے میں چین نے غربت کے مکمل خاتمے کا اعلان کردیا۔ 1976 میں چین کے جنگلات 10 فیصد تھے جو بڑھ کر 2018 میں 22.66 فیصد تک پھیل گئے۔ یہ چین کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ 9 فیصد زرعی رقبے کے ساتھ دنیا کی 20 فیصد آبادی کی خوراک کا بندوبست کررہا ہے۔
چین نے جو مقام آج حاصل کیا ہوا ہے وہ ایک دن میں حاصل نہیں ہوا بلکہ چین قدم بہ قدم مرحلہ وار بھرپور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھا۔ اب چین کی معاشی حکمت عملی اس بات کے گرد گھوم رہی ہے کہ اقوام عالم کے ساتھ دوستانہ اور تجارتی روابط ہوں۔ اس معاملے میں چین مالی منافع سے زیادہ تعلقات کو اہمیت دے رہا ہے۔ چین کا یہ ماننا ہے کہ دشمن کو دوست اور دوست کو بھائی بنا سکتے ہیں، مزید یہ کہ دیگر اقوام سے صرف نفع کمانے پر ہی توجہ نہ ہو بلکہ روزگار کے مواقع دے کر ان کی قوت خرید کو بھی مستحکم کیا جائے۔ کورونا وبا کے دوران پاکستان نے معیشت کو خوش اسلوبی سے بحال رکھا تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم زرعی و صنعتی پیداوار میں اضافہ کرکے معیشت کو نئی زندگی دیں اور اس کےلیے ہمیں ایک مضبوط و پائیدار معاشی نمونے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی ترقی یافتہ معیشت چین کے ساتھ تعلقات اعزاز کی بات ہے، تاہم ہمیں چاہیے کہ چین کے مستحکم معاشی ماڈل سے سیکھیں۔
پاکستان میں معاشی استحکام کےلیے ضروری ہے کہ چین کی تیز رفتار معاشی و معاشرتی ترقی سے سیکھا جائے اور طویل المیعاد منصوبوں پر توجہ مرکوز کی جائے۔ ہنرمند افرادی قوت میں اضافے پر توجہ اور صحت مند ماحول کی تشکیل کی جائے تاکہ عوام منفی رجحانات سے ہٹ کر ترقی میں مثبت کردار ادا کرسکیں۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ نتائج کی فکر کیے بغیر ملکی تعمیر و ترقی میں شرکت کریں۔ سب سے اہم بات کہ تعلیم کو عام کرنا ہوگا کیونکہ تعلیم ہی وہ زینہ ہے جو ہمارے مستقبل کو چین کی طرح استحکام کی جانب لے جاسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔