حکمران اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے
اشرافیہ کے پاس ٹیکس چوری کا جوپیسہ جمع ہوتا ہے اسے معیشت کا حصہ بنانے کوحکومتیں بار بارٹیکس معافی کی اسکیمیں لاتی ہیں۔
لاہور:
وفاقی کابینہ نے تین سو ساٹھ ارب روپے کے منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے متنازع بل کی منظوری موخر کردی ہے ، جس کا مقصد حکمران جماعت کی سیاسی ساکھ اور قومی سلامتی پر ان کے اثرات کا جائزہ لینا ہے۔
دوسری جانب اگر پاکستان کوآئی ایم ایف کی ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط حاصل کرنی ہے تو اسے ان بلوں کو منظور کرنا ہوگا تاہم حکومت نے اپنے سیاسی گڑھ صوبہ کے پی میں بلدیاتی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنے کے بعد دونوں بلوں کی منظوری میں تاخیر کا فیصلہ کیا ہے ، حکمران جماعت کے رہنماؤں نے بے قابو مہنگائی کو اس شکست کی وجہ قرار دیا ہے ، تاہم غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مصنوعی طور پر بڑھانے اور غیر ملکی قرضوں سے متعلق ذمے داریوں کو پورا کرنے کے لیے وفاقی کابینہ نے انتہائی مہنگے چار ارب ڈالر کے قلیل مدتی غیرملکی تجارتی قرضوں کی منظوری دے دی ہے ۔
منی بجٹ کا چند دنوں تک موخر ہونا، کسی بھی طورپر ملکی معیشت کے حوالے سے اطمینان بخش صورتحال نہیں ہے،کیونکہ حکومت کو ہرصورت میں آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنی ہیں ۔ پاکستان نے جتنا قرضہ لے رکھا ہے اور اس پر جتنا بھاری سود اسے ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے تو نہیں لگتا کہ ہمارا ملک قرضوں کی اس دلدل سے کبھی نکل سکے گا۔
خطے میں بنگلہ دیش نے اپنی معیشت کو بہت بہتر کیا ہے، بھارت ہم سے آگے جا رہا ہے، خطے کے دیگر ممالک ملائیشیا ، سنگاپور بھی ترقی کر رہے ہیں، مگر ہم ہیں کہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں، دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں۔ جس ملک نے ہر سال اربوں ڈالر نہ صرف قرضوں اور ان کے سود کی مدد میں واپس کرنے ہوں۔ وہ ملک کیسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ اسے تو قرض واپس کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔
ہماری حکمران اشرافیہ کے پاس ٹیکس چوری کا جو پیسہ جمع ہوتا ہے اسے معیشت کا حصہ بنانے کو حکومتیں بار بار ٹیکس معافی کی اسکیمیں لاتی ہیں۔ دوہزار اٹھارہ اور دو ہزار انیس میںکالا دھن سفید کرنے کی خاطر دو ٹیکس معافی اسکیمیں لائی گئیں۔ ان دونوں اسکیموں میں مجموعی طور پرساڑھے چورانوے ارب روپے ظاہر کیے گئے۔
ان پر حکومت کوتقریباً پانچ فیصد کے حساب سے صرف ساڑھے چار ارب روپے کا معمولی سا ٹیکس وصول ہوا، اگر فیڈرل بورڈ آف ریونیو اس دولت کو دریافت کرکے اس پر نارمل طریقہ سے ٹیکس وصول کرتا توحکومت کو بیس گنا زیادہ رقم ملتی۔ مشکل یہ ہے کہ حکومت امیروں پر دولت ٹیکس یا ویلتھ ٹیکس لگانے پر تیار نہیں۔ حکومت کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ محصولات ہیں جو بلاواسطہ اور بالواسطہ ٹیکسوں کی شکل میں عوام سے وصول کیے جاتے ہیں۔ہمارے ہاں براہ راست انکم ٹیکس کی وصولی اور بالواسطہ ٹیکسوں کسٹم ڈیوٹی، ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس اکٹھا کرنے کا نظام نہایت فرسودہ ہے۔
محصولات اکٹھا کرنے کا ایک بنیادی اصول جو دنیا میں صدیوں سے رائج ہے وہ یہ ہے کہ ٹیکس جمع کرنے والی مشینری کودیانت دار، ایماندار اور ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے، اگر محصولات اکٹھا کرنے والا عملہ ہی جمع شدہ رقومات میں خوردبرد کرے گا تو قومی خزانے میں کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس قوانین نہایت ہی سخت بنائے جاتے ہیں۔ ایک عام شہری سے لے کر صدر تک کوئی بھی ٹیکس سے مستثنیٰ نہیں ہے اور ٹیکس چوری کرنے کو ایک سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔
جب کہ پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ٹیکس چوری ایک وباء کی طرح پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ عام تاجر، صنعتکاروں کے علاوہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے جاگیر دار، وڈیرے اور مل مالکان سب ہی ٹیکس دینے سے گریزاں رہتے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں اور حکومت میں بظاہر اختلافات انتہائی شدید نظر آتے ہیں ، لیکن جب اراکین اسمبلی کی مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کے بل پیش ہوتے ہیں تو وہ صرف چند منٹوں میں منظور ہوجاتے ہیں ، حد تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی کینٹین سے صرف چند روپے ادا کرکے یہ اراکین کھانا کھاتے ہیں ، یعنی ہر چیز پر سبسڈی لیتے ہیں۔ہمار ا قومی المیہ یہ ہے قرضوں کی معیشت ہونے کے باوجود ہماری حکومتوں کے اخراجات کبھی کم نہیں ہوئے۔ ہماری کابینہ دنیا کی سب سے بڑی کابینہ ہوتی ہے۔ مراعات یافتہ طبقوں نے اپنے لیے ہر چیز مفت رکھی ہوئی ہے۔
اربوں روپے کا پٹرول اسی مفت اسکیم میں ضایع ہو جاتا ہے۔ قربانی صرف عوام سے مانگی جاتی ہے، حالانکہ جب گھر مشکل میں ہو تو سب کو قربانی دینی چاہیے، مگر حکمران طبقہ کبھی ایسا نہیں کرتا،اس کے اللے تللے دیکھ کر تو لگتا ہی نہیں یہ ایسی قوم کے افراد ہیں جو قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔یعنی ایک غریب اور پسماندہ ملک پر راج کرنیوالی اشرافیہ سارے موج ، مزے سرکاری خزانے سے اڑاتی ہے ، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا جیسا وطیرہ اور چلن ہماری حکمران اشرافیہ نے اپنایا ہوا ہے ۔
ٹیکس وصولی میں ناکامی کی ذمے داری ایک پارٹی یا شخص کی نہیں، ہماری تمام حکمران اشرافیہ اس صورتحال کی قصوروار ہے۔ ملک میں چالیس لاکھ دولت مند لوگ ایسے ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے۔ اگر بڑے زمینداروں' تاجروں' دکانداروں' پیشہ ور ماہرین سے پُورا پُوراٹیکس وصول کیا جائے تو وفاقی حکومت کی ٹیکس آمدن دگنا ہوسکتی ہے لیکن جو بھی حکومت آتی ہے وہ صرف غریبوں کا خون نچوڑتی ہے' امیروں کا پیٹ بھرتی ہے۔ پاکستان میں افسر شاہی اور سیاسی اشرافیہ کو جو مختلف قسم کی ٹیکس مراعات اورٹیکسوں سے استثنا حاصل ہیں ان کی سالانہ مالیت چھ سو ارب روپے سے کم نہیں۔
ہمارے ملک میں جتنی بھی ممتاز ومعروف شخصیات ہیں ،انھوں نے اپنے اپنے فلاحی ادارے بنا رکھے ہیں،یہ فلاحی ادارے پہلے تو کروڑوں ،اربوں کی زمین حکومت سے مفت حاصل کرلیتے ہیں ، پھر اس پر بلند وبالا کئی منزلیں عمارتیںتعمیر ہوجاتی ہیں۔
دولت مند طبقے، صنعتکار وتاجر اور حکمران اشرافیہ کے افراد کے فلاحی ادارے کوبھاری عطیات دیے جاتے ہیں ، کیونکہ ان عطیات پر ٹیکس نہیں لگتا، پاکستان میں اشرافیہ کا ٹیکسز سے بچنے کا یہ انتہائی آسان اور مجرب نسخہ ہے، جب کہ دنیا بھر میں جو فلاحی ادارے قائم کیے جاتے ہیں ، ان کو چلانے والی شخصیات سب کچھ اپنی جیب سے ادا کرتی ہیں ، حتی کہ اپنی حکومت کو ٹیکس بھی ادا کرتی ہیں، جب کہ ہمارے یہاں فلاحی اداروںکا قیام ایک مافیا کے ہاتھ میں ہے ، اگر ایسے اداروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تو ملکی معیشت کو سنبھالنا آسان ہوسکتا ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق وفاقی حکومت زمین پر ٹیکس نہیں لگا سکتی، جو بڑے بڑے زمیندار سیکڑوں' ہزاروںایکڑ زرعی اراضی کے مالک ہیں' جن کو باغوںسے کروڑوں روپے آمدن ہوتی ہے' دستور کے تحت وفاقی حکومت اُن سے انکم ٹیکس نہیں لے سکتی۔ حالانکہ پچیس ایکڑ نہری اور پچاس ایکڑ بارانی زرعی اراضی سے زیادہ زمین کے جو مالک ہیں ان کی اتنی آمدن ہوتی ہے کہ ان سے انکم ٹیکس وصول کیا جائے۔ماہرین معیشت کاخیال ہے کہ ملک میں پرچون کاروبار کا حجم دو سو ارب ڈالر ہے۔ دُکانداروں کی اکثریت بھی انکم ٹیکس نہیں دیتی جو ٹیکس دیتے ہیں وہ بھی جتنا جائز ٹیکس بنتا ہے۔
اس کا ایک چوتھائی یا اس سے بھی کم۔ تاجروں کا سیاسی اثر و رسوخ تالہ بندی' ہڑتال کی طاقت کی وجہ سے ہے، جو بھی حکومت ان سے ٹیکس وصولی کے لیے اقدامات کرتی ہے وہ ہڑتالیں کردیتے ہیں' ملک میں چیزوں کی قلت پیدا ہوجاتی ہے' چاروں طرف ایسا شور مچتا ہے کہ حکومت ڈر کر اپنے اقدامات واپس لینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔یعنی 22 کروڑ آبادی والے ملک میں اس وقت صرف 27 لاکھ 50 ہزار افراد ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ پر ہیں۔ ان میں سے بھی زیادہ تعداد سرکاری ملازمین کی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سالانہ بجٹ بناتے وقت محصولات کا جو اندازہ لگایا جاتا ہے وہ کبھی درست ثابت نہیں ہوتا ہے۔ٹیکسوں کی وصولی کے جو اہداف مقرر کیے جاتے ہیں وہ کبھی پورے نہیںہوتے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی شرح 4 فیصد سے بھی کم ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح نوے فیصد سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں عوام کے لیے تمام سہولتوں کی ارزانی ہے۔ پاکستان کے جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس دینے والوں کی شرح تقریباً 9 فیصد بنتی ہے جب کہ پاکستان کے مساوی جی ڈی پی والے دیگر ممالک میں یہ شرح 14 فیصد سے کم نہیں۔
جب تک پاکستان اپنے ذرائع آمدنی میں اضافہ نہیں کرتا اسے بدستور قرضوں پر ہی گزر بسر کرنی پڑے گی جن کے سود کی قسطیں ادا کرنے کے لیے وہ مزید سود در سود لیتا رہے گا یا پھر بیرونی ممالک سے جھولی پھیلا کر امداد کی التجا کرنا پڑے گا۔مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی آمدنی کا 60 فیصد تو قرضوں کی اقساط اور ان کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے۔
آج ہم سب تنقید کر رہے ہیں حکومت آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئی، بجلی، گیس پٹرول کیوں مہنگے کر رہی ہے۔ عوام پر ٹیکس کیوں لگا رہی ہے، جواب ایک ہی ہے کہ ایسا نہ کرتی تو ملک دیوالیہ ہو جاتا، آئی ایم ایف کے کھلے جبڑے ہمیں نگل جاتے، ہاں یہ ضرورہے کہ ماضی کی حکومتیں آئی ایم ایف سے اچھی ڈیل کرتی رہیں۔
قرض بھی لیتی رہیں اور رعایتیں بھی مانگتی رہیں۔ موجودہ حکومت کو قرض بھی مشکل سے مل رہا ہے اور رعایت بھی نہیں دی جا رہی الٹا عوام کے کس بل نکالنے کی فرمائشیں کی جا رہی ہیں اور حکومت بے چون و چرا انھیں قبول کر رہی ہے، بس یہی اس کی سب سے بڑی ناکامی ہے اس کے معاشی منیجروں کی بے تدبیری ہے، جس نے آئی ایم ایف کو اب ہماری معیشت ہی نہیں قومی سلامتی کے بھی درپے کر دیا ہے۔
وفاقی کابینہ نے تین سو ساٹھ ارب روپے کے منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے متنازع بل کی منظوری موخر کردی ہے ، جس کا مقصد حکمران جماعت کی سیاسی ساکھ اور قومی سلامتی پر ان کے اثرات کا جائزہ لینا ہے۔
دوسری جانب اگر پاکستان کوآئی ایم ایف کی ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط حاصل کرنی ہے تو اسے ان بلوں کو منظور کرنا ہوگا تاہم حکومت نے اپنے سیاسی گڑھ صوبہ کے پی میں بلدیاتی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنے کے بعد دونوں بلوں کی منظوری میں تاخیر کا فیصلہ کیا ہے ، حکمران جماعت کے رہنماؤں نے بے قابو مہنگائی کو اس شکست کی وجہ قرار دیا ہے ، تاہم غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مصنوعی طور پر بڑھانے اور غیر ملکی قرضوں سے متعلق ذمے داریوں کو پورا کرنے کے لیے وفاقی کابینہ نے انتہائی مہنگے چار ارب ڈالر کے قلیل مدتی غیرملکی تجارتی قرضوں کی منظوری دے دی ہے ۔
منی بجٹ کا چند دنوں تک موخر ہونا، کسی بھی طورپر ملکی معیشت کے حوالے سے اطمینان بخش صورتحال نہیں ہے،کیونکہ حکومت کو ہرصورت میں آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنی ہیں ۔ پاکستان نے جتنا قرضہ لے رکھا ہے اور اس پر جتنا بھاری سود اسے ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے تو نہیں لگتا کہ ہمارا ملک قرضوں کی اس دلدل سے کبھی نکل سکے گا۔
خطے میں بنگلہ دیش نے اپنی معیشت کو بہت بہتر کیا ہے، بھارت ہم سے آگے جا رہا ہے، خطے کے دیگر ممالک ملائیشیا ، سنگاپور بھی ترقی کر رہے ہیں، مگر ہم ہیں کہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں، دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں۔ جس ملک نے ہر سال اربوں ڈالر نہ صرف قرضوں اور ان کے سود کی مدد میں واپس کرنے ہوں۔ وہ ملک کیسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ اسے تو قرض واپس کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔
ہماری حکمران اشرافیہ کے پاس ٹیکس چوری کا جو پیسہ جمع ہوتا ہے اسے معیشت کا حصہ بنانے کو حکومتیں بار بار ٹیکس معافی کی اسکیمیں لاتی ہیں۔ دوہزار اٹھارہ اور دو ہزار انیس میںکالا دھن سفید کرنے کی خاطر دو ٹیکس معافی اسکیمیں لائی گئیں۔ ان دونوں اسکیموں میں مجموعی طور پرساڑھے چورانوے ارب روپے ظاہر کیے گئے۔
ان پر حکومت کوتقریباً پانچ فیصد کے حساب سے صرف ساڑھے چار ارب روپے کا معمولی سا ٹیکس وصول ہوا، اگر فیڈرل بورڈ آف ریونیو اس دولت کو دریافت کرکے اس پر نارمل طریقہ سے ٹیکس وصول کرتا توحکومت کو بیس گنا زیادہ رقم ملتی۔ مشکل یہ ہے کہ حکومت امیروں پر دولت ٹیکس یا ویلتھ ٹیکس لگانے پر تیار نہیں۔ حکومت کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ محصولات ہیں جو بلاواسطہ اور بالواسطہ ٹیکسوں کی شکل میں عوام سے وصول کیے جاتے ہیں۔ہمارے ہاں براہ راست انکم ٹیکس کی وصولی اور بالواسطہ ٹیکسوں کسٹم ڈیوٹی، ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس اکٹھا کرنے کا نظام نہایت فرسودہ ہے۔
محصولات اکٹھا کرنے کا ایک بنیادی اصول جو دنیا میں صدیوں سے رائج ہے وہ یہ ہے کہ ٹیکس جمع کرنے والی مشینری کودیانت دار، ایماندار اور ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے، اگر محصولات اکٹھا کرنے والا عملہ ہی جمع شدہ رقومات میں خوردبرد کرے گا تو قومی خزانے میں کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس قوانین نہایت ہی سخت بنائے جاتے ہیں۔ ایک عام شہری سے لے کر صدر تک کوئی بھی ٹیکس سے مستثنیٰ نہیں ہے اور ٹیکس چوری کرنے کو ایک سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔
جب کہ پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ٹیکس چوری ایک وباء کی طرح پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ عام تاجر، صنعتکاروں کے علاوہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے جاگیر دار، وڈیرے اور مل مالکان سب ہی ٹیکس دینے سے گریزاں رہتے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں اور حکومت میں بظاہر اختلافات انتہائی شدید نظر آتے ہیں ، لیکن جب اراکین اسمبلی کی مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کے بل پیش ہوتے ہیں تو وہ صرف چند منٹوں میں منظور ہوجاتے ہیں ، حد تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی کینٹین سے صرف چند روپے ادا کرکے یہ اراکین کھانا کھاتے ہیں ، یعنی ہر چیز پر سبسڈی لیتے ہیں۔ہمار ا قومی المیہ یہ ہے قرضوں کی معیشت ہونے کے باوجود ہماری حکومتوں کے اخراجات کبھی کم نہیں ہوئے۔ ہماری کابینہ دنیا کی سب سے بڑی کابینہ ہوتی ہے۔ مراعات یافتہ طبقوں نے اپنے لیے ہر چیز مفت رکھی ہوئی ہے۔
اربوں روپے کا پٹرول اسی مفت اسکیم میں ضایع ہو جاتا ہے۔ قربانی صرف عوام سے مانگی جاتی ہے، حالانکہ جب گھر مشکل میں ہو تو سب کو قربانی دینی چاہیے، مگر حکمران طبقہ کبھی ایسا نہیں کرتا،اس کے اللے تللے دیکھ کر تو لگتا ہی نہیں یہ ایسی قوم کے افراد ہیں جو قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔یعنی ایک غریب اور پسماندہ ملک پر راج کرنیوالی اشرافیہ سارے موج ، مزے سرکاری خزانے سے اڑاتی ہے ، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا جیسا وطیرہ اور چلن ہماری حکمران اشرافیہ نے اپنایا ہوا ہے ۔
ٹیکس وصولی میں ناکامی کی ذمے داری ایک پارٹی یا شخص کی نہیں، ہماری تمام حکمران اشرافیہ اس صورتحال کی قصوروار ہے۔ ملک میں چالیس لاکھ دولت مند لوگ ایسے ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے۔ اگر بڑے زمینداروں' تاجروں' دکانداروں' پیشہ ور ماہرین سے پُورا پُوراٹیکس وصول کیا جائے تو وفاقی حکومت کی ٹیکس آمدن دگنا ہوسکتی ہے لیکن جو بھی حکومت آتی ہے وہ صرف غریبوں کا خون نچوڑتی ہے' امیروں کا پیٹ بھرتی ہے۔ پاکستان میں افسر شاہی اور سیاسی اشرافیہ کو جو مختلف قسم کی ٹیکس مراعات اورٹیکسوں سے استثنا حاصل ہیں ان کی سالانہ مالیت چھ سو ارب روپے سے کم نہیں۔
ہمارے ملک میں جتنی بھی ممتاز ومعروف شخصیات ہیں ،انھوں نے اپنے اپنے فلاحی ادارے بنا رکھے ہیں،یہ فلاحی ادارے پہلے تو کروڑوں ،اربوں کی زمین حکومت سے مفت حاصل کرلیتے ہیں ، پھر اس پر بلند وبالا کئی منزلیں عمارتیںتعمیر ہوجاتی ہیں۔
دولت مند طبقے، صنعتکار وتاجر اور حکمران اشرافیہ کے افراد کے فلاحی ادارے کوبھاری عطیات دیے جاتے ہیں ، کیونکہ ان عطیات پر ٹیکس نہیں لگتا، پاکستان میں اشرافیہ کا ٹیکسز سے بچنے کا یہ انتہائی آسان اور مجرب نسخہ ہے، جب کہ دنیا بھر میں جو فلاحی ادارے قائم کیے جاتے ہیں ، ان کو چلانے والی شخصیات سب کچھ اپنی جیب سے ادا کرتی ہیں ، حتی کہ اپنی حکومت کو ٹیکس بھی ادا کرتی ہیں، جب کہ ہمارے یہاں فلاحی اداروںکا قیام ایک مافیا کے ہاتھ میں ہے ، اگر ایسے اداروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تو ملکی معیشت کو سنبھالنا آسان ہوسکتا ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق وفاقی حکومت زمین پر ٹیکس نہیں لگا سکتی، جو بڑے بڑے زمیندار سیکڑوں' ہزاروںایکڑ زرعی اراضی کے مالک ہیں' جن کو باغوںسے کروڑوں روپے آمدن ہوتی ہے' دستور کے تحت وفاقی حکومت اُن سے انکم ٹیکس نہیں لے سکتی۔ حالانکہ پچیس ایکڑ نہری اور پچاس ایکڑ بارانی زرعی اراضی سے زیادہ زمین کے جو مالک ہیں ان کی اتنی آمدن ہوتی ہے کہ ان سے انکم ٹیکس وصول کیا جائے۔ماہرین معیشت کاخیال ہے کہ ملک میں پرچون کاروبار کا حجم دو سو ارب ڈالر ہے۔ دُکانداروں کی اکثریت بھی انکم ٹیکس نہیں دیتی جو ٹیکس دیتے ہیں وہ بھی جتنا جائز ٹیکس بنتا ہے۔
اس کا ایک چوتھائی یا اس سے بھی کم۔ تاجروں کا سیاسی اثر و رسوخ تالہ بندی' ہڑتال کی طاقت کی وجہ سے ہے، جو بھی حکومت ان سے ٹیکس وصولی کے لیے اقدامات کرتی ہے وہ ہڑتالیں کردیتے ہیں' ملک میں چیزوں کی قلت پیدا ہوجاتی ہے' چاروں طرف ایسا شور مچتا ہے کہ حکومت ڈر کر اپنے اقدامات واپس لینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔یعنی 22 کروڑ آبادی والے ملک میں اس وقت صرف 27 لاکھ 50 ہزار افراد ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ پر ہیں۔ ان میں سے بھی زیادہ تعداد سرکاری ملازمین کی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سالانہ بجٹ بناتے وقت محصولات کا جو اندازہ لگایا جاتا ہے وہ کبھی درست ثابت نہیں ہوتا ہے۔ٹیکسوں کی وصولی کے جو اہداف مقرر کیے جاتے ہیں وہ کبھی پورے نہیںہوتے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی شرح 4 فیصد سے بھی کم ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح نوے فیصد سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں عوام کے لیے تمام سہولتوں کی ارزانی ہے۔ پاکستان کے جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس دینے والوں کی شرح تقریباً 9 فیصد بنتی ہے جب کہ پاکستان کے مساوی جی ڈی پی والے دیگر ممالک میں یہ شرح 14 فیصد سے کم نہیں۔
جب تک پاکستان اپنے ذرائع آمدنی میں اضافہ نہیں کرتا اسے بدستور قرضوں پر ہی گزر بسر کرنی پڑے گی جن کے سود کی قسطیں ادا کرنے کے لیے وہ مزید سود در سود لیتا رہے گا یا پھر بیرونی ممالک سے جھولی پھیلا کر امداد کی التجا کرنا پڑے گا۔مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی آمدنی کا 60 فیصد تو قرضوں کی اقساط اور ان کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے۔
آج ہم سب تنقید کر رہے ہیں حکومت آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئی، بجلی، گیس پٹرول کیوں مہنگے کر رہی ہے۔ عوام پر ٹیکس کیوں لگا رہی ہے، جواب ایک ہی ہے کہ ایسا نہ کرتی تو ملک دیوالیہ ہو جاتا، آئی ایم ایف کے کھلے جبڑے ہمیں نگل جاتے، ہاں یہ ضرورہے کہ ماضی کی حکومتیں آئی ایم ایف سے اچھی ڈیل کرتی رہیں۔
قرض بھی لیتی رہیں اور رعایتیں بھی مانگتی رہیں۔ موجودہ حکومت کو قرض بھی مشکل سے مل رہا ہے اور رعایت بھی نہیں دی جا رہی الٹا عوام کے کس بل نکالنے کی فرمائشیں کی جا رہی ہیں اور حکومت بے چون و چرا انھیں قبول کر رہی ہے، بس یہی اس کی سب سے بڑی ناکامی ہے اس کے معاشی منیجروں کی بے تدبیری ہے، جس نے آئی ایم ایف کو اب ہماری معیشت ہی نہیں قومی سلامتی کے بھی درپے کر دیا ہے۔