’ کیلا ‘ آپ کی صحت کے لئے بہت ضروری ہے

پوٹاشیم سمیت دل کی صحت کے لئے ضروری اجزا کیلے میں شامل ہوتے ہیں۔


پوٹاشیم سمیت دل کی صحت کے لئے ضروری اجزا کیلے میں شامل ہوتے ہیں۔فوٹو : فائل

ISLAMABAD: اگر آپ ہر روز ایک کیلا نہیں کھاتے تو یہ تحریر پڑھ کر آپ کیلا کھانے کو تیار ہوجائیں گے۔آج تک ہر ایک فرد نے یہی سنا ہوگا کہ روزانہ ایک سیب کھائیں اور ڈاکٹر سے دور رہیں تاہم آج یہ بات بھی پڑھ لیں کہ روزانہ کیلے کھائیں اور ڈاکٹر سے دور رہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ کیلا دلیہ کے لیے ایک بہترین ٹاپنگ ہے، یہ سفر کے لئے ایک آسان ناشتہ ہے اور تو اور یہ لذیذ روٹی کا کلیدی جزو بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم شاید آپ کو احساس نہیں ہے کہ کیلا ایسے صحت مند پھلوں میں شامل ہوتا ہے جنھیں کھا کر آپ اچھی صحت حاصل کرنے کا ہدف بہت جلد حاصل کرسکتے ہیں ۔ پیلے چھلکے والا یہ پھل اگر آپ کا پسندیدہ ہے تو نہ صرف آپ بلکہ آپ کا دل بھی خوش قسمت ہے کیونکہ اس پھل میں پوٹاشیم کی وافر مقدار ہے جو آپ کے دل کو توانا اور صحت مند رکھتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پوٹاشیم کی ایک مناسب مقدار آ پ کے دل کو صحت مند رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ بھی اس کے بے شمار فوائد ہے۔ اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی ویکسنر میڈیکل سینٹر میں ماہر امراض قلب راگویندر بالیگا کہتے ہیں، ماضی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پوٹاشیم سے بھرپور غذائیں بلڈ پریشر کم کرنے کے علاوہ دل کی بیماریوں کے خطرے کو بھی کم کرتی ہیں ۔

جرنل آف امریکن کالج آف کارڈیالوجی میں ایک تجزیہ شائع ہوا جس میں 11ریسرچ سٹڈیز اور 250000 لوگوں کا ڈیٹا شامل تھا ۔ اس تحقیق کے مطابق روزانہ 1540 ملی گرام غذائی پوٹاشیم کے اضافے کی وجہ سے تجربے شامل لوگوں میں فالج کا خطرہ 21 فیصد کم ہو گیا۔کیلے کی مدد سے دل کی دھڑکن کو صحت مند رکھا جا سکتا ہے۔ مشیل روتھنسیٹن آرڈی جو کہ ماہر امراض قلب ہیں کہ مطابق انسان میں پوٹاشیم کی کمی دل کی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ کمی دماغ ، پٹھوں اور جسم کے دیگر اعضاء میں خون کے بہاؤ کو متاثر کرتی ہے۔

پو ٹاشیم کاربوہائیڈرئٹس کو ہضم کرتا ہے اور پٹھوں کی مرمت کرتا ہے ۔ یہ دل کی شریانوں کو صحت مند رکھتا ہے اور دل کی بیماریوں کے علاوہ انسان کو اچانک فالج سے بھی بچاتا ہے ۔ ایک اور تحقیق سے بھی پتہ چلتا ہے کہ کیلے میں پوٹاشیم موجود ہوتا ہے اس لیے اس کو لازمی غذا کا حصہ ہونا چاہیے۔

جرنل آف کلینیکل انویسٹی گیشن کے مطابق2017 ء میں ایک تحقیقی ٹیم نے الابامایونیورسٹی کے یونگ سن کی سربراہی میں چوہوں پر تجربہ کیا ۔ ایسے چوہے جو جینیاتی طور پر قلبی امراض میں مبتلا تھے ، انھیں ایسی غذائیں کھلائی گئیں جن میں سے بعض غذاؤں میں کم اور بعض میں نارمل اور بعض میں زیادہ پوٹاشیم شامل تھا۔

تجربے کے بعد دیکھا گیا کہ کم پوٹاشیم کھانے کی وجہ کے سبب کھانے والے چوہوں کی شریانوں میں سختی تھی جبکہ زیادہ پوٹاشیم استعمال کرنے والے دوسرے چوہوں کی شریانوں میں سختی کم تھی ۔

کیلے پو ٹاشیم حاصل کرنے کا واحد ذریعہ نہیں ہیں ۔ انٹرنیشنل فوڈ انفارمیشن کونسل کے مطابق کیلے کااستعمال نقصان دہ نہیں ہے جب تک آپ کو اپنی خوراک کے معاملے زیادہ محتاط ہونے کی ہدایت نہ کی گئی ہو ۔

تاہم ایسا بھی نہیں کہا جاسکتا کہ صرف پوٹاشیم کے استعمال سے دل کی بیماریوں کو روکا جا سکتا ہے۔ روتھنسٹین کے مطابق خوراک کے ساتھ ساتھ دیگر خطرناک عوامل پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے۔

ماضی میں ہونے والی متعدد تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ پوٹاشیم سے بھرپور غذائیں بلڈ پریشر کو کم کرنے کے لیے کھلائی جاتی ہیں ، کیونکہ یہ سوڈیم کے اثرات کا مقابلہ کرتی ہیں ۔ زیادہ بلڈ پریشر دل کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے ۔ ہائی بلڈ پریشر کو روکنے کے لیے ڈائیٹری اپروچیز کے لیے ڈی اے ایس ایچ ڈائیٹ، امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن اور نیشنل ہارٹ،لنلنگ اینڈبلڈ انسٹیٹیوٹ نے بھی کیلے کے استعمال کو بہترین قرار دیا ہے۔

یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ کے مطابق کیلے کے علاوہ آلو، پھلیاں اور گہرے سبز پتوں والی سبزیوں میں بھی اس کی وافر مقدار موجود ہوتی ہیں۔ شمالی امریکا کے رہنے والے پوٹاشیم بہت کم استعمال کرتے ہیں اور یہی حال دوسرے امریکیوں کا ہے ۔

بالغوں کو روزانہ 2600 سے لے کر400 3 ملی گرام پوٹاشیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک درمیانے کیلے میں22 4 ملی گرام پوٹاشیم ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کیلے میں پوٹاشیم بہت زیادہ ہوتا ہے مگر اس کے علاوہ دوسری غذاؤں میں بھی موجود ہوتا ہے۔

ڈاکٹر بالیگا کا مشورہ ہے کہ پوٹاشیم حاصل کرنے کے لئے کیلے کے علاوہ اپنے مریضوں کو گاجر،بروکولی،پالک گوبھی کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ پوٹاشیم حاصل کرنے کے لیے آپ ایک درمیانے آلو کو چھلکے سمیت بھی کھا سکتے ہیں۔ اگر آپ کو اب بھی کیلا پسند نہیں ہے تو پریشان نہ ہوں ، پوٹاشیم کھانے کے اور بہت سے طریقے موجود ہے یعنی سبز پتوں والی سبزیاں۔ بس ! اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں