ہم کیسی قوم ہیں

ایک بھارتی وزیر نے ایک بار اپنے بیان میں کہا تھا کہ ، ’پاکستانی قوم کو نالیاں پکی کروا دو اور ووٹ حاصل کر لو۔‘


عدیل احمد جبل February 11, 2014
ایک بھارتی وزیر نے ایک بار اپنے بیان میں کہا تھا کہ ، ’پاکستانی قوم کو نالیاں پکی کروا دو اور ووٹ حاصل کر لو۔‘ فوٹو: فائل

LONDON: حصول آزادی کے لئے ہم ایک قوم بنے اور وہ کر دکھایا جس کی کسی کو امید نہ تھی مگر اس کے بعد ہم 66 سالوں میں آج تک ایک قوم نہ بن سکے۔ نہ جانے 15 اگست 1947 کی صبح کون سا ساز بجا کہ اس قوم کے ہر فرد کے اندر سے جذبہ ایمانی، کام کرنے کی لگن اور ایک قوم بنے رہنے کی آرزو ہی ختم ہونا شروع ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اگلے چند سالوں میں اس ملک کے لوگوں نے رشوت خوری، بے ایمانی کا راستہ چنا اور اپنی بنیاد ڈالی اور آج ہم روتے ہیں کہ اس ملک کے سیاستدانوں نے ملک کھا لیا۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان سیاستدانوں کو اقتدار کے ایوانوں تک ہم ہی تو لے کر جاتے ہیں اور انہیں وہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ لوگ جیسے چاہیں وہ اختیار استعمال کر کے کچھ بھی کریں۔

میرے ایک استاد ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ، 'آزادی کے نام پروجود میں آنے والی قومیں بے حد جذباتی ہوتی ہیں '۔ بے شک ان کا یہ فقرہ بالکل درست ہے۔ ہر سیاسی لیڈر اپنے لوگوں کے جذبات سے کھیلتا ہے۔ کیونکہ اس ملک کا سیاستدان ہی تو صرف سمجھدار ہے اور وہ یہ بات بہت پہلے سمجھ چکا تھا کہ اقتدار میں رہنے کے لیے لوگوں کے جذبات سے کھیلتا جائے اور موج کی جائے۔ ہم آج بھی انہی لوگوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں۔ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ فوجی حکمرانوں کا بھی یہی حال ہے ، وہ بھی لوگوں کو کھیلاتے ہی ہیں۔ بہت سے سرکاری افسر فوج کی جی حضوری کے لیے پیش ہو جاتے ہیں اور پھر ایک نیا کھیل شروع ہوتا ہے، بلکہ یہ کہیے کہ نئے چہروں کے ساتھ پرانا کھیل جاری رہتا ہے۔ یہی فوجی سیاستدان کی طرح اپنا اختیار استعمال کرتے ہیں اور لوگ اسے برا بھلا بھی کہتے ہیں مگر جب یہی فوجی حکمران اگر ایک چھوٹا سا اچھا کام کر دیں بھلے وہ خود کے لیے ہی کیوں نہ کیا ہو، لوگ عش عش کرتے نہیں تھکتے اورانہیں اگلی بارکے لیے منتخب کرنے کی بھی ٹھان لیتے ہیں مگر اصل مسائل کی طرف نہیں دیکھتے جن کی وجہ سے خود پریشان حال ہوئے ہوتے ہیں۔

ایک بھارتی وزیر نے ایک بار اپنے بیان میں کہا تھا کہ ، 'پاکستانی قوم کو نالیاں پکی کروا دو اور ووٹ حاصل کر لو۔' یہ بات بے حد غصہ دلانے والی ہے مگر سچ ہے۔ ہم سچ میں ایک پکی نالی کی مار ہیں۔ کوئی عوام کا چنا ہوا منتخب نمائندہ 5 سال اقتدار میں رہ کر صرف ایک گلی کی سڑی ہوئی نالی ہی پکی کروا دے تو علاقہ مکین اگلی بار کا ووٹ اسی وقت اس کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں جبکہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ اس نمائندہ کا کام ہے۔ اس شخص کو ایوان تک اسی لیے لے کر گئے تاکہ وہ علاقے کی نمائندگی کرے اور مسائل حل کرے۔ مگر ہمیں پسند ہی وہ لوگ ہیں جو 5 سال میں ایک بار سڑی ہوئی نالی پکی کروا دیں اور خود بڑی بڑی گاڑیوں میں ریلیوں کی صورت میں گھومیں مگر عوام بابا آدم کے زمانے کی موٹر سائیکل پر ان کے پیچھے خوشامدی نعرے لگا رہے ہوں۔ ہم اپنے لیڈر کو جتوانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں ، مگر یہی تیاری اگر اپنے کام کروانے کے لیے کی جائے تو کیا ہی بات ہو۔

اصل میں اس ملک کی عوام کو زمین کی طرح بانٹ دیا گیا ہے۔ جیسے زمینوں کی آپس میں بندر بانٹ ہوتی ہے اور پھر اس بندر بانٹ کے نتیجے میں وہ زمین کا ٹکڑا کسی ایک فرد یا گروہ کی ملکیت ہوجا تا ہے، اس پر وہ چاہے کرے اس کی مرضی ہوتی ہے۔ اسی طرح اس عوام کی بندر بانٹ کر دی گئی اور اس کے نتیجے میں لوگ آزاد ملک میں رہ کر بھی غلام ہیں اور رہیں گے ۔ ہم 66سالوں میں آج تک ایک قوم نہ بن سکے۔ ہم کیسی قوم ہیں؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔