سیاسی جماعتیں اور جمہوریت
ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں مہنگائی کے ساتھ اندرونی اختلافات کو شکست کی وجہ قرار دیا گیا ہے
وزیر اعظم عمران خان سے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے ملاقات کی اور انھیں بلدیاتی انتخابات میں شکست کی وجوہات سے آگاہ کیا۔ میڈیا نے ذرایع کے حوالے سے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات میں پارٹی امیدواروں کو سپورٹ نہ کرنے اور پارٹی فیصلوں کے مخالف جانے والوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی ہے جس پر ذمے داروں کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں مہنگائی کے ساتھ اندرونی اختلافات کو شکست کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ بعض ارکان اسمبلی نے پارٹی کے نامزد امیدواروں کو سپورٹ نہیں کیا اور مخالف امیدواروں کی انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ ذرایع کے مطابق رپورٹ میں ذمے داروں کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بلدیاتی ماہرین کے مطابق شکست کے متعدد اسباب کا اعتراف ایک خوش آیند جمہوری رویہ ہے، پی ٹی آئی کے پارٹی ذرایع نے محاسبہ کی ایک خوشگوار روایت کا آغاز کیا ہے، وزیر اعظم عمران خان نے کے پی کے میں تحریک انصاف کی شکست کو خاصا سنجیدہ لیا ہے ، شاید انھیں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اس طرح کی شکست کا اندازہ اور توقع نہ تھی۔
خیبر پختون خوا میں مسلسل دو ٹرم کی جیت نے پی ٹی آئی کی مرکزی اور صوبائی قیادت زمینی حقائق سے بے خبر رہی ، وزیراعظم عمران خان کو اصل صورت سے آگاہی نہیں کیا گیا۔اصل معاملہ کیا ہے، اس کے بارے میں تحریک انصاف کے پالیسی ساز کی کچھ وضاحت کرسکتے ہیں، بہرحال لگتایہی ہے کہ پارٹی کی سینئر قیادت غیر جمہوری روایات کے دباؤ سے نہ نکل سکی، بعض تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی قیادت نے اقتدار کے نئے تجربے کو مسلمہ جمہوری تجربات سے مربوط کرنے اور ملک کی روایتی سیاست کو موروثی سیاست کے ساتھ انتخابی مطابقت اور جمہوری تضادات اور سیاسی اختلافات کی یلغار کو سمجھنے میں سیاسی، فکری، انتظامی اور تربیت کی ضرورت کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔
حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت نظام میں سیاسی جماعتوں میں سیاسی کیڈر کی فطری تربیت پر زور دیا جاتا ہے، کمیونسٹ اور دینی جماعتیں کارکنوں کی تربیت کے لیے نظریاتی شعبے کو مضبوط بناتی ہیں، ان کی فکری، نظریاتی اور شعوری تربیت کے لیے فورمز کا اہتمام کرکے حالات حاضرہ اور عالمی انداز نظر سے گہری آشنائی کی بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کارکنوں کے لیے جس جمہوری وفکری تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، اسے سرے سے نظر انداز کیا گیا ہے،آج پاکستان کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی قیادت نے تنظیمی سطح پر کارکنوں کی سیاسی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں کیا، ایسا اس لیے ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کی قیادت خود کسی جمہوری آئیڈیالوجی سے ہم آہنگ نہیں ہے، اس لیے وہ کارکنوں کی تربیت پر کوئی توجہ نہیں دیتی اور جوڑ توڑ اور سازش کو ہی سیاست سمجھتی ہے۔ مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی غیرنظریاتی قیادت ہمیشہ کمزور ہوتی ہے اور اس کی ترجیح مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔
اس کمزوری کی وجہ سے ملکی سیاست کو شدت آمیز سیاسی رویے کے وائرس نے اپنے حصار میں لیا اور اب یہ حصار بہت مضبوط ہوچکا ہے، بلاشبہ جمہوری و انتخابی شعور و فکر کو سیاسی تربیت سے جوڑنے کے بعد ہی سیاسی جماعت میں ڈسپلن اور نظم و ضبط کے مختلف مدارج خوش اسلوبی سے طے کیے جاتے ہیں، قیادت کی ہئیرارکی، درجہ بہ درجہ انتظامی اور پارٹی کے اندر جمہوری رویوں کو مربوط شکل دینے کے اہداف طے کرنے پڑتے ہیں، جمہوری سیاسی جماعتیں آزادی اظہار، معاشرتی رواداری، اسپورٹس مین شپ اور سیاسی بصیرت کے تقاضوں سے صرف نظر کے معاملات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتیں کیونکہ قیادت اس چیز کی مانیٹرنگ کرتی ہے۔
پارٹی ڈسپلن کو ہر قیمت پر انتشار، تشدد، ہڑبونگ سے محفوظ رکھنے کے لیے پارٹی کے اندر جمہوریت کو برقرار کھنے کے لیے کارکنوں پر ذمے داریوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے اور انتخابات کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے کی سیاسی چابک دستی، سیاسی اسپرٹ اور داخلی شرافت، اخلاقی ہدایات کو پیش نظر رکھنے کی کوششیں پارٹی قیادت کا بنیادی فریضہ ہوتا ہے، بہر کیف پی تی آئی کے فہمیدہ حلقوں نے جب بھی پارٹی کی بالائی قیادت کی توجہ کے لیے پارٹی کارکنوں، رہنماؤں اور سینئر کارکنوں کی وجہ انتظامی تربیت کے مسائل پر غور کرنے کے لیے اجلاس بلائے تو قیادت سے جو بنیادی غلطی ہوئی اس کی سزا پارٹی کو ملی جو فطری ہے۔
وزیر اعظم نے جن خیالات اور اسباب کا حوالہ دیا ہے دنیا بھر میں انتخابی شکست پر اعترافات اور پارٹی کی فاش غلطیوں پر سینئر قیادت کی طرف سے اسی قسم کے تطہیری بیانات جاری ہوتے ہیں اس کے بعد پارٹی کی سنجیدہ لیڈرشپ غلطیوں کا جائزہ لیتی ہے اور آیندہ ایسی غلطیوں سے بچنے کے لیے تجربات سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بلدیاتی انتخابات میں شکست کو ایک معمول کی ہزیمت سے زیادہ پارٹی کی ساکھ، مقبولیت اور سیاسی ارتقا کی سمت سازی سے جوڑ دیا ہے، گزشتہ تین سال سے زیادہ عرصہ کسی بھی سیاسی جماعت کی انتخابی کارکردگی کے لیے اہم ہوتے ہیں اور پی ٹی آئی کو اس شکست سے سبق سیکھنے کی اس لیے ضرورت ہے کہ اس کی اپوزیشن میں شامل جماعتیں اس کی مخالفت روایتی انداز میں کرنے کی قائل نہیں، پی ڈی ایم کی تنظیم اور کارکردگی پر اعتراض کی گنجائش موجود ہے، لیکن اپوزیشن پہلے دن سے پی ٹی آئی کی سیاست، طرز حکمرانی اور عوام کے مسائل سے لاتعلقی کے ایک اسٹائل پر کاربند رہی ہے۔
پارٹی قیادت کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ پختونخوا بلدیاتی الیکشن میں مہنگائی کے اثرات نے بنیادی کردار ادا کیا، پارٹی کی فعال قیادت کے ایک حصہ کا کہنا ہے کہ 1918 کی مقبولیت کو برقرار رکھنے کی کوشش ہوتی تو پارٹی کو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے، لیکن حقیقت اس سے زیادہ اہم حقائق کی طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔
ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ چناؤ کے انتخاب میں غلطی کے باعث بلدیاتی الیکشن میں شکست کا سامنا ہوا، لیکن عمران خان کو اس حقیقت کا علم ہوگا کہ سیاست اور انتخابات میں پارٹی کے امیدوار بنیادی پارٹی میسج کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں، پولنگ میں کمزور امیدوار کے ساتھ کون الیکشن جیتنے کی امید کے ساتھ ووٹنگ میں بریک تھرو کرنے کی آس لگاتا ہے؟ پارٹی کی ہائی کمان کو اس ناکامی کا جائزہ لے کر کارروائی کرنی ہوگی کہ امیدواروں کے چناؤ میں ایسی غیر ذمے داری اور غلطی کس طرح ممکن ہوئی، کیا کیڈر کی دیکھ بھال پارٹی کے سنجیدہ لوگوں کے ہاتھ میں نہ تھی، ٹکٹوں کی تقسیم میں کس نے رشتے دار بھرتی کرائے؟
بلدیاتی انتخابات جمہوریت کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں، جمہوریت کی اساس مقامی حکومتیں ہوتی ہیں، یہی نوجوان قیادت، نیا پارٹی خون بن کر سیاست کو فرسودگی، جمود اور فکری و سیاسی سوچ کی انقلابیت اور عوام دوستی کے مین اسٹریم تک لے جانے کا بنیادی وسیلہ بنتا ہے، پی ٹی آئی کو اگر آیندہ الیکشن میں ایک تغیر آمیز کامیابی کی طرف قدم بڑھانا ہے تو اسے پارٹی کو سیاسی اور بلدیاتی الیکشن اور سیاسی تربیت کے لیے پیراڈائم سوچ لانے کے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے، پارٹی یقینی طور پر کامیابی کے لیے نالائقی کا الزام سر پر نہیں لے گی۔
پی ٹی آئی کو بلدیاتی الیکشن کی شکست میں اپنی مجموعی کارکردگی کا ادراک کرنا ہوگا، یہ شکست پارٹی کی مکمل ہزیمت ہے، اسے پختونخوا سے حکومتی سطح پر دو بار کامیابی کے دعوؤں کے ساتھ ہار ہوئی ہے، اس لیے یہ سیاسی طور پر ایک بڑی بلدیاتی شکست ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگ نجی محفلوں میں برملا کہتے ہیں کہ وہ سارے لوگ جو پی ٹی آئی میں محض وزارتیں اور عہدے لے کے بیٹھ گئے انھوں نے ہی پارٹی کو شکست دلوائی ہے۔
وہ اپنی ذمے داری قبول کریں اور ان بے لوث، محنتی اور مخلص کارکنوں کے لیے جگہ خالی کریں جو پارٹی کی نیک نامی اور ساکھ کے بچاؤ میں ممد ومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ ملک کے سینئر سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے تبدیلی کے نعرے کے جھنڈے تلے قوم کو ایک نئی انتظامیہ، شفاف ترین حکمرانی، بھرپور احتساب اور بے داغ جمہوریت دینے کا عہد کیا تھا، قوم سسٹم سے مایوس ہوئی ہے۔
وہ امید بھرے مستقبل اور زندگی کے قریب ترین حکمرانی کی منتظر ہے، وزیر اعظم اس طرف تیزی سے قدم بڑھائیں، غربت، بیروزگاری اور مہنگائی سے بالاتر سیاسی وسماجی نظام عوام کے دکھوں کا مداوا کرسکے گا، چہرے نہ بدلیں، نظام کو بدلنے کی سمت پیش قدمی کرکے قوم کو نیا پیغام دینے کی ضرورت ہے۔ویسے بھی صرف حکمران تحریک انصاف کو ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ ن 'پیپلز پارٹی' اے این پی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو جوڑ توڑ اور دھڑے بندی کی سیاست سے نکل کر جمہوری اقدار کے فلسفے کے مطابق اپنے کارکنوں کی تربیت کرنی چاہیے۔
موجودہ سیاسی قیادت کو خود بھی جمہوری اقدار 'اصول اور فلسفے کے بارے میں تربیتی ورکشاپس میں شرکت کرنی چاہیے تاکہ انھیں بھی معلوم ہو سکے کہ سیاسی جماعت کی قیادت کے فرائض اور ذمے داریاں کیا ہوتی ہیں۔یہی کرنے کا اصل کام ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں مہنگائی کے ساتھ اندرونی اختلافات کو شکست کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ بعض ارکان اسمبلی نے پارٹی کے نامزد امیدواروں کو سپورٹ نہیں کیا اور مخالف امیدواروں کی انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ ذرایع کے مطابق رپورٹ میں ذمے داروں کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بلدیاتی ماہرین کے مطابق شکست کے متعدد اسباب کا اعتراف ایک خوش آیند جمہوری رویہ ہے، پی ٹی آئی کے پارٹی ذرایع نے محاسبہ کی ایک خوشگوار روایت کا آغاز کیا ہے، وزیر اعظم عمران خان نے کے پی کے میں تحریک انصاف کی شکست کو خاصا سنجیدہ لیا ہے ، شاید انھیں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اس طرح کی شکست کا اندازہ اور توقع نہ تھی۔
خیبر پختون خوا میں مسلسل دو ٹرم کی جیت نے پی ٹی آئی کی مرکزی اور صوبائی قیادت زمینی حقائق سے بے خبر رہی ، وزیراعظم عمران خان کو اصل صورت سے آگاہی نہیں کیا گیا۔اصل معاملہ کیا ہے، اس کے بارے میں تحریک انصاف کے پالیسی ساز کی کچھ وضاحت کرسکتے ہیں، بہرحال لگتایہی ہے کہ پارٹی کی سینئر قیادت غیر جمہوری روایات کے دباؤ سے نہ نکل سکی، بعض تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی قیادت نے اقتدار کے نئے تجربے کو مسلمہ جمہوری تجربات سے مربوط کرنے اور ملک کی روایتی سیاست کو موروثی سیاست کے ساتھ انتخابی مطابقت اور جمہوری تضادات اور سیاسی اختلافات کی یلغار کو سمجھنے میں سیاسی، فکری، انتظامی اور تربیت کی ضرورت کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔
حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت نظام میں سیاسی جماعتوں میں سیاسی کیڈر کی فطری تربیت پر زور دیا جاتا ہے، کمیونسٹ اور دینی جماعتیں کارکنوں کی تربیت کے لیے نظریاتی شعبے کو مضبوط بناتی ہیں، ان کی فکری، نظریاتی اور شعوری تربیت کے لیے فورمز کا اہتمام کرکے حالات حاضرہ اور عالمی انداز نظر سے گہری آشنائی کی بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کارکنوں کے لیے جس جمہوری وفکری تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، اسے سرے سے نظر انداز کیا گیا ہے،آج پاکستان کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی قیادت نے تنظیمی سطح پر کارکنوں کی سیاسی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں کیا، ایسا اس لیے ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کی قیادت خود کسی جمہوری آئیڈیالوجی سے ہم آہنگ نہیں ہے، اس لیے وہ کارکنوں کی تربیت پر کوئی توجہ نہیں دیتی اور جوڑ توڑ اور سازش کو ہی سیاست سمجھتی ہے۔ مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی غیرنظریاتی قیادت ہمیشہ کمزور ہوتی ہے اور اس کی ترجیح مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔
اس کمزوری کی وجہ سے ملکی سیاست کو شدت آمیز سیاسی رویے کے وائرس نے اپنے حصار میں لیا اور اب یہ حصار بہت مضبوط ہوچکا ہے، بلاشبہ جمہوری و انتخابی شعور و فکر کو سیاسی تربیت سے جوڑنے کے بعد ہی سیاسی جماعت میں ڈسپلن اور نظم و ضبط کے مختلف مدارج خوش اسلوبی سے طے کیے جاتے ہیں، قیادت کی ہئیرارکی، درجہ بہ درجہ انتظامی اور پارٹی کے اندر جمہوری رویوں کو مربوط شکل دینے کے اہداف طے کرنے پڑتے ہیں، جمہوری سیاسی جماعتیں آزادی اظہار، معاشرتی رواداری، اسپورٹس مین شپ اور سیاسی بصیرت کے تقاضوں سے صرف نظر کے معاملات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتیں کیونکہ قیادت اس چیز کی مانیٹرنگ کرتی ہے۔
پارٹی ڈسپلن کو ہر قیمت پر انتشار، تشدد، ہڑبونگ سے محفوظ رکھنے کے لیے پارٹی کے اندر جمہوریت کو برقرار کھنے کے لیے کارکنوں پر ذمے داریوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے اور انتخابات کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے کی سیاسی چابک دستی، سیاسی اسپرٹ اور داخلی شرافت، اخلاقی ہدایات کو پیش نظر رکھنے کی کوششیں پارٹی قیادت کا بنیادی فریضہ ہوتا ہے، بہر کیف پی تی آئی کے فہمیدہ حلقوں نے جب بھی پارٹی کی بالائی قیادت کی توجہ کے لیے پارٹی کارکنوں، رہنماؤں اور سینئر کارکنوں کی وجہ انتظامی تربیت کے مسائل پر غور کرنے کے لیے اجلاس بلائے تو قیادت سے جو بنیادی غلطی ہوئی اس کی سزا پارٹی کو ملی جو فطری ہے۔
وزیر اعظم نے جن خیالات اور اسباب کا حوالہ دیا ہے دنیا بھر میں انتخابی شکست پر اعترافات اور پارٹی کی فاش غلطیوں پر سینئر قیادت کی طرف سے اسی قسم کے تطہیری بیانات جاری ہوتے ہیں اس کے بعد پارٹی کی سنجیدہ لیڈرشپ غلطیوں کا جائزہ لیتی ہے اور آیندہ ایسی غلطیوں سے بچنے کے لیے تجربات سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بلدیاتی انتخابات میں شکست کو ایک معمول کی ہزیمت سے زیادہ پارٹی کی ساکھ، مقبولیت اور سیاسی ارتقا کی سمت سازی سے جوڑ دیا ہے، گزشتہ تین سال سے زیادہ عرصہ کسی بھی سیاسی جماعت کی انتخابی کارکردگی کے لیے اہم ہوتے ہیں اور پی ٹی آئی کو اس شکست سے سبق سیکھنے کی اس لیے ضرورت ہے کہ اس کی اپوزیشن میں شامل جماعتیں اس کی مخالفت روایتی انداز میں کرنے کی قائل نہیں، پی ڈی ایم کی تنظیم اور کارکردگی پر اعتراض کی گنجائش موجود ہے، لیکن اپوزیشن پہلے دن سے پی ٹی آئی کی سیاست، طرز حکمرانی اور عوام کے مسائل سے لاتعلقی کے ایک اسٹائل پر کاربند رہی ہے۔
پارٹی قیادت کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ پختونخوا بلدیاتی الیکشن میں مہنگائی کے اثرات نے بنیادی کردار ادا کیا، پارٹی کی فعال قیادت کے ایک حصہ کا کہنا ہے کہ 1918 کی مقبولیت کو برقرار رکھنے کی کوشش ہوتی تو پارٹی کو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے، لیکن حقیقت اس سے زیادہ اہم حقائق کی طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔
ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ چناؤ کے انتخاب میں غلطی کے باعث بلدیاتی الیکشن میں شکست کا سامنا ہوا، لیکن عمران خان کو اس حقیقت کا علم ہوگا کہ سیاست اور انتخابات میں پارٹی کے امیدوار بنیادی پارٹی میسج کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں، پولنگ میں کمزور امیدوار کے ساتھ کون الیکشن جیتنے کی امید کے ساتھ ووٹنگ میں بریک تھرو کرنے کی آس لگاتا ہے؟ پارٹی کی ہائی کمان کو اس ناکامی کا جائزہ لے کر کارروائی کرنی ہوگی کہ امیدواروں کے چناؤ میں ایسی غیر ذمے داری اور غلطی کس طرح ممکن ہوئی، کیا کیڈر کی دیکھ بھال پارٹی کے سنجیدہ لوگوں کے ہاتھ میں نہ تھی، ٹکٹوں کی تقسیم میں کس نے رشتے دار بھرتی کرائے؟
بلدیاتی انتخابات جمہوریت کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں، جمہوریت کی اساس مقامی حکومتیں ہوتی ہیں، یہی نوجوان قیادت، نیا پارٹی خون بن کر سیاست کو فرسودگی، جمود اور فکری و سیاسی سوچ کی انقلابیت اور عوام دوستی کے مین اسٹریم تک لے جانے کا بنیادی وسیلہ بنتا ہے، پی ٹی آئی کو اگر آیندہ الیکشن میں ایک تغیر آمیز کامیابی کی طرف قدم بڑھانا ہے تو اسے پارٹی کو سیاسی اور بلدیاتی الیکشن اور سیاسی تربیت کے لیے پیراڈائم سوچ لانے کے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے، پارٹی یقینی طور پر کامیابی کے لیے نالائقی کا الزام سر پر نہیں لے گی۔
پی ٹی آئی کو بلدیاتی الیکشن کی شکست میں اپنی مجموعی کارکردگی کا ادراک کرنا ہوگا، یہ شکست پارٹی کی مکمل ہزیمت ہے، اسے پختونخوا سے حکومتی سطح پر دو بار کامیابی کے دعوؤں کے ساتھ ہار ہوئی ہے، اس لیے یہ سیاسی طور پر ایک بڑی بلدیاتی شکست ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگ نجی محفلوں میں برملا کہتے ہیں کہ وہ سارے لوگ جو پی ٹی آئی میں محض وزارتیں اور عہدے لے کے بیٹھ گئے انھوں نے ہی پارٹی کو شکست دلوائی ہے۔
وہ اپنی ذمے داری قبول کریں اور ان بے لوث، محنتی اور مخلص کارکنوں کے لیے جگہ خالی کریں جو پارٹی کی نیک نامی اور ساکھ کے بچاؤ میں ممد ومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ ملک کے سینئر سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے تبدیلی کے نعرے کے جھنڈے تلے قوم کو ایک نئی انتظامیہ، شفاف ترین حکمرانی، بھرپور احتساب اور بے داغ جمہوریت دینے کا عہد کیا تھا، قوم سسٹم سے مایوس ہوئی ہے۔
وہ امید بھرے مستقبل اور زندگی کے قریب ترین حکمرانی کی منتظر ہے، وزیر اعظم اس طرف تیزی سے قدم بڑھائیں، غربت، بیروزگاری اور مہنگائی سے بالاتر سیاسی وسماجی نظام عوام کے دکھوں کا مداوا کرسکے گا، چہرے نہ بدلیں، نظام کو بدلنے کی سمت پیش قدمی کرکے قوم کو نیا پیغام دینے کی ضرورت ہے۔ویسے بھی صرف حکمران تحریک انصاف کو ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ ن 'پیپلز پارٹی' اے این پی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو جوڑ توڑ اور دھڑے بندی کی سیاست سے نکل کر جمہوری اقدار کے فلسفے کے مطابق اپنے کارکنوں کی تربیت کرنی چاہیے۔
موجودہ سیاسی قیادت کو خود بھی جمہوری اقدار 'اصول اور فلسفے کے بارے میں تربیتی ورکشاپس میں شرکت کرنی چاہیے تاکہ انھیں بھی معلوم ہو سکے کہ سیاسی جماعت کی قیادت کے فرائض اور ذمے داریاں کیا ہوتی ہیں۔یہی کرنے کا اصل کام ہے۔