قافلہ سالارِ اردو

سالانہ اردو کانفرنس کا تخیل آرٹس کونسل کراچی کے صدر محمد احمد شاہ کی تنوع پسند طبیعت کا ثمر ہے


Shakeel Farooqi December 24, 2021
[email protected]

BRUSSELS: ابھی چند روز قبل شہر قائد کراچی میں جوکبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا اور جسے گردش حالات نے شہر ناپرساں بنادیا ہے۔ چودہویں عالمی اردو کانفرنس کا نہایت شاندار انعقاد ہوا ، جس کا افتتاح وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے دست مبارک سے کرکے 1972 میں ہونے والے سندھ کے لسانی فسادات کے نتیجے میں لگنے والے خونی داغ دھو دیے۔وزیر اعلیٰ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ '' انتہا پسندی کے ماحول کو ختم کرنے کے لیے ادیب اور شاعر بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں۔''

سالانہ اردو کانفرنس کا تخیل آرٹس کونسل کراچی کے صدر محمد احمد شاہ کی تنوع پسند طبیعت کا ثمر ہے جس کا مقصد اردو زبان کو فروغ دینا ہے۔ موصوف نے جب سے آرٹس کونسل کی صدارت کا منصب سنبھالا ہے ، تب سے وہ اس ادارے کی کایا پلٹنے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ کہاوت مشہور ہے کہ اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا ، چنانچہ احمد شاہ نے اپنی معاونت کے لیے مخلص اور بے لوث متحرک رضاکاروں کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو ہر وقت مستعد اور تیار رہتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ماضی کی آرٹس کونسل اور موجودہ آرٹس کونسل میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔

کورونا کی وبا کی وجہ سے بظاہر ناممکن لگتا تھا کہ چودہویں عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد شاید ممکن نہ ہوسکے لیکن کراچی آرٹ کونسل نے اپنے ہدف کو حاصل کرکے ثابت کردیا کہ ہمت مرداں مدد خدا۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ یہ کانفرنس ایسے وقت پر منعقد ہوئی اور اس میں ہندوستان کے ہندو اہل قلم نے بھی شرکت کی جب کہ بھارت میں انتہا پسند جماعت بی جے پی کی حکومت مسلمانوں اور اردو زبان کے خلاف شدید تعصب پسندی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

اگرچہ یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ زبان کا نہ ہی کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ کوئی قومیت لیکن بعض تعصب پسندوں نے اس حقیقت کو جھٹلانے کی مذموم کوشش کی ہے ، جس کی وجہ سے لسانی تعصبات کو ہوا ملی ہے۔ اس کی سب سے بڑی اور بری مثال بھارت کی ہے جہاں اردو زبان زیر عتاب ہے۔ تعصب پسندی کی عینک سے دیکھنے والے ان عقل کے اندھوں کو بھلا کون بتائے کہ منشی پریم چند، رتن ناتھ سرشار اور دیا شنکر نسیم، رام بابو سکسینہ ، برج موہن چکبست اور فراق گورکھ پوری، کرشن چندر جیسے مشاہیر اردو اگر ہندو نہیں تھے تو پھرکون تھے؟

ہندوستان کے ایک جریدے ڈی این اے نیوز پیپر میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی موجودہ حکمراں جماعت بی جے پی کی نظریاتی مادر جماعت آرایس ایس یکم جماعت سے لے کر بارہویں جماعت تک کے نصاب سے اردو اور فارسی الفاظ کے اخراج کے لیے زور لگا رہی ہے تاکہ ہندی زبان کو خالصتاً سنسکرت کے سانچے میں ڈھال دیا جائے۔ اس متعصبانہ تحریک کا مقصد ایمان ، رجحان ، شدت اور طاقت جیسے اردو الفاظ کو ہندی سے خارج کرنا ہے۔

ابتدائی ادوار میں اردو زبان ہندوی اور ہندوستانی کہلاتی تھی۔ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے لال قلعہ کے اطراف جس شہر کو آباد کرنے کا سوچا وہ پہلے شاہ جان آباد اور بعد میں شہر اردو معلی یا The city of the exalted camp کہلایا۔انیسویں صدی کی ابتداء کے آس پاس ایک سرجن جس کا نام گل کرسٹ تھا، اس نے Dictionary of Hindustani کے نام سے ایک لغت ترتیب دی، جس کی دو رسم الخطوں ایک اردو اور دوسری دیوناگری کی اشاعت کی گئی اور پھر یہاں سے ایک ایسی زبان کی داغ بیل پڑی جو اردو کہلائی۔

برصغیر کی تحریک آزادی کا مقبول ترین نعرہ تھا '' انقلاب زندہ باد'' جو بلا لحاظ مذہب و ملت ہر ایک کی زبان پر تھا۔ اب اگر لسانی تعصب کی بناء پر اس نعرے کو آزادی کی تحریک سے نکال دیا جائے تو یہ تحریک کی روح کوہی نکال دینے کے مترادف ہوگا۔ لسانی تعصب سے بالاتر اردو زبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اتنی وسیع اورکشادہ ہے کہ کسی بھی زبان کے لفظ کو اپنے اندر اس طرح جذب کر لیتی ہے کہ وہ گھل مل کر اسی کا جزو بن جاتا ہے۔

لسانی تعصب سے بالاتر اردو زبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اتنی وسیع اورکشادہ ہے کہ کسی بھی زبان کے لفظ کو اپنے اندر اس طرح جذب کر لیتی ہے کہ وہ گھل مل کر اسی کا جزو بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ سادہ سا جملہ ملاحظہ فرمائیں ''ایک مکان میں ایک گورا چٹا آدمی اور ایک ننھا منا سا بچہ بیٹھے تھے۔'' اس چھوٹے سے جملے میں مکان عربی سے لیا گیا ہے اور چٹا پنجابی سے آیا ہے، ننھا گجراتی ہے، بچہ فارسی سے آیا ہے۔ ان الفاظ کو اگر نکال دیا جائے تو جملہ ہی کیا بنے گا۔

تو جناب یہ ہے زبان اردو کا کمال۔ اب ملاحظہ فرمائیں شاعر انقلاب جوشؔ ملیح آبادی کا خراج تحسین جو انھوں نے زبان اردو کو پیش کیا ہے:

ندی کا موڑ، چشمہ شیریں کا زیر و بم

چادر شب نجوم کی، شبنم کا رخت نم

موتی کی آب، گل کی مہک، ماہ نو کا خم

ان سب کے امتزاج سے پیدا ہوئی ہے تو

کتنے حسیں افق سے ہویدا ہوئی ہے تو

جوشؔ کی نظم کے درج بالا اشعارکا ایک ایک لفظ عظمت اردوکا ترجمان ہے۔ استاد داغؔ دہلوی تو اس سے بھی پہلے بڑے دھڑلے سے یہ فرما چکے ہیں:

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

حقیقت بھی یہی ہے کہ آج سارے عالم میں اردو کا طوطی بول رہا ہے۔ آپ کہیں بھی چلے جائیے اردو کو وہاں آپ موجود پائیں گے۔ حد تو یہ ہے کہ چین اور امریکا جیسے ملکوں میں بھی اردو پڑھنے والوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے جس کی مثال ایک امریکی شاعر میکس بروس کے یہ اشعار ہیں جن کا تخلص نادر ہے:

وہ شوخ انتقام کا خوگر نہیں رہا

شیشہ گروں کے شہر میں پتھر نہیں رہا

کیا تیغ جگمگاتی تھی قاتل کے ہاتھ میں

اب اس کی آستیں میں بھی خنجر نہیں رہا

دشت جنوں ہی منزل مقصود لے چلے

راہ وفا میں اب کوئی رہبر نہیں رہا

نادرؔ تو کیوں سنبھل کے قدم رکھتا ہے یہاں

کیا وہ جنون سا تیرے اندر نہیں رہا

حسن کلام کے علاوہ نادرؔ صاحب کا لب و لہجہ بھی ایسا ہے کہ سننے والے عش عش کر اٹھیں۔

جس طرح بابائے اردو ناصرف انجمن ساز تھے بلکہ اپنی ذات میں بھی انجمن تھے ٹھیک اسی طرح سے محمد احمد شاہ بھی اردو کانفرنس کے حوالے سے اپنی شناخت آپ ہیں اور '' قافلہ سالار اردو'' کہلانے کے مستحق ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔