ن لیگ کی مشکلات میں اضافہ
ایم کیو ایم عوام کے درمیان، پی پی پی کی سرگرمیاں محدود
عام انتخابات کے بعد ملک بھر کے عوام کی طرح سکھر میں بھی لوگوں کو مسلم لیگ ن کی حکومت سے بہت سی امیدیں تھیں۔ وہ توقع کر رہے تھے کہ نئی جمہوری حکومت اپنے وعدوں کے مطابق ان کے معاشی اور سماجی حالات بہتر بنائے گی اور وفاق صوبے بھر میں ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کرنے کے ساتھ دیگر مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرے گا، لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
پچھلے دنوں سانحۂ مستونگ کے خلاف سکھر، خیرپور، گھوٹکی، سمیت بالائی سندھ میں مجلس وحدت المسلمین، شیعہ ایکشن کمیٹی، اصغریہ و امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، شیعہ علما کونسل اور دیگر تنظیمیں سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل آئیں۔ دہشت گردی کے واقعے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر سکھر اور آس پاس کے علاقوں میں سوگ کی فضا تھی اور مختلف حلقوں کی جانب سے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ دوسری طرف سندھ کے حقوق کے لیے سرگرم ایک قوم پرست جماعت کی جانب سے تحفظ پاکستان آرڈیننس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا گیا اور بالائی سندھ کے مختلف علاقوں میں یکے بعد دیگرے کریکر دھماکوں سے شہریوں میں خوف پیدا ہو گیا۔
یہ پہلا موقع نہیں، جب قوم پرست جماعت کی جانب سے احتجاج اور ہڑتال کے دوران جلاؤ گھیراؤ نہ کیا گیا ہو۔ قوم پرست جماعت سے تعلق رکھنے والے ذمہ داران نے وفاقی حکومت، متحدہ کے قائد الطاف حسین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور سندھ کی تقسیم کے خلاف کھڑے ہونے کے عزم کا اظہار کیا۔
سکھر میں وفاق کی سیاست کرنے والی بڑی جماعتوں میں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ہی انتخابات میں کام یابی حاصل کرتی رہی ہیں، لیکن قوم پرست جماعت کا کوئی بھی نمائندہ سیاسی اکھاڑے سے کام یاب نہیں گیا۔ تاہم قوم پرست سیاست کے مظاہروں اور احتجاج سے عوام میں خوف اور انہیں پریشانی ضرور ہوئی ہے۔ سندھ کے ایشوز پر قوم پرستوں کے احتجاج اور اس دوران بدنظمی پیدا کرنے کی کوشش پر صوبے میں برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے عوام کی توقع کے مطابق کارروائی نہیں کی گئی۔ سیاسی مبصرین اسے حالات کے مطابق خاموشی اختیار کرنے کی پالیسی قرار دے رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی نہ کسی ایشو پر احتجاج اور مظاہروں کے دوران جلاؤ گھیراؤ اور دھرنا دے کر ٹریفک معطل کر دینے کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔ اس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار کہیں نظر نہیں آتے اور عوام کو شرپسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن میں ضم ہونے والی سندھ نیشنل فرنٹ کے ذمہ دار اب اس جماعت سے علیحدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلا قدم اٹھاتے ہوئے انہوں نے اپنے پارٹی عہدوں سے کنارہ کشی اختیار کی ہے اور اس طرح پارٹی کی مرکزی قیادت پر اپنی ناراضی ظاہر کردی ہے۔ اگر نیشنل فرنٹ کے خدشات دور نہ ہوئے تو آنے والے دنوں میں سندھ کی سیاست میں واضح تبدیلی نظر آئے گی۔ ن لیگ سندھ میں اپنی ساکھ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور مختلف علاقوں کے بااثر سیاست دانوں کو اپنے کیمپ میں شامل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ تاہم سندھ نیشنل فرنٹ کی علیحدگی کی صورت میں ان کوششوں کو زبردست دھچکا لگ سکتا ہے۔
سکھر میں ذرایع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ن لیگ کے راہ نما سردار ممتاز علی بھٹو کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ کو چھوڑا نہیں، صرف عہدوں سے استعفے دیے ہیں، علیحدگی کا فیصلہ کرنا پڑا تو سابق سندھ نیشنل فرنٹ کی ایگزیکٹیو کمیٹی اور سینٹرل کمیٹی کے اراکین سے مشورہ کریں گے۔
سندھ کے عوام نے گذشتہ ادوار میں بہت مار کھائی، سندھ نیشنل فرنٹ کے مسلم لیگ سے انضمام کے بعد لوگوں نے ہم سے بڑی امیدیں وابستہ کرلی تھیں، لیکن وفاقی حکومت نے سندھ کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا، ہم پر مسائل کے حل کے لیے لوگوں کا شدید دباؤ تھا، اس دباؤ میں کمی کے لیے ن لیگ کے عہدوں سے استعفے دینے کا فیصلہ کیا۔ سندھ میں کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہیں تھا، مرکزی حکومت سے مسائل کو حل کرانے کی کوشش کی، لیکن مایوسی ہوئی، ن لیگ کی قیادت نے اب تک ہم سے رابطہ نہیں کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے صدارت یا گورنری کے لیے مسلم لیگ ن سے سمجھوتا نہیں کیا تھا بلکہ اپنے اصولوں اور نظریات کے مطابق ملکی مفاد میں ن لیگ سے انضمام کیا، انضمام کے وقت جو معاہدہ کیا گیا تھا، ن لیگ نے اس کی خلاف ورزی کی، انتخابی مہم کے دوران علی بابا اور چالیس چوروں کا احتساب کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اب ہمیں گٹھ جوڑ دکھائی دے رہا ہے، سندھ میں دھاندلی کے ذریعے پی پی پی کی حکومت قائم کی گئی ہے۔ سردار ممتاز بھٹو نے کہا کہ الطاف حسین کو ہزاروں میل دور بیٹھ کر سندھ کی تقسیم کی باتیں کرنے کا کوئی حق نہیں۔ الطاف حسین برطانوی شہریت چھوڑ کر میدان میں آئیں، ملک سے باہر بیٹھ کر لوگوں کو لڑانے کی سازش نہ کریں۔
بلدیاتی انتخابات کی تاریخ میں توسیع کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے رکن صوبائی اسمبلی محمد سلیم بندھانی، دیوان چند چاؤلہ نے اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے مختلف یونین کونسلوں میں معززین اور تاجروں سے ملاقات کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ایم کیو ایم کے راہ نما ملاقاتوں کے دوران انہیں یقین دلارہے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ عوامی مسائل پر آواز بلند کرنے اور ان کے حل کی کوشش کرنے کے لیے اپنا اقتدار میں ہونا ضروری نہیں سمجھتی بلکہ ہر موقع اور ہر صورت میں عوام کے مفاد میں آگے آتی ہے۔
ایم کیو ایم کے منتخب نمائندے شہریوں کے مسائل معلوم کرکے موقع پر ہی اعلیٰ افسران خصوصاً نساسک، میونسپل کارپوریشن کے ذمہ داران کو ہدایات دے رہے ہیں، جس پر شہری مطمئن نظر آرہے ہیں۔ دوسری طرف سکھر کو پیپلز پارٹی کا قلعہ قرار دینے والے پارٹی کے مقامی راہ نماؤں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور پارٹی کے ذمہ داران کی بڑی تعداد اپنا زیادہ تر وقت اسلام آباد، کراچی میں گزار رہے ہیں۔
پچھلے دنوں سانحۂ مستونگ کے خلاف سکھر، خیرپور، گھوٹکی، سمیت بالائی سندھ میں مجلس وحدت المسلمین، شیعہ ایکشن کمیٹی، اصغریہ و امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، شیعہ علما کونسل اور دیگر تنظیمیں سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل آئیں۔ دہشت گردی کے واقعے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر سکھر اور آس پاس کے علاقوں میں سوگ کی فضا تھی اور مختلف حلقوں کی جانب سے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ دوسری طرف سندھ کے حقوق کے لیے سرگرم ایک قوم پرست جماعت کی جانب سے تحفظ پاکستان آرڈیننس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا گیا اور بالائی سندھ کے مختلف علاقوں میں یکے بعد دیگرے کریکر دھماکوں سے شہریوں میں خوف پیدا ہو گیا۔
یہ پہلا موقع نہیں، جب قوم پرست جماعت کی جانب سے احتجاج اور ہڑتال کے دوران جلاؤ گھیراؤ نہ کیا گیا ہو۔ قوم پرست جماعت سے تعلق رکھنے والے ذمہ داران نے وفاقی حکومت، متحدہ کے قائد الطاف حسین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور سندھ کی تقسیم کے خلاف کھڑے ہونے کے عزم کا اظہار کیا۔
سکھر میں وفاق کی سیاست کرنے والی بڑی جماعتوں میں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ہی انتخابات میں کام یابی حاصل کرتی رہی ہیں، لیکن قوم پرست جماعت کا کوئی بھی نمائندہ سیاسی اکھاڑے سے کام یاب نہیں گیا۔ تاہم قوم پرست سیاست کے مظاہروں اور احتجاج سے عوام میں خوف اور انہیں پریشانی ضرور ہوئی ہے۔ سندھ کے ایشوز پر قوم پرستوں کے احتجاج اور اس دوران بدنظمی پیدا کرنے کی کوشش پر صوبے میں برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے عوام کی توقع کے مطابق کارروائی نہیں کی گئی۔ سیاسی مبصرین اسے حالات کے مطابق خاموشی اختیار کرنے کی پالیسی قرار دے رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی نہ کسی ایشو پر احتجاج اور مظاہروں کے دوران جلاؤ گھیراؤ اور دھرنا دے کر ٹریفک معطل کر دینے کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔ اس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار کہیں نظر نہیں آتے اور عوام کو شرپسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن میں ضم ہونے والی سندھ نیشنل فرنٹ کے ذمہ دار اب اس جماعت سے علیحدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلا قدم اٹھاتے ہوئے انہوں نے اپنے پارٹی عہدوں سے کنارہ کشی اختیار کی ہے اور اس طرح پارٹی کی مرکزی قیادت پر اپنی ناراضی ظاہر کردی ہے۔ اگر نیشنل فرنٹ کے خدشات دور نہ ہوئے تو آنے والے دنوں میں سندھ کی سیاست میں واضح تبدیلی نظر آئے گی۔ ن لیگ سندھ میں اپنی ساکھ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور مختلف علاقوں کے بااثر سیاست دانوں کو اپنے کیمپ میں شامل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ تاہم سندھ نیشنل فرنٹ کی علیحدگی کی صورت میں ان کوششوں کو زبردست دھچکا لگ سکتا ہے۔
سکھر میں ذرایع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ن لیگ کے راہ نما سردار ممتاز علی بھٹو کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ کو چھوڑا نہیں، صرف عہدوں سے استعفے دیے ہیں، علیحدگی کا فیصلہ کرنا پڑا تو سابق سندھ نیشنل فرنٹ کی ایگزیکٹیو کمیٹی اور سینٹرل کمیٹی کے اراکین سے مشورہ کریں گے۔
سندھ کے عوام نے گذشتہ ادوار میں بہت مار کھائی، سندھ نیشنل فرنٹ کے مسلم لیگ سے انضمام کے بعد لوگوں نے ہم سے بڑی امیدیں وابستہ کرلی تھیں، لیکن وفاقی حکومت نے سندھ کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا، ہم پر مسائل کے حل کے لیے لوگوں کا شدید دباؤ تھا، اس دباؤ میں کمی کے لیے ن لیگ کے عہدوں سے استعفے دینے کا فیصلہ کیا۔ سندھ میں کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہیں تھا، مرکزی حکومت سے مسائل کو حل کرانے کی کوشش کی، لیکن مایوسی ہوئی، ن لیگ کی قیادت نے اب تک ہم سے رابطہ نہیں کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے صدارت یا گورنری کے لیے مسلم لیگ ن سے سمجھوتا نہیں کیا تھا بلکہ اپنے اصولوں اور نظریات کے مطابق ملکی مفاد میں ن لیگ سے انضمام کیا، انضمام کے وقت جو معاہدہ کیا گیا تھا، ن لیگ نے اس کی خلاف ورزی کی، انتخابی مہم کے دوران علی بابا اور چالیس چوروں کا احتساب کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اب ہمیں گٹھ جوڑ دکھائی دے رہا ہے، سندھ میں دھاندلی کے ذریعے پی پی پی کی حکومت قائم کی گئی ہے۔ سردار ممتاز بھٹو نے کہا کہ الطاف حسین کو ہزاروں میل دور بیٹھ کر سندھ کی تقسیم کی باتیں کرنے کا کوئی حق نہیں۔ الطاف حسین برطانوی شہریت چھوڑ کر میدان میں آئیں، ملک سے باہر بیٹھ کر لوگوں کو لڑانے کی سازش نہ کریں۔
بلدیاتی انتخابات کی تاریخ میں توسیع کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے رکن صوبائی اسمبلی محمد سلیم بندھانی، دیوان چند چاؤلہ نے اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے مختلف یونین کونسلوں میں معززین اور تاجروں سے ملاقات کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ایم کیو ایم کے راہ نما ملاقاتوں کے دوران انہیں یقین دلارہے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ عوامی مسائل پر آواز بلند کرنے اور ان کے حل کی کوشش کرنے کے لیے اپنا اقتدار میں ہونا ضروری نہیں سمجھتی بلکہ ہر موقع اور ہر صورت میں عوام کے مفاد میں آگے آتی ہے۔
ایم کیو ایم کے منتخب نمائندے شہریوں کے مسائل معلوم کرکے موقع پر ہی اعلیٰ افسران خصوصاً نساسک، میونسپل کارپوریشن کے ذمہ داران کو ہدایات دے رہے ہیں، جس پر شہری مطمئن نظر آرہے ہیں۔ دوسری طرف سکھر کو پیپلز پارٹی کا قلعہ قرار دینے والے پارٹی کے مقامی راہ نماؤں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور پارٹی کے ذمہ داران کی بڑی تعداد اپنا زیادہ تر وقت اسلام آباد، کراچی میں گزار رہے ہیں۔