حکومت طالبان مذاکرات میں مثبت پیش رفت
طالبان کی رابطہ کار کمیٹی کے اراکین میں سے مولانا عبدالعزیز اب تک سب سے زیادہ زیر بحث آنے والے رکن ثابت ہوئے ہیں
''نیت صاف منزل آسان'' کے مصداق حکومت طالبان امن مذاکرات کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت سے محسوس ہو رہا ہے کہ دونوں فریقین اپنے اپنے تحفظات اور مجبوریوں کے باوجود قیام امن کے لیے مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں۔
حکومتی مذاکراتی ٹیم کے اراکین عرفان صدیقی، میجر (ر) محمد عامر، رحیم اللہ یوسف زئی اور رستم شاہ مہمند نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ہمراہ گزشتہ روز وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی، بات چیت کے ذریعے قیام امن کی حکومتی کوشش کے سلسلے میں اب تک ہونے والی پیش رفت بارے آگاہ کیا تو وزیراعظم نواز شریف نے انہیں ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اسی نیک نیتی کے جذبے اور خلوص کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری رکھا جائے۔
ایک طرف وزیراعظم نواز شریف کو اپنی مذاکراتی ٹیم کے اراکین کی نیک نیتی اور خلوص پر اعتماد ہے تو دوسری طرف پوری قوم بھی میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے حکومتی مذاکراتی ٹیم کے اراکین کے روّیوں بارے اعتماد کا اظہار کر رہی ہے۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم کو چونکہ حکومت پاکستان اور کچھ عرصہ قبل قیام امن کی راہیں تلاش کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کا مینڈیٹ حاصل ہے، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم کو ایک طرح سے پاکستانی قوم کی غالب اکثریت کی حمایت حاصل ہے، اس حوالے سے ان پر ذمہ داری بھی بھاری عائد ہوتی ہے۔
حکومتی مذاکراتی ٹیم نے اب تک میڈیا سے رابطوں میں بھی کمال احتیاط کا مظاہرہ کیا البتہ یہ مطالبہ موجودہ صورتحال میں بے جا نہیں کہ مذاکرات کے عمل میں شریک افراد کو مذاکرات کے حوالے سے میڈیا سے رابطے اور بات چیت میں حتی الامکان اجتناب برتنا چاہئے۔ اس حوالے سے حکومتی مذاکراتی ٹیم میں شامل میجر (ر) محمد عامر خصوصی تحسین کے مستحق ہیں کہ وہ میڈیا کے ذریعے مذاکرات بارے سب سے کم بات چیت کرنے والے رکن ثابت ہوئے ہیں۔ مذاکرات کے عمل میں شریک دیگر اراکین کو بھی ان کی تقلید کرنا ہوگی۔ اس بابت محترم مولانا سمیع الحق سے خصوصی احتیاط کی درخواست کی جا سکتی ہے۔
طالبان کی رابطہ کار کمیٹی کے اراکین میں سے مولانا عبدالعزیز اب تک سب سے زیادہ زیر بحث آنے والے رکن ثابت ہوئے ہیں اور اب یہ بات بھی واضح نہیں کہ وہ مذاکرات کا آئندہ حصہ رہیں گے بھی یا نہیں۔ اب تک کی پیش رفت میں طالبان کی 9 رکنی سیاسی شوریٰ، ان کی قیادت اور ان کے ترجمان کی جانب سے قوم کے سامنے آنے والے بیانات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعے قیام امن کے لیے مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں بالخصوص گزشتہ روز جب انہوں نے یہ کہا کہ مذاکرات کے ابتدائی ادوار میں ایسی کوئی بات نہ کی جائے جس سے بات چیت میں تعطل کا امکان پیدا ہو تو یہ بیان پڑھنے والوں کو یقین ہوگیا کہ طالبان قیادت کو مذاکرات آگے بڑھانے کا ڈھنگ بھی آتا ہے اور یہ بات امن کے خواہاں پاکستان بھر کے عوام کے لیے انتہائی خوش آئند ہے۔
مختلف ذرائع سے اب تک سامنے آنے والے 15 نکات کے حقیقی ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے متضاد آراء ہیں اس لیے ان کا تجزیہ کرنا ہی لاحاصل ہے۔ توقع ہے کہ آئندہ چوبیس گھنٹے کے اندر طالبان کی مذاکرات کار کمیٹی کے رابطہ کار مولانا یوسف شاہ یا مولانا سمیع الحق کی طرف سے حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ عرفان صدیقی کو فون کرکے آئندہ ملاقات کے لیے وقت اور مقام کا تعین کر لیا جائے گا اور میران شاہ سے طالبان شوریٰ سے ملاقات کرکے واپس اسلام آباد پہنچنے والے دونوں اراکین پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ اپنی رپورٹ پیش کریں گے جس میں وہ نکات سامنے آئیں گے جو تحفظات طالبان قیادت کو مذاکرات کے عمل یا امن کے قیام کی اس پرامن کوشش کے نتیجے میں پیش نظر ہیں۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم کو بھی ایک انتہائی اہم وضاحت درکار ہوگی کہ طالبان مذاکرات کار کمیٹی کے مولانا عبدالعزیز اپنے تئیں کیا پریس کانفرنسیں کرتے پھر رہے ہیں۔
دونوں اطراف کی جانب سے ایک دوسرے سے وضاحتیں طلب کرنا اپنے اپنے تحفظات، تجاویز اور مطالبات پیش کرنا مذاکرات کے دوران ایک معمول کی کارروائی سمجھا جاتا ہے مگر ان مذاکراتی ٹیموں کو اس سب سے زیادہ اہم اس نکتے پر غور کرنا ہو گا کہ جب دونوں اطراف سے سیز فائر کی بات کی جا رہی ہے اور پورے اخلاص سے بات چیت کے ذریعے قیام امن کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں کون سی تیسری قوت یا اس کے کارندے پاکستان کے مختلف علاقوں میں دھماکے اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اگر ان کا کوئی باقاعدہ نام ہے اور وہ مذاکرات میں مصروف طالبان قیادت کے دائرہ اثر میں نہیں تو ان سے رابطہ کرنے یا نمٹنے کے طریقہ کار بارے تبادلہ خیال کیا جائے گا اور اگر نامعلوم ہیں تو پھر بھی ان کا قلع قمع کرنے کے لیے مشترکہ پالیسی اپنانے کے لیے تبادلہ خیال ضروری ہے اور قیام امن کی خاطر کسی متفقہ فیصلے پر پہنچنے سے قبل ہی دونوں اطراف سے اشتراک عمل کی خوب صورت مثال ہوگی کیونکہ مذاکرات کے اس عمل کے دوران دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے مذاکرات میں مصروف دونوں فریقین کے بھی دشمن ہیں۔ انہیں صرف عوام کا امن اور سکون تہہ وبالا کرنے سے غرض نہیں بلکہ وہ بات چیت میں مصروف اراکین کی کوششوں کو بھی سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔ بالخصوص پشاور ان امن دشمنوں کے نشانے پر ہے۔ کل بھی شمع سینما پشاور کے علاقے میں 3 دھماکے ہوئے ہیں۔ یہ افسوسناک سلسلہ حکومتی اور طالبان مذاکراتی ٹیم کی فوری توجہ کا متقاضی ہے ۔
ادھر وزیراعظم نواز شریف آج ترکی کے تین روزہ دورے پر روانہ ہو رہے ہیں جہاں جمعرات کے روز ہونے والی سہ ملکی سربراہ کانفرنس میں ان کی ملاقات افغان صدر حامد کرزئی اور ترک وزیراعظم طیب اردگان سے ہو گی۔ تینوں سربراہان افغانستان اور اس سے ملحق خطے میں امن کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس میں 2014 ء کے بعد امریکی و نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد کی صورتحال بارے متفقہ لائحہ عمل پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ 2014 میں ہونے والے افغان صدارتی ا نتخابات کے تناظر میں حامد کرزئی کو شاید علاقائی اہم لیڈروں سے وہ بات کرنا ہو گی جو افغانستان کے عوام کے دل کے قریب ہوگی جبکہ وزیراعظم نواز شریف ہمیشہ سے یہی کہتے رہے ہیں کہ افغانستان کا استحکام اور ترقی پاکستان کیلئے استحکام، ترقی و خوشحالی کا ضامن ثابت ہو گا اور پاکستان چاہتا ہے کہ افغان عوام اور ان کی قیادت اپنے مستقبل کے لیے خود فیصلے کریں۔
افغانستان میں ہمارا کوئی فیورٹ ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کو وہاں فیورٹ، فیورٹ کا کھیل کھیلنا چاہئے۔ امید ہے کہ اگر پاکستان، افغانستان اور ترکی مستقبل کے اہم سٹرٹیجک اقدامات کے حوالے سے متفقہ لائحہ عمل پر رضا مند ہو جائیں تو پھر پاکستان و افغانستان کو ترقی و خوشحالی کے سفر پر گامزن ہونے سے کوئی علاقائی یا عالمی سازش نہیں روک سکتی۔
حکومتی مذاکراتی ٹیم کے اراکین عرفان صدیقی، میجر (ر) محمد عامر، رحیم اللہ یوسف زئی اور رستم شاہ مہمند نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ہمراہ گزشتہ روز وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی، بات چیت کے ذریعے قیام امن کی حکومتی کوشش کے سلسلے میں اب تک ہونے والی پیش رفت بارے آگاہ کیا تو وزیراعظم نواز شریف نے انہیں ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اسی نیک نیتی کے جذبے اور خلوص کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری رکھا جائے۔
ایک طرف وزیراعظم نواز شریف کو اپنی مذاکراتی ٹیم کے اراکین کی نیک نیتی اور خلوص پر اعتماد ہے تو دوسری طرف پوری قوم بھی میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے حکومتی مذاکراتی ٹیم کے اراکین کے روّیوں بارے اعتماد کا اظہار کر رہی ہے۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم کو چونکہ حکومت پاکستان اور کچھ عرصہ قبل قیام امن کی راہیں تلاش کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کا مینڈیٹ حاصل ہے، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم کو ایک طرح سے پاکستانی قوم کی غالب اکثریت کی حمایت حاصل ہے، اس حوالے سے ان پر ذمہ داری بھی بھاری عائد ہوتی ہے۔
حکومتی مذاکراتی ٹیم نے اب تک میڈیا سے رابطوں میں بھی کمال احتیاط کا مظاہرہ کیا البتہ یہ مطالبہ موجودہ صورتحال میں بے جا نہیں کہ مذاکرات کے عمل میں شریک افراد کو مذاکرات کے حوالے سے میڈیا سے رابطے اور بات چیت میں حتی الامکان اجتناب برتنا چاہئے۔ اس حوالے سے حکومتی مذاکراتی ٹیم میں شامل میجر (ر) محمد عامر خصوصی تحسین کے مستحق ہیں کہ وہ میڈیا کے ذریعے مذاکرات بارے سب سے کم بات چیت کرنے والے رکن ثابت ہوئے ہیں۔ مذاکرات کے عمل میں شریک دیگر اراکین کو بھی ان کی تقلید کرنا ہوگی۔ اس بابت محترم مولانا سمیع الحق سے خصوصی احتیاط کی درخواست کی جا سکتی ہے۔
طالبان کی رابطہ کار کمیٹی کے اراکین میں سے مولانا عبدالعزیز اب تک سب سے زیادہ زیر بحث آنے والے رکن ثابت ہوئے ہیں اور اب یہ بات بھی واضح نہیں کہ وہ مذاکرات کا آئندہ حصہ رہیں گے بھی یا نہیں۔ اب تک کی پیش رفت میں طالبان کی 9 رکنی سیاسی شوریٰ، ان کی قیادت اور ان کے ترجمان کی جانب سے قوم کے سامنے آنے والے بیانات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعے قیام امن کے لیے مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں بالخصوص گزشتہ روز جب انہوں نے یہ کہا کہ مذاکرات کے ابتدائی ادوار میں ایسی کوئی بات نہ کی جائے جس سے بات چیت میں تعطل کا امکان پیدا ہو تو یہ بیان پڑھنے والوں کو یقین ہوگیا کہ طالبان قیادت کو مذاکرات آگے بڑھانے کا ڈھنگ بھی آتا ہے اور یہ بات امن کے خواہاں پاکستان بھر کے عوام کے لیے انتہائی خوش آئند ہے۔
مختلف ذرائع سے اب تک سامنے آنے والے 15 نکات کے حقیقی ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے متضاد آراء ہیں اس لیے ان کا تجزیہ کرنا ہی لاحاصل ہے۔ توقع ہے کہ آئندہ چوبیس گھنٹے کے اندر طالبان کی مذاکرات کار کمیٹی کے رابطہ کار مولانا یوسف شاہ یا مولانا سمیع الحق کی طرف سے حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ عرفان صدیقی کو فون کرکے آئندہ ملاقات کے لیے وقت اور مقام کا تعین کر لیا جائے گا اور میران شاہ سے طالبان شوریٰ سے ملاقات کرکے واپس اسلام آباد پہنچنے والے دونوں اراکین پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ اپنی رپورٹ پیش کریں گے جس میں وہ نکات سامنے آئیں گے جو تحفظات طالبان قیادت کو مذاکرات کے عمل یا امن کے قیام کی اس پرامن کوشش کے نتیجے میں پیش نظر ہیں۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم کو بھی ایک انتہائی اہم وضاحت درکار ہوگی کہ طالبان مذاکرات کار کمیٹی کے مولانا عبدالعزیز اپنے تئیں کیا پریس کانفرنسیں کرتے پھر رہے ہیں۔
دونوں اطراف کی جانب سے ایک دوسرے سے وضاحتیں طلب کرنا اپنے اپنے تحفظات، تجاویز اور مطالبات پیش کرنا مذاکرات کے دوران ایک معمول کی کارروائی سمجھا جاتا ہے مگر ان مذاکراتی ٹیموں کو اس سب سے زیادہ اہم اس نکتے پر غور کرنا ہو گا کہ جب دونوں اطراف سے سیز فائر کی بات کی جا رہی ہے اور پورے اخلاص سے بات چیت کے ذریعے قیام امن کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں کون سی تیسری قوت یا اس کے کارندے پاکستان کے مختلف علاقوں میں دھماکے اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اگر ان کا کوئی باقاعدہ نام ہے اور وہ مذاکرات میں مصروف طالبان قیادت کے دائرہ اثر میں نہیں تو ان سے رابطہ کرنے یا نمٹنے کے طریقہ کار بارے تبادلہ خیال کیا جائے گا اور اگر نامعلوم ہیں تو پھر بھی ان کا قلع قمع کرنے کے لیے مشترکہ پالیسی اپنانے کے لیے تبادلہ خیال ضروری ہے اور قیام امن کی خاطر کسی متفقہ فیصلے پر پہنچنے سے قبل ہی دونوں اطراف سے اشتراک عمل کی خوب صورت مثال ہوگی کیونکہ مذاکرات کے اس عمل کے دوران دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے مذاکرات میں مصروف دونوں فریقین کے بھی دشمن ہیں۔ انہیں صرف عوام کا امن اور سکون تہہ وبالا کرنے سے غرض نہیں بلکہ وہ بات چیت میں مصروف اراکین کی کوششوں کو بھی سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔ بالخصوص پشاور ان امن دشمنوں کے نشانے پر ہے۔ کل بھی شمع سینما پشاور کے علاقے میں 3 دھماکے ہوئے ہیں۔ یہ افسوسناک سلسلہ حکومتی اور طالبان مذاکراتی ٹیم کی فوری توجہ کا متقاضی ہے ۔
ادھر وزیراعظم نواز شریف آج ترکی کے تین روزہ دورے پر روانہ ہو رہے ہیں جہاں جمعرات کے روز ہونے والی سہ ملکی سربراہ کانفرنس میں ان کی ملاقات افغان صدر حامد کرزئی اور ترک وزیراعظم طیب اردگان سے ہو گی۔ تینوں سربراہان افغانستان اور اس سے ملحق خطے میں امن کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس میں 2014 ء کے بعد امریکی و نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد کی صورتحال بارے متفقہ لائحہ عمل پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ 2014 میں ہونے والے افغان صدارتی ا نتخابات کے تناظر میں حامد کرزئی کو شاید علاقائی اہم لیڈروں سے وہ بات کرنا ہو گی جو افغانستان کے عوام کے دل کے قریب ہوگی جبکہ وزیراعظم نواز شریف ہمیشہ سے یہی کہتے رہے ہیں کہ افغانستان کا استحکام اور ترقی پاکستان کیلئے استحکام، ترقی و خوشحالی کا ضامن ثابت ہو گا اور پاکستان چاہتا ہے کہ افغان عوام اور ان کی قیادت اپنے مستقبل کے لیے خود فیصلے کریں۔
افغانستان میں ہمارا کوئی فیورٹ ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کو وہاں فیورٹ، فیورٹ کا کھیل کھیلنا چاہئے۔ امید ہے کہ اگر پاکستان، افغانستان اور ترکی مستقبل کے اہم سٹرٹیجک اقدامات کے حوالے سے متفقہ لائحہ عمل پر رضا مند ہو جائیں تو پھر پاکستان و افغانستان کو ترقی و خوشحالی کے سفر پر گامزن ہونے سے کوئی علاقائی یا عالمی سازش نہیں روک سکتی۔