طالبان سے مذاکرات معاملات خفیہ رکھنا بہتر حکمت عملی ہے
فاٹا کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ وہاں پر عدالتی نظا م کا قیام ہوگا کیونکہ اب تک قبائلی علاقے ٹربیونلز اور کمشنروں۔۔۔
طالبان اور حکومت کے درمیان جاری مذاکرات پر پوری قوم کی نظریں لگی ہوئی ہیں اور یہ لمحات انتہائی اعصاب شکن ہیں کیونکہ قوم اس انتظار میں ہے کہ ان مذاکرات کے ذریعے ملک میں قیام امن کے حوالے سے انھیں خوشخبری ملے۔
تاہم یہ مذاکرات کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں یا ناکامی سے دوچار، یہ منزل ابھی دور ہے کیونکہ اس وقت تک طالبان اور حکومت کی جانب سے تشکیل دی جانے والی کمیٹیوں کا ایک ہی اجلاس ہوا ہے اور اس اجلاس میں حکومت کی جانب سے پیش کردہ مطالبات کو طالبان کی کمیٹی، طالبان تک پہنچا بھی آئی ہے اور ان کی جانب سے جو شرائط رکھی گئی ہیں وہ بھی اپنے ساتھ لائی ہے۔ تاہم یہ شرائط میڈیا کے ذریعے قوم کے سامنے پیش نہیں کی گئیں اور انھیں حکومتی کمیٹی ہی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
مذکورہ مذاکرات کے آغاز ہی میں میڈیا کے ذریعے مذاکرات کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا اس کو دیکھتے ہوئے یہ لگ رہا تھا کہ شاید مذاکرات کا یہ سلسلہ بڑی مشکلوں ہی سے آگے بڑھ پائے گا کیونکہ صرف حکومت اور طالبان کی کمیٹیوں کے ارکان کیمروں کے سامنے بیٹھے معاملات زیر بحث نہیں لارہے تھے بلکہ ان پر خوب جما کر تبصرے بھی ہو رہے تھے اور ان کی حمایت اور مخالفت میں دلائل کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تاہم اب شرائط اور معاملات کو خفیہ رکھنے کی جو حکمت عملی اپنائی گئی ہے اس کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھانا سہل رہے گا۔
طالبان کی کمیٹی کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم اور کوآرڈینیٹر مولانا یوسف شاہ ابھی وزیرستان کے کسی نامعلوم مقام پر ہی تھے کہ یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ طالبان نے اپنے ساتھی قیدیوں کی رہائی، معاوضوں کی ادائیگی اور فوری طور پر قبائلی علاقہ جات سے فوج کی واپسی کے مطالبات کر دیئے ہیں، ہوسکتا ہے کہ جب مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں کام کرنے والی طالبان کی پیغام رساں کمیٹی حکومتی کمیٹی کے ساتھ ملاقات کرے تو یہی مطالبات مذکورہ کمیٹی کے سامنے پیش کیے جائیں۔ تاہم اس وقت تک یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آیا طالبان یہی تین مطالبات پیش کرنے جا رہے ہیں یا نہیں اور اگر یہی تین مطالبات ہیں تو پہلے مرحلہ پر پیش کیے جانیوالے ان مطالبات کے علاوہ مطالبات کی پوری سیریل سامنے آئیگی یا نہیں؟
یہ سارے وہ معاملات ہیں کہ وقت کے ساتھ یہ باتیں کھل کر سامنے آ جائیں گی اور مذکورہ بالا تینوں مطالبات بعید ازقیاس بھی نہیں ہیں کیونکہ ایسے مطالبات اس سے قبل بھی مختلف ذرائع کے ذریعے سامنے آتے رہے ہیں، البتہ ان میں سے ایک معاوضوں کی ادائیگی سے ہٹ کر دیگر دونوں مطالبات ایسے ہیں کہ جن پر حکومت بھی غور کرے گی اور ان کے حوالے سے ایسا راستہ اختیار کیا جائے گا کہ حکومت اور طالبان دونوں کے لیے قابل قبول بھی ہو اور قوم کی جانب سے ری ایکشن بھی سامنے نہ آئے۔ تاہم اس سے ہٹ کر شریعت کے نفاذ کا جہاں تک معاملہ ہے تو مرکزی حکومت کی کمیٹی نے یہ واضح کردیا ہے کہ مذاکرات کا دائرہ شورش زدہ علاقہ تک ہی محدود رکھا جائے گا اور یہ ایک ایسا نقطہ ہے کہ جس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ حکومت بھی نفاذ شریعت کے حوالے سے موڈ بنا چکی ہے تاہم اس کا نفاذ صرف شورش زدہ علاقہ تک ہی ہوگا۔
یہ بات بالکل سامنے کی ہے کہ جب 2008-09ء میں ملاکنڈ ڈویژن کے ضلع سوات اور دیگر اضلاع میں عسکریت پسندی شروع ہوئی اور اسی ماحول میں عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت نے سوات کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا تو اس وقت بھی نفاذ شریعت کا مطالبہ سامنے آیا تھا جس کے نتیجہ میں ملاکنڈ ڈویژن میں ''نظام عدل شریعہ ریگولیشنز 2009 ء ''کا نفاذ کیا گیا۔ تاہم یہ نفاذ صرف ملاکنڈ ڈویژن میں شامل سات اضلاع اور اس سے باہر ہزارہ ڈویژن میں شامل ضلع کوہستان کے لیے تھا جو اب دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے گویا یہ نفاذ صوبہ کے 26 میں سے 9 اضلاع کے لیے ہے اور ملاکنڈ ڈویژن میں نافذ کی جانے والی یہ پہلی ریگولیشنز بھی نہیں تھیں بلکہ اس سے قبل نوے کی دہائی میں مولانا صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی کے دور میں جب سیاہ پگڑیاں پہنے تحریک کے ورکر بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلے تھے تو اس وقت شرعی نظام سے متعلق پہلی ریگولیشنز کا نفاذ کیا گیا تھا۔
جبکہ مسلم لیگ (ن) ہی کی حکومت میں نوے کی دہائی کے اواخر میں ملاکنڈ ڈویژن کے لیے دوسری شرعی ریگولیشنز کا اجراء کیا گیا تھا اسی طرح اب اگر طالبان کی جانب سے شریعت کے نفاذ کا مطالبہ ہوا ہو تو اس کے لیے مرکزی حکومت ملاکنڈ ماڈل کی طرز پر قبائلی علاقہ جات کے لیے بھی شریعہ ریگولیشنز جاری کرسکتی ہے کیونکہ ملاکنڈ ڈویژن جو صوبہ کے زیر انتظام قبائلی علاقہ (پاٹا) ہے میں کئی ایسے قوانین نافذ نہیں ہیں جو صوبہ کے دیگر اضلاع یا ملک کے دیگر حصوں میں نافذ ہیں اور مرکز کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) تو پاٹا سے بھی ایک قدم آگے ہیں کیونکہ فاٹا میں تو فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر) نافذ ہے جو انگریز کے زمانہ کا بنایا ہوا قانون ہے اور آج بھی قبائلی ایجنسیوں میں بسنے والے لوگ پولیٹیکل ایجنٹ اور اس کے ماتحتوں کے رحم وکرم پر ہیں جنھیں انصاف کے حصول کیلئے عدالتیں بھی میسر نہیں ہیں اس لیے قبائلی علاقوں کے لیے تو ایف سی آر کے متبادل کے طور پر شریعت کا نفاذ انتہائی سود مند رہے گا۔
فاٹا کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ وہاں پر عدالتی نظا م کا قیام ہوگا کیونکہ اب تک قبائلی علاقے ٹربیونلز اور کمشنروں کے رحم وکرم پر ہیں، ملاکنڈ ڈویژن کے حوالے سے بھی وہاں نافذ ملکی عدالتی نظام کو جب تبدیل کرتے ہوئے نظام عدل شریعہ ریگولیشنز کے نفاذ کے ذریعے قاضی کورٹس کا قیام عمل میں لایا گیا تو ساتھ ہی پشاور ہائی کورٹ کا بنچ دارالقضاہ کے نام سے قائم کیا گیا جبکہ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ملاکنڈ ڈویژن میں سپریم کورٹ کا بنچ بھی قائم کیا جائے گا جو دارالقضاہ کے نام سے کام کرے گا تاہم وہ بنچ اب تک قائم نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی دارالقضاہ کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں وفاقی شرعی عدالت میں کی جاتی ہیں بلکہ سپریم کورٹ ہی فائنل اتھارٹی ہے جبکہ فاٹا کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ اب تک پولیٹیکل ایجنٹ، اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ اور تحصیلدار ہی انتظامیہ کا کردار ادا کرنے کے علاوہ عدالتی فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔
اگر حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں شریعہ ریگولیشنز کا فاٹا کے لیے نفاذ کیا جاتا ہے اوراس کے تحت عدالتی نظام بھی دیاجاتا ہے تو یہ فاٹا کے لیے ایک نیا نظام ہوگا جس کے حوالے سے اصل غور وفکر کی ضرورت ہوگی اور اس کے حوالے سے یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہوگا کہ آیا فاٹا کے عوام کسی بھی قسم کے عدالتی نظام کو تسلیم کرتے ہیں یا پھر وہ روایتی جرگہ سسٹم کے تحت ہی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے دو مرتبہ رکنیت سازی مہم میں توسیع کی وجہ سے شکوک وشبہات جنم لے رہے تھے کہ شاید اے این پی کی قیادت پارٹی تنظیم سازی اور انتخابات میں دلچسپی نہیں رکھتی اور یہ امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ ممکنہ طور پر بلدیاتی انتخابات تک رکنیت سازی کا یہ مرحلہ جاری رکھا جائے گا۔ تاہم اس بات کو اے این پی کی قیادت نے بھی محسوس کیا اور یہی وجہ ہے کہ اب پندرہ فروری کی دوسری ڈیڈ لائن کو حتمی قرار دیا گیا ہے جس کے بعد پارٹی میں نچلی سطح پر تنظیم سازی کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔
تاہم یہ مذاکرات کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں یا ناکامی سے دوچار، یہ منزل ابھی دور ہے کیونکہ اس وقت تک طالبان اور حکومت کی جانب سے تشکیل دی جانے والی کمیٹیوں کا ایک ہی اجلاس ہوا ہے اور اس اجلاس میں حکومت کی جانب سے پیش کردہ مطالبات کو طالبان کی کمیٹی، طالبان تک پہنچا بھی آئی ہے اور ان کی جانب سے جو شرائط رکھی گئی ہیں وہ بھی اپنے ساتھ لائی ہے۔ تاہم یہ شرائط میڈیا کے ذریعے قوم کے سامنے پیش نہیں کی گئیں اور انھیں حکومتی کمیٹی ہی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
مذکورہ مذاکرات کے آغاز ہی میں میڈیا کے ذریعے مذاکرات کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا اس کو دیکھتے ہوئے یہ لگ رہا تھا کہ شاید مذاکرات کا یہ سلسلہ بڑی مشکلوں ہی سے آگے بڑھ پائے گا کیونکہ صرف حکومت اور طالبان کی کمیٹیوں کے ارکان کیمروں کے سامنے بیٹھے معاملات زیر بحث نہیں لارہے تھے بلکہ ان پر خوب جما کر تبصرے بھی ہو رہے تھے اور ان کی حمایت اور مخالفت میں دلائل کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تاہم اب شرائط اور معاملات کو خفیہ رکھنے کی جو حکمت عملی اپنائی گئی ہے اس کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھانا سہل رہے گا۔
طالبان کی کمیٹی کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم اور کوآرڈینیٹر مولانا یوسف شاہ ابھی وزیرستان کے کسی نامعلوم مقام پر ہی تھے کہ یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ طالبان نے اپنے ساتھی قیدیوں کی رہائی، معاوضوں کی ادائیگی اور فوری طور پر قبائلی علاقہ جات سے فوج کی واپسی کے مطالبات کر دیئے ہیں، ہوسکتا ہے کہ جب مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں کام کرنے والی طالبان کی پیغام رساں کمیٹی حکومتی کمیٹی کے ساتھ ملاقات کرے تو یہی مطالبات مذکورہ کمیٹی کے سامنے پیش کیے جائیں۔ تاہم اس وقت تک یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آیا طالبان یہی تین مطالبات پیش کرنے جا رہے ہیں یا نہیں اور اگر یہی تین مطالبات ہیں تو پہلے مرحلہ پر پیش کیے جانیوالے ان مطالبات کے علاوہ مطالبات کی پوری سیریل سامنے آئیگی یا نہیں؟
یہ سارے وہ معاملات ہیں کہ وقت کے ساتھ یہ باتیں کھل کر سامنے آ جائیں گی اور مذکورہ بالا تینوں مطالبات بعید ازقیاس بھی نہیں ہیں کیونکہ ایسے مطالبات اس سے قبل بھی مختلف ذرائع کے ذریعے سامنے آتے رہے ہیں، البتہ ان میں سے ایک معاوضوں کی ادائیگی سے ہٹ کر دیگر دونوں مطالبات ایسے ہیں کہ جن پر حکومت بھی غور کرے گی اور ان کے حوالے سے ایسا راستہ اختیار کیا جائے گا کہ حکومت اور طالبان دونوں کے لیے قابل قبول بھی ہو اور قوم کی جانب سے ری ایکشن بھی سامنے نہ آئے۔ تاہم اس سے ہٹ کر شریعت کے نفاذ کا جہاں تک معاملہ ہے تو مرکزی حکومت کی کمیٹی نے یہ واضح کردیا ہے کہ مذاکرات کا دائرہ شورش زدہ علاقہ تک ہی محدود رکھا جائے گا اور یہ ایک ایسا نقطہ ہے کہ جس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ حکومت بھی نفاذ شریعت کے حوالے سے موڈ بنا چکی ہے تاہم اس کا نفاذ صرف شورش زدہ علاقہ تک ہی ہوگا۔
یہ بات بالکل سامنے کی ہے کہ جب 2008-09ء میں ملاکنڈ ڈویژن کے ضلع سوات اور دیگر اضلاع میں عسکریت پسندی شروع ہوئی اور اسی ماحول میں عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت نے سوات کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا تو اس وقت بھی نفاذ شریعت کا مطالبہ سامنے آیا تھا جس کے نتیجہ میں ملاکنڈ ڈویژن میں ''نظام عدل شریعہ ریگولیشنز 2009 ء ''کا نفاذ کیا گیا۔ تاہم یہ نفاذ صرف ملاکنڈ ڈویژن میں شامل سات اضلاع اور اس سے باہر ہزارہ ڈویژن میں شامل ضلع کوہستان کے لیے تھا جو اب دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے گویا یہ نفاذ صوبہ کے 26 میں سے 9 اضلاع کے لیے ہے اور ملاکنڈ ڈویژن میں نافذ کی جانے والی یہ پہلی ریگولیشنز بھی نہیں تھیں بلکہ اس سے قبل نوے کی دہائی میں مولانا صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی کے دور میں جب سیاہ پگڑیاں پہنے تحریک کے ورکر بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلے تھے تو اس وقت شرعی نظام سے متعلق پہلی ریگولیشنز کا نفاذ کیا گیا تھا۔
جبکہ مسلم لیگ (ن) ہی کی حکومت میں نوے کی دہائی کے اواخر میں ملاکنڈ ڈویژن کے لیے دوسری شرعی ریگولیشنز کا اجراء کیا گیا تھا اسی طرح اب اگر طالبان کی جانب سے شریعت کے نفاذ کا مطالبہ ہوا ہو تو اس کے لیے مرکزی حکومت ملاکنڈ ماڈل کی طرز پر قبائلی علاقہ جات کے لیے بھی شریعہ ریگولیشنز جاری کرسکتی ہے کیونکہ ملاکنڈ ڈویژن جو صوبہ کے زیر انتظام قبائلی علاقہ (پاٹا) ہے میں کئی ایسے قوانین نافذ نہیں ہیں جو صوبہ کے دیگر اضلاع یا ملک کے دیگر حصوں میں نافذ ہیں اور مرکز کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) تو پاٹا سے بھی ایک قدم آگے ہیں کیونکہ فاٹا میں تو فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر) نافذ ہے جو انگریز کے زمانہ کا بنایا ہوا قانون ہے اور آج بھی قبائلی ایجنسیوں میں بسنے والے لوگ پولیٹیکل ایجنٹ اور اس کے ماتحتوں کے رحم وکرم پر ہیں جنھیں انصاف کے حصول کیلئے عدالتیں بھی میسر نہیں ہیں اس لیے قبائلی علاقوں کے لیے تو ایف سی آر کے متبادل کے طور پر شریعت کا نفاذ انتہائی سود مند رہے گا۔
فاٹا کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ وہاں پر عدالتی نظا م کا قیام ہوگا کیونکہ اب تک قبائلی علاقے ٹربیونلز اور کمشنروں کے رحم وکرم پر ہیں، ملاکنڈ ڈویژن کے حوالے سے بھی وہاں نافذ ملکی عدالتی نظام کو جب تبدیل کرتے ہوئے نظام عدل شریعہ ریگولیشنز کے نفاذ کے ذریعے قاضی کورٹس کا قیام عمل میں لایا گیا تو ساتھ ہی پشاور ہائی کورٹ کا بنچ دارالقضاہ کے نام سے قائم کیا گیا جبکہ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ملاکنڈ ڈویژن میں سپریم کورٹ کا بنچ بھی قائم کیا جائے گا جو دارالقضاہ کے نام سے کام کرے گا تاہم وہ بنچ اب تک قائم نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی دارالقضاہ کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں وفاقی شرعی عدالت میں کی جاتی ہیں بلکہ سپریم کورٹ ہی فائنل اتھارٹی ہے جبکہ فاٹا کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ اب تک پولیٹیکل ایجنٹ، اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ اور تحصیلدار ہی انتظامیہ کا کردار ادا کرنے کے علاوہ عدالتی فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔
اگر حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں شریعہ ریگولیشنز کا فاٹا کے لیے نفاذ کیا جاتا ہے اوراس کے تحت عدالتی نظام بھی دیاجاتا ہے تو یہ فاٹا کے لیے ایک نیا نظام ہوگا جس کے حوالے سے اصل غور وفکر کی ضرورت ہوگی اور اس کے حوالے سے یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہوگا کہ آیا فاٹا کے عوام کسی بھی قسم کے عدالتی نظام کو تسلیم کرتے ہیں یا پھر وہ روایتی جرگہ سسٹم کے تحت ہی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے دو مرتبہ رکنیت سازی مہم میں توسیع کی وجہ سے شکوک وشبہات جنم لے رہے تھے کہ شاید اے این پی کی قیادت پارٹی تنظیم سازی اور انتخابات میں دلچسپی نہیں رکھتی اور یہ امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ ممکنہ طور پر بلدیاتی انتخابات تک رکنیت سازی کا یہ مرحلہ جاری رکھا جائے گا۔ تاہم اس بات کو اے این پی کی قیادت نے بھی محسوس کیا اور یہی وجہ ہے کہ اب پندرہ فروری کی دوسری ڈیڈ لائن کو حتمی قرار دیا گیا ہے جس کے بعد پارٹی میں نچلی سطح پر تنظیم سازی کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔