خود کفالت اور کشکول شکنی کی ضرورت

قومی سطح پر ترقی کے اہم منصوبوں کی تکمیل کے حوالے سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس اور اس کے فیصلے خوش آیند ہیں


Editorial February 11, 2014
قومی سطح پر ترقی کے اہم منصوبوں کی تکمیل کے حوالے سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس اور اس کے فیصلے خوش آیند ہیں. فوٹو:این این آئی/فائل

وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی زیرصدارت مشترکہ مفادات کونسل نے ملکی ترقی کو تمام صوبوں اور وفاق کی مشترکہ ذمے داری قرار دیتے ہوئے پاور سیکٹر کی نجکاری کی پالیسی جاری رکھنے کی منظوری دی ہے۔ بجلی پیدا اور تقسیم کرنیوالی13کمپنیوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ تقسیم کارکمپنیوں کی مرحلہ وار نجکاری کا فوری آغاز کردیا جائے گا۔ کونسل نے تھرکول پاور پراجیکٹ کے لیے وفاق کی خودمختار ضمانت کی منظوری دیدی ۔ ملکی معیشت کے استحکام کے عمل کی نگرانی اور قومی سطح پر ترقی و خوشحالی کے اہم منصوبوں کی تکمیل کے حوالے سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس اور اس کے فیصلے خوش آیند ہیں، کونسل کا در حقیقت احیا ضروری ہے کیونکہ صوبوں کے مابین عدم اتفاق، اختلافات، بدگمانی ، نامناسب معاشی ترجیحات،اسکیموں پر عمل درآمد اور مالیاتی وسائل کی تقسیم سے متعلق شکایتوں اورغلط فہمیوں کے ازالے کا ہر امکان موجود ہوتا ہے، ماضی میں آمریت سے ہٹ کر جمہوری دور میں بھی مشرکہ مفادات کونسل کو نظر انداز کرکے کاروبار مملکت چلانے کی بھونڈی کوششیں کی گئیں جن کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ادارہ جاتی ٹوٹ پھوٹ ،بد انتظامی ، بے محابہ کرپشن،عدم جوابدہی ، نوکرشاہانہ رعونت اور افسر شاہی کی مجرمانہ غفلت کے باعث توانائی سمیت لاتعداد بحران مگر مچھ کی طرح منہ کھولے معاشی استحکام کو ہڑپ کرنے پر تیار نظر آتے ہیں۔

شنید ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نیپرا کی کارکردگی پر سخت عدم اطمینان اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ادارے میں انتظامی اور مالیاتی بے قاعدگیوں کا نوٹس لیا۔ نیپرا میں صوبوں کی نمایندگی موثر بنانے کی ہدایت کی ۔وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ ملکی ترقی تمام صوبوں اور وفاق کی مشترکہ ذمے داری ہے ۔ان کا یہ اعتراف کہ سابق ادوار میں غیرضروری بھرتیوں اور بدعنوانیوں کے نتیجے میں سرکاری اداروں میں بدانتظامی انتہا کو پہنچ گئی، اب ملک کے بہترین مفاد میں ان سرکاری اداروں کی نجکاری ہی واحد حل ہے خاصا چشم کشا ہے ۔ وقت کی کمی کے باعث مردم شماری کرانے یا نہ کرانے کے معاملے پر مشاورت کا نہ ہونا افسوس ناک ہے ،مردم شماری میں التوا ملکی مفاد میں نہیں، اقتصادی ترقی کے لیے مردم شماری ،خانہ شماری،اور افرادی قوت کے درست اعداد وشمارکی دستیابی قومی ضرورت ہے اس لیے آیندہ اجلاس میں اس معاملہ پر مثبت اتفاق رائے پیدا کیا جائے ۔ تاہم مشترکہ مفادات کونسل نے پاکستان انجنیئرنگ کونسل کے ترمیمی بل ، آغاز حقوق بلوچستان پروگرام کے تحت تیل و گیس کے منصوبہ جات، پی پی ایل اور سوئی سدرن گیس جیسے اداروں کے 20فیصد شیئرز حکومت بلوچستان کے لیے خریداری، صوبوں کے ذمے واجب الادا بجلی کے واجبات کی ادائیگی کے لیے طریقہ کار ، پی ٹی سی ایل کے اثاثہ جات (بشمول پراپرٹی) کی اس کی خریداروں کو منتقلی ، توانائی پیدا کرنے والی کمپنیوں 'جنکوز' اور تقسیم کار کمپنیوں 'ڈسکوز' کی نجکاری سے متعلق2011 کی پالیسی جاری رکھنے ، تھرکول منصوبے کے لیے 'ساورن گارنٹی' کے اجرأ اور قومی توانائی پالیسی 2013-18 کی منظوری سمیت اہم فیصلے کر کے معاشی ترقی میں تسلسل کی یقین دہانی کرا دی ۔

اجلاس میں چاروں وزرائے اعلیٰ اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے علاوہ صوبائی وزرائے خزانہ اور مشیر خزانہ نے شرکت کی۔ تھرکول پاور پراجیکٹ کے لیے وفاق کی ضمانت کی منظوری دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ تھرکول پاور پراجیکٹ ایک اہم قومی منصوبہ ہے، اس کی تکمیل سے سستے داموں بجلی کی ضرورت پوری ہوگی ۔دریں اثنا وزیرمملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ بجلی چور قومی مجرم ہیں ان کے خلاف آپریشن جاری رہے گا۔ بجلی چوروں کوآئین و قانون کے مطابق سزائیں دیںگے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ہم نے اپنے مختصر عرصہ میں آئی ایم ایف سمیت دیگر مالیاتی اداروں سے جو قرضہ حاصل کیا ہے اس کو بجلی کی پیداوار و دیگر اداروں کی حالت کو بہتر بنانے پر خرچ کیا ہے جس سے ہماری ملکی معیشت بہتر ہوئی ہے ۔ بہر حال غیر ملکی مالیاتی اداروں، بینکوں اور ملکی بینکوں سے لیے گئے اربوں قرضے کے بوجھ تلی دبی معیشت کی قومی وسائل سے دائمی بہتری کا معاشی ماڈل پیش ہونا چاہیے، ایشین ٹائیگر نہ سہی پاکستان کم از کم خود انحصاری کی طرف جاتا نظر آئے تو بھی باعث اطمینان ہوگا ۔خود کفالت اور کشکول شکنی کی حقیقت حکمرانوں کو مد نظر رکھنی چاہیے ۔ ورنہ قرض کی مے پینے کی مالیاتی عادت کبھی نہیں چھوٹ سکتی ۔دوسری طرف اختیارات کے غلط استعمال، وفاقی و صوبائی اداروں میں تناؤ، رنجش، فرض شناسی کے فقدان اور فیصلوں کے بحران یا غیر دانشمندانہ اقدامات سے پیداشدہ افراتفری اور بدانتظامی کا سدباب بھی ہونا ضروری ہے جس کے تماشے آئے دن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنتے نظر آتے ہیں۔کرائے کا بجلی گھرلانے والی ترک کمپنی نے بین الاقوامی عدالت میںپاکستان کے خلاف 2.1 ارب ڈالرہرجانے کا دعویٰ دائرکر دیا ہے۔

مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے زیربحث آنے والے نکات پر تمام دیگر وزرائے اعلیٰ سے زیادہ اعتراضات اٹھائے جب کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک غیر متوقع طور پر شہباز شریف کے بعد سب سے کم اعتراض کرنے والے وزیراعلیٰ ثابت ہوئے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی مزاحمت کے باعث راولپنڈی، اسلام آباد کے لیے تجویز کی گئی نئی واٹر سپلائی اسکیم کی منظوری موخر کردی گئی،وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے لاکھڑاکول پاور جنریشن کمپنی کی نجکاری پر بھی شدید اعتراض کیا ، وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کا مطالبہ تھا کہ18ویں ترمیم کے بعد بلوچستان کو آغاز حقوق بلوچستان کے تحت پی پی ایل اور سوئی سدرن گیس کمپنی جیسے انرجی سے متعلق اداروں کے20فیصد کے بجائے50فیصد تک شیئرز خریدنے کا اختیار دیا جائے جس پر وزیراعظم نوازشریف کو بالٓاخر وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو ہدایت کرنا پڑی کہ وہ ڈاکٹر مالک سے اس بارے تفصیلی میٹنگ کریں جب کہ وزیر مملکت برائے پاور بجلی عابد شیر علی کی جانب سے صوبہ خیبرپختونخوا اور صوبہ سندھ کے بعض سیاسی رہنماؤں اور اراکین پارلیمنٹ کے بجلی چوری میں ملوث ہونے یا چوروں کی پشت پناہی کے الزامات کے حوالے سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم شاہ غیر متوقع طور پر خاموش رہے.

ادھر پشاور ہائیکورٹ نے فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا جس کے مطابق نیپراکا پورے ملک کے لیے بجلی کے یکساں نرخ مقرر کرنے کا اختیار اور پختونخوا کے صارفین سے تھرمل بجلی کے نرخ وصول کرنے کے اقدام کو غیر قانونی اور غیرآئینی قرار دیا ہے جب کہ یوٹیلٹی اسٹورز کو کمپیوٹرائز کرنے کے پروگرام کی خریداری کے معاملے پر وفاقی وزیرصنعت و پیداوار غلام مرتضیٰ جتوئی اور ایم ڈی یوٹیلٹی اسٹورز مرتضیٰ خاقان کے درمیان چپقلش کی اطلاع ہے ،کہا جاتا ہے کہ وفاقی وزیر انٹرپرائز ریسورس پلاننگ (ای آر پی)سسٹم بیرون ملک سے لینے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ ایم ڈی نے سسٹم بیرون ملک سے لینے سے انکارکر دیا ۔ یہ چند مثالیں ہیں لہٰذا اقتصادی شفافیت کے لیے مربوط معاشی میکنزم وقت کا تقاضہ ہے۔ کسی لابی ،آئل مافیا،لینڈ مافیا،ڈرگ مافیا،گن مافیا اور ان کے کارندوں کو ملکی معیشت کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے اور یہ کام اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ کرپشن، بد انتظامی ، اقربہ پروری اور دوست نوازی سے پاک معیشت کواپنی شرح نمو دکھانے کا موقع مل سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔