مینڈیٹ کا چڑیا گھر
امریکی تو مار کھا کے عقلمند ہو جاتے ہیں مگر ہم نے حماقتوں کو ایسے مدار میں تبدیل کرنا ہے جس میں سے ہم کبھی نہ نکل سکیں
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12
لاہور:
امریکیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تمام تر مادی کامیابی اور طاقت کے باوجود احمقانہ طرز عمل اپنانے میں ماہر ہیں۔ ان کے بارے میں مثل مشہور ہے کہ وہ سیدھا رستہ اپنانے سے پہلے تمام الٹے راستے اختیار کرتے ہیں۔ وہاں پر مات کھاتے ہیں، کبھی کبھی مار بھی کھاتے ہیں' پھر تمام تکالیف اٹھانے کے بعد اسی جگہ پر آن کھڑے ہوتے ہیں جہاں پر انھوں نے صحیح کے بجائے غلط راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ امریکا کے اس طور طریقے کے بارے میں نقادوں کا کہنا ہے کہ اس کی جڑیں امریکا کی اس نفسیات میں گڑی ہوئی ہیں جس کے تحت وہ بیک وقت مکمل خوف اور ضرورت سے زیادہ پر اعتمادی کا شکار رہتا ہے۔ اس متضاد کیفیت میں ہونے کی وجہ سے اس کو صحیح مشورہ سمجھ نہیں آتا۔ وہ مشورہ دینے والے کو کم عقل اور خود کو عقل کل گردانتے ہوئے صاحب رائے کو جھٹک کر پرے پھینک دیتا ہے۔ خواہ مخواہ کے تجربات کی دلدل میں چھلانگ لگاتا ہے اور بعد میں ہائے ہائے کرتا ہوا وہاں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان نقادوں کے نزدیک ان غلطیوں کے باوجود امریکا صرف اس وجہ سے کامیاب ہو جاتا ہے کہ آخر میں صحیح رستہ پہچان لیتا ہے۔
چونکہ ہم نے بین الاقوامی اور بڑی طاقتوں کی حماقتوں کا ریکارڈ توڑنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ لہذا ہم نے امریکا کے اس ''حماقت کے بعد لیاقت'' ماڈل میں تبدیلی کی ہے اور اس کو نئے تجربات سے آراستہ کرتے ہوئے اپنے رنگوں سے نمایاں کیا ہے ۔ ہمارے تبدیل شدہ ماڈل کے مطابق صحیح مشورے کو رد کر کے الٹے رستوں کے ذریعے الٹے کام کرنا ہی کافی نہیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد دوبارہ سے نقطہ آغاز پر واپس آتے ہوئے پھر سے الٹے کام کو دہرانے میں ملکہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی امریکی تو مار کھا کے عقلمند ہو جاتے ہیں مگر ہم نے حماقتوں کو ایسے مدار میں تبدیل کرنا ہے جس میں سے ہم کبھی نہ نکل سکیں۔ بیشک چکر کھاتے کھاتے تباہ ہو جائیں، غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
معذرت چاہتا ہوں تمہید ذرا لمبی ہو گئی۔ مگر اس حیران کن انداز سے محترم وزیر اعظم اپنے ماضی کو جلدی جلدی دہرا رہے ہیں، اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے یہ سیاق و سباق بتانا ضروری تھا۔ دو ادوار حکومت میں میاں نواز شریف نے شک کا بہت فائدہ اٹھایا اور اپنی حکومتوں کی کمزور کارکردگی کو روایتی سازشوں کی کارستانی قرار دیا ۔ اپنی کوتاہیوں اور فضول فیصلوں کو جمہوریت کی طرف '' مشکل سفر'' کے مرحلوں کے حوالے سے عوام کے سامنے رکھا اور جرنیل پرویز مشرف کے حادثے کے بعد ہر کسی کو یہ بتایا کہ جب تک طالع آزما کو لگام نہیں دی جاتی (اور ان کو بھاری مینڈیٹ نہیں ملتا) تب تک یہ قوم جمہوریت کے ثمرات اور رحمتوں سے آشنا نہیں ہو سکے گی۔ مگر افسوس کہ ان دونوں شرائط کے پورے ہو جانے کے باوجود میاں نواز شریف، ان کے سیاسی انداز و اطوار، فیصلہ سازی کے طریقے اور ان کے گرد پھیلا ہوا چاپلوسوں کا ہجوم جوں کا توں ہے۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔ نہ ذہن بدلا اور نہ فیصلے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو فٹ بال بنانے میں نجم سیٹھی جیسے کرداروں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
مالاکنڈ سے سفر کے دوران واپسی پر میں نے محترم وزیر اطلاعات کی موجودگی میں وزیر اعظم سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے معاملات کو صحیح طریقے سے چلانے کا معاملہ اٹھایا ۔ یہ وہ دن تھا جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ صادر کر کے نجم سیٹھی کو قانونی اور آئینی آئینہ دکھا دیا تھا۔ میری بات سننے کے بعد وزیر اعظم نے عجیب و غریب قسم کی خاموشی اختیار کی جس سے نہ یہ پتا چلتا تھا کہ وہ سوچ رہے ہیں اور نہ ہی یہ معلوم پڑتا تھا کہ وہ سوچ چکے ہیں۔ پھر یکدم ان کے ایک جملے نے خاموشی کا پردہ چاک کیا اور ان کے ذہن کو افشا کر دیا ۔ فرمانے لگے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد اور بھی کئی طریقے ہیں جس کے ذریعے نجم سیٹھی دوبارہ واپس آ سکتا ہے۔ ساتھ بیٹھے ہوئے سلیم صافی نے اس مسئلے کے اخلاقی پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کی مگر میں نے ان کو اور وزیر اعظم کو خواہ مخواہ کی خفت سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے بات بدل دی۔ بہر حال وزیراعظم کے رد عمل سے یہ امر واضح ہو گیا تھا کہ وہ ہر صورت نجم سیٹھی کو خوش رکھیں گے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے میاں نواز شریف کے پہلے دونوں ادوار یاد آنے شروع ہو گئے جب وہ سینیٹر سیف الرحمان جیسے لوگوں کے ہاتھوں اپنی حکومت کی درگت بننے کے باوجود صورت حال کی نزاکت کو کبھی نہ بھانپ پائے ۔ دوسرے اسکینڈلز کے علاوہ اس وقت بھی کرکٹ میں سیف الرحمان کے بھائی کو گھسانے کا تنازعہ نواز شریف کی طبیعت کے اس پہلو کی مثال بن گیا تھا جس کے اثر کے تحت وہ اپنے پاؤں پر کلہاڑیاں مار کر خوب خوش ہوتے ہیں ۔ پندرہ سال میں اگر میاں نواز شریف نے کچھ سیکھا ہے تو وہ یہ کہ ان کو ماضی سے کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں ۔ ان کی نظر میں مینڈیٹ ایک ایسا منہ زور بھینسا ہے جس کو قابو میں لانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ وہ جیسی مرضی تباہی مچائے اس کا ادھم، دھما چوکڑی اور تباہی سب کچھ قابلِ دفاع ہے۔ پہلے کی طرح میاں نواز شریف آج بھی اپنے مینڈیٹ کی زد میں نظر آ رہے ہیں۔