دیدی کی یادیں
علاقے کے لوگوں نے سنا کہ ایک بوڑھا آیا ہے‘ مراٹھی اس کی مادری زبان ہے‘ ہندی اور اردو بولتا ہے۔۔۔
لاہور:
ہماری گاڑی ریتیلے علاقے سے گزرتی اور دھول اڑاتی ہوئی اس طرف جارہی تھی جہاں کراچی کے گلشن معمار میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) کا دفتر ہے۔ سڑک کے دونوں طرف غربت کی تصویریں تھیں اور وہ لوگ تھے جن کی آیندہ زندگی بھی شاید اسی مفلسی میں گزرنے والی تھی۔ لیکن یہ ان کا اور ان کی نسلوں کا مقدر کیوں ہو؟ تعلیم، بہتر رہائش، صحت کی سہولتوں اور ترقی کے امکانات سے یہ محروم کیوں رہیں؟ یہ سب کچھ سوچتے ہوئے مجھے وہ شام یاد آگئی جواواری خاندان کے گوشۂ عافیت 'خورشید محل' میں گزری تھی یہ شام روشنیوں سے جگ مگ کرتی تھی،وہاں موسیقی کی لہریں تھیں اور فضا میں سمندری نمک کا ذائقہ تھا۔ اس شام شہر کے منتخب لوگوں کی ایک محفل میں پائلر کے کرامت علی نے ہندوستانی ہائی کمشنر کو دیے جانے والے عشائیہ میں تقریر کرتے ہوئے پاکستان اور ہندوستان کے محروم لوگوں کو یاد کیا تھا اور یہ سوال اٹھایا تھا کہ آخر یہ لوگ کب تک زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم رکھے جائیں گے۔آزادی اور جمہوریت کے ثمرات ان تک کب پہنچیں گے۔جناح میڈیکل اور ڈینٹل کالج کے ڈاکٹر طارق سہیل بھی ایسے ہی سوالات اٹھا رہے تھے۔ اس رات ڈاکٹر ٹی سی اے رگھاون نے اپنی جوابی تقریر میں کہا تھا کہ ہمیں ماضی کا اسیر نہیں رہنا چاہیے۔ یوں بھی آج کی دنیا میں ٹیکنالوجی، ٹریڈ اور ٹریول یعنی ٹیکنالوجی، تجارت اور سفرنہایت اہمیت رکھتے ہیں۔
ان ہی باتوں میں رات بھیگ گئی تھی اور ہم سب نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی تھی اور اب میں پائلر کے دفتر اس لیے جارہی تھی کہ وہاں ڈاکٹر رگھاون اور ان کی بیگم پائلر میں اس بلاک کے نام کی تختی کی نقاب کشائی کے لیے آرہے تھے جو برصغیر کی مشہور سماجی کارکن اور امن کی سفیر دیدی نرملا دیش پانڈے سے منسوب کیا گیا تھا۔
اس روز نرملا دیش پانڈے کی زندگی پر آدھے گھنٹے کی ایک مختصر فلم دکھائی گئی ۔کہانیوں میں دیدی جیسے لوگوں کی کمی نہیں ہوتی لیکن حقیقی زندگی میں ذاتی خوشیوں کو تج دینا اور اپنے ارد گرد سانس لینے والے اہم لوگوں سے سماجی اور سیاسی سطح پر اختلاف کرنا، وہ بات کہنا جومقبول عام نہ ہو، یہ سب بہت مشکل کام ہیں اور اس کے لیے بہت بڑا دل چاہیے۔ 'دیدی' نے اس کٹھن راستے کا انتخاب کیا اور آخری سانس تک اسی پرچلتی رہیں۔
انھوں نے جس ڈھب سے زندگی گزاری اس کا فیصلہ انھوں نے بائیس برس کی عمر میں اس وقت کرلیا تھا جب ایک گاندھی وادی کے طور پر انھوں نے اچاریہ ونوبابھاوے کی تحریک '' بھؤدان'' سے جڑنے کا فیصلہ کیا۔ نرملا دیدی کے ذکر سے پہلے چند باتیں اچاریہ ونوبا کے بارے میں۔ ''اچاریہ'' سنسکرت میں بڑے عالم کو کہتے ہیں' ہمارے یہاں آپ ''شمس العلماء'' کہہ لیجیے ۔ وہ مہاراشٹر میں 1895 میں پیدا ہوئے۔ شروع سے گاندھی وادی رہے اور گاندھی جی کے قتل کے بعد لوگوں نے انھیں ان کا جانشین مان لیا۔1950 کے دن تھے جب تلنگانہ کی زمین بے گناہوں کے خون سے سرخ تھی۔ کمیونسٹوں اور طالبعلموں نے مل کر ایک گوریلا فوج بنائی تھی جو بڑے بڑے زمینداروں کے ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھاتی تھی اور بے زمین کسانوں کے لیے زمین مانگتی تھی تاکہ وہ اپنے لیے' اپنے گھر والوں کے لیے اس زمین پر کھیتی باڑی کرسکیں۔ اپنی صحت کی خرابی کے باوجود 55 برس کے ونوبا نے چند نوجوانوں کے ساتھ سفر شروع کیا۔ 18 اپریل 1951 کو وہ متاثرہ علاقے کے ایک گاؤں میں پہنچے اور اس احاطے میں جابیٹھے جہاں ایک چبوترے پرمسلمان نماز پڑھتے تھے۔ علاقے کے لوگوں نے سنا کہ ایک بوڑھا آیا ہے' مراٹھی اس کی مادری زبان ہے' ہندی اور اردو بولتا ہے اور کسانوں کے حق کی بات کرتا ہے۔ گھنٹے بھر میں سیکڑوں لوگ وہاں جمع ہوگئے۔
وہ بوڑھا کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ میں ''بھؤدان''( زمین کی خیرات) لینے آیا ہوں۔لوگوں کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تب اس بوڑھے نے کہا کہ میں ان لوگوں کا بیٹا ہوں جو زمین والے ہیں' میں ان سے زمین میں اپنا حق، اپنا حصہ مانگنے آیا ہوں۔ لوگ حیرت سے اس بوڑھے کو دیکھتے رہے جو اپنے لیے تھالی بھر بھات اور کٹوری بھر دال نہیں مانگتا تھا۔ زمین میں اپنا حصہ مانگنے آیا تھا۔ تب ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے اپنی زمین سے ایک ہزار ایکڑ دینے کا اعلان کیا۔ ونوبا نے اسی وقت اس زمین کا حق ملکیت گاؤں کے ان چند کسانوں کو منتقل کرادیا جن کے پاس دو گز زمین بھی نہیں تھی۔ یہ ایک ناممکن سی بات تھی لیکن ہوگئی تھی۔ 7 ہفتوں کے اندر انھیں بارہ ہزار ایکڑ زمین دان کی گئی اور چند مہینوں کے اندر یہ ''بھؤدان'' ایک لاکھ ایکڑ تک جا پہنچا۔ ان کے رضاکاروں میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے جتھے شریک ہوتے گئے۔ ان میں دیہاتی بھی تھے اور شہری بھی۔ نرملا دیش پانڈے' مہاراشٹر کی وزیر وملا بائی اور مراٹھی کے سب سے بڑے ادیب، پہلے جدید ناول نگار اور اپنے ناول پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ لینے والے رکن پارلیمنٹ پرشوتم یشونت دیش پانڈے کی چہیتی اور نازوں کی پالی بیٹی تھیں۔ انھوں نے 1952 میں ونو با کے اس پیدل سفر سے اپنا رشتہ جوڑا اور پھر سالہاسال چلتی رہیں۔ ونوبا کے اس پیدل سفر کے دوران وہ ہندوستان بھر میں پھریں اورلگ بھگ چالیس ہزار میل کا سفر کیا۔
وہ منکسرالمزاج اور نرم گفتار تھیں' لیکن لوگوں کو انصاف نہ دینے والوں کے خلاف ان کی زبان انگارے اگلتی تھی اور اس وقت وہ کسی نفع نقصان کو نہیں دیکھتی تھیں۔ عین ان دنوں جب 2005 میں امن کے نوبل انعام کے لیے ان کے نام پر غور ہورہا تھا۔ انھوں نے یہ بیان دے دیا کہ''میں نکسل باڑیوں کی دوست ہوں'' ان کے چاہنے والوںنے یہ بیان پڑھ کر سرپیٹ لیا۔ آپ ہی سوچئے کہ کہاں امن کا نوبل انعام اور کہاں ہتھیار بند نکسل باڑیوں سے دوستی کا اظہار۔ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ ہتھیاروں کے استعمال کو درست یا جائز سمجھتی تھیں۔ وہ دراصل ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو یاد دلانا چاہتی تھیں کہ جب آپ لوگوں کو ان کا حق نہیں دیں گے تولوگ ہتھیار اٹھائیں گے اور تب امن پسند لوگ بھی ان کے ساتھ جاکھڑے ہوں گے۔ ان کا یہی مؤقف جموں کشمیر کے بارے میں بھی تھا۔ وہ گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات' اڑیسہ میں عیسائی پادریوں کے قتل اور نندی گرام میں زمین کے معاملے، غرض ہر مسئلے پر ایک ایماندارانہ مؤقف رکھتی تھیں۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان امن کے لیے وہ بار بار پاکستان آئیں۔ 2000 میں وہ ہندوستانی عورتوں کا ایک وفد لے کر لاہور آئیں یہ وہ دن تھے جب دونوں ملکوںکے درمیان سخت تناؤ تھا۔ اسی زمانے میںان کی تنظیم WIPSA کی دعوت پر پاکستان سے عورتوں کی ایک امن بس دلی گئی۔ عاصمہ جہاگیر، حنا جیلانی کے ساتھ میں بھی اس امن وفد کی سربراہی کررہی تھی۔
انھوں نے تین جنگوں میں حصہ لینے والے پاکستانی اور ہندوستانی فوجیوں کی بھی ملاقاتیں کرائیں۔ وہ ان جنگوں میں شریک ہندوستانی فوجیوں کا ایک وفد لے کر لاہور آئیں تو وہ عجب منظر تھا جب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نم آنکھوں سے روبرو تھے اور امن کی باتیں کررہے تھے۔
یہ میرا اعزاز ہے کہ 1990 سے 2007 تک میں ان سے درجنوں مرتبہ ملی۔ ان کی صدارت میں اپنی بات کہی۔ وہ جب میرے ناول کے ہندی ترجمے کی افتتاحی تقریب میں دلی کے ہیبیٹیٹ سینٹر میں آئیں تو میں انھیں دیکھ کر حیران رہ گئی ۔ ان کے گھٹنوںکا آپریشن ہوا تھا اور وہ تکلیف میں تھیں۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے ' میں ان کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ انھوں نے میری پشت پر ہاتھ رکھا پھر کہنے لگیں'' ارے اسی لیے تو گھٹنے بدلوائے ہیں کہ خوب چل پھر سکوں'' یہ بھی وقت کا ایک مذاق ہے کہ جب وہ ایک بار پھر سے چلنے کے قابل ہوئیں تو اس کے بعد پاکستان نہ آسکیں۔ موت انھیں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آگئی تھی۔
پائلر کے دفتر میں جب میں دیدی کی تصویر کے سامنے کھڑی ہوئی تھی تو مجھے ان کی وصیت یاد آئی۔ وہ دونوں ملکوں کے درمیان امن اور دوستی کے لیے کام کرنے والوں میںسب سے بڑا نام اور بے غرض فرد تھیں۔ انھوں نے وصیت کی تھی کہ ان کی راکھ کا ایک حصہ پاکستان بھیج دیا جائے اور وہاں کے دریاؤں میں بہاد دیاجائے۔ ان کی راکھ کراچی آئی ۔ بی ایم کٹی اور کرامت علی کے سپرد کی گئی۔ کئی روز تک ان کی راکھ پائلر کے اس حصے میں آرام کرتی رہی جسے کل ان کے نام سے منسوب کردیا گیا اور جس کے پیش دالان میں ان کا چہرہ مسکراتا ہے۔
ان کی راکھ سندھو دریا میں بہائی گئی۔ اس کے ذروں نے جانے ہمارے کتنے کھیتوں کو سیراب کیا اور نہ جانے کتنے پھولوں کو انھوں نے مہکایا۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان امن اور دوستی کی اس سے بڑی عملی مثال اور کیا ہوگی کہ انھوں نے اپنے بعد اپنی راکھ کوبھی دونوں ملکوں میں تقسیم کردیا۔
دیدی کو رخصت ہوئے لگ بھگ 6 برس ہوگئے لیکن ان کی باتیں، پاکستان اور ہندوستان دونوں جگہ زندہ ہیں، کراچی کے گلشن معمار میں ان کا سایہ سانس لیتا ہے او ر کہتا ہے کہ انسانوں کو مذہب، رنگ، نسل ، فرقے اور زبان کی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے بجائے ان میںمحبتیں تقسیم کرو، ہمارا برصغیر ان ہی جیسے انسانوں کے لیے ترستا ہے۔