امریکی سائنسدانوں نے چاند کے لیے اڑن طشتری کا ڈیزائن پیش کردیا
ایم آئی ٹی کی یہ ایجاد برقِ سکونی کی وجہ سے چاند کی سطح پر منڈلاتے ہوئے تحقیق کرے گی
کراچی:
اگرچہ اڑن طشتریوں اور خلائی مخلوق کا باہمی تعلق ہوتا ہے لیکن اب میسا چیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے سائنسدانوں نے چاند کی تسخیر و تحقیق کے لیے ایک اڑن طشتری کا تصور پیش کیا ہے۔
یہ اڑن طشتری کسی سائنس فکشن فلموں کی طرح برقِ سکونی دھکیل قوت (الیکٹرواسٹیٹک ریپلشن) کے تحت چند پر کسی سائے کی طرح منڈلاتی رہے گی۔ بہت ہموار انداز میں یہ وہاں تحقیق کرسکے گی۔ وجہ یہ ہے کہ چاند پر کوئی حفاظتی فضا موجود نہیں اور اسی لیے وہاں سورج کا پلازمہ اور بالائے بنفشی (الٹرا وائلٹ) شعاعیں بوچھاڑ کی شکل میں گرتی رہتی ہیں۔
اس طرح چاند کی سطح پر مثبت چارج ہوتا ہے جو ایک ہلکی پھلکی اڑن طشتری کو ایک میٹر تک بلند کرسکتا ہے۔ عین اسی طرح ہم پلاسٹک کے ٹھوس ٹکڑے سے کاغذ کشش کرتے ہیں اور ہمارے بال بھی کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اس طرح اڑن طشتری کسی گلائیڈر کی طرح اڑتی رہتی ہے۔ خیال ہے کہ اگر اڑن طشتری کے نیچے مائلر نامی مٹیریئل لگایا جائے تو اس پر مثبت چارج جمع ہوگا۔ اس طرح چاند کی سطح اور خود اڑن طشتری کی نچلی سطح کے مثبت چارج ایک دوسرے کو دفع کریں گے اور یہ ہوا میں معلق رہے گی۔
اب بھی خیال ہے کہ چاند کی ثقل اسے دوبارہ نیچے گراسکتی ہے جسے دور کرنے کے لیے اڑن طشتری کے اندر ہی مثبت چارج خارج کرنے والا ایک نظام بھی لگایا جائے جو اسے اٹھا سکے گا۔ اس کے لیے خاص تھرسٹر اور نوزل لگائے جائیں گے۔
اس کی افادیت کے لیے ایک ہتھیلی نما ماڈل آزمایا گیا جس کا وزن 60 گرام تھا۔ اسے ایک ویکیوم چیمبر میں لٹکایا گیا جہاں چاند جیسا ماحول پیدا کیا گیا تھا ۔ اس ماحول میں ماڈل ہوا میں معلق رہا جو اس ڈیزائن کے قابلِ عمل ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔
اگرچہ اڑن طشتریوں اور خلائی مخلوق کا باہمی تعلق ہوتا ہے لیکن اب میسا چیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے سائنسدانوں نے چاند کی تسخیر و تحقیق کے لیے ایک اڑن طشتری کا تصور پیش کیا ہے۔
یہ اڑن طشتری کسی سائنس فکشن فلموں کی طرح برقِ سکونی دھکیل قوت (الیکٹرواسٹیٹک ریپلشن) کے تحت چند پر کسی سائے کی طرح منڈلاتی رہے گی۔ بہت ہموار انداز میں یہ وہاں تحقیق کرسکے گی۔ وجہ یہ ہے کہ چاند پر کوئی حفاظتی فضا موجود نہیں اور اسی لیے وہاں سورج کا پلازمہ اور بالائے بنفشی (الٹرا وائلٹ) شعاعیں بوچھاڑ کی شکل میں گرتی رہتی ہیں۔
اس طرح چاند کی سطح پر مثبت چارج ہوتا ہے جو ایک ہلکی پھلکی اڑن طشتری کو ایک میٹر تک بلند کرسکتا ہے۔ عین اسی طرح ہم پلاسٹک کے ٹھوس ٹکڑے سے کاغذ کشش کرتے ہیں اور ہمارے بال بھی کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اس طرح اڑن طشتری کسی گلائیڈر کی طرح اڑتی رہتی ہے۔ خیال ہے کہ اگر اڑن طشتری کے نیچے مائلر نامی مٹیریئل لگایا جائے تو اس پر مثبت چارج جمع ہوگا۔ اس طرح چاند کی سطح اور خود اڑن طشتری کی نچلی سطح کے مثبت چارج ایک دوسرے کو دفع کریں گے اور یہ ہوا میں معلق رہے گی۔
اب بھی خیال ہے کہ چاند کی ثقل اسے دوبارہ نیچے گراسکتی ہے جسے دور کرنے کے لیے اڑن طشتری کے اندر ہی مثبت چارج خارج کرنے والا ایک نظام بھی لگایا جائے جو اسے اٹھا سکے گا۔ اس کے لیے خاص تھرسٹر اور نوزل لگائے جائیں گے۔
اس کی افادیت کے لیے ایک ہتھیلی نما ماڈل آزمایا گیا جس کا وزن 60 گرام تھا۔ اسے ایک ویکیوم چیمبر میں لٹکایا گیا جہاں چاند جیسا ماحول پیدا کیا گیا تھا ۔ اس ماحول میں ماڈل ہوا میں معلق رہا جو اس ڈیزائن کے قابلِ عمل ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔