پاک بھارت تعلقات کا نیا دور
مہاتما گاندھی نے پاکستان کو اثاثوں کی منتقلی کے لیے بھوک ہڑتال کی تھی اس لیے ایک ہندو انتہاپسند نے انھیں قتل کردیا
مہاتما گاندھی بھی پاکستان آنا چاہتے تھے۔ محمدعلی جناح ان کے استقبال کے لیے تیار تھے کہ ایک ہندو انتہاپسند نے انھیں قتل کردیا۔ پاکستان اور بھارت کی دوستی اور دشمنیاں رشتے داروں کی طرح ہیں۔ مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی نے کراچی میں ہونے والے ادبی فیسٹیول میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادیب سرحدیں گراتا ہے اور محبت کا پیغام لاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کو اپنی ویزا پالیسی نرم کرنی چاہیے۔راج موہن گاندھی بنیادی طور پر ادیب ہیں۔ وہ سوانح عمری اور تاریخ پر کتابیں لکھتے ہیں اور عمومی طور پر سیاسی معاملات ان کے موضوعات نہیں ہوتے۔راج موہن گاندھی نے خان غفارخان کی سوانح عمری بھی تحریر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تقسیمِ ہند نے ان کی زندگی پرگہرے اثرات چھوڑے۔ مہاتما گاندھی ان کے دادا تھے اور باپو کہلاتے تھے۔ صرف ان کے دادا ہی نہیں تھے بلکہ ہر بچے کے دادا تھے۔ راج موہن گاندھی کا کہنا ہے کہ وہ 1947 میں اسکول میں پڑھتے تھے کہ اچانک باپو قتل کردیے گئے۔ یوں ان کی زندگی کو ایک دھچکا لگا۔ یہ دھچکا تقسیم کے بعد دہلی میں ہونے والی تبدیلیوں کی طرح تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے بچپن سے اشوکا ہاؤس،اکبر ہاؤس وغیرہ دیکھے تھے، پھر اچانک اکبر ہاؤس غائب ہوگیا۔ اسکول میں پڑھنے والے مسلمان بچے اور اساتذہ چلے گئے۔ ان کی جگہ پنجاب سے آنے والے سکھوں اور ہندوؤں نے لے لی۔اس طرح ان کے ذہن پر اس صورتحال کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
اس تناظر میں انھیں بھارت اور پاکستان کے درمیان خوشگوار تعلقات کی اہمیت کا احساس ہوا۔ راج موہن گاندھی ایسے موقعے پر پاکستان آئے جب پاکستان اور بھارت اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے ایک نئے دورکا آغاز کرچکے ہیں۔ پاکستان کے وزیرِ تجارت خرم دستگیر گزشتہ ماہ بھارت گئے تھے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اہم اقدامات پر اتفاق رائے ہوا تھا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں 15 فروری سے واہگہ بارڈر پر 24 گھنٹے تجارت ہوسکے گی۔ اسی طرح پاکستان بھارت کو تجارتی شعبے میں پسندیدہ ملک (MFN) قرار دینے کے لیے حتمی اقدامات کرے گا مگر پاکستان اس بارے میں حتمی اقدامات پر متفق ہونے کے باوجود عملی اقدامات نہیں کرپایا۔ پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے اس بارے میں اصولی فیصلہ کیا مگر اس فیصلے کا اعلامیہ جاری نہ ہوسکا۔ بین الاقوامی تجارتی قوانین پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ World Trade Organization(WTO) کے قوانین کے تحت پاکستان کے لیے یہ فیصلہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان میں بھارت کے ہائی کمشنر ڈاکٹر ٹی سی اے راگھاون کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات کی بنیاد اب آمدورفت، تجارت اور ٹیکنالوجی پر منحصر ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی اور تجارت دونوں ممالک کو مزید قریب لے آئے گی۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھانے کے بے تحاشا مواقعے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت میں ایک گروہ یہ محسوس کرتا ہے کہ تجارتی توازن پاکستان کے حق میں ہوگا، اسی طرح پاکستان میں موجود کچھ لوگ بھی اسی طرح کی سوچ کا اظہار کرتے ہیں مگر اس کا فائدہ مجموعی طور پر دونوں ممالک کو ہوگا۔ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان 2.5 بلین ڈالر کی تجارت ہورہی ہے۔ پاکستان آدھے بلین ڈالر کی مالیت کی اشیاء بھارت کو برآمد کررہا ہے۔ بھارتی ہائی کمشنر نے کہا کہ سیاسی تنازعات کے باوجود تجارتی تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں۔ اس وقت چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بناء پر دونوں ممالک ایک دوسرے پر بالادستی حاصل نہیں کرسکتے۔ پاکستان بھارت میں ترقی پانے والی جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور فائد اٹھا سکتا ہے۔ پھر کھیلوں کا شعبہ دونوں ممالک کا مشترکہ شعبہ ہے۔ صرف کرکٹ میچ نہ صرف دونوں ممالک کے عوام کو قریب لاتے ہیں بلکہ تجارت کو تقویت بھی دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان تعلیم، صحت اور ٹیکنالوجی سمیت دوسرے شعبوں میں بھارت کا تعاون حاصل کر کے ملک کو ترقی دے سکتا ہے۔
مواصلات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ریلوے آج بھی بھارت اور پاکستان میں سفر کا سستا اور محفوظ ترین ذریعہ ہے۔ برصغیر میں ریل کا آغاز 19ویں صدی کے آخری عشروں میں ہوا تھا، کلکتہ سے پشاور تک ریلوے لائن کا جال بچھ گیا تھا مگر آزادی کے بعد بھارت میں ریل کے شعبے نے حیرت انگیز ترقی کی۔ بھارتی ریلوے نے نہ صرف بڑے شہروں اور بندرگاہوں کو چھوٹے شہروں اور گاؤں سے ملانے میں بنیادی کردار ادا کیا بلکہ بڑے شہروں خاص طور پر ممبئی، کلکتہ ،مدراس اور دہلی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کو بھی حل کیا۔ مگر دوسری طرف پاکستان میں سرکاری شعبے میں کام ریلوے کا عملہ انحطاط کا شکار ہوا۔ گزشتہ حکومت میں یہ وقت آیا کہ ریل گاڑیاں بند ہوگئیں، انجن ناکارہ ہوگئے، ریل تخریب کاری کا شکار ہوئی اور غریب عوام پلیٹ فارم پر انتظار کرتے یا بسوں کی چھتوں پر سفر کرنے پر مجبور ہوئے۔ گزشتہ حکومت نے غریب آدمی کی اس سواری کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا مگر موجودہ حکومت نے ریلوے کی بحالی پر توجہ دی۔ پاکستان میں ریل کی بحالی میں اگر بھارت سے مدد لی جائے تو بھارتی ماہرین پاکستان ریلوے کے ساتھ تجربات کی روشنی میں زیادہ مفید مشورے دے سکتے ہیں۔ اسی طرح بھارت سے ریلوے انجن درآمد کرکے ریل گاڑیوں کو متحرک کیا جاسکتا ہے۔
تعلیم اور صحت کے شعبے میں بھی دونوں ممالک کے تعاون سے پاکستان کا زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے۔ اب بھی پاکستانی مریض مہلک امراض کے علاج کے لیے بھارت جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے صحتیاب ہو کر واپس آجاتے ہیں۔ بھارت میں مہلک امراض پر آنے والے اخراجات چین، یورپ اور امریکا کے مقابلے میں خاص کم ہوتے ہیں مگر صحت کے شعبے میں عملی تعاون کے نتیجے میں پاکستانی ڈاکٹر بھارت جا کر صحت کی جدید تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ مہلک امراض کے علاج کے لیے پاکستان میں بھی بہتر اور جدید اسپتال قائم ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح کا تعاون دونوں ممالک کے تعلیمی بورڈ اور یونیورسٹیوں کے درمیان ہوسکتا ہے۔ بھارت میں سماجی علوم، تاریخ، بنیادی سائنس اور تحقیق کا معیار بہت بلند ہے۔ اسی طرح بھارت میں نقل مافیا اور سفارش مافیا کا ذکر نہیں ملتا۔ پاکستان میں نقل مافیا اور سفارش مافیا تعلیمی معیار کی پسماندگی کی بڑی وجوہات ہیں۔ بھارت کے تجربے سے تعلیمی معیار کی بہتری کی کوشش مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف بھارت سے دوستی کی اہمیت پر متفق ہیں۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جرات کے ساتھ اس موضوع پر خیالات کا اظہار کر کے رائے عامہ کو تیار کیا تھا مگراسٹیبلشمنٹ اپنے مخصوص ذہن کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ سال انتخابات سے پہلے کنٹرول لائن پر فائرنگ کی خبریں آنا شروع ہوئیں اور جب نواز شریف نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو کنٹرول لائن کی صورتحال جنگ کی صورتحال کی طرح تھی مگر دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی کوششوں سے معاملات معمول پر آئے۔ پھر دونوں ممالک کے درمیان ویزا کے اجراء کے بارے میں گزشتہ حکومت کے دور میں ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کا مرحلہ آیا۔ اب اس معاہدے پر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے اور دونوں ممالک کے شہریوں کو آسانی سے ویزا مل رہا ہے۔
مہاتما گاندھی نے پاکستان کو اثاثوں کی منتقلی کے لیے بھوک ہڑتال کی تھی اس لیے ایک ہندو انتہاپسند نے انھیں قتل کردیا۔ قائد اعظم نے گاندھی کے قتل کے سوگ میں ملک میں عام تعطیل کا اعلان کیا تھا اور قومی پرچم سرنگوں رہا تھا۔ گاندھی جی پاکستان کا دورہ کرنا چاہتے تھے۔ قائد اعظم ریٹائرمنٹ کے بعد ممبئی کے علاقے ملبہار ہل کے علاقے میں رہنا چاہتے تھے۔ انھوں نے شملہ میں بھی زمین خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ گاندھی اور محمد علی جناح کی یہ خواہشات دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے لیے تھیں۔ دوستی کا مطلب ترقی اور خوشحالی ہے۔ پاکستان میں جمہوری نظام کی بقاء بھارت سے دوستی میں ہی ہے۔ اس دوستی کی بناء پر دفاعی اخراجات کم ہونگے جوکہ غربت اور انتہاپسندی کے خاتمے پر خرچ ہوسکیں گے۔ بھارت اور پاکستان کی دوستی کے لیے کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
اس تناظر میں انھیں بھارت اور پاکستان کے درمیان خوشگوار تعلقات کی اہمیت کا احساس ہوا۔ راج موہن گاندھی ایسے موقعے پر پاکستان آئے جب پاکستان اور بھارت اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے ایک نئے دورکا آغاز کرچکے ہیں۔ پاکستان کے وزیرِ تجارت خرم دستگیر گزشتہ ماہ بھارت گئے تھے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اہم اقدامات پر اتفاق رائے ہوا تھا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں 15 فروری سے واہگہ بارڈر پر 24 گھنٹے تجارت ہوسکے گی۔ اسی طرح پاکستان بھارت کو تجارتی شعبے میں پسندیدہ ملک (MFN) قرار دینے کے لیے حتمی اقدامات کرے گا مگر پاکستان اس بارے میں حتمی اقدامات پر متفق ہونے کے باوجود عملی اقدامات نہیں کرپایا۔ پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے اس بارے میں اصولی فیصلہ کیا مگر اس فیصلے کا اعلامیہ جاری نہ ہوسکا۔ بین الاقوامی تجارتی قوانین پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ World Trade Organization(WTO) کے قوانین کے تحت پاکستان کے لیے یہ فیصلہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان میں بھارت کے ہائی کمشنر ڈاکٹر ٹی سی اے راگھاون کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات کی بنیاد اب آمدورفت، تجارت اور ٹیکنالوجی پر منحصر ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی اور تجارت دونوں ممالک کو مزید قریب لے آئے گی۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھانے کے بے تحاشا مواقعے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت میں ایک گروہ یہ محسوس کرتا ہے کہ تجارتی توازن پاکستان کے حق میں ہوگا، اسی طرح پاکستان میں موجود کچھ لوگ بھی اسی طرح کی سوچ کا اظہار کرتے ہیں مگر اس کا فائدہ مجموعی طور پر دونوں ممالک کو ہوگا۔ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان 2.5 بلین ڈالر کی تجارت ہورہی ہے۔ پاکستان آدھے بلین ڈالر کی مالیت کی اشیاء بھارت کو برآمد کررہا ہے۔ بھارتی ہائی کمشنر نے کہا کہ سیاسی تنازعات کے باوجود تجارتی تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں۔ اس وقت چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بناء پر دونوں ممالک ایک دوسرے پر بالادستی حاصل نہیں کرسکتے۔ پاکستان بھارت میں ترقی پانے والی جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور فائد اٹھا سکتا ہے۔ پھر کھیلوں کا شعبہ دونوں ممالک کا مشترکہ شعبہ ہے۔ صرف کرکٹ میچ نہ صرف دونوں ممالک کے عوام کو قریب لاتے ہیں بلکہ تجارت کو تقویت بھی دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان تعلیم، صحت اور ٹیکنالوجی سمیت دوسرے شعبوں میں بھارت کا تعاون حاصل کر کے ملک کو ترقی دے سکتا ہے۔
مواصلات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ریلوے آج بھی بھارت اور پاکستان میں سفر کا سستا اور محفوظ ترین ذریعہ ہے۔ برصغیر میں ریل کا آغاز 19ویں صدی کے آخری عشروں میں ہوا تھا، کلکتہ سے پشاور تک ریلوے لائن کا جال بچھ گیا تھا مگر آزادی کے بعد بھارت میں ریل کے شعبے نے حیرت انگیز ترقی کی۔ بھارتی ریلوے نے نہ صرف بڑے شہروں اور بندرگاہوں کو چھوٹے شہروں اور گاؤں سے ملانے میں بنیادی کردار ادا کیا بلکہ بڑے شہروں خاص طور پر ممبئی، کلکتہ ،مدراس اور دہلی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کو بھی حل کیا۔ مگر دوسری طرف پاکستان میں سرکاری شعبے میں کام ریلوے کا عملہ انحطاط کا شکار ہوا۔ گزشتہ حکومت میں یہ وقت آیا کہ ریل گاڑیاں بند ہوگئیں، انجن ناکارہ ہوگئے، ریل تخریب کاری کا شکار ہوئی اور غریب عوام پلیٹ فارم پر انتظار کرتے یا بسوں کی چھتوں پر سفر کرنے پر مجبور ہوئے۔ گزشتہ حکومت نے غریب آدمی کی اس سواری کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا مگر موجودہ حکومت نے ریلوے کی بحالی پر توجہ دی۔ پاکستان میں ریل کی بحالی میں اگر بھارت سے مدد لی جائے تو بھارتی ماہرین پاکستان ریلوے کے ساتھ تجربات کی روشنی میں زیادہ مفید مشورے دے سکتے ہیں۔ اسی طرح بھارت سے ریلوے انجن درآمد کرکے ریل گاڑیوں کو متحرک کیا جاسکتا ہے۔
تعلیم اور صحت کے شعبے میں بھی دونوں ممالک کے تعاون سے پاکستان کا زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے۔ اب بھی پاکستانی مریض مہلک امراض کے علاج کے لیے بھارت جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے صحتیاب ہو کر واپس آجاتے ہیں۔ بھارت میں مہلک امراض پر آنے والے اخراجات چین، یورپ اور امریکا کے مقابلے میں خاص کم ہوتے ہیں مگر صحت کے شعبے میں عملی تعاون کے نتیجے میں پاکستانی ڈاکٹر بھارت جا کر صحت کی جدید تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ مہلک امراض کے علاج کے لیے پاکستان میں بھی بہتر اور جدید اسپتال قائم ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح کا تعاون دونوں ممالک کے تعلیمی بورڈ اور یونیورسٹیوں کے درمیان ہوسکتا ہے۔ بھارت میں سماجی علوم، تاریخ، بنیادی سائنس اور تحقیق کا معیار بہت بلند ہے۔ اسی طرح بھارت میں نقل مافیا اور سفارش مافیا کا ذکر نہیں ملتا۔ پاکستان میں نقل مافیا اور سفارش مافیا تعلیمی معیار کی پسماندگی کی بڑی وجوہات ہیں۔ بھارت کے تجربے سے تعلیمی معیار کی بہتری کی کوشش مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف بھارت سے دوستی کی اہمیت پر متفق ہیں۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جرات کے ساتھ اس موضوع پر خیالات کا اظہار کر کے رائے عامہ کو تیار کیا تھا مگراسٹیبلشمنٹ اپنے مخصوص ذہن کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ سال انتخابات سے پہلے کنٹرول لائن پر فائرنگ کی خبریں آنا شروع ہوئیں اور جب نواز شریف نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو کنٹرول لائن کی صورتحال جنگ کی صورتحال کی طرح تھی مگر دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی کوششوں سے معاملات معمول پر آئے۔ پھر دونوں ممالک کے درمیان ویزا کے اجراء کے بارے میں گزشتہ حکومت کے دور میں ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کا مرحلہ آیا۔ اب اس معاہدے پر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے اور دونوں ممالک کے شہریوں کو آسانی سے ویزا مل رہا ہے۔
مہاتما گاندھی نے پاکستان کو اثاثوں کی منتقلی کے لیے بھوک ہڑتال کی تھی اس لیے ایک ہندو انتہاپسند نے انھیں قتل کردیا۔ قائد اعظم نے گاندھی کے قتل کے سوگ میں ملک میں عام تعطیل کا اعلان کیا تھا اور قومی پرچم سرنگوں رہا تھا۔ گاندھی جی پاکستان کا دورہ کرنا چاہتے تھے۔ قائد اعظم ریٹائرمنٹ کے بعد ممبئی کے علاقے ملبہار ہل کے علاقے میں رہنا چاہتے تھے۔ انھوں نے شملہ میں بھی زمین خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ گاندھی اور محمد علی جناح کی یہ خواہشات دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے لیے تھیں۔ دوستی کا مطلب ترقی اور خوشحالی ہے۔ پاکستان میں جمہوری نظام کی بقاء بھارت سے دوستی میں ہی ہے۔ اس دوستی کی بناء پر دفاعی اخراجات کم ہونگے جوکہ غربت اور انتہاپسندی کے خاتمے پر خرچ ہوسکیں گے۔ بھارت اور پاکستان کی دوستی کے لیے کوئی اور راستہ نہیں ہے۔